... loading ...
جنگ میں پہلا حملہ سچ پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں زمانہ امن کا بھی ماجرا یہی ہے۔ ایک مغربی دانشور نے جھوٹ کے بارے میں ایک سچی بات کہہ رکھی ہے کہ ’’جھوٹ دراصل ایک چھوٹے کمبل کی مانند ہے،اس سے سرچھپاؤ تو پیر ننگے ہو جائیں گے۔‘‘ مگر پروپیگنڈا یہ ہوتا ہے کہ وہ کمبل کو پورا اور ننگے کو ستر پوش ثابت کردیتا ہے۔ پاکستان میں یہ ہوا اور بار بار ہوا۔
عدالت عظمی نے سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی سزا سے متعلق ویڈیوکو جعلی قرار دینے کا فیصلہ سنا کر دراصل ایک مقدمہ قائم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ خود عدالتی عمل کے ساتھ قومی زندگی کے پورے ڈھانچے کو بے نقاب کرتاہے۔ اور ایک شرمناک سناٹا اور کربناک خلاء ہماری زندگیوں میں بھردیتا ہے۔ اس ویڈیو کے ارد گرد ریاستی معاملات کو جس طرح چلایا گیا ہے، اُس کا ایک سرسری سا جائزہ ہی ہماری روحوں کو گھائل اور خود پر ہمارے اعتماد کو کلی طور پر مجروح کر دیتا ہے۔ سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو 3؍ اپریل 2009ء کو منظر عام پر آئی تھی۔ بصری فیتوں (ویڈیوز) کے ماہرین نے اس کے سامنے آتے ہی اس پر تکنیکی سوالات اُٹھائے تھے۔ دو منٹوں پر محیط فیتے میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی کہ جس پر تب بھی بھروسا کیا جاسکتا۔ مگر سرمائے کے منتر سے دھمال ڈالنے والے جناتی ذرائع ابلاغ اچانک حرکت میں آئے اور اُس نے زمین وآسمان ایک کر دیئے۔ ذرائع ابلاغ نے تب ویڈیو سے متعلق بنیادی سوالات نظر انداز کردیئے اور متبادل موقف کو سازشی نظریات قرار دے کر حقارت سے مسترد کر دیا۔
یہ ویڈیو پہلے روز سے ہی مشکوک تھی۔ یہ ذرائع ابلاغ کے مستند وقائع نگاروں کے بجائے مغرب نواز این جی اوز کے ذریعے منظر عام پر آئی تھی۔ جس میں جائے وقوعہ ، وقتِ وقوعہ اور نفسِ وقوعہ میں سے ہر چیز مشکوک تھی۔ ویڈیو کو سوات کے جس علاقے سے منسوب کیا جارہا تھا، خود وہاں کے آزاد مقامی ذرائع ایسے کسی بھی واقعے سے مسلسل لاعلمی ظاہرکر رہے تھے۔ جس نے خود وقوعہ کو اولین روز سے مشکوک بنادیا تھا۔ اُس وقت کے کمشنر مالاکنڈ سید محمد جاوید نے اپنے عملے کے ساتھ علاقے کا دورہ کرکے ویڈیو کے حقائق کا سراغ لگانے کی کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے پوری ذمہ داری سے اعلان کیا کہ اس نوع کاکوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ جعلی ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے پندرہ روز بعد وفاقی سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے بھی ویڈیو کو جعلی قراردے دیا تھا۔ مگر پروپیگنڈے کی یلغار میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کا ڈول ڈالا ۔ اور ازخود نوٹس لینے (سوموٹو) کے شوقین تب کے منصفِ اعلیٰ افتخار محمد چوہدری نے اس پر عدالتی کارروائی شروع کردی۔ کیا کسی بھی ریاست کے لئے یہ کوئی بہتر بات ہو سکتی ہے کہ اُس کے اداروں کے موقف غلط ثابت ہوں اور وہاں کی نبردآزما قوتیں اپنے موقف میں درست ثابت ہوں۔ طالبان سوات کے ترجمان مسلم خان نے ویڈیو کے منظر عام پر آتے ہی کہا تھا کہ یہ ایک جعلی ویڈیو ہے جس کے دو مقاصد ہیں۔اولاً مغرب زدہ این جی اوز اسلام کو بدنام کررہی ہیں اور ثانیاً اس ویڈیو کے ذریعے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں باتیں درست ثابت ہوئیں۔ امن معاہدہ ختم ہو گیا اور فوج نے آپریشن راہ راست کے عنوان سے سوات میں فوجی کارروائی شروع کردی۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس ویڈیو کے ذریعے اسلام اور پاکستان کی چھوی
(امیج) کو تباہ کرنے کی ایک مستقل مشقِ ستم بھی شروع ہو گئی۔ افسوس ناک طور پر پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ بلااستثناء اس مکروہ کھیل کا بدترین حصہ بنے رہے۔ اور اصل حقائق کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش تک نہیں کی۔
تصویر کیسے بگاڑی جاتی ہے؟ اس کاایک درست تجزیہ نوم چومسکی نے ایڈورڈ ایس ہرمن کے ساتھ مل کر اپنی ایک مشترکہ کتاب میں کیا تھا جس میں اس پوری صورتِ حال کو ایک اصطلاح ’’Manufacturing consent‘‘ یعنی ’’رضامندی وضع کرنا‘‘ سے واضح کیا گیا تھا، مغرب نے انسانوں کے قافلوں کو جانوروں کے گلوں کی طرح ہانکنے کے جدید حربے وضع کررکھے ہیں، یہ اُن میں سے ایک ہے۔ اسی تناظر میں 1980ء میں نامور دانشور ایڈورڈ سعید نے ایک کتاب ’’Covering Islam‘‘ تحریر کی تھی ۔ جس میں اسلام اور مسلم معاشرے کے ساتھ مغرب اور مغربی ذرائع ابلاغ کے رویئے کا دستاویزی انداز میں جائزہ لیا گیا تھا۔ مغرب بہت پہلے سے سوات طرز کی ویڈیوز سے مسلم معاشروں کو شکار کر رہا تھا۔ ایڈورڈ سعید نے اس عمل کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی کتاب میں 16؍ اپریل 1979ء کے ٹائم میگزین کا حوالہ دیا۔جس میں اسلام کو شمارے کی بنیادی کہانی کے طور پر لیا گیا تھااور اس کا سرورق ایک باریش موذن سے سجایا گیا تھا۔ جو جرومی (مشہور استشراقی تحریک سے وابستہ فرانسیسی مصوّر)کی بنائی ہوئی نقاشی(پینٹنگ) تھی۔ اِسے انیسویں صدی کے مستشرقین کے فن کے بہترین نمونوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ تصویر میں ایک موذن کو مینارے میں کھڑا دکھا یا گیا ہے۔جو اہلِ ایمان کو پرسکون انداز سے نماز کے لئے بلا رہا ہے۔ ٹائم نے اس تصویر کو جس سرخی سے سجایا وہ یہ تھی ’’The Militant Revival‘‘ یعنی عسکریت کا احیا۔ ایڈورڈ سعید نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’عنوان کا تصویر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔مگر اس رسالے نے اس پرسکون منظر کو شعلہ فشاں کرنے کے لئے اس پر یہ عنوان چسپاں کر دیا۔‘‘مغرب کا یہ پورا کھیل نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید کی تحریروں سے اسی کے عشرے میں پوری طرح بے نقاب ہو چکا تھا۔ مگر پاکستان کی بے شرم صحافت کے بدترین اینکرز، کالم نگار، وقائع نگار اور تجزیہ نگار اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو تیار ہی نہ تھے۔
اس ویڈیو نے یہ ثابت کر دیاتھا کہ چند ڈراموں اور ڈھکوسلوں کا واویلا کرکے پوری ریاست اور اُسے کے تمام اداروں کو یرغمال بنایا جاسکتاہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس جعلی ویڈیو کے نتیجے میں سبوتاژ ہونے والے امن معاہدے نے ریاست کے اندر تقسیم درتقسیم کی گہری لکریں کھینچ دی ہیں۔ 2009ء کے اُسی سال میں کسی بھی سال کے سب سے زیادہ حملے پاکستان میں ہوئے۔ سوات سے بے گھر ہونے والے طالبان کے ہاتھوں آسانی سے استعمال ہوئے۔ اور آج پاکستانی طالبان کی قیادت بھی ایک سواتی کے پاس ہے جوپاکستان سے لڑنے کے لئے غیر ملکی ہاتھوں تک میں کھیلنے کو تیار ہے۔ ایک جعلی ویڈیو کو اصلی ثابت کرنے والوں کا احتساب کرنے کے لئے ابھی تک کہیں پر کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ عدالت عظمیٰ کافیصلہ انتہائی خاموشی سے برداشت کرلیا گیا۔ اور پاکستان میں کسی بھی سطح پر کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ویڈیو کے پیچھے موجود خفیہ مقاصد کب افشا ہوں گے؟اس سے پیدا ہونے والی نفرت کا ازالہ کب اور کیسے ہوگا؟اور ریاست کو یرغمال بنانے والوں سے حساب کون لے گا؟ اس کے علاوہ بے شرم صحافت کے بدنام اینکرز اور کالم نگار اپنی تحریروں میں اس موضوع پر کی جانے والی قے کو اپنے منہ میں واپس کب انڈیلیں گے۔ کیا کسی موقع پر یہ قوم سے معذرت کرنا چاہیں گے یا بے شرمی کے ساتھ اپنی زندگی کو یوں ہی جیتے رہیں گے!!!عدالت عظمیٰ کا فیصلہ دراصل فیصلہ نہیں ایک مقدمہ ہے مگرمعلوم نہیں یہ کس عدالت میں سنا جائے گا!
علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...
یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...
حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...
سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...
پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...
مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...
پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...
پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...
کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...
کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...
[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...