وجود

... loading ...

وجود
وجود

فیصلہ

هفته 16 جنوری 2016 فیصلہ

sawat gir 1l

جنگ میں پہلا حملہ سچ پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں زمانہ امن کا بھی ماجرا یہی ہے۔ ایک مغربی دانشور نے جھوٹ کے بارے میں ایک سچی بات کہہ رکھی ہے کہ ’’جھوٹ دراصل ایک چھوٹے کمبل کی مانند ہے،اس سے سرچھپاؤ تو پیر ننگے ہو جائیں گے۔‘‘ مگر پروپیگنڈا یہ ہوتا ہے کہ وہ کمبل کو پورا اور ننگے کو ستر پوش ثابت کردیتا ہے۔ پاکستان میں یہ ہوا اور بار بار ہوا۔

عدالت عظمی نے سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی سزا سے متعلق ویڈیوکو جعلی قرار دینے کا فیصلہ سنا کر دراصل ایک مقدمہ قائم کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ خود عدالتی عمل کے ساتھ قومی زندگی کے پورے ڈھانچے کو بے نقاب کرتاہے۔ اور ایک شرمناک سناٹا اور کربناک خلاء ہماری زندگیوں میں بھردیتا ہے۔ اس ویڈیو کے ارد گرد ریاستی معاملات کو جس طرح چلایا گیا ہے، اُس کا ایک سرسری سا جائزہ ہی ہماری روحوں کو گھائل اور خود پر ہمارے اعتماد کو کلی طور پر مجروح کر دیتا ہے۔ سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کی جعلی ویڈیو 3؍ اپریل 2009ء کو منظر عام پر آئی تھی۔ بصری فیتوں (ویڈیوز) کے ماہرین نے اس کے سامنے آتے ہی اس پر تکنیکی سوالات اُٹھائے تھے۔ دو منٹوں پر محیط فیتے میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں تھی کہ جس پر تب بھی بھروسا کیا جاسکتا۔ مگر سرمائے کے منتر سے دھمال ڈالنے والے جناتی ذرائع ابلاغ اچانک حرکت میں آئے اور اُس نے زمین وآسمان ایک کر دیئے۔ ذرائع ابلاغ نے تب ویڈیو سے متعلق بنیادی سوالات نظر انداز کردیئے اور متبادل موقف کو سازشی نظریات قرار دے کر حقارت سے مسترد کر دیا۔

یہ ویڈیو پہلے روز سے ہی مشکوک تھی۔ یہ ذرائع ابلاغ کے مستند وقائع نگاروں کے بجائے مغرب نواز این جی اوز کے ذریعے منظر عام پر آئی تھی۔ جس میں جائے وقوعہ ، وقتِ وقوعہ اور نفسِ وقوعہ میں سے ہر چیز مشکوک تھی۔ ویڈیو کو سوات کے جس علاقے سے منسوب کیا جارہا تھا، خود وہاں کے آزاد مقامی ذرائع ایسے کسی بھی واقعے سے مسلسل لاعلمی ظاہرکر رہے تھے۔ جس نے خود وقوعہ کو اولین روز سے مشکوک بنادیا تھا۔ اُس وقت کے کمشنر مالاکنڈ سید محمد جاوید نے اپنے عملے کے ساتھ علاقے کا دورہ کرکے ویڈیو کے حقائق کا سراغ لگانے کی کوشش کی تھی۔ اُنہوں نے پوری ذمہ داری سے اعلان کیا کہ اس نوع کاکوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا۔ جعلی ویڈیو کے منظرعام پر آنے کے پندرہ روز بعد وفاقی سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے بھی ویڈیو کو جعلی قراردے دیا تھا۔ مگر پروپیگنڈے کی یلغار میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کا ڈول ڈالا ۔ اور ازخود نوٹس لینے (سوموٹو) کے شوقین تب کے منصفِ اعلیٰ افتخار محمد چوہدری نے اس پر عدالتی کارروائی شروع کردی۔ کیا کسی بھی ریاست کے لئے یہ کوئی بہتر بات ہو سکتی ہے کہ اُس کے اداروں کے موقف غلط ثابت ہوں اور وہاں کی نبردآزما قوتیں اپنے موقف میں درست ثابت ہوں۔ طالبان سوات کے ترجمان مسلم خان نے ویڈیو کے منظر عام پر آتے ہی کہا تھا کہ یہ ایک جعلی ویڈیو ہے جس کے دو مقاصد ہیں۔اولاً مغرب زدہ این جی اوز اسلام کو بدنام کررہی ہیں اور ثانیاً اس ویڈیو کے ذریعے طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں باتیں درست ثابت ہوئیں۔ امن معاہدہ ختم ہو گیا اور فوج نے آپریشن راہ راست کے عنوان سے سوات میں فوجی کارروائی شروع کردی۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں اس ویڈیو کے ذریعے اسلام اور پاکستان کی چھوی

(امیج) کو تباہ کرنے کی ایک مستقل مشقِ ستم بھی شروع ہو گئی۔ افسوس ناک طور پر پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ بلااستثناء اس مکروہ کھیل کا بدترین حصہ بنے رہے۔ اور اصل حقائق کی طرف متوجہ ہونے کی کوشش تک نہیں کی۔

تصویر کیسے بگاڑی جاتی ہے؟ اس کاایک درست تجزیہ نوم چومسکی نے ایڈورڈ ایس ہرمن کے ساتھ مل کر اپنی ایک مشترکہ کتاب میں کیا تھا جس میں اس پوری صورتِ حال کو ایک اصطلاح ’’Manufacturing consent‘‘ یعنی ’’رضامندی وضع کرنا‘‘ سے واضح کیا گیا تھا، مغرب نے انسانوں کے قافلوں کو جانوروں کے گلوں کی طرح ہانکنے کے جدید حربے وضع کررکھے ہیں، یہ اُن میں سے ایک ہے۔ اسی تناظر میں 1980ء میں نامور دانشور ایڈورڈ سعید نے ایک کتاب ’’Covering Islam‘‘ تحریر کی تھی ۔ جس میں اسلام اور مسلم معاشرے کے ساتھ مغرب اور مغربی ذرائع ابلاغ کے رویئے کا دستاویزی انداز میں جائزہ لیا گیا تھا۔ مغرب بہت پہلے سے سوات طرز کی ویڈیوز سے مسلم معاشروں کو شکار کر رہا تھا۔ ایڈورڈ سعید نے اس عمل کو بے نقاب کرتے ہوئے اپنی کتاب میں 16؍ اپریل 1979ء کے ٹائم میگزین کا حوالہ دیا۔جس میں اسلام کو شمارے کی بنیادی کہانی کے طور پر لیا گیا تھااور اس کا سرورق ایک باریش موذن سے سجایا گیا تھا۔ جو جرومی (مشہور استشراقی تحریک سے وابستہ فرانسیسی مصوّر)کی بنائی ہوئی نقاشی(پینٹنگ) تھی۔ اِسے انیسویں صدی کے مستشرقین کے فن کے بہترین نمونوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ تصویر میں ایک موذن کو مینارے میں کھڑا دکھا یا گیا ہے۔جو اہلِ ایمان کو پرسکون انداز سے نماز کے لئے بلا رہا ہے۔ ٹائم نے اس تصویر کو جس سرخی سے سجایا وہ یہ تھی ’’The Militant Revival‘‘ یعنی عسکریت کا احیا۔ ایڈورڈ سعید نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’عنوان کا تصویر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔مگر اس رسالے نے اس پرسکون منظر کو شعلہ فشاں کرنے کے لئے اس پر یہ عنوان چسپاں کر دیا۔‘‘مغرب کا یہ پورا کھیل نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید کی تحریروں سے اسی کے عشرے میں پوری طرح بے نقاب ہو چکا تھا۔ مگر پاکستان کی بے شرم صحافت کے بدترین اینکرز، کالم نگار، وقائع نگار اور تجزیہ نگار اپنی ناک سے آگے دیکھنے کو تیار ہی نہ تھے۔

اس ویڈیو نے یہ ثابت کر دیاتھا کہ چند ڈراموں اور ڈھکوسلوں کا واویلا کرکے پوری ریاست اور اُسے کے تمام اداروں کو یرغمال بنایا جاسکتاہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس جعلی ویڈیو کے نتیجے میں سبوتاژ ہونے والے امن معاہدے نے ریاست کے اندر تقسیم درتقسیم کی گہری لکریں کھینچ دی ہیں۔ 2009ء کے اُسی سال میں کسی بھی سال کے سب سے زیادہ حملے پاکستان میں ہوئے۔ سوات سے بے گھر ہونے والے طالبان کے ہاتھوں آسانی سے استعمال ہوئے۔ اور آج پاکستانی طالبان کی قیادت بھی ایک سواتی کے پاس ہے جوپاکستان سے لڑنے کے لئے غیر ملکی ہاتھوں تک میں کھیلنے کو تیار ہے۔ ایک جعلی ویڈیو کو اصلی ثابت کرنے والوں کا احتساب کرنے کے لئے ابھی تک کہیں پر کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ عدالت عظمیٰ کافیصلہ انتہائی خاموشی سے برداشت کرلیا گیا۔ اور پاکستان میں کسی بھی سطح پر کوئی حرکت پیدا نہیں ہوئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ویڈیو کے پیچھے موجود خفیہ مقاصد کب افشا ہوں گے؟اس سے پیدا ہونے والی نفرت کا ازالہ کب اور کیسے ہوگا؟اور ریاست کو یرغمال بنانے والوں سے حساب کون لے گا؟ اس کے علاوہ بے شرم صحافت کے بدنام اینکرز اور کالم نگار اپنی تحریروں میں اس موضوع پر کی جانے والی قے کو اپنے منہ میں واپس کب انڈیلیں گے۔ کیا کسی موقع پر یہ قوم سے معذرت کرنا چاہیں گے یا بے شرمی کے ساتھ اپنی زندگی کو یوں ہی جیتے رہیں گے!!!عدالت عظمیٰ کا فیصلہ دراصل فیصلہ نہیں ایک مقدمہ ہے مگرمعلوم نہیں یہ کس عدالت میں سنا جائے گا!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
نیتن یاہو کی پریشانی وجود منگل 21 مئی 2024
نیتن یاہو کی پریشانی

قیدی کا ڈر وجود منگل 21 مئی 2024
قیدی کا ڈر

انجام کاوقت بہت قریب ہے وجود منگل 21 مئی 2024
انجام کاوقت بہت قریب ہے

''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1) وجود منگل 21 مئی 2024
''ہم ایک نئی پارٹی کیوں بنا رہے ہیں ؟''کے جواب میں (1)

انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب وجود منگل 21 مئی 2024
انتخابی فہرستوں سے مسلم ووٹروں کے نام غائب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر