وجود

... loading ...

وجود
وجود

پھر میں پاکستانی کیوں ہوں؟

بدھ 16 دسمبر 2015 پھر میں پاکستانی کیوں ہوں؟

india-pakistan

یوں ہی بس یک بیک خیال آتا ہے! پھر میں پاکستانی کیوں ہوں؟

عمران خان واپس بھارت سے پلٹ آئے ہیں ،مگر ایک سوال ساتھ لائے ہیں۔ اُن میں اور میاں نوازشریف میں آخر بنیادی فرق کیا ہے؟ جب بھی یہ دونوں بھارت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کی روح ایک دوسرے میں حُلول کیوں کر جاتی ہے؟

اگر عمران خان درست کہتے ہیں اور نوازشریف بھی، کہ پاکستان بھارت میں کوئی فرق نہیں ، تو پھر میں کون ہوں؟ مجھ سے میری شناخت سے وابستہ سوالات کیا ہیں؟ میری حب الوطنی کا امتحان بھارت سے نفرت کے ساتھ کیوں لیا جاتا ہے؟ پھر! پھر ! وہ نامقبول و ناپسندیدہ الطاف حسین بھی کیا غلط کہتاہے؟ پھر یہ بحث میانِ من وتُوکیوں پھیلی ہے؟ عمران خان واپس بھارت سے پلٹ آئے ہیں ،مگر ایک سوال ساتھ لائے ہیں۔ اُن میں اور میاں نوازشریف میں آخر بنیادی فرق کیا ہے؟ جب بھی یہ دونوں بھارت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کی روح ایک دوسرے میں حُلول کیوں کر جاتی ہے؟

تیرے دربار میں پہنچے تو سب ہی ایک ہوئے

عمران خان گزشتہ دنوں بھارت گئے!پتا نہیں کیوں گئے اور کیوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملنا ضروری خیال کیا۔ یہ کافی نہ تھا کہ وہاں ذرائع ابلاغ کے سامنے فرمایا:

’’لیکن میں( نے) جب ہندوستان میں کرکٹ کھیلی ،میں نے جب کپیل دیو ، سنیل گواسکر سے دوستیاں کیں میرا جو آج بیسٹ فرینڈ آکسفورڈ میں تھا وہ ہندوستانی تھا، وکرم مہتہ تھے۔تو جب ہم نے کونٹیکت (contact) کیا تو رئیلائز (realise)کیا کہ ہماری تو تاریخ ایک ہے۔ہمارے لوگ ایک ہے، کلچر ایک ہے۔ ہم گانے ایک سنتے ہیں۔فلمیں ایک دیکھتے ہیں۔ تو اس کے بعد تب چینج آتا ہے۔ ‘‘

ہمیں علامہ اقبالؒ کے اس جعلی شیدائی کے قصے گھڑ گھڑ کے سنائے گئے۔ ان کی نظریاتی گہرائی کے افسانے تراشے گئے۔ مگر کچھ فرق نہ نکلا!وہ اقبالؒ نہ رہے ہوں گے جنہوں نے کہا تھا کہ

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

وہ بھی کوئی سیالکوٹی ہی ہوگا مگر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نہیں جو فرما گئے تھے کہ

گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

حضرت علامہ اقبال ؒ کا وہ سچا عاشق بھی مرگیا۔ رحمان کیانی نے تحریک پاکستان کے تاریخ ساز نعروں کو فہم اقبال کی روشنی میں منظوم کردیاتھا۔ مگر وہ نعرے کب تھے، نظریئے کی ایک باڑھ تھی جو ہندو انتہاپسندی کے آگے باندھی گئی تھی۔فرمایا:

تم نے پڑھا قرآن ہے لوگو! اس پر اگر ایمان ہے لوگو!
سب جیسے انسان نہیں تم دو پائے حیوان نہیں تم
احمق مادر زاد نہیں تم بندر کی اولاد نہیں تم
مکھن ہولی، ٹکے پسیری گڑبڑ گھپلا ہیرا پھیری
موتی، کنکر ایک نہیں ہیں ہیرا، پتھر ایک نہیں ہیں
دن سے جیسے رات الگ ہے پھول سے جیسے پات الگ ہے
گامے سے گھنشام الگ ہے
کفر الگ اسلام الگ ہے

کپتان ان خیالات میں تنہا نہیں۔ قائداعظم ثانی اپنے انتخابی مینڈیٹ (انتداب) کی طرح اس میں بھی اُن سے سبقت رکھتے ہیں۔ دونوں کے درمیان تصورات کی سطح پر ایسی یکسانیت ہے کہ گمان گزرتا ہے کہ کہیں یہ بھارت کے بارے میں یک جان دوقالب تو نہیں۔ ذرا الفاظ تو دیکھیں !نوازشریف نے ۱۳؍ اگست ۲۰۱۳ء کو سیفما کے ایک اجلاس میں بھارت سے آئے وفد سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ

’’ہمارا ایک ہی کلچر تھا، ایک ہی ہیرٹیج ہے ، ایک ہی معاشرے کے ہم لوگ تھے، یہ جو بیچ میں ایک بارڈر آیا ہے ، بس وہی بارڈر آیا ہے ، ورنہ تو آپ اور ہم لوگ ایک ہی سوسائٹی کے لوگ ہیں۔‘‘

یہ قائداعظم ثانی کے الفاظ ہیں ، چونکہ قائداعظم ثانی کتابوں وغیر ہ سے زیادہ دستر خوان سے میل مناسبت رکھتے ہیں ۔ لہذا ایک موقع پر تو اُنہوں نے دونوں طرف کے مشترکہ کھانوں کی فہرست بھی گنوارکھی ہے۔ یہ گائے کے گوشت پر ہونے والے حالیہ ہنگاموں میں مسلمانوں کے قتل سے ذرا پہلے کا ماجرا ہے۔ مگر قائداعظم ثانی نوازشریف کے ان الفاظ کے بعد اب قائداعظم محمد علی جناح کے یہ الفاظ پرانے مال کی دُکان اولیکس پر بیچ دینے چاہئے۔ جو اُنہوں نے گاندھی کو ایک خط میں لکھے تھے :

’’ہم کہتے ہیں اور یہ ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ مسلمان اور ہندو ہرتعریف اور ہر معیار قومیت کی رو سے دو بڑی اقوام ہیں۔ ہم مسلمان دس کروڑ نفوس پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ ۔۔۔۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ایک مخصوص و منفرد کلچر کے مالک ہیں۔ ہم ایک خاص تمدن کے وارث ہیں۔ ہماری زبان، ہمارا ادب، ہمارا فن، تعمیری اسالیب، نام اور نظام اسماء ، شعورِ اقدار وتناسب، قوانین، اخلاقی ضوابط، رسوم ورواج، تقویمی سلسلہ، تاریخ، روایات، مزاجوں کی ساخت وصلاحیت، آرزوؤں اور اُمنگوں کی نوعیت۔۔۔۔۔۔۔ غرض زندگی کے بارے میں اور خود زندگی میں ہمارا اپنا خاص نقطۂ نظر ہے۔ اور بین الاقوامی قانون کی ہر تعمیر کے مطابق ہم ایک مستقل قوم ہیں۔‘‘

شاید کپتان کے لئے قائدِ اعظم کے یہ الفاظ کوئی دھاندلی ہو، یا قائد اعظم ثانی کو یہ لسی سے زیادہ اہم نہ لگتے ہوں۔مگر دونوں طرف کے لوگ صرف سرحد کی ایک لکیر سے الگ نہیں ہیں۔ وہ ایک ہی جغرافیے میں رہتے ہوئے بھی الگ الگ تھے۔ اوراب جب الگ الگ جغرافیے میں رہتے ہیں تو بھی ان کی علیحدہ شناخت کے مناظر روز ہی واقعات کی صورت میں تجسیم ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت میں مسلمان روز ہندوؤں سے پاکستان چلے جانے کا طعنہ سنتے ہیں۔ اور تو اور ابھی بھارتی وزیرخارجہ سشما سوراج پاکستان سے گئی ہے تو بھارتی پارلیمنٹ میں اُن سے سوال پوچھے گئے ہیں کہ اُنہوں نے دورۂ پاکستان میں سبز رنگ کی ساڑھی کیوں زیب تن کی اور اردو زبان میں کیوں بات کی؟ سشماسوراج ایسی انتہا پسند خاتون کو یہ سوال حزب اختلا ف کے جن اراکین نے پوچھے ہیں وہ بھارت میں ہندوؤں کی معتدل یا لبرل جماعتیں کہلاتی ہیں۔اگر کپتان اور قائد اعظم ثانی ٹھیک فرماتے ہیں تو الطاف حسین کی بھارت میں تقریر میں غلط بات کیا رہ جاتی ہے؟ اور پھر کسی بھی پاکستانی کے لئے یہ سوال غیر متعلق کیوں رہے گا کہ وہ پاکستانی کیوں ہے؟ کپتان اور قائداعظم ثانی کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ہمارا حال بدلنے کی کوشش کریں ، ہمارے ماضی کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔ براہِ کرم !براہِ کرم!!


ضروری بات: آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہمارے سینوں میں خنجر کی طرح پیوست ہے اور سانحہ سقوطِ ڈھاکا ،برچھی کی طرح اُترا ہواہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کے محبین کو ملنے والی پھانسیاں بھی ہمارے دلوں میں پھانس بن کر اُتری ہوئی ہے۔ مگر مجھے دونوں سیاسی رہنماؤں کے تاریخ کے ساتھ اس کھلواڑ پر لکھنا زیادہ ضروری محسوس ہوا


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان وجود - اتوار 30 اکتوبر 2022

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا وجود - اتوار 02 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان وجود - جمعه 23 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان وجود - هفته 17 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر