وجود

... loading ...

وجود
وجود

خود پسندی

منگل 03 نومبر 2015 خود پسندی

imran-khan

کیا عمران خان خود پسندی کے شکار ہیں، نرگسیت سے دوچار؟ عمران خان اور ریحام کی طلاق کے محرکات پر غور کرنے سے زیادہ بڑا مسئلہ یہ ہے۔

اُصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ شادی اورطلاق کے فیصلے ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں اور انہیں سرعام موضوعِ بحث نہیں بنانا چاہیے۔ مگر زندگی کے اجتماعی شعبوں سے جڑے لوگوں کے بارے میں یہ موقف کبھی قابلِ عمل نہیں رہا۔ یہاں تک کہ اِسے درست بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ ایسی شخصیات کے ذاتی زندگی کے انداز لوگوں کے اعتماد کرنے یا نہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر عمران خان کا معاملہ تو اس سے بھی ذرا مختلف ہے۔ اُنہوں نے اپنی شادی کو خود عوام میں موضوعِ بحث بنایا۔ اور طلاق کی خبر بھی اپنے جماعتی ترجمان نعیم الحق سے افشا کرائی۔ اگر چہ اس کے پیچھے وقت کا ایک جبر بھی کام کررہا تھا۔ عمران کے کان میں کسی نے سرگوشی کی تھی کہ ریحام طلاق کی خبر کو برطانوی ذرائع ابلاغ میں فروخت کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس طرح کسی بھی سطح پر یہ مسئلہ ذاتی نوعیت کے مدار پر گردش نہیں کر رہا تھا۔ چنانچہ اِسے ہر جگہ موضوع بننا تھا۔ اور موزوں طور پر یہ موضوع بھی بنا۔

شادی بیاہ اور طلاق وراثت کے معاملات نہایت غوروفکر کے متقاضی ہوتے ہیں۔عمران خان نے اپنی دوسری شادی میں اپنے خاندان کے خلاف جاکر یہ اعلان کیا تھا کہ میں اپنے فیصلے خود کر سکتا ہوں ، مجھے کون سمجھا سکتا ہے؟ اس طرح اُنہوں نے اپنے غور وفکر کی صلاحیت کے معاملے میں ایک دعویٰ بھی داغا تھا۔ اور عام طور پر ہمارے تہذیبی پسِ منظر میں اس نوع کے فیصلے میں خاندانی مشاورت کی ایک عموی روایت سے اعلانیہ اجتناب برتا تھا۔ مگر عمران خان نہایت غوروفکر کے حامل اس نہایت ذاتی فیصلے میں بھی دو مرتبہ ناکام ہو چکے ہیں۔ فطری غوروفکر کے ذاتی معاملات میں غلط فیصلے کرنے والی شخصیات عام طور پر ’’impulsive‘‘ یعنی ہیجانی اور خود پسندی کاشکار ہوتی ہیں۔

اب ذرا یہ دیکھئے کہ عمران خان نے شادی اور طلاق کے فیصلے کب کئے؟ عمران خان کی طرف سے شادی کا فیصلہ پاکستان کی روح میں گھاؤ لگانے والے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے سفاکانہ واقعے کے فوراً بعد کیا گیا۔ اور طلاق کی خبر زلزلے کے فوراً بعد اور بلدیاتی انتخابات سے صرف ایک روز قبل افشا کی گئی۔ شادی اور طلاق کے لیے وقت کا یہ انتخاب بجائے خود عمران خان کی خود پسندی کا ایک اظہار ہے۔ جس میں وہ گردوپیش سے بے نیاز اپنی ذات میں گم ایسے فیصلے کرتے ہوئے بھی کسی کی بالکل پروا نہیں کرتے جو لوگوں کو گم صم کردیتے ہوں۔ ایک خود پسند شخصیت میں ایسے فیصلے کرنے کی بے پروائی دو بنیادی امراض سے پھوٹتی ہے۔ اول تو اُس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے اور ثانیاً وہ دھیرے دھیرے بس جذبات کی مخلوق بن کر رہ جاتی ہے۔ نرگسیت ،نرگسیت ۔ایسی شخصیت لٹو کی طرح بس اپنے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔ خود مرکزیت کے حامل لوگ اپنے من کی مندر میں اپنی ہی مورتی کو سجا کر اُسے خود ہی پوجنے کے مریض بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ دور تک دیکھنے اور دیر تک سوچنے کے کبھی قابل نہیں ہوتے۔ خود پسندی پیش بینی کی صلاحیت کو چاٹ لیتی ہے۔

خود مرکزیت کے حامل لوگ اپنے من کی مندر میں اپنی ہی مورتی کو سجا کر اُسے خود ہی پوجنے کے مریض بن جاتے ہیں

دنیا میں عام طور پرعظیم اداکاروں ، اداکاراؤں اور بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ یہ ماجرا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے رشتوں میں عام نہیں بن پاتے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک رشتہ جو میں نے کرلیا ہے اُسے نبھانے کی ہر ذمہ داری دوسرے پر ہے، مجھ پر نہیں۔ یہ تصور شخصیت کا عیب بن کر مضرت رسانی کا سامان پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور تباہ کن نتائج لاتا ہے۔کیونکہ وہ کسی تعلق میں بھی ثابت قدم نہیں رہ سکتا۔ چاہے وہ کتنے ہی قریبی رشتے دار کیوں نہ ہو۔ عمران خان اپنی زندگی میں ایک سے زائد بار اس سنگ دلی کے مرتکب ہو چکے ہیں۔

عمران خان ایک ایسے قبائلی مزاج کے حامل خاندان میں اپنے سگے چچا زاد بھائی کی موت پر نہیں گئے ، جہاں اس طرح کا انحراف قتل کے برابر جرم سمجھا جاتا ہے۔تب وہ دھرنے میں تھے۔ مگر اس سے بھی بڑی سنگ دلی یہ تھی کہ اُنہوں نے عین اُس دن اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا؟ گاہے گمان گزرتا ہے کہ اُس روز اُنہوں نے اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا تھا یا اختلاف رائے رکھنے والے اپنے چچا زادبھائی کی موت کو جشن مسرت منایاتھا۔ کیونکہ اُس سے پہلے اور اُس کے بعد وہ کبھی سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے دکھائی نہیں دیئے۔ خود پسندی کا مریض خود کو ہر روایت سے بڑا سمجھنے کا بھی مریض ہو تا ہے۔

ریحام کے معاملے میں بھی یہی تھا۔ اس رشتے کو سنبھالنے کی پوری ذمہ داری ریحام کی تھی۔ جو برابر کی ذمہ داری بھی اُٹھانے کی اہل نہ تھیں۔ عمران کے لاشعور سے سطح شعور تک اُبھرنے والی یہ توقع دراصل غیر فطری تھی۔ کہ جسے میں مل گیا اُسے ساری دولت مل گئی اب یہ جمع پونجی سنبھالنے کی ذمہ داری دوسرے کی ہے۔اس معاملے کا دوسرا غیر فطری پہلو یہ تھا کہ باسٹھ برس کی عمر میں شادی کرنے والے عام طور پر طلاق کے مرتکب ہونے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر وہ خود پسندی کی آخری حد کو چھو کر بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اُنہوں نے طلاق دی ہی نہیں اس سے پہلے وہ مذاق مذاق میں بھی طلاق کا ذکر کرتے رہے۔ ایک موقع پر عمران خان نے ٹیلی ویژن پر ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر میری بیوی مجھ سے دس لاکھ کا پرس مانگے تو میں اُسے طلاق دے دوں گا۔ اس سے زیادہ غیر مہذب جملہ ٹیلی ویژن پر اس رشتے کے حوالے سے کبھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ عمران خان نے اس جملے سے اپنے طلاق کے معاملے کو عوامی سطح پر لا اُتارا تھا۔

اس تناظر میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان قیادت کے اہل ہیں؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ عمران خان نے بہرحال قومی زندگی پر غلط یا صحیح اثرانداز ہونے کی وقتی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔ اس میں بھی عمران خان کی صلاحیت سے کہیں زیادہ عوام کی کم تربیتی کادخل ہے جن کے لیے بڑی بڑی باتیں کرنے والے لوگ پرکشش ہوتے ہیں۔ عمران خان عوام میں ایسی ہی کشش رکھتے بھی ہیں۔ دراصل عظیم قیادتیں اپنے بڑے فیصلوں سے پہچانی جاتی ہے مگر بڑے فیصلوں میں دوچیزیں برابر کی شریک ہوتی ہیں:جذبہ اور تدبر۔ عمران خان کے فیصلوں میں جذبے کی جھلک تو صاف دیکھی جاسکتی ہے مگر تدبر کا خانہ بالکل خالی دکھائی دیتا ہے۔ اس وجہ سے اُن کی ناکامیاں بھی ایک طرح کی ہیں اور اُس پر دیئے گئے جواز بھی ایک ہی طرح کے ہیں۔ عمران خان نے کبھی اپنی ناکامیاں تسلیم نہیں کیں۔ جمائما اُنہیں ایک ناکام سیاست دان کہتی تھیں، عمران نے تسلیم کرکے نہیں دیا۔ جمائما سے طلاق کی ذمہ داری عمران نے کبھی نواز شریف پر عائد کی اور کبھی خود اپنی ہی بہنوں پر۔ اب یہی کچھ ریحام خان کے معاملے میں بھی ہورہا ہے۔ برسبیل تذکرہ دھرنے کے اہداف میں بھی یہی ہوا تھا۔ عظیم قیادتیں کبھی ناکامیاں نہ ماننے والا رویہ نہیں رکھتیں۔ وہ ناکامیاں مان کر اُس کے اسباب کو کھوجتی ہیں اور دوسروں کے سر تھوپنے کے بجائے اس کا بوجھ خود اُٹھاتی ہیں۔ گر کر ماننا اور پھر اُٹھ کر دکھانا قیادت کی عظمت ہوتی ہے۔ عمران خان اس سے کوسوں دور ہیں۔ صرف مالیاتی بدعنوانی کے الزام سے بچے رہنا قیادت کی صفت سے کسی کو متصف نہیں کردیتی۔ یہ ایک بڑے وژن ، بڑے ذہن اور بڑے تجربے کے تقاضے بھی رکھتی ہیں۔ عمران خان اگر کبھی سوفیصد اکثریت کا ناممکن بھی حاصل کر لیں تو بھی وہ تبدیلی کے اپنے نصب العین کو عمل میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خود پسندی کا یہ نتیجہ نوشتۂ دیوار ہے۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان وجود - اتوار 30 اکتوبر 2022

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہ پہلے تھی نہ اب ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان نے کہا کہ میری طرف سے آرمی چیف کو توسیع دینے کی آفر تک وہ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ رجیم چینج کو نہیں روکیں گے، یہ روک سکتے تھے انہوں نے نہیں روکا کیوں کہ پاؤر تو ان کے ...

اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت پہلے تھی نہ اب ہے، عمران خان

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں تمام اداروں سے کہتا ہوں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تشدد کروا کر اپنی عزت کروائیں گے تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عزت دینے والا اللہ ہے اور آج تک دنیا کی تاریخ میں مار کر کسی ظالم کو عزت نہیں ملی، اعظم سواتی کو ننگ...

ادارے تشدد کرکے اپنی عزت کروانا چاہتے ہیں تو غلط فہمی میں نہ رہیں، عمران خان

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا وجود - اتوار 02 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان وجود - جمعه 23 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وفاقی وزیر داخلہ کو براہ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرتبہ رانا ثنا اللہ کو اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 مئی کو ہماری تیاری نہیں تھی لیکن اس مرتبہ بھرپور تیاری کے ساتھ ...

رانا ثنا اللہ کو اس مرتبہ اسلام آباد میں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، عمران خان

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان وجود - هفته 17 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ اسلام آباد جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اس لیے کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں۔ خیبرپختونخوا کے ارکان اسمبلی، ذیلی تنظیموں اور مقامی عہدیداروں سے خطاب کے دوران عمران خان نے کارکنوں کو اسلام آباد مارچ کیلئے تیار رہنے...

کارکن تیاری کر لیں، کسی بھی وقت کال دے سکتا ہوں، عمران خان

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

مضامین
شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر