وجود

... loading ...

وجود
وجود

صرف ایک منٹ

منگل 27 اکتوبر 2015 صرف ایک منٹ

وقت کی جادو نگری کو اپنے اِذن سے تھامے رکھنے والا رب انسانوں کوجھنجوڑتا ہے، مگر بے خبر انسان خبردار نہیں ہوتے ۔ کیا دنیا کے کارخانے دائم غفلت کی کَل سے چلتے چلے آئے ہیں؟

۸؍اکتو بر ۲۰۰۵ء کو اب دس برس اوپر اٹھار ہ دن بیتے ہیں۔ یہی ماہ تھا، کائنات کے رب نے اپنی ایک نشانی پوری کی ، تب دھرتی نے کروٹ بدلی تھی۔ رمضان المبارک کی تیسری تاریخ میں صرف چھ منٹ اور آٹھ سیکنڈ میں زمین ذراسی لرزش کی شکار ہوئی۔ اور زمین پر اِترا کر چلنے والے انسان آخری کتاب ہدایت کے الفاظ میں چیخ اُٹھے کہ

وَقَالَ الانسَانُ مَالَھَا

انسان کہنے لگے کہ اِسے (زمین کو) کیا ہو گیا (سورہ الزِلزَال۔۔ آیت ، ۳)

پاکستان میں ۲۶؍اکتوبر کو دوپہر دوبج کر نومنٹ پر ایک زلزلہ پھر آیا۔ اب اس کادورانیہ صرف ایک منٹ ہی تھا۔مگر پورا پاکستان اس سے لرز گیا۔نقصانات کا ابھی تک پوری طرح اندازا نہیں ہو پایا۔ اس زلزلے میں کتنی انسانی جانوں کو قزاقِ اجل اُچک کر لے گیا ، ابھی خبریں ہیں کہ مسلسل چلی آتی ہیں۔ ۸؍ اکتوبر اور ۲۶؍ اکتوبر میں فرق کیا ہے؟ تب یہاں ایک ایسے شخص کی حکمرانی تھی جو امریکا کی ہیبت میں دم بخود اور اپنی سرگرمیوں میں بیخود رہتا تھا۔ آخری کتاب ِ ہدا یت نے کوئی ابہام نہیں چھوڑا کہ زمین اپنے بھونچالوں میں کس کے حکم کی پیروی کرتی ہے؟ فرمایا کہ

’’اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی ۔ اس لیے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا۔‘‘ (آیات ۔۴ تا۵)

مگر پرویز مشرف نے ٹیلی ویژن کی چکاچوند دنیا میں اُبھرتے میزبانوں کو پیغام پہنچایا کہ خبر دار زلزلے کی مذہبی وجوہات کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا جائے۔ بے حس جرنیلی حکومت نے زلزلے سے مرنے والے انسانوں کے اصل اعدادوشمار تک چھپائے۔ عالمی امدادی اداروں کے مطابق اس عظیم انسانی المیے نے اندازاً ۸۶ ہزار انسانوں کی جانیں نگل لی تھیں ۔ آزاد اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد ڈیڑھ لاکھ سے بھی متجاوز تھی۔ یہ پہلو دراصل حکمرانوں کی اس سفاکی کو اجاگر کرتا ہے جو عبرت پکڑنے کے قیمتی اور دلسوز لمحات میں بھی اقتدار کے تقاضوں سے آلودہ رہتا ہے۔ دس برس اٹھارہ دن بعد پاکستان میں حکومت تو جمہوری ہے مگر طرزِ حکومت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔ وزیر اعظم میاں نوازشریف اپنے امریکی دورے کے بعد برطانیا میں قیام فرما تھے جب اُنہیں اس زلزلے کی اطلاع ملی اُنہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خبر جاری کرنا ضروری سمجھا کہ وہ اپنا دورہ مختصر کرکے پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ برطانیا میں ٹہرے ہوئے ہی کیوں تھے؟ کیا حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کے لیے کوئی معیار وضع کرنے کی ضرورت نہیں؟ کیا یہ تعین صرف وزیر خزانہ کے پاس ہوگا کہ وہ مسلم لیگ نون کے جماعتی اجلاسوں میں شرکت کرنے والے صدر اور وزیراعظم کے دوروں کے لیے سال بھر میں جتنی رقم مختص کر دیں بس اُسے صرف کرنے کے لیے یہ دورے کرتے پھریں ۔آخر یہ دورے مملکت کے شفاف مقاصد اور اہداف کے ساتھ یافت کے کسی اُصول سے منسلک کیوں نہیں؟مگر پھر بھی وزیراعظم کا بے حد شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اُنہوں نے اپنی رعایا سے کمال ترحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے برطانیامیں اپنے قیام کو مختصر فرمایا۔ اگرچہ ملک سے باہر دیگر سیاسی رہنماوؤں کے بارے میں قوم تاحال کچھ نہیں جانتی کہ وہ اقتدار ہاتھوں سے نکل جانے کے بعد مصیبت کے ان لمحات میں ملک میں کیوں نہیں ہوتے؟ ۸؍ اکتو بر کے زلزلے کے بعدتب آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار سکندر حیات نے کہا تھا کہ ـ’’میں ایک قبرستان کا حکمران بن چکا ہوں۔‘‘ جمہوری دور میں فرق یہ پڑتا ہے کہ انسانوں پر قبریں یا’’ مُردے‘‘ حکومت کرتے ہیں۔

اصل سوال یہ نہیں ہے کہ زلزلے کے بعد حکومت کیا کرتی ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ وہ زلزلے سے پہلے کیا کرتی ہے؟

زلزلے کے بعد حکومت کی کارکردگی جانچنے کا لمحہ نہیں آیا؟ ابھی سوال زلزلے سے پہلے کا ہے۔پاکستان کرۂ ارض پر ایک ایسے قطعہ اراضی پر قائم ہے جہاں زلزلوں کی ایک قدیم تاریخ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل بلوچستان میں ۱۹۳۵ء میں آنے والے زلزلے سے ۵۰ ہزار افراد لقمہ ٔ اجل بن گیے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد شدت میں کم زیادہ بہت سے زلزلے یہاں آتے رہے ہیں۔ ۳؍ستمبر اور ۴؍ستمبر کے بعد ۱۰؍ ستمبر ۱۹۷۱ء کو آنے والے زلزلے نے سو سے زائد افراد کو اپنا شکار کیا تھا۔ صرف اسی سال چھ مرتبہ زلزلے آئے مگر ۱۰؍ستمبر کا زلزلہ نقصان دہ ثابت ہوا تھا ۔ اسی طرح ۱۹۷۲ء میں دو ، ۱۹۷۳ء میں ایک اور ۱۹۷۴ء میں زلزلے کے تین واقعات ہوئے۔ جن میں ۲۸؍دسمبر کا زلزلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ جس نے ہزاہ ،ہنزہ، سوات اور خیبر پی کے تقریباً پانچ ہزار انسانوں کو جھپٹ لیاتھا۔ پھر ۱۹۷۵ ء میں دو ، ۱۹۷۸ء میں ایک، ۱۹۹۵ء میں ایک اور ۱۹۹۷ء میں دوزلزلے آئے۔ جس میں سے ۲۸ ؍فروری کے زلزلے نے ایک سوا فراد کی جانیں لیں۔ ۲۰۰۱ء کا ایک ، ۲۰۰۲ء کا ایک اور ۲۰۰۴ء کا بھی ایک زلزلہ کم جانی نقصانات کے ساتھ ٹل گیا۔ مگر پھر ۸؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے محتاط اعداد وشمار کے مطابق بھی کم ازکم چھیاسی ہزار جانیں نگل لیں۔اس زلزلے نے عظیم تر انسانی المیے کو جنم دیا ۔ ایسانہیں ہے کہ ۸؍ اکتوبر کے بعد اب ۲۶؍ اکتوبر تک ان آٹھ برسوں میں یہ زمین زلزلے کے خطرے سے محفوظ رہی۔ اس دوران میں بھی زلزلے کے واقعات مسلسل رونما ہوتے رہے۔ ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۸ء کے زلزلے نے ایک سو ساٹھ افراد کو اپنا شکار بنایا۔ ۲۰۱۰ء میں بھی دوزلزلے آئے۔ ۲۰۱۱ء میں پانچ اور ۲۰۱۲ء میں بھی زلزلے کے چھ واقعات رونما ہوئے۔ اسی طرح ۲۰۱۳ء میں زلزلے کے چارواقعات ہوئے۔ جس میں سے ۲۴؍ستمبر کے زلزلے میں ۳۲۸ افراداپنی زندگیاں گنوا بیٹھے تھے۔ زلزلے کا یہ تسلسل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی سرزمین شق الارض کے مستقل خطرے سے دوچار ہے۔ جس کی تائید ماہرینِ ارضیات و موسمیات بھی کرتے ہیں۔ماضی میں پاکستان تب بھی زلزلوں کا شکار ہوا جب اُسے ماحولیات کے اُن خطرات کا سامنا بھی نہیں تھا جس سے وطنِ عزیز آج دوچار ہے۔ اب دنیا بھر میں آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی بدلاؤ نے اس خطرے کو دوچند کردیا ہے۔ پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات پر فکر مند ہے مگر پاکستان نے چپ کا روزہ سادھ رکھا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہمیں اس دنیا سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔

دنیا بھر میں زلزلے اس سے کہیں زیادہ شدت سے واقع ہوتے ہیں مگر باشعور قوموں نے اس سے نمٹنے کے لیے قبل ازوقت اقدامات پر توجہ دی ہے اور زلزلے کے بعد اپنے نقصانات کو کم سے کم سطح پر لے آئے ہیں۔ مگر پاکستان ایسی کسی بھی منصوبہ بندی سے محروم ہے۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ زلزلے کے بعد حکومت کیا کرتی ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ وہ زلزلے سے پہلے کیا کرتی ہے؟ کیا نوازشریف کی حکومت نے عمران خان کے طوفان سے بچنے کے لیے جتنی منصوبہ بندی کر رکھی ہے اُس کا دس فیصد بھی اُس نے زلزلے کے پیشگی اقدامات کی منصوبہ بندی پر صرف کیے ہیں۔ اس کو تو چھوڑئیے! حالیہ زلزلہ صرف ایک منٹ کے دورانیے پر محیط تھا ۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں ایک ہی منٹ کبھی زلزلے پر غور کے لیے کسی اجلاس میں گزارا ہے۔ صرف ایک منٹ!


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں وجود - پیر 14 فروری 2022

وزیراعظم عمران خان کی جانب سے وزراء کی فہرستِ کارکردگی ابھی ایک طرف رکھیں! تھیٹر کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سماجی روز مرہ اور زندگی کی سچائی آشکار کرنے کو سجایا جاتا ہے۔ مگر سیاسی تھیٹر جھوٹ کو سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سوانگ بھرنے کے اب ماہر...

حوادث جب کسی کو تاک کر چانٹا لگاتے ہیں

خطابت روح کا آئینہ ہے !
(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
وجود - پیر 30 ستمبر 2019

کپتان حیرتوں کی حیرت ہے!!! وہ ایک بار پھر سرخروہوا۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک منفرد تجربہ ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کسی بھی سربراہ حکومت نے ایسا جاندار ، شاندار اور شاہکار خطاب کیا ہے۔ قبل ازمسیح کے پوبلیوس سائرس اچانک ذہن کے افق پر اُبھرتے ہیں، ایک آزاد شا...

خطابت روح کا آئینہ ہے ! <br>(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)

خاتمہ وجود - جمعرات 29 ستمبر 2016

کیا بھارت سوویت یونین کی طرح بکھر جائے گا؟ خوشونت سنگھ ایسے دانشور بھارت کو زیادہ سمجھتے تھے۔ اُن کا جواب تھا : ہاں، بھارت باقی نہیں رہے گا۔ اُنہوں نے ایک کتاب ’’دی اینڈ آف انڈیا‘‘ تحریر کی، جس کے چمکتے الفاظ دامنِ توجہ کھینچتے ہیں۔ ’’بھارت ٹوٹا تو اس کا قصوروار پاکستان یا کو...

خاتمہ

جوتے کا سائز وجود - منگل 13 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40669" align="aligncenter" width="640"] رابرٹ والپول[/caption] وزیراعظم نوازشریف کی صورت میں پاکستان کو ایک ایسا انمول تحفہ ملا ہے، جس کی مثال ماضی میں تو کیا ملے گی، مستقبل میں بھی ملنا دشوار ہوگی۔ اُنہوں نے اپنے اِرد گِرد ایک ایسی دنیا تخلیق کر ل...

جوتے کا سائز

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر