وجود

... loading ...

وجود
وجود

زباں درازی

هفته 10 اکتوبر 2015 زباں درازی

ImranKhanNawazSharif

زبان شخصیت کا آئینہ ہے۔ افسوس تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون اس سے بے خبر ہیں۔ذرا ان رہنماوؤں کی زبان سنیے! جو لاہور اور اوکاڑہ کے حلقوں کے ضمنی انتخابات کی مہم میں پورے ملک میں گونجنے لگی ہے۔اور جس نے مملکت کے تمام معاملات کو یر غمال بنا لیا ہے۔ اگر عربی کی فصیح و بلیغ زبان کو رہنما بنایا جائے تو وہ محاورے میں ایک اُصول وضع کرتی ہے:

تُعرفُ الاَشیاءُ بِاَضدَادِھَا

(چیزیں اپنی ضدوں کے ساتھ پہچانی جاتی ہے)

بلاشبہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ایک دوسرے کا تعارف کراتی ہیں۔ اگر ان جماعتوں کا تصادم نہ ہوتا تو ہیرو پرستی کا مرض شخصیات کو پردے میں چھپائے رکھتا ۔ یہ لوگ اس طرح بے نقاب تو نہ ہوتے۔ ان کی زُبانیں خنجر کیا ہوئی ہیں تہذیب کی زبان کو قے آگئی ہے۔

دھرنے میں عمران خان نے” ابے تبے” کی جو زبان متعارف کرائی تھی وہ ایک بہت بڑے ردِ عمل کے ساتھ دلوں میں پرورش پارہی تھی۔ باقی جماعتوں کے لوگ بھی کوئی “کوثر وتسنیم” میں دُھلی زبان نہیں رکھتے۔ بس وہ مجمع میں مخاطبت کے الفاظ سےبقدرِ ضرورت آشنا تھے۔ اب یہ لحاظ باقی جماعتوں میں بھی جاتا رہا۔ اب وہی رہنما منچ کی رونق ہے جو زیادہ بڑا پھکڑباز ہے۔یقین نہ آئے تو شیخ رشید اور عابد شیر علی کی تقریریں ملاحظہ فرمائیں جو اُنہوں نے حلقہ 122 میں کی ہیں۔ افسوس جمہوریت کے نام پر ہم پست سے پست تر ہوتے جاتے ہیں۔

عمران خان نے میاں نوازشریف کے روّیے کو اپنے انٹریوز اور تقاریر میں اداکاری کے ساتھ موضوع بنایا۔ اب نوازشریف کے آغوشِ تربیت کے اداکار سیاست دان اس دَلدَّر اور ہَولاجولی کو مزید فروغ دے رہے ہیں۔ تنقید سیاست کا جوہر ہے مگر تنقید کی اپنی ایک تہذیب بھی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں ایک رکن نے جھلّا کر کہا کہ “ایوان کےآدھے اراکین گدھے ہیں۔” سمجھدار اراکین خاموش رہے مگر آدھے اراکین کھڑے ہوگیے اور احتجاج کیا کہ یہ زبان شائستہ نہیں ۔ فاضل رکن اپنے الفاظ واپس لیں۔ فاضل رکن کھڑے ہوئے اور نہایت ادب سے کہا کہ ” میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں، ایوان کے آدھے اراکین گدھے نہیں ہیں۔” ہر چیز بیان کی جاسکتی ہے اگر اِسے برتنے کے لیے ذرا ہنر پیدا کیا جائے۔ مگر سیاست دان ساری مشقت صرف بدعنوانیوں کے لیے اُٹھاتے ہیں۔ دونوں حلقوں میں دونوں جماعتوں کے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں اگر یہ جمہوریت کا حُسن ہے تو پھر چڑیل کو عالمی مقابلہ حُسن میں ملکہ حُسن کا تاج پہنادینا چاہیے۔

بنیادی بات یہ ہےکہ یہ مسئلہ چند سیاست دانوں تک محدود نہیں ، یہی ہمارا گردوپیش بنتا جارہا ہے۔ عمران خان نے اپنی سیاست میں جس لب ولہجے کو اختیار کیا تھا ،وہ اب زیادہ مکروہ بن کر مسلم لیگ نون کے تیوروں میں فروغ پارہا ہے۔ اوریوں لگتا ہے کہ پورا ملک انتقامی سیاست کا شکار ہوچکا ہے۔ جس سے ذرایع ابلاغ بھی مستثنیٰ نہیں۔ریاستی اداروں میں بھی حالات کو پڑھنے کی صلاحیت دن بہ دن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ اور ادارتی ذکاوت کا کہیں نام ونشان تک نہیں ملتا۔ الیکش کمیشن اور عدالتی فیصلوں میں اس کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کے لیے جو ضابطہ اخلاق تشکیل دیا ،وہ عدالت عالیہ میں ٹہر نہیں سکا۔ جس سے دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہر طرح کی گفتگو کو اپنے لیے روا بنا لیا۔ کیا عدالت عالیہ اور الیکشن کمیشن کو اندازا نہ تھا کہ وہ کب کیا کر رہے ہیں ؟ موجودہ ماحول میں جب اعتماد کا فقدان تھا ، ضابطہ اخلاق کی تیاری کاعمل سب کی رضامندی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا مگر ادارے اپنی اجتماعی ذکاوت کو بروئے کار لانے میں مکمل ناکام رہے۔ عالمی سطح پر اب جس جمہوریت کو پسند کیا جاتا ہے وہ عوامی نہیں بلکہ دستوری جمہوریت کہلاتی ہے۔ جس میں ریاست کی سب قوتیں خود کو ایک قانون اوردستور کی تحویل میں رکھتی ہیں ۔ سیاست دان جہاں کہیں کا بھی ہو اپنی ہر گنجائش کو جمہوریت کی عمومی حد میں لے جانے پر مُصر رہتا ہے۔ اس لیے اداروں کو مضبوط کرکے اجتماعی معاملات کو ضابطوں کا پابند بنانا اب دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک کا عمومی رجحان اور نیا نکتہ بحث ہے۔ پاکستان کے جمہوریت پسند سیاست دان اور دانشور مگر اس سے بالکل بے خبر ہیں۔

عمران خان نے اپنی سیاست میں جس لب ولہجے کو اختیار کیا تھا ،وہ اب زیادہ مکروہ بن کر مسلم لیگ نون کےتیوروں میں فروغ پارہا ہے۔

کیااس ملک کے سارے معاملات بس سیاسی مفاد کے سایے میں چلیں گے۔ کسان پیکیج کا معاملہ دیکھیے۔ پہلاسوال مسلم لیگ نواز سے بنتا ہے۔ کسان پیکیج کے یہ سارے پہلو میزانیے میں اُجاگر کیوں نہیں کیے گیے تھے؟ اگر یہ پیکیج ضمنی اور بلدیاتی انتخابات میں سیاسی فائدہ اُٹھانے کے لیے نہیں تھا تو پھر یہ خاموشی کی قبر میں ڈیڑھ سال سے کیوں سویا ہوا تھا؟ اگلے سوالات اداروں سے بنتے ہیں۔ کیا یہ پیکیج محض دو حلقوں کے ضمنی انتخابات کے رائے دہندگان کے لیے تھا؟ اگر یہ سارے ملک کے لیےتھا تو پھر اس اندھے بہرے الیکشن کمیشن نے اسے معطل کیوں کیا؟ اگر اس سےسیاسی جماعت کےطو رپر مسلم لیگ نون فائدہ اُٹھا سکتی تھی تو اسے فائدہ اُٹھانے سے روکنے کے لیے صرف اس کی تشہیر پر پابندی کیوں نہیں لگائی جاسکتی تھی؟کیا ادارتی دانش بھی گھاس چرنے چلی جاتی ہے؟

وزیراطلاعات وقانون کو معلوم نہیں کب خبر ہوئی کہ عمران خان پاکستان کے دشمنوں سے پیسے لیتے ہیں؟ وہ جو کاغذ لہرا لہرا کر عمران خان کو چور ، غدار اور پاکستان کا دشمن کہہ رہے تھے۔ ایسے کاغذ یہاں سب کے خلاف نکل آتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ زبان استعمال کیسے کر سکتے ہیں؟ چور ، غدار اور پاکستان دشمن الفاظ اپنی اصل میں ایک فیصلہ ہے۔ کیاوہ یہ ثبوت لے کر عدالت گیے ہیں ؟ اُن کی حکومت نے اب تک اس پر کوئی اقدام کیوں نہیں اُٹھایا؟یالوگوں کی غداری کے ثبوت بھی محض اس لیے اکٹھے کیے جاتے ہیں کہ اس سے سیاسی فائدے اپنے وقت پر سمیٹے جائیں۔کیا یہ ثبوت اگر اصلی ہیں تو اس لیے محفوظ رکھے گیے تھے کہ اِسے عمران خان کے لیے انتخابات میں استعمال کیے جائیں۔ اگر ملک سے وفاداری یا غداری کا معاملہ بھی سیاست کے ادنیٰ مفادات کی تحویل میں چلا جائے گا ، تو پھر باقی کیا بچے گا؟ مسلم لیگ نون کو سمجھنا چاہیے کہ اظہار ہی انسان کا کر دار ہے۔ انگریزی ناول نگار جارج اورویل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ

” if thought corrupts language, language can also corrupt thought “

(اگر خیالات زبان کوغلیظ کر سکتے ہیں تو زبان بھی خیالات کوغلیظ کر سکتی ہے)

آج کل یہی ہمارا مشاہدہ ہے جس میں کسی کے خیالات نے زبان کو اور کسی کی زبان نے خیالات کو آلودہ بنا دیا ہے۔ دونوں جماعت کے رہنماوؤں کی خدمت میں عربی زبان کی ہی ایک تنبیہ پیشِ خدمت ہے کہ

طُولُ اللّسَانِ یُقصِرُ الاَ جَلَ

(زباں درازی ، عمر کو کم کرتی ہے)

ایک زباں دراز تھوڑی دیر کے لیے بول تو لیتا ہے مگر وہ زیادہ دیر کے لیے برقرار نہیں رہ پاتا ۔ پھر وہ وقت کے بہاؤ میں غیر متعلق ہو جاتا ہے۔ فصیح و بلیغ زبان ایسے آدمی کو زندہ تسلیم نہیں کرتی ۔


متعلقہ خبریں


رنگ بازیاں وجود - پیر 09 جنوری 2023

   علامہ اقبال نے راز کھولا تھا تھا جو ، ناخوب، بتدریج وہی خوب ہُوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر زیادہ وقت نہیں گزرا، آئی ایم ایف سے معاہدے خفیہ رکھے جاتے تھے، عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ایک سیاسی یا قومی عیب لگتا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ملک کی فروخت سے تعبیر ک...

رنگ بازیاں

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا وجود - جمعرات 03 نومبر 2022

یہ لیجیے! پندرہ برس پہلے کی تاریخ سامنے ہے، آج 3 نومبر ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اب بھی ایک سرشار کردینے والی تقویم کی تاریخ ہے، جو چیف جسٹس کے''حرفِ انکار'' سے پھوٹی۔ مگر دانا اور اہلِ خبر اسے اژدھوں کی طرح نگلتی، حشرات الارض کی طرح رینگتی اور پیاز کی طرح تہ بہ تہ رہتی ہماری سیاسی...

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

لیاقت علی خان اور امریکا وجود - پیر 17 اکتوبر 2022

حقارت میں گندھے امریکی صدر کے بیان کو پرے رکھتے ہیں۔ اب اکہتر (71)برس بیتتے ہیں، لیاقت علی خان 16 اکتوبر کو شہید کیے گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کے موجودہ رویے کو ٹٹولنا ہو تو تاریخ کے بے شمار واقعات رہنمائی کے لیے موجود ہیں۔ لیاقت علی خان کا قتل بھی جن میں سے ایک ہے۔ یہاں کچھ نہیں ...

لیاقت علی خان اور امریکا

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی! وجود - جمعرات 13 اکتوبر 2022

سیاست سفاکانہ سچائیوں کے درمیان وقت کی باگ ہاتھ میں رکھنے کا ہنر ہے۔ صرف ریاضت نہیں، اس کے لیے غیر معمولی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے۔ رُدالیوں کی طرح رونے دھونے سے کیا ہوتا ہے؟ میاں صاحب اب اچانک رونما ہوئے ہیں۔ مگر ایک سوال ہے۔ کیا وہ سیاست کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں؟ کیا وہ اپ...

میاں صاحب پھر ووٹ کو ابھی عزت تو نہیں دینی!

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا وجود - اتوار 02 اکتوبر 2022

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف فیصلہ کن لانگ مارچ کا فیصلہ کر لیا، پارٹی سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ظالموں کو مزید مہلت نہیں دیں گے، جلد تاریخی لانگ مارچ کی تاریخ کا باضابطہ اعلان کروں گا۔ پارٹی کے مرکزی قائدین کے اہم ترین مشاورتی اجلاس ہفتہ کو چیئرمین تحریک انصاف عمران ...

تحریک انصاف نے حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا حتمی فیصلہ کر لیا

عمران خان اسمبلی میں مشروط واپسی پر تیار وجود - اتوار 25 ستمبر 2022

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ امریکی سائفر کی تحقیقات کی جائیں تو اسمبلی واپس آ سکتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے اچھے تعلقات تھے، پتا نہیں یہ کب اور کیسے خراب ہوئے؟ اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کی ضرورت ہوتی ہے، اپوزیشن میں رہ...

عمران خان اسمبلی میں مشروط واپسی پر تیار

سپریم کورٹ کا پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

سپریم کورٹ نے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ دے دیا،چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ عوام نے آپ کو5سال کے لیے منتخب کیا ہے، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرے، پارلیمان میں کردار ادا کرنا ہی اصل فریضہ ہے،مرحلہ وار استعفو...

سپریم کورٹ کا  پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں واپسی کا مشورہ

وقت بہت بے رحم ہے!! وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پرویز مشرف کا پرنسپل سیکریٹری اب کس کو یاد ہے؟ طارق عزیز!!تین وز قبل دنیائے فانی سے کوچ کیا تو اخبار کی کسی سرخی میں بھی نہ ملا۔ خلافت عثمانیہ کے نوویں سلطان سلیم انتقال کر گئے، نوروز خبر چھپائی گئی، سلطنت کے راز ایسے ہی ہوتے ہیں، قابل اعتماد پیری پاشا نے سلطان کے کمرے سے کاغذ س...

وقت بہت بے رحم ہے!!

عمران خان کا حکومت کے خلاف ہفتہ سے تحریک شروع کرنے کا اعلان وجود - جمعرات 22 ستمبر 2022

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک دفعہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم کر دیں ہم ملک کے حالات ٹھیک کر کے دکھائیں گے، اوورسیز پاکستانی جب سرمایہ کاری کریں گے تو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں پڑے گی، جب تک انصاف کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا تب تک معی...

عمران خان کا حکومت کے خلاف ہفتہ سے تحریک شروع کرنے کا اعلان

مبینہ ملاقات وجود - پیر 19 ستمبر 2022

مقتدر حلقوں میں جاری سیاست دائم ابہام اور افواہوں میں ملفوف رہتی ہے۔ یہ کھیل کی بُنت کا فطری بہاؤ ہے۔ پاکستان میں سیاست کے اندر کوئی مستقل نوعیت کی شے نہیں۔ سیاسی جماعتیں، اقتدار کا بندوبست، ادارہ جاتی نظم، فیصلوں کی نہاد ، مقدمات اور انصاف میں ایسی کوئی شے نہیں، جس کی کوئی مستقل...

مبینہ ملاقات

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ وجود - جمعه 16 ستمبر 2022

پاکستانی حکومت نے 12 ستمبر کو قومی پرچم سرنگوں کرلیا۔ یہ ملکہ برطانیا الزبتھ دوم کی موت پر یومِ سوگ منانے کا سرکاری اظہار تھا۔ ہم بھی کیا لوگ ہیں؟ ہمارے لیے یہ یوم سوگ نہیں، بلکہ استعمار کو سمجھنے کا ایک موقع تھا۔ یہ اپنی آزادی کے معنی سے مربوط رہنے کا ایک شاندار وقت تھا۔ یہ ایک ...

ملکہ الزبتھ، استعمار کا مکروہ چہرہ

رفیق اور فریق کون کہاں؟ وجود - منگل 23 اگست 2022

پاکستانی سیاست جس کشمکش سے گزر رہی ہے، وہ فلسفیانہ مطالعے اور مشاہدے کے لیے ایک تسلی بخش مقدمہ(کیس) ہے ۔ اگرچہ اس کے سماجی اثرات نہایت تباہ کن ہیں۔ مگر سماج اپنے ارتقاء کے بعض مراحل میں زندگی و موت کی اسی نوع کی کشمکش سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ پاکستانی سیاست جتنی تقسیم آج ہے، پہلے کب...

رفیق اور فریق کون کہاں؟

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر