... loading ...
جنادریہ کالج میں کام زیادہ نہیں تھا،مختلف شعبوں کی مینٹینس کے لیے شیڈیول بنانا اور متعلقہ شعبوں تک پہنچانا ہمارا کام تھا۔ یہ ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہوا کالج تھا،مختلف شعبے ایک دوسرے سے فاصلے پر تھے ،اسٹاف کے لیے رہائشی علاقہ بھی کالج سے ملا ہوا تھا۔ اندازاً سب ملا کر کوئی دس مربع کلو میٹر کا علاقہ ہوگا۔ اپنے دفتر سے قریبی شعبہ جات میں جانے کیلیے پیدل مارچ کرنا پڑتا تھا دور کے شعبوں یا رہائشی علاقے میں جانے کے لیے کمپنی کی ڈبل کیبن گاڑی موجود تھی۔ سعودی عرب میں گاڑیاں الٹے ہاتھ چلتی ہیں یعنی پاکستان کے حساب سے یہاں گاڑیاں لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہیں، اس لیے ہم نے کچھ عرصے گاڑی چلانے سے گریز کیا، گاڑی چلانے کے لیے کوئی اسسٹنٹ لے لیتے تھے لیکن ایک روز رہائشی علاقے جانا تھا اور گاڑی چلانے کے لیے کوئی بندہ موجود نہیں تھا۔ ناچار ہم نے خود ہی گاڑی چلانے کی ٹھانی۔ پہلے تو اسٹیرنگ الٹے ہاتھ پر اوپر سے گیئر سیدھے ہاتھ پر۔ ہم نے اللہ کا نام لیکر چابی گھمائی ،کلچ چھوڑا اور گاڑی چل پڑی ،پھر غلط گیئر ڈالنے کی وجہ سے گاڑی بند ہوگئی۔ پھر اسٹارٹ کی اور آگے بڑھے یہاں تک تو ٹھیک رہا مسئلہ سڑک پر پہنچ کر شروع ہوا۔ گاڑیاں تو زیادہ نہیں تھیں لیکن جو گاڑی گزرتی زن زن کرتی گزرتی تھی۔ دوسری طرف ہم آہستہ آہستہ گاڑی چلا رہے تھے۔ ڈر اس بات کا تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہوجائے، ویسے ہمارے پاس سعودی عرب کا ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں تھا لیکن کیونکہ ہم گاڑی کالج کے اندر چلا رہے تھے اس لیے کسی شرطے کی جانب سے روکنے کا امکان نہیں تھا، ویسے کوئی حادثہ ہو جاتا تو ضرور گڑبڑ ہوجاتی۔ خدا خدا کر کے رہائشی علاقے میں داخل ہوئے ،منزل پر پہنچ کر سکون کا سانس لیا، واپسی پر بھی یہی کیفیت رہی، گاڑی میں اے سی ہونے کے باوجود پسینہ ہمارے ماتھے پر چمک رہا تھا۔ سعودی عرب میں کسی زمانے میں بڑی اور لمبی چوڑی امریکی گاڑیوں کا بول بالا تھا لیکن اب غربت یہاں بھی دستک دے چکی ہے، لمبی امریکی گاڑیوں کی جگہ چھوٹی جاپانی گاڑیوں نے لے لی ہے۔ اس کے باوجود جی ایم سی یہاں کی مقبول گاڑی ہے ، جی ایم سی کو چھوٹا سا ٹرک سمجھ لیں۔ بڑی پجارو یا لینڈ کروزر کے سائز کی یہ گاڑی سعودیوں کی محبوب گاڑی ہے، ان کے گھر میں ایک چھوڑ دو یا تین کاریں ہوں پھر بھی جی ایم سی کا ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جی ایم سی صحرا ء میں سفر کیلیے آئیڈیل ہے اور اس میں بہت سا سامان اور بہت سے لوگ ایک ساتھ سفر کرسکتے ہیں۔ ہمیں ڈبل کیبن گاڑی چلانے کو ملی تھی اور یہ بھی سعودی عرب میں بہت مقبول تھی۔ اس گاڑی کے ڈالے میں ہم نے کئی بار اونٹ بھی بندھے دیکھے، اونٹ کو پکڑ کر ڈالے میں کیسے بٹھاتے ہوں گے یہ ہم نہیں دیکھ سکے ۔کئی بار سوچا بھی کہ پورا اونٹ ڈبل کیبن کے ڈالے میں کیسے بٹھایا جاتا ہوگا لیکن ہماری سوچ ہر مرتبہ جواب دے گئی۔
اونٹ عرب بدوؤں کی زندگی میں اسی طرح شامل ہیں جیسے ہماری زندگیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ شامل ہو گئی ہے، ویسے سعودی عرب میں لائٹ نہیں جاتی، تیل کی بھرمار کی وجہ سے پاور پلانٹ دن رات چلتے ہیں اور عوام کو بلا کسی رکاوٹ کے بجلی چوبیس گھنٹے دستیاب رہتی ہے۔ شدید گرم موسم کی وجہ سے یہاں اے سی چلانا عیاشی نہیں مجبوری ہے۔ ریاض میں شدید گرمی پڑتی ہے، جون جولائی میں یہاں کا درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈیا اس سے بھی کچھ اوپر پہنچ جاتاہے۔ گرمی کے ساتھ شمال کی جانب سے آنے والی گرد و غبار کی لہر بھی ہو تو موسم ناقابل برداشت ہوجاتاہے۔ شدید گرمی کے اس سیزن کو “کھجور پکانے” والا سیزن کہا جاتا ہے۔ کھجورکی مرضی پکے یا نہ پکے، شدید گرمی سے لوگوں کا دماغ ضرور پکنے لگتا ہے۔ اتنے سخت موسم میں بھی ہمارے پاکستانی بھائی اور دیگر غریب ملکوں کے باسی عمارتوں، پلوں اور سڑکوں پر اپنا خون پسینہ بہاتے نظر آتے ہیں۔ سعودی عرب کے تقریبا 35 فی صد مزدور بیرون ملک سے آئے ہوئے ہیں، پاکستان، بھارت، مصر، بنگلا دیش اور فلپائن سے تعلق رکھنے والے مزدور یہاں زیادہ نظرآتے ہیں، ایک مزدور کی اوسط تنخواہ تقریباً 800 ریال ماہانہ یاتقریباً 9600 ریال سالانہ ہے۔ اْن کے اخراجات میں اقامے کی تجدید، تامین کی فیس، مکتب عمل کی فیس ، رہائش کا کرایہ اور روزانہ کھانے پینے کا خرچہ شامل ہے۔ پھر انہیں اپنے گھر بھی پیسے بھیجنے پڑتے ہیں۔ دیکھا جائے تو سال بھر کا خرچ اْن کی آمدنی سے زیادہ ہے اس لیے ملازمت کے بعد وہ کچھ اور کام بھی کرلیتے ہیں جن میں قلی گیری، پورٹر، کاروں کی دھلائی، ورکشاپ میں کام، صفائی کا کام، بجلی کی مرمت وغیرہ شامل ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا کام کرتے ہوئے پکڑے گئے تو سزا الگ اور سزا بھگتنے کے بعد اپنے ملک کو ڈی پورٹ کردئے جاتے ہیں۔ یہاں بندۂ مزدور کے اوقات صرف تلخ نہیں سخت ترین تلخ ہیں۔۔۔۔۔ جاری ہے
٭٭
سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھ...
سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...
اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...
ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...
مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...
صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...
نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...
نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...
رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...
ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...
ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...