وجود

... loading ...

وجود
وجود

سفر یاد۔۔۔ آخری قسط

منگل 31 جنوری 2017 سفر یاد۔۔۔ 		آخری قسط

سیمی خوش مزاج آدمی تھا اس کے ساتھ کام کرنا اچھا تجربہ ثابت ہوا تھا اس کے مقابلے میں یہ نیا انچارج شنکر کمار بہت بد دماغ اور بداخلاق واقع ہوا تھا۔ ہماری پہلے ہی دن سے اس سے ٹھن گئی ، مشکل یہ تھی کہ وہ نیا تھا اور ابھی اسے کام سمجھنا تھا اس لئے وہ ہم سے زیادہ بدتمیزی نہیں کرسکتا تھا۔ ہم نے خلوص دل کے ساتھ کام سمجھنے میں اس کی مدد کی جیسے جیسے شنکر کی گرفت کام پر بڑھتی گئی اس کا رویہ ہمارے ساتھ خراب سے خراب ہوتا چلا گیا۔ اس نے ہمیں تنگ کرنا شروع کردیا۔ بات بے بات ڈانٹ ڈپٹ اور خراب زبان کا استعمال اس کا وطیرہ تھا۔ ہم نے مصری منیجر سے شکایت بھی کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شنکر کا رویہ جلال صاحب کے ساتھ بھی برا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کا رویہ سب کے ساتھ برا ہو بھارتیوں اور دیگر ممالک کے لوگوں کے ساتھ اس کا رویہ عام طور پر نرم رہتا تھا لیکن ہم اور جلال صاحب اس کی بد اخلاقی کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ ہم نے جلال صاحب سے کہا ایسا لگتا تھا شنکر کو پاکستان اور پاکستانیوں سے خاص پرخاش ہے جلال صاحب نے ہماری بات سے اتفاق کیا ہم نے کہا ہم دونوں کو مصری منیجر سے بات کرنی چاہیئے۔ اس روز لنچ ٹائم میں ہم اور جلال صاحب مصری منیجر کے پاس پہنچ گئے جلال صاحب کی عربی بہت اچھی تھی انہوں ںے مصر منیجر سے عربی میں بات چیت شروع کردی۔ ہماری سمجھ میں زیادہ تو نہیں آرہا تھا لیکن ان دونوں کی گفتگو کے دوران شنکر کا نام بھی ایک دو بار آیا۔ ہم نے اندازہ لگایا کہ اصل بات چیت کچھ اور ہو رہی تھی اور شنکر کا تزکرہ بھی بیچ میں ایک دو بار آگیا تھا۔ ہم چپ چاپ بیٹھے سنتے رہے کچھ دیر بعد جلال صاحب مصری منیجر کو سلام کرکے کھڑے ہو گئے ہم بھی ان کے ساتھ باہر نکل آئے ہم نے پوچھا کیا بات ہوئی جلال صاحب نے بتایا مصری منیجر کا کہنا تھاکہ صرف آپ دونوں کو اس سے شکایت ہے ورنہ باقی سب تو اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔اس لئے جلال صاحب نے اس سے ادہر ادھر کی باتیں شروع کردیں۔ اگلے روز شنکر نے کسی بات پر کہا تم پاکستانی ہوتے ہی سست ہو ہم اس بات پر بھڑک گئے ہم نے سخت الفاظ میں اسے تنبیہ کی کہ ہم کو وہ جو چاہے کہہ سکتا ہے لیکن پاکستان کے خلاف ہم ایک لفظ برداشت نہیں کریں گے۔ تو تو میں میں بڑھی شنکر نے پاکستان کو گالی دے دی بس پھر کیا تھا ہمارا ضبط کا بند ٹوٹ گیا ہم نے شنکر کے گال پرایک بھرپور تھپڑ مارا جس کی آواز دفتر میں گونج گئی، دفتر میں ایک دم سناٹا چھا گیا۔ شنکر کچھ دیر سناٹے میں رہا پھر اس نے مغلظات بکنا شروع کردیں، ہم اسے مارنے کیلئے آگے بڑھے تو دیگر لوگوں ںے ہمیں روک لیا اور کھینچ کر دفتر سے باہر لے گئے۔ شنکر کے منہ پر ہمارے تمانچے کی گونج پورے کالج میں سنی گء، مصری منیجر نے ہمیں اپنے دفتر میں طلب کرلیا جہاں کالج انتظامیہ کی جانب سے محمد رویلی اور ایک دوسرا افسر موجود تھا۔ رویلی کو ہم شنکر کے رویے کے بارے میں پہلے بھی بتا چکے تھے مصری منیجر سے بھی کئی بات شکایت کر چکے تھے سب کو معلوم تھا کہ قصور ہمارے انچارج شنکر کا تھا۔ ہم نے تسلیم کیا کہ ہم نے شنکر کو تھپڑ مارا ہے۔ ان سب کا کہنا تھا گرما گرمی کو زبان تک محدود رکھنا چاہیئے تھا ہاتھ اٹھانے سے معاملہ خراب ہو گیا ہے۔ ان لوگوں نے شنکر کو بھی طلب کیا اور ہم سے کہا گیا کہ اس سے معافی مانگیں، ہم نے کہا اس شخص نے پاکستان کو گالی دی ہے اس لئے اس سے معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مصری منیجر نے ہمیں چارروز کے لئے معطل کردیا۔۔ ہمارے تھپڑ کی بات ولا تک پہنچ چکی تھی وہاں منیب اور علی سمیت دیگر پاکستانیوں ںے اس پر خوشی کا اظہار کیا دوسری جانب بھارتیوں کا رویہ خاصہ جارحانہ تھا۔ ہم نے چار دن ولا میں گزارے۔ یہاں سب لوگ صبح اپنے کاموں پر نکل جاتے تھے اورولا میں ویرانی کا راج ہوتا تھا ہم صبح ناشتے کے بعد ولا کے چھوٹے سے لان کے پاس جا کر بیٹھ جاتے تھے پودوں کو پانی دیتے، کانٹ چھانٹ کرتے،دسمبر شروع ہو چکا تھا، موسم کی سختی کم ہو چکی تھی اس لئے پودوں نے رنگ روپ نکالنا شروع کردیا تھا۔چار دن تک ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ بات بڑھی تو ہم پاکستان واپس جانے کی درخواست کردیں گے۔
ان چار دنوں کے دوران ہمارے خلاف انکوائری چلتی رہی۔ چار دن بعد کالج پہنچے تو ہمیں مصری منیجر نے طلب کرلیا۔ اس نے کہا آپ ابھی اپنے دفتر نہ جائیں شنکر نے آپ کے خلاف فضا بنا دی ہے وہاں جھگڑے کا اندیشہ ہے۔ اتنے میں جلال صاحب بھی وہاں پہنچ گئے، ان کے اور مصری منیجر کے درمیان عربی میں بات چیت ہونے لگی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ اس گفتگو کا محور ہم ہی تھے۔ کچھ دیر بعد مصری منیجر نے کہا کمپنی کی منیجمنٹ تم کو کسی اورسائٹ پر بھیجنا چاہتی ہے جبکہ کالج کی مینجمنٹ تم کو یہیں رکھنا چاہتی ہے ایسے میں میرے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے ہم نے کہا ہمیں واپس پاکستان بھیج دیں۔ مصری منیجر نے کہا مسئلے کا حل تو یہی ہے میں کمپنی اور کالج انتظامیہ سے بات کرتا ہوں اس وقت تک تم کالج آؤ گے لیکن اپنے دفتر میں نہیں بلکہ جلال صاحب کے ساتھ بیٹھو گے۔ اسی روز ہم محمد رویلی سے ملے اور اس سے درخوست کی کہ ہم پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں اس لئے وہ کمپنی سے ہمیں واپس بھیجنے کے لئے کہے۔ رویلی نے کمپنی انتظامیہ سے ہمیں واپس پاکستان بھیجنے کے لئے کہا اب کمپنی کے پاس ہمیں واپس بھجوانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا وہ ہمیں کسی اور سائٹ پر بھی نہیں بھیج سکتے تھے۔ دو دن بعد ہمیں ہیڈ آفس بلایا گیا جہاں ہم سے کچھ کاغزات پر دستخط لئے گئے اور اگلے روز صبح دس بجے تیار رہنے کے لئے کہا گیا۔ ولا پہنچ کر ہم نے علی اور منیب وغیرہ کو بتایا کہ صبح دس بجے ہمیں شائد دوبارہ ہیڈ آفس جانا پڑے انہوں نے ہماری ڈھارس بندھائی اوراچھی امیدرکھنے کی صلاح دی۔ اگلی صبح دس بجے کمپنی کی گاڑی ہمیں لینے کیلئے پہنچی ڈرائیور نے کہا اپنا سامان پیک کرلیں آپ کا ٹکٹ اور پاسپورٹ میرے پاس ہے مجھے آپ کو ایئرپورٹ چھوڑنا ہے۔ ہمیں ایسے اچانک واپسی کی امید نہیں تھی خیر جلدی جلدی سوٹ کیس میں کپڑے اور دیگر سامان بھرا، نہا دھو کر کپڑے تبدیل کئے اور گاڑی میں سوار ہو گئے۔ گاڑی ریاض ایئرپورٹ کی جانب رواں دواں تھی ہم سوچ رہے تھے کہاں ہم وطن واپس جانے کے لئے اتنے بے تاب تھے اور کہاں اس طرح اچانک اڑان کا پروانہ مل گیا تھا، ہم نے ڈرائیور سے کہا ہمیں کچھ دیر کے لئے کالج لے جائے تاکہ ہم اپنے دوستوں سے الوداعی ملاقات کرسکیں لیکن ڈرائیور نے کہا کالج ایئرپورٹ کے راستے میں نہیں پڑتا اس لئے وہ ہمیں وہاں نہیں لے جا سکتا، راستے میں ایک پبلک کال آفس سے ہم نے گھر فون کیا اور والد کو اپنی واپسی کی اطلاع دی۔ وہ بھی ہمارے اس طرح اچانک واپسی پر حیران تھے۔ کچھ ہی دیر میں ہم ریاض ایئرپورٹ کے لاونج میں بیٹھے تھے، کالج ، جنادریہ ، نسیم ولا، اس کے لان کے پودے،جلال صاحب، گلزار، ولا کے ساتھی، سب کچھ پیچھے رہ گیا تھا۔ کسی نے سچ ہی تو کہا ہے آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے، آتے جاتے راستے میں کہانی چھوڑ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد
٭٭


متعلقہ خبریں


سفر یاد۔۔۔ قسط49 شاہد اے خان - پیر 30 جنوری 2017

سیمی کو گئے کئی مہینے ہو گئے تھے اس کی واپسی کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس کا کام بھی ہمارے زمے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے کام کی تھکن بڑھتی جا رہی تھی۔ کئی بار کام کی زیادتی کی وجہ سے ہمیں دیر تک رکنا پڑتا تھا۔ ہمیں سیمی کا بھی کام کرنے کی وجہ سے کوئی مالی فائدہ بھی نہیں مل رہا تھا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط49

سفر یاد۔۔۔ قسط47 شاہد اے خان - هفته 28 جنوری 2017

اگلے روز یعنی جمعے کو ہم عزیزیہ کے ایک پاکستانی ہوٹل میں ناشتہ کرنے کے بعد مکہ شریف کے لیے روانہ ہوئے، جدہ حدود حرم سے باہرحِل کی حدود میں ہے۔ حرم شریف اور میقات کے درمیان کے علاقے کو حِل کہا جاتا ہے اس علاقے میں خود سے اگے درخت کو کاٹنا اور جانور کا شکار کرنا حلال ہے جبکہ اس علا...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط47

سفر یاد۔۔۔ قسط46 شاہد اے خان - جمعرات 26 جنوری 2017

ہمارے دوست اظہار عالم کافی عرصے سے جدہ میں مقیم تھے ہم نے عمرہ پر روانگی سے پہلے انہیں فون کرکے اپنی ا?مد کی اطلاع دیدی تھی، طے ہوا تھا کہ وہ جمعرات کو صبح دس بجے باب فہد کے سامنے ایک بینک کے پاس پہچیں گے۔ ہم ساڑھے نو بجے جا کر اس بینک کے سامنے جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہاں کافی لوگ موج...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط46

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔ شاہد اے خان - اتوار 22 جنوری 2017

مکہ المکرمہ سے مدینہ شریف کا فاصلہ تقریبا ساڑھے چار سو کلومیٹر ہے، راستے بھر مشہور نعت مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ ذہن میں گونجتی رہی، ہماری آنکھیں سارے راستے پُر نم رہیں۔ مدینے کا راستہ محبت کی معراج کا وہ راستہ ہے جس پر بڑے بڑے صحابہ ، علما، صوفیہ اور بزرگان دین نے...

سفر یاد۔۔ قسط۔45۔

سفر یاد۔۔۔ قسط44 شاہد اے خان - جمعه 20 جنوری 2017

صبح فجر سے پہلے ہماری بس مکہ مکرمہ کے ہوٹل پہنچ گئی، دل میں عجب سی ہلچل مچی ہوئی تھی، کعبہ شریف کے اس قدر قریب ہونیکا احساس جیسے دل کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ، کوشش تھی کہ فوری طور پر حرم شریف پہنچیں اور اللہ کے گھر کا دیدار کریں۔ اللہ کا گھردنیا میں وہ پہلی عبادت گاہ ہے جو انسانوں ک...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط44

سفر یاد۔۔۔ قسط43 شاہد اے خان - جمعرات 19 جنوری 2017

نسیم ولا اور کالج میں شب و روز اپنی مخصوص چال سے گزر رہے تھے۔ روز صبح کو شام کرنا اور شام کو صبح کا قالب بدلتے دیکھنا اور اس کے ساتھ لگی بندھی روٹین کو فالو کرنا یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت بن چکی تھی۔ ایک بے قراری تھی، ایک بے کلٰی تھی جو دل میں بسنے لگی تھی۔ ہم لوگ روٹین کے ایس...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط43

سفر یاد۔۔۔ قسط42 شاہد اے خان - بدھ 11 جنوری 2017

نسیم ولا میں دن اچھے گزر رہے تھے۔ ایک دن باتوں کے دوران ہم نے کہا لگتا ہے ریاض میں کوئی گھومنے کی جگہ نہیں ہے ،ہوتی تو ہم لوگ وہاں کا چکر لگا آتے، نسیم کے علاقے میں جہاں ہمارا ولا تھا وہاں ہمیں نہ تو کوئی پارک نظر آیا تھا نہ کوئی اور ایسی جگہ جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں۔ سنیم...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط42

سفر یاد۔۔۔ قسط41 شاہد اے خان - هفته 07 جنوری 2017

رات کے نو بج رہے تھے ہمیں پی ٹی وی سے خبر نامے کا انتظار تھا لیکن خبریں شروع نہیں ہوئیں، ہم نے علی سے کہا نو بج گئے خبرنامہ شروع نہیں ہو رہا پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے، علی بولا نو ہماری گھڑی میں بجے ہیں وہاں پاکستان میں رات کے گیارہ بج رہے ہیں ہمیں احساس ہوا کہ سعودی عرب میں ہم پاکست...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط41

سفر یاد۔۔۔ قسط40 شاہد اے خان - جمعه 06 جنوری 2017

ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط40

سفر یاد۔۔۔ قسط39 شاہد اے خان - جمعرات 05 جنوری 2017

ہم ڈش انٹینا کا سامان اٹھائے بطحہ کے مرکزی چوک پہنچے تو ایک عجیب منظر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہاں کچھ ٹیکسیاں اور کاریں کھڑی تھیں جن کے ڈرائیور کاروں کے باہر کھڑے مسافروں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ خمسہ ریال، خمسہ ریال۔ منظر عجیب اس لیے تھا کہ آوازی...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط39

سفر یاد۔۔۔ قسط38 شاہد اے خان - بدھ 04 جنوری 2017

ولا میں دوسرا مہینہ گزر رہا تھا، ہم نے اپنے کمرے کے لیے ٹی وی خرید لیا تھا لیکن اس پر صرف سعودی عرب کے دو لوکل چینل آتے تھے۔ ولا کی چھت پر کئی ڈش انٹینا لگے ہوئے تھے لیکن وہ بھارتیوں یا سری لنکنز نے لگائے ہوئے تھے اس لیے کسی پر پاکستانی ٹی وی چینلز نہیں آتے تھے۔ اس وقت سعودی عرب ...

سفر یاد۔۔۔ 		قسط38

سفر یاد۔۔۔ قسط36 شاہد اے خان - اتوار 01 جنوری 2017

ہم کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے، صورتحال یہ تھی کہ سب کے حصے میں ایک ایک روٹی اور ایک ایک کباب آیا تھا، ہمارے حصے میں صرف ایک روٹی آئی تھی پھر منیب کو شائد ہماری حالت پر رحم آگیا اور اس نے ہمیں کچن میں جا کر مزید ایک کباب تلنے کی اجازت دیدی۔ ہم جلدی جلدی میں کباب تل کر واپس لوٹے تو ...

سفر یاد۔۔۔ قسط36

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر