وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہ اقتدارپانے کی حرص ہے

جمعرات 16 مارچ 2023 یہ اقتدارپانے کی حرص ہے

راؤ محمد شاہد اقبال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم زمانے میں جب نقل و حمل کے لیے جدید ذرائع ایجاد نہیں ہوئے تھے تو اُس وقت بیل گاڑی سفر کرنے کے لیئے ایک بہترین سواری سمجھی جاتی تھی ۔یاد رہے کہ بیل گاڑی کے ذریعے سفر کا رواج دو ،تین دہائیوں قبل ہماری دیہاتی زندگی کا بھی ایک ناگزیر حصہ ہوا کرتا تھااور دیہات اور قصبات سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ بیل گاڑیوں کو مال برداری اور سفر کے لیئے عام استعمال کیا کرتے تھے۔ عام طور پر بیل گاڑی کے ساتھ ایک کتا بھی ضرور ہوا کرتا تھا ۔جو چلتی ہوئی بیل گاڑی کے نیچے تیزی کے ساتھ دوڑتا ہوا دکھائی دیتاتھا ۔دلچسپ بات یہ ہے بیل گاڑی اور اُس کے زیر سایہ چلنے والے کتے کے حوالے سے حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ انسانی نفسیات کی وضاحت کرنے والا ایک لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ چلتی بیل گاڑی کے نیچے چلنے والا کتا، اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی کہیں جاتاہے تو وہ فوراً بھاگ کر واپس بیل گاڑی کے نیچے ضرور آجاتاہے ،کیونکہ بیل گاڑی کے نیچے چلنے والا کتا سمجھتاہے کہ یہ بیل گاڑی میری وجہ سے چل رہی ہے۔ اگر میں اِس کے نیچے سے تھوڑی دیر کے لیے بھی اِدھر اُدھر ہوجاؤں گا تو یہ بیل گاڑی چلنا موقوف کردے گی ‘‘۔
یہ بات بیان کرکے امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ہم میں سے بعض انسان بھی بیل گاڑی کے نیچے چلنے والے کتے ہی کی خصلت رکھتے ہیں اور وہ بھی اِس خود ساختہ غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ یہ دنیا اور اِس کا تمام نظام حیات اُ ن کے دم قدم سے ہی چل رہا ہے اور اگر اُن کی ذات بابرکات نہ ہو تو یہ دنیا اور اِس کا کاروبارِ زیست اگلے ہی لمحے یک لخت بند ہوجائے گا۔ اگر ہم اپنے اردگرد باریک بینی سے جائزہ لیں تو عین ممکن ہے کہ ہمیں بھی کئی ایسے لوگ دکھائی دے جائیں جن کی زبان سے صبح و شام بس یہ ہی گردان سننے کو ملتی ہوکہ ’’اگر میں گھر میں نہیںر ہوں گا یہ ٹوٹ کر بکھرجائے گا ‘‘۔’’کوئی میرے بغیر ایک دن بھی کاروبار نہیں چلاسکتا‘‘۔ ’’ اگر میں ملازمت چھوڑ دوں تو یہ کمپنی چار،دن میں بند ہوجائے گی ‘‘۔یہ اور اس جیسے تمام جملے صرف وہی شخص اپنی زبان سے باربار ادا کرسکتاہے ، جسے دنیا کے فانی ہونے سے زیادہ اپنے لافانی ہونے کا یقین ہو۔ دراصل یہ ایک طرح کی’’ خبط عظمت ‘‘ کی بیماری ہے اور اِس مرض میں مبتلا شخص سب کچھ صرف اپنے آپ کو ہی سمجھتاہے ۔لہٰذا، وہ شخص اپنی جان ،مرتبہ اور حیثیت کی حفاظت کے لیئے اگر ضرورت پڑے تو اپنے آس پاس بسی ہوئی ساری دنیا کو بھی جلا کر بھسم کر سکتاہے ۔ کیونکہ یہ شخص کامل ایمان رکھتا ہے کہ اُس کی ذات اعلیٰ صفات کے بغیر سب کچھ لایعنی ، بے کار اور فضول ہے ۔یوں اِس سوچ کے حامل فرد کے لیئے اپنا بسابسایا گھر ، اچھی خاصی ملازمت اور چلتا ہوا کاروبار ملیامیٹ کرنا منٹوں کا کام ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ یہ مرض اگر گھر کے سربراہ کو لاحق ہو جائے تو اِس کی سزا،اُس کے پورے خاندان کو بھگتناپڑتی ہے ،اگر یہ بیماری کسی کمپنی یا ادارے کے مالک کو اپنا شکار بنا لے تو اِس کا خمیازہ وہاں کام کرنے والے ہرشخص کو اداکرنا پڑتاہے اور خدانخواستہ اگر اِس مرض کا شکار کوئی قومی سطح کا سیاسی رہنما یا مذہبی مصلح ہوجائے تو پھر اُس کی قیمت پوری قوم ، سماج اور معاشرہ کو سُود سمیت مدتوں دینا پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے گزشتہ 75 برس میں ہمارے ملک میں کئی ایسے نام نہاد عوام دوست اور اسلام دوست رہنما سیاسی اُفق پر نمودار ہوئے ، جو اِس سنگین بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے سمجھتے تھے کہ اُن کے بغیر پاکستان چلنا تو بہت دور کی بات ہے، رینگ بھی نہیں سکتااور اُن سب رہنماؤں کے وہم ِ قبیح کی بھاری قیمت پاکستانی قوم آج بھی سود سمیت ادا کررہی ہے ۔المیہ ملاحظہ ہو کہ ابھی ہم من حیث القوم ،خبط عظمت میں مبتلا ماضی کے رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی ریشہ دوانیوں کے اثرات ِ بد سے پوری طرح چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے تھے ، کہ مرے کو مارے ،شاہِ مدار کے مصداق، عمران خان کی صورت میں خبط عظمت کے ساتھ ساتھ خبط مسیحائی کے خوف ناک مرض کا شکاررہنما ملک کے سیاسی اُفق پر نمودار ہوگیا ہے ۔ اگر ہم عمران خان کے بیانات، اقوال ، نظریات اور افکار کا خلاصہ بیان کریں تو وہ بس اتنا سا بنتاہے کہ پاکستان کی بقا اور سا لمیت کا انحصار فقط موصوف کی ذات بابرکات کا ہی مرہون منت ہے ۔ لہٰذا، ریاست ِپاکستان ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی زندگیوں سے بھی زیادہ قیمتی اور بڑھ کر اگر کوئی شے ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان کی ذات ہے۔
یاد رہے کہ تاج و تخت اور اقتدار ہمیشہ کے لیے تو کبھی بھی کسی ایک حکم ران کے پاس نہیں رہتا اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ اور حکمران مسندِ اقتدار سے ایک بار نہیں بلکہ بار بار بھی محروم ہوتے رہے ہیں ۔لیکن اپنے ساڑھے تین سالہ اقتدار جانے کا جتنا دُکھ اور صدمہ عمران خان کو پہنچا ہے ۔ شاید اتنا دُکھ توآخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی نہیں ہواہوگا ، جن کے پرکھوں کی صدیوں پرانی بادشاہت کو انگریزسرکارنے ایک دن میں تاراج کر کے رکھ دیا تھا۔ عمران خان کا اقتدار کیا گیا ،انہوں نے تو اِس معمول کے ایک جمہوری واقعہ پر ایسے واویلا کرنا شروع کردیا کہ جیسے وطن عزیز پاکستان کا اقتدار ِ اعلیٰ اُن کی جدی پشتی ذاتی جاگیر یا میراث ہو ، جسے حزب اختلاف کی جماعتوں نے تحریک عدم کا کامیاب بنا کر اُن سے چھین لیاہے۔ خیر، اقتدار سے جمہوری انداز میں نکالے جانے کے بعد اُن کی جانب سے آہ و بکا اور سینہ کوبی کرنا تو بالکل بنتا تھا ۔لیکن عمران خان جلد ازجلد واپس اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنے احتجاج کے دیوتا کے آگے اپنی جماعت کے معصوم اور سادہ لوح کارکنان کی بھینٹ چڑھانا شروع کردیں گے۔ شاید اِس کا کسی نے خواب و خیال میں تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان اقتدار پانے کی راہ میں سب کچھ روا سمجھتے ہیں ۔ لہٰذا علی بلال عرف ظل شاہ کی موت عمران خان کو ایوانِ اقتدار تک لے کرجانے والی پہلی قربانی تو ضرور ہے ،مگر آخری بالکل بھی نہیں ہے ۔کیونکہ عمران خان کواگر اقتدار تک پہنچنے کے لیے بائیس کروڑ مجبور اور مقہور عوام کو بھی قربان کرنا کا موقع ملا تو یقین مانئے ! کہ موصوف ایک لمحہ سے کم وقت میں یہ بھی کرگزریں گے۔ کیونکہ عمران خان کو آخری درجہ کا ایمان ِ کامل ہے کہ وطن عزیز پاکستان اُن کے اقتدار کے بغیر چل نہیں سکتااور اگر کوئی چلانے کی کوشش کرے گا تو وہ اُسے چلانے نہیں دیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر