وجود

... loading ...

وجود
وجود

انصاف سے زیادہ وار کرنے پرتوجہ

هفته 07 جنوری 2023 انصاف سے زیادہ وار کرنے پرتوجہ

انصاف یقینی بنانے میں آزادانہ اور شفاف تحقیقات اہم کردار ادا کرتی ہیں بدقسمتی سے ہمارے ہاں انصاف سے زیادہ جس سے نفرت ہو اُس پر وارکرنے اور ملوث کرانے پرنہ صرف توجہ دی جاتی ہے بلکہ سزادلانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اِس دوران دبائو اور دولت کے بے دریغ استعمال سے بھی گریز نہیں کیا جاتا آزادانہ و شفاف تحقیقات میں رکاوٹیں ڈالنے کا ہی نتیجہ ہے کہ جُرم میں ملوث لوگ یا تو صاف بچ نکلتے ہیں یاپھر اُنھیں کیے سے بہت کم سزا ملتی ہے دور کیوں جائیں بے نظیر بھٹو جب وزیرِ اعظم تھیں تو اُن کا سگابھائی کراچی کی ایک اہم شاہراہ پردن دیہاڑے مار دیا گیالیکن زمہ داران کا آج تک تعین نہیں ہوسکا بعدمیں بہن بھی بھرے ہجوم کے درمیان جان سے چلی گئیں لیکن مرضی کے نتائج لینے کی خواہش ہی دراصل ابھی تک ملزمان تک پہنچنے میں رکاوٹ ہے بیان بازی کافی ہوئی لیکن انصاف حاصل کرنے سے زیادہ توجہ سیاسی فوائد بٹورنے پر رہی ستم ظریفی تویہ ہے کہ پے درپے نقصان اُٹھانے کے باوجودآج بھی ملک کی سیاسی قیادت پرانی روش پر گامزن ہے اوراُس کے نزدیک انصاف سے زیادہ مخالف پر وار کرنااہم ہے من پسندنتائج حاصل کرنے کے لیے اِداروں کی ساکھ سے کھیلنے کوبھی جائز تصورکیا جانے لگاہے۔
گزشتہ برس تین نومبر کوعمران خان پر وزیرِآباد میں حملہ ہوا جس میں وہ زخمی ہوئے اور ایک کارکن جان سے گیامگر ڈی پی اوغضنفر گیلانی کی طرف سے کیے گئے سخت ترین حفاظتی انتظامات کی بدولت حملہ آورکے علاوہ کچھ مشتبہ افراد کو موقع سے حراست میں لیا گیا بلکہ ایسے انتظامات کیے گئے جس سے مزیدخرابی نہ ہوئی کنٹینر پر سوار دھرنا دینے پر بضدبپھرے رہنمائوں سے بات چیت کرنااور موقع سے جانے پرراضی کرنے جیسے مراحل ہی آسان نہ تھے بلکہ ہزاروں مشتعل کارکنوںکو جلائو گھرائو اور توڑپھوڑ کرنے سے بازرہنے پربھی رضامند کیا کیونکہ ماضی میں یسے کسی واقعہ کے بعد کارکنوں کا سخت ردِعمل اور املاک کابے دریغ نقصان دیکھنے میں آتا رہا وزیرِ آباد حملے کے بعد مزیدناخوشگوارواقعات کو روکنا پولیس سربراہ کی پیشہ وارانہ مہارت اور بہتر حکمتِ عملی کی بدولت ممکن ہوامگرآزادانہ اور شفاف تحقیقات سے روکنے اور پی ٹی آئی قیادت کی ایماپرجن سے اُسے شدید نفرت ہے کے خلاف اندراجِ مقدمہ و گناہگار قرار دینے سے انکاراب پولیس کی بدنامی کا موجب بنتاجارہا ہے حالانکہ ڈی پی او کے ماتحت اکثر کہتے سنائی دیتے ہیں کہ علی محسن کاظمی کے بعدیہ ایسا اچھا آفیسر آیا ہے جوانصاف کے لیے ہر حدتک چلاجاتا ہے گھنٹوں تفتیش سے بھی نہیں اُکتاتا اسی طرح ایس پی انویسٹی گیشن مزمل حسین بھی سوفیصد ایماندار اور میرٹ پسند شخص ہے پھر بھی پی ٹی آئی قیادت اگر مطمئن نہیںتواِس رویے پرحیرت کا اظہارکرنے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے ۔
پی ٹی آئی کے لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ پولیس نے جس بندے کو گرفتار کیااُس کی تھانہ میں سوال و جواب کی ویڈیو کیوں بنائی اوریہ ساراعمل اِتنا مہذب کیوں رہانیزویڈیو اتنی جلدی صحافیوں کے ہاتھ کیسے لگی؟ایسے سوالات پختہ زہن کے نہیں۔ کوئی معمولی سا بھی جُرم سرزد ہو تو گرفتار ہونے والوں سے فوری طورپر ابتدائی پوچھ تاچھ کر لی جاتی ہے یہ دنیابھر میںہرجگہ پولیس کی ایک عام روٹین ہے مگر عمران خان نہ صرف ملک کے وزیرِ اعظم رہ چکے بلکہ اب بھی مقبول ترین جماعت کے سربراہ ہیں اِس لیے پولیس نے سرعت کامظاہرہ کیا تاکہ اصل سچ جان سکے ابتدائی بیان کی ریکارڈنگ کا مقصد حکامِ بالا کوتازہ ترین معلومات سے باخبررکھنا تھاکیونکہ اخبار یا چینل کاکوئی نمائندہ کچھ پوچھے تو بڑے صاحب کے پاس کچھ بتانے کو ہو یہیں سے ہی کہیں ویڈیو غیر محفوظ ہاتھوں میں گئی ( بڑے صاحب کے بارے معلوم ہوا ہے کہ لمبی رخصت پر چلے گئے ہیں ایک غیر مصدقہ یہ اطلاع بھی ہے کہ بیرونِ ملک جاچکے ہیں اور دوباہ گجرات آنے پر آمادہ نہیں) دوسرا یہ کہ اکثر ملزمان پولیس کی حراست میں دیے اپنے بیان سے عدالتوں میں جا کر منحرف ہوجاتے ہیں اور موقف اختیار کرتے ہیں کہ پولیس نے تشدد سے بیان لیاہے عدالتیں بھی پولیس حراست میں دیے بیان سے زیادہ عدالت میں دیے بیان کو اہمیت دیتی ہیں اب اگر زیرِ حراست ملزم کو زمین پر گراکر مارپیٹ کرتے ہوئے بیان لیا جاتا اور یہ ویڈیو کسی صحافی کے زریعے سامنے آتی توزرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں پولیس کے بارے کیسا تاثر بنتا اوراُسے کیسے ردِ عمل کا سامنا ہوتانیز عدالت میں بیان کی کیا حثیت رہ جاتی؟گجرات پولیس نے تو ابتدائی پوچھ تاچھ کے بعد یہ ملزم بھی سی ٹی ڈی کے حوالے کردیا تھاپھر بھی ناقابل فہم الزام تراشی جاری ہے یہ بات تحریکِ انصاف کی قیادت کو کون سمجھائے وہاں توعقل و دلیل سے زیادہ دھونس کی پالیسی رائج ہے خیرجہاں فواد چوہدری جیسے لوگ مقربین ہوں وہاں عقل ودلیل کا کیاکام؟موصوف کاسارا خاندان اُسے اوراُس کی جماعت کوکب کا چھوڑکر الگ ہوچکااِسے بھی گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کا تجربہ ہے جو اپنی نشست جیتنے کے چکر میں ابھی تک جماعت سے چپکا بیٹھاہے جونہی مناسب دعوت ملی یہ بھی الگ ہونے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرے گا ۔
تحریکِ انصاف کو شکوہ ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام بنانے میں عسکری قیادت نے اپنے رعب ودبدبے کاا ستعمال نہیں کیااگر کیا ہوتا تودرجن بھر مختلف الخیال جماعتیں ہر گز یکجا نہ ہوتیں اور نہ ہی حکومت کی اتحادی جماعتیں الگ ہوتیں مگر ایسا شکوہ کرتے ہوئے یہ کیوں بھلا دیا جاتا ہے کہ ممبرانِ پارلیمنٹ کووزیرِ اعظم وقت ہی نہیں دیتے تھے اور زیادہ وقت پاکستان سے زیادہ خودکو ایک عالمی رہنماکے طورپرمنوانے کی تگ ودو میں رہے یہ بے نیازی اور بے رُخی بددلی پھیلاتی گئی اوراتحادی ممبرانِ پارلیمنٹ نے حکومت سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیا حالات زیادہ خراب ہوتے دیکھ کر راجہ ریاض جیسے ابن الوقت اور مفاد پرست بھی حکومتی کشتی سے چھلانگ لگا گئے اِس واضح نُکتے کی عمران خان یا اُن کے ہمرکاب رفیقان کو سمجھ نہیں آرہی اور اُن کی آجاکر تان اسی نُکتے پر ٹوٹتی ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام بنانے میں ساتھ نہ دینے کی سزا کے طورپر اہم عسکری حکام کے خلاف حملے کا اندراجِ مقدمہ ہو اور گرفتاری عمل میں لائی جائے ایسے مطالبات سے پی ٹی آئی قیادت کی زہنی سطح بارے اچھا تاثر نہیں بن رہا۔
عسکری قیادت کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اِس وقت کئی لابیاں متحرک ہیں یہ لابیاں وارکرنے کے لیے موقع کی تاک میں رہتی ہیں اِ ن لابیوں نے فاٹا اور بلوچستان میں کئی ازہان گمراہ کر لیے ہیںجن کے شب وروزپاک فوج پر الزام تراشی میں گزرتے ہیں پاک فوج کوبدنام کرنے کی مُہم کے تحت بھارت نے عا لمی اخبارات میں بدمعاش فوج کا عنوان دیکر اشتہارات شائع کرائے اورممبئی حملوں کے پس منظر میں نوازشریف کے بیان کوکلبھوش کیس کی سماعت کے دوران عالمی عدالتِ انصاف میں بطور ثبوت پیش کیاآصف زرداری اینٹ سے اینٹ بجانے کی احمقانہ بات کرچکے پاک وطن میں رہ کر اغیارکے اشارہ ابروپر پاک فوج کے خلاف نعرے لگانے کاسلسلہ تواتر سے جاری ہے اب پی ٹی آئی بھی اسی روش پر گامزن ہے شاید اُسے کسی نے سمجھایا ہے کہ عوام کی تائید سے زیادہ عسکری قیادت کو بلیک میل کرنااور اقتدار میں آنا زیادہ آسان ہے ممکن ہے وزیرآباد واقعہ غنیمت جان کراسی لیے دبائو بڑھایاجارہاہواگر ایسا ہے تو یہ ہرگز صحت مندانہ سوچ نہیں اگر سیاستدان ملک کے محافظ اِدارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور عوام کی نظروں میں گرانے کی سازشوں کا حصہ بننے سے قبل صدام حسین یا کرنل قذافی کا انجام اور اُن کے ملکوں کے موجودہ حالات زہن میں رکھیںتو کبھی پاک وطن کے اِداروں پر دشنام طرازی نہ کریں پہلے ہی آپس کی ناچاقیوں سے ملک دولخت کرنے کے بعدمعیشت کا بھٹہ بٹھا چکے خداراملک کے محافظ اِدارے کوتوبخش دیں اور اُسے اپنی نفرتوں کی بھینٹ نہ چڑھائیں اگرکچھ کرنا ہے تو سب مل کر معیشت کی بحالی کے کام میں حصہ لیں جس کے لیے انصاف سے زیادہ وار کرنے کی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر