وجود

... loading ...

وجود
وجود

سیاسی استحکام کے لوازمات

پیر 25 اپریل 2022 سیاسی استحکام کے لوازمات

بارہ جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی نئی حکومت کیا ملک میں سیاسی استحکام کا باعث بن سکے گی؟ حالات اشارے کرتے ہیں کہ حکومت کے لیے فوری ایساکرنا ممکن نہیں بلکہ ملک کو عدمِ استحکام کے گرداب سے نکالنے میں کافی وقت لگ سکتا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں اول تو یہ کہ غیر فطری اتحاد نے حکومت تو بنا لی ہے مگر یہ حکومت مضبوط نہیں محض تین ممبران اسمبلی ناراض ہوکر گراسکتے ہیں کیونکہ دائو کی تاک میںبیٹھا ہراتحادی ناقابلِ اعتبار ہے ایک ایسا کمزور حکمران اتحادجس کے مستقبل کے بارے وثوق سے کچھ بھی کہناازحد مشکل ہے مقبول اپوزیشن کی موجودگی میں کمزور حکومتی اتحادکیسے ملک کو سیاسی عدمِ استحکام کی دلدل سے نکال سکتا ہے؟۔
کابینہ کی تشکیل میں ہونے والی تاخیر سے بیرونِ ملک یا اندرونِ ملک اچھا پیغام نہیں گیامزید یہ کہ کابینہ کی حلف برداری کے ساتھ ہی اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں بلاول بھٹوکا حلف نہ اُٹھا نا اختلافات کی نشاندہی کے ساتھ تصدیق کرتا ہے واقفان حلقے اِس خیال کی تائید کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کچھ مزید اہم عہدوں کا تقاضاکررہی ہے جن میں صدرِ مملکت کا منصب بھی شامل ہے لیکن موجودہ اتحادی حکومت میںسب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہے اِس لیے وزیرِ اعظم کی اولیں ترجیح اپنی جماعت کوبھی مطمئن رکھنا ہے ظاہر ہے اپنی جماعت کو نظر انداز کرنے اور دیگرچھوٹی جماعتوں کو اہم عہدے دینے سے اُن کے اپنے ساتھیوں میں بددلی جنم لے سکتی ہے جبکہ پی پی کا خیال ہے کیونکہ عدمِ اعتماد کی تحریک کی کامیابی میں اُس کا کلیدی کردار ہے اِس لیے اہم عہدے اُس کا حق ہے لیکن یہ مطابات اتنے بھی سادہ نہیں وہ اگلے الیکشن میں پنجاب سے مناسب حصہ بھی چاہتی ہے جے یو آئی بھی عہدوں کی طلب میں کسی سے پیچھے نہیں پارلیمنٹ سے باہر مولانا فضل الرحمٰن خود صدر کا عہدہ حاصل کرنے کے آرزومند ہیں حالانکہ موجودہ حکمران اتحاد کے لیے صدر ِ مملکت کو ہٹانا آسان نہیں کیونکہ موجودہ حکمران دو تہائی کیا محض تین ووٹوں کامرہونِ منت ہے اگر یہ تین ووٹ ناراض ہوجاتے ہیں تو درجن جماعتوں کے بل بوتے پر قائم اتحادی حکومت کو ختم ہونے سے بچانا مشکل ہو جائے گا اِن حالات میں سیاسی استحکام کا خواب پوراہونے کا امکان نظر نہیں آتا ۔
پی پی قیادت اور شہباز شریف کے نقطہ نظرمیں بھی فرق ہے یہ تو عمران خان سے نفرت تھی جس نے دونوں کو یکجا کر دیا وگرنہ سچ یہ ہے کہ دونوں طرف اب بھی کہیں نہ کہیں بداعتمادی موجود ہے اسی بداعتماد کی خلیج کوکم یاختم کرنے کے لیے بلاول بھٹو کو لندن جا کر نواز شریف کو اعتماد میں لیناپڑا حکمران اتحاد کو صرف پی پی ہی نہیں بلکہ دیگر جماعتوں کی طرف سے بھی سخت دبائو کاسامناہے دبائو بڑھانے کے لیے ہی بی این پی اختر مینگل گروپ نے چاغی فائرنگ کو جواز بنا کر قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا اور وفاقی کابینہ میں شمولیت تاخیرسے کی جہاں ایسی صورتحال ہو وہاں سیاسی استحکام کی توقع پوری نہیں ہو سکتی بلاول بھٹو کی اولیں خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ چھوٹی جماعتوں کو اقتدار میں شامل کیا جائے تاکہ شہبازشریف کو فیصلے کرنے میں آسانی نہ ہو یہی کھینچا تانی سیاسی استحکام کے خواب کو توڑ سکتی ہے۔
پی ٹی ایم کی طرف سے مسلسل عسکری قیادت اوراُس کی سرگرمیوں پر تنقید ہو رہی ہے لیکن محض تین ووٹوں کی برتری پر قائم حکومت منع کرنے، جواب دینے یا حقیقت بتانے کی بجائے یہ بلاجواز تنقیدخاموشی سے سُننے پر مجبور ہے یہ طرزِ عمل حکومتی اتحاد سے کچھ اِداروں کو بدگمان کر سکتا ہے علاوہ ازیں فیصلے کرتے ہوئے شہباز شریف شاید غوروفکر یا مشاورت کے قائل نہیں اسی لیے دوہفتوں کے اندرانھوں نے اپنے کئی فیصلے واپس لیے اول سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بڑے جذباتی اندازمیں دس فیصداضافے کی نوید سُنائی مگر وزارتِ خزانہ نے جب بتایا کہ ابتدامیں ہی اگرتنخواہوں میں اضافہ کردیا تودوماہ بعدپیش ہونے والے بجٹ میں عوام کو مزید ریلیف نہیںدے سکتے جس پر ایک دن قبل ہی اضافے کاکیاجانے والا فیصلہ واپس لے لیا گیا نیز طارق فاطمی کو معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور مقرر کرتے وقت بھی جلد بازی کی گئی حلف برداری کے بعدکابینہ ڈویژن نے نوٹیفکیشن کرنے میں بھی خاصی سرعت کا مظاہرہ کیا یہ وہی طارق فاطمی ہیں جو 2013 سے 2017 کے دوران نوازشریف حکومت میں اسی منصب پر کام کرتے رہے اورپھر فوج کے راز ڈان اخبار کو فراہم کرنے میں پرویزرشید اور طارق فاطمی ملوث پائے گئے جنھیں عسکری قیادت کے دبائو پر عہدوںسے ہٹادیا گیا اب بھی طارق فاطمی سے معاونِ خصوصی برائے خارجہ امور کا قلمدان جس طرح چوبیس گھنٹوں میں ہی تبدیل کیا گیاہے یہ فیصلہ بھی دبائو کانتیجہ ہو سکتاہے فیصلوں میں جلد بازی اورپھر تبدیلی سے شہباز شریف کا امیج متاثر ہورہاہے ایسا لگتا ہے فیصلے کرتے ہوئے اُنھیںمختلف نوعیت کی ہدایات اور دبائو کا سامنا ہے اِس لیے کمزورحکومتی سربراہ کسی صورت سیاسی استحکام کی آرزو پوری نہیں کر سکتا۔
ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج زوال پذیر معیشت ہے محتاط اندازے کے مطابق ہر مہینے ایک سو ارب کے قریب پیٹرول پر سبسڈی دی جارہی ہے جسے جاری رکھنا ملک کو معاشی تباہی کے غار میں دھکیلنے کے مترادف ہے مگرپیٹرول کی قیمت میں اضافہ کرنے سے موجودہ حکومت پس و پیش سے کام لے رہی ہے اُس کا خیال ہے کہ بجلی کی قیمت بڑھانے کے بعد اگر پیٹرول کی قیمت میں بھی بیس یا تیس روپے اضافہ کر دیا گیا تو مقبولیت ختم ہوکر نفرت میں ڈھل جائے گی اسی لیے شہبازشریف نے قیمتوں میں ردوبدل کی بجائے برقرار رکھنے کامشکل فیصلہ کیا تاکہ عوامی اور سیاسی ردعمل سے بچ جائیں مگرچاہے حکومت کمزور ہے لیکن معیشت کی بحالی کے لیے جلد دلیرانہ فیصلے کرنا ہوں گے آئی ایم ایف پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے بھی پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے وگرنہ عالمی مالیاتی اِدارے کی طرف سے قرض پروگرام موخر ہو نے کا خطرہ پیدا ہوجائے گاجس سے معیشت کو لاحق خطرات لاحل ہوسکتے ہیں انجام کار سیاسی عدمِ استحکام میں اضافے کو روکنا یا کم کرنا بس سے باہر ہو سکتاہے۔
حکومتی اتحاد فوری طور پر عام انتخابات کی طرف جانا نہیں چاہتا حالانکہ معاشی اور سیاسی عدمِ استحکام کا حل فوری اورشفاف انتخابات ہیں تاکہ عوام سے تازہ مینڈیٹ لیکر ناگزیر فیصلے کیے جا سکیں لیکن عمران خان جو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں پیش کرچکے ہیں اُن کے پشاور،کراچی اور اب لاہور کے جلسے نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت کی تبدیلی میں غیر ملکی ہاتھ کا اُن کا بیانیہ عوام نے تسلیم کرلیا ہے اب پی ٹی آئی مزید اکشاف کررہی ہے کہ الیکشن کمیشن میں اُس پر پابندی لگانے کی سازش تیا ر ہوچکی ہے اگر ایسا کوئی فیصلہ آتا ہے تو استحکام کی بجائے ملک میں سیاسی عدمِ استحکام بڑھنے کا قوی اندیشہ ہے کیونکہ ایسا کوئی بھی فیصلہ عوامی غم و غصے کو ہوادے گا شاید ن لیگ اور پی پی دونوںجماعتوںکو بھی یہی خوف دامن گیر ہے اسی لیے عوام میں جانے سے کترارہی ہیں لیکن مزید مصلحت پر مبنی فیصلے ملک کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتے اگر معاشی بدحالی کو ختم کرناہے اور سیاسی استحکام یقینی بناناہے تواِس کے لیے لوازمات پورے کرنا ہوں گے حقِ حکمرانی کاعوام سے نیا فیصلہ لینا ہو گا شیخ چلی کی طرح مفروضوں سے اچھے نتائج نہیں مل سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر