وجود

... loading ...

وجود
وجود

غیر ملکی قرضے اور کراچی کے ناکام ترقیاتی منصوبے ؟

منگل 10 جنوری 2017 غیر ملکی قرضے اور کراچی کے ناکام ترقیاتی منصوبے ؟

کراچی میں غیر ملکی قرضوں سے شروع کیے جانے والے ترقیاتی پروجیکٹس کی تاریخ بہت اچھی نہیں رہی ہے، عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ کسی بھی ملک سے کسی بھی منصوبے کیلئے قرضوں کے حصول کے مذاکرات کے بعد اولین فرصت میں شہر کے کسی متمول علاقے میں ایک شاندار دفتر حاصل کیاجاتاہے، اس کی تزئین وآرائش پر لاکھوں روپے آنکھ بند کرکے خرچ کردیے جاتے ہیں ۔قیمتی فرنیچر خریدا جاتاہے، اور اس کام سے فارغ ہونے کے بعد ممکنہ افسران کیلئے لگژری کاریں خریدی جاتی ہیں، اس کے بعد زیادہ سے زیادہ معاوضے پر متعلقہ منصوبے پر ریسرچ کیلئے ملکی اور غیر ملکی مشیر اور کنسلٹنٹس کا تقرر کیاجاتا ہے تاکہ پراجیکٹ کا منصوبہ تیار کرنے کے ساتھ ہی پراجیکٹ کی تکمیل کے لیے ،جو عام طورپر سماجی و اقتصادی اہمیت کاحامل ہوتاہے، طریقہ کار طے کیاجاتاہے۔
کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے جن مشیروں یا کنسلٹنٹس کا انتخاب کیاجاتاہے وہ عام طورپرتکنیکی اعتبار سے بہت زیادہ اہل اور قابل ہوتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ اپنی تمام تر قابلیت کے باوجود جو منصوبے تیار کرتے ہیں اور ان پر عملدرآمد کے لیے جو لائحہ عمل یا طریقہ کار طے کرتے ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہوتے، ان کے تیار کردہ منصوبوں کی اس ناکامی کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ ان منصوبوں کے بارے میں ان کی معلومات ناقص ہوتی ہیں بلکہ ان منصوبوں کی ناکامی کا بنیادی سبب یہ ہوتاہے کہ ان مشیروں یا کنسلٹنٹس کی تمام تر قابلیت کتابی ہوتی ہے ،اور عام طورپر اس مقصد کیلئے مقرر کیے جانے والے مشیروں اور کنسلٹنٹس کی کراچی کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں انہیں اس شہر کے لوگوں کے رہن سہن اور عادات کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوتا،یہی نہیں بلکہ ان میں سے بہت سوں کو کراچی جیسے گنجان آباد کنکریٹ کے جنگل میں جہاں بھانت بھانت کے لوگ آبادہیں، رہنے کا بھی کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔
کراچی کی ہیئت یہاں رہنے والوں کی متنوع ضروریات اور عادات سے ناواقفیت اور مسئلے کی سنگینی سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے یہ مشیر اپنے کتابی علم کے مطابق منصوبے بناکر اعلیٰ حکام کو پیش کردیتے ہیں اور اعلیٰ حکام بھی جن کی اکثریت نے یہ شہر زندگی میں پہلی مرتبہ ہی دیکھاہوتا ہے ،محض مشیروں اور کنسلٹنٹس کی ملکی اور غیر ملکی ڈگریوں سے مرعوب ہوکر ان کی منظوری دے دیتے ہیں ،لیکن چونکہ یہ منصوبے صرف کتابی علم کی بنیاد پر تیار کیے جاتے ہیں اس لئے تکمیل کے مراحل ہی میں دشواری اورمشکلات کاشکار ہوجاتے ہیں اورعام طورپر انفرااسٹرکچر اور مشینری کی خریداری تک ہی محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اس طرح غیر ملکی قرضوں کی مدت پوری ہوجانے کے بعد اس مقصد کے لیے قائم کیاجانے والا دفتر بند کردیاجاتاہے۔ اس کیلئے مختلف شعبوں اور محکموں سے حاصل کیے جانے والے افسران اور دیگر عملے کی خدمات ان کے محکموں کو واپس کردی جاتی ہیں ، اس مقصد کیلئے خریدی گئی گاڑیاں من پسند افسران اور لوگوں میں تقسیم کردی جاتی ہیں،دفتر کیلئے خریدا گیا قیمتی فرنیچر بھی کسی من پسند افسر کے ڈرائنگ روم کی زینت بڑھانے کیلئے اس کے سپر د کردیاجا تا ہے ،اور اس مقصد کیلئے مقرر کیے جانے والے کنسلٹنٹس کسی اور پرکشش ٹھیکے کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔کچھ دنوں بعد شہری ان منصوبوںکو بھول جاتے ہیں جبکہ اس طرح کے منصوبوں کے لیے حاصل کیے گئے قرض کی رقم اور اس پر سود کی ادائی کا بار صوبائی حکومت کو برداشت کرنا پڑتاہے جس کی وجہ سے اس شہر کے لوگوں کو بنیادی سہولتوں اور خدمات کی فراہمی کیلئے مختص رقوم میںکٹوتی کردی جاتی ہے۔ اس طرح شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی کے سنہرے خواب دکھا کر شروع کیے گئے منصوبے اس شہر کے لوگوں کو پہلے سے دستیاب سہولتوں میں کٹوتی کا سبب بن کر شہریوں کے مسائل اور مصائب میں اضافے کا ذریعے بن جاتے ہیں۔اس دوران اگرکوئی این جی او یا اپوزیشن کا کوئی رہنما شہریوں کے مسائل پر بات کرنے کی کوشش کرتاہے تو مختلف تاویلات اور جھوٹی کہانیاں سنا کر ان کی آواز کو خاموش کردیا جاتاہے۔
اس صورتحال کا اندازہ اس شہر کے لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی اورکچی آبادیوں کی مستقلی کیلئے غیر ملکی قرضوں کی مدد سے شروع کیے جانے والے منصوبوں کے حشر سے بخوبی لگایاجاسکتاہے۔مذکورہ مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی پر کروڑوں روپے خرچ کیے جاچکے ہیں لیکن اب تک ان میں سے کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکا،اس شہر کی بیشترگنجان آباد علاقوں کے لوگ آج بھی بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں، کچی آبادیوں کے مکین آج بھی چھت کو ترس رہے ہیں، اور گندے پانی کی نکاسی کیلئے تیار کی جانے والی لیفٹ بینک اوررائٹ بینک آئوٹ فال ڈرینز کی وجہ سے ماحول کو شدید نقصان پہنچ رہاہے اور ان کی وجہ سے جس کمیونٹی کو بیدخل کیاگیا ان کو ادا کی جانے والی رقوم اندازے کی تمام حدیں عبور کرچکی ہیں۔
اس صورتحال کی پوری ذمہ داری غیرملکی اداروں اور ایجنسیوں پر نہیں ڈالی جاسکتی ،بلکہ اس صورتحال کا بنیادی سبب سندھ کا وہ سیاسی کلچر اور تضادات ہیں ،اگر حکومت سندھ اس شہر کے مسائل حل کرنے کی منصوبہ بندی اور ان منصوبوں پر عملدرآمد میں اس شہر کے رہنے والے ماہرین سے خواہ ان کا تعلق صوبے کے کسی بھی علاقے سے ہو کو شریک کرنا شروع کردے اور ہر کام صرف پارٹی اور پارٹی کے بعض من پسند لوگوں کونوازنے تک محدود نہ رکھاجائے تو شاید غیر ملکی قرضوں سے شروع کیے جانے والے ترقیاتی منصوبے اپنی موت آپ مرنے سے بچائے جاسکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


عوامی مسائل اور شہری و صوبائی اداروں کا کردار وجود - جمعه 28 جولائی 2017

ڈھائی کروڑ کی آبادی والے شہرِ کراچی کے عوام گزشتہ 8سال سے بلدیاتی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔ سرکاری سطح پر ملک بھر کی چاروں صوبائی حکومتیں8 سال تک بلدیاتی اداروں کو منتخب نمائندوں سے دور رکھنے کی کوشش میں کامیاب رہیں۔ حالانکہ بلدیاتی انتخابات بنیادی جمہوریت کی روح گردانے جا...

عوامی مسائل اور شہری و صوبائی اداروں کا کردار

انتظامیہ کی غفلت نے باران رحمت کو زحمت بنا دیا!!! شہلا حیات نقوی - هفته 01 جولائی 2017

کراچی میں بارش نے شہر قائد کوجل تھل کردیا ۔بارش کی ابتدا میں لوگوں نے بارش کو خوب انجوائے کیا مگردو دن کی باران رحمت کوانتظامیہ کی غفلت نے زحمت بنا دیا۔شہر قائد میں دو دن کی موسلا دھار بارش کے بعد مختلف علاقے تالاب اور سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگی ہیں۔کراچی میں موسم بدستو...

انتظامیہ کی غفلت نے باران رحمت کو زحمت بنا دیا!!!

کراچی میں بارش شاہد اے خان - هفته 01 جولائی 2017

کراچی میں بارش ہو گئی مبارک ہو۔ بارشوں سے عام طور پر سڑکیں دْھل جاتی ہیں لیکن کراچی میں سڑکیں ڈوب اور شہری رْل جاتے ہیں۔ سڑکوں پر صرف پانی جمع ہو تو ذرا احتیاط سے گاڑی چلاتے ہوئے گزرا جا سکتا ہے لیکن بارش کے بعد کراچی کی سڑکوں پر صرف پانی ہی نہیں اس میں تیرتا ٹنوں کچرا بھی مسائل...

کراچی میں بارش

کراچی کی زمین کے 15 دعوے دار، کوئی ادارہ شہریوں کوسہولیات فراہم کرنے کو تیار نہیں!! شہلا حیات نقوی - بدھ 24 مئی 2017

بہت کم لوگوں کومعلوم ہوگا کہ سندھ حکومت سے اختیارات کی بھیک مانگنے والے دنیا کے ساتویں سب سے بڑے شہر کراچی کے میئر کے زیر انتظام بلدیہ کراچی ،ڈی ایم سیز اور یونین کونسلوں کو اس شہر کی ایک تہائی زمین پر بھی دسترس حاصل نہیں ۔ اس شہر کی باقی دوتہائی سے زیادہ زمینیں مختلف سرکاری ادار...

کراچی کی زمین کے 15 دعوے دار، کوئی ادارہ شہریوں کوسہولیات فراہم کرنے کو تیار نہیں!!

کراچی میں مردم شماری کے لیے نفری کم پڑگئی وجود - پیر 27 فروری 2017

کراچی پولیس نے مردم شماری میں نفری فراہم کرنے کیلئے اہم شخصیات کو دی جانے والی سیکورٹی ایک ماہ کیلئے واپس کرنے کی درخواست کردی۔اس ضمن میں پولیس کی جانب سے شہر کی اہم شخصیات کو خطوط ارسال کردیے گئے جس میں پولیس نے اہم شخصیات کو ایک ماہ کے لیے اپنی سیکورٹی پر پرائیویٹ گارڈ رکھنے کا...

کراچی میں مردم شماری کے لیے نفری کم پڑگئی

واٹربورڈکے سالانہ36کروڑ روپے ہائیڈرینٹس اور ٹینکر مافیا پینے لگی وجود - پیر 13 فروری 2017

کراچی میں پانی سے محروم علاقوں کو پانی کی فراہمی کے لئے قائم واٹر بورڈ کے 26ہائیڈرنٹس کو پیپلزپارٹی کی اعلیٰ شخصیات کے کارندوں پر مشتمل بااثر مافیا کو نوازنے کے لئے بند کیا گیاتھا۔ سرکاری خزانے کو 30کروڑ روپے کا چونا لگانے والی مافیا سرکاری طور پر بند ظاہر کیے گئے تمام ہائیڈرینٹس...

واٹربورڈکے سالانہ36کروڑ روپے ہائیڈرینٹس اور ٹینکر مافیا پینے لگی

خرید وفروخت کیلئے ضابطہ جاری،موبائل لاک کھولنے والے 2ملزمان گرفتار وجود - جمعرات 02 فروری 2017

چوری اور چھینے گئے موبائل فونز کے ای ایم آئی نمبر تبدیل کرکے ان موبائل فونز کو قابل استعمال بنانے والے گروہ کے دو ملزمان کو اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ نے گرفتار کرکے ان کے قبضے سے آٹھ موبائل فونز اور سات ان لاکنگ ڈیوائس برآمد کر لی ہیں، ملزمان اب تک سینکڑوں چوری اور چھینے گئے موبائ...

خرید وفروخت کیلئے ضابطہ جاری،موبائل لاک کھولنے والے 2ملزمان گرفتار

شہر ناپرساں کے باسی ۔۔جائیں تو جائیں کہاں!! ایچ اے نقوی - هفته 24 دسمبر 2016

دنیا کے تمام ممالک اپنی رہائش اور ملازمت کے مقام کا انتخاب ٹرانسپورٹ کی دستیابی کی صورتحال دیکھ کر کرتے ہیں، دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کراچی میں بھی لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کے لیے مختلف ادوار میں مختلف تجربات کیے جاتے رہے ہیں اور گزشتہ برسوں کے دوران اس مقصد ...

شہر ناپرساں کے باسی ۔۔جائیں تو جائیں کہاں!!

میرے لعل اب کتنا عرصہ قبر میں گزارو گے الطاف ندوی کشمیری - جمعرات 24 نومبر 2016

دانش کی ماں کے نوحے سے ہر ذی حس کا جگر پھٹ سکتا ہے ۔روتے روتے تھکی تسلیمہ اپنے پندرہ سالہ بیٹے کا نام لیکر نوحہ کرتی ہے ’’دانش ‘‘میرے دولہے ،اب کتنا عرصہ قبر میں گزار و گے۔تم مجھے اس طرح چھوڑ کے نہیں جاسکتے،میرے بچے آجا،خدارا اب واپس آجا،تومیرے لیے سب کچھ تھادانش ،پہلے مجھے جان...

میرے لعل اب کتنا عرصہ قبر میں گزارو گے

کراچی کی زمینوں سے2ماہ میں ریکارڈ توڑ تعداد میں ہتھیار برآمد وجود - پیر 14 نومبر 2016

رینجرز اور پولیس نے دوماہ میں جتنی بھاری مقدار میں گولہ باروداوراسلحہ برآمد کیا اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی،مالیت کروڑوں روپے میں ہے ،ذرائعکراچی میں گزشتہ دو ماہ کے عرصے کے دوران رینجرز اور پولیس نے کارروائیوں کے دوران جتنی بھاری تعداد میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد...

کراچی کی زمینوں سے2ماہ میں ریکارڈ توڑ تعداد میں ہتھیار برآمد

لانڈھی میں ٹرینوں کا تصادم.. ریلوے خودکار سگنل نظام پر سوالیہ نشان وجود - جمعه 04 نومبر 2016

جاں بحق ہونے والوں میں 5سالہ 2 جڑواں بچیاں سکینہ اور زاراسمیت ایک ہی گھر کے 4افراد بھی شامل ہیں،حادثے میں 11بچے بھی زخمی ہوئے وزیر ریلوے سعد رفیق نے 10روز میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم دے دیا ،تحقیقات فیڈرل انسپکٹر آف ریلوے کرے گا کراچی میں لانڈھی کے علاقے قذافی ٹاؤن کے قریب فری...

لانڈھی میں ٹرینوں کا تصادم..  ریلوے خودکار سگنل نظام پر سوالیہ نشان

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر