... loading ...
ہم شام سن 2007میں گئے تھے۔وہاں کی حلب ( Aleppo )یونی ورسٹی کے ریسٹ ہاؤس میں ہمارا قیام تھا۔ICARDA کے ادارے کا پروگرام تھا۔یہ ادارہ دنیا بھر میں کم پانی والے نسبتاً خشک علاقوں کی فصلوں پر ریسرچ کرتا ہے۔کیا زبردست ادارہ ہے۔ پاکستان کی ایگری کلچر ریسرچ کاؤنسل تو اس کے آگے کسی سرکاری اسکول کی لیبارٹری لگتی ہے ۔ اس کا انتظام اور اس سے وابستہ افراد کی فنی صلاحیتیں دیکھ کر ہم تو ششدر رہ گئے تھے۔اس کے ڈائیریکٹر جنرل کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ وہ ہمارے مربی اور محسن فیڈرل سیکرٹری ڈاکٹر ظفر الطاف کے ایسے ممدوح و معترف تھے کہ جب انہیں یہ علم ہوا کہ ہمارا تعلق سول سروس سے ہے اور ہم ایک سنئیر افسر ہیں تو وہ بضد ہوئے کہ ہمیں ریسٹ ہاؤس سے نکال کر ایک فائیو اسٹار میں منتقل کردیں۔
ہم انکاری ہوئے۔دو دن میں ہماری اپنے ساتھیوں سے بہت دل لگی ہوچلی تھی۔دل نہ مانا کہ ان انیس ساتھیوں کو جن میں گیارہ عرب خواتین اور آٹھ افریقی مرد دوست شامل تھے،انہیں ہم یہ احساس دلائیں کہ ہماری سرکاری حیثیت ان سے بلند و برتر ہے۔اس میں بعد میں چھ افسر اور آن کر شامل ہوئے۔ یہ سب شامی تھے۔ چار خواتین اور دو مرد۔ہمیں ان کے طور اطوار دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ ان کا تعلق ان کی خفیہ ایجنسیNational Security Bureau, سے ہے۔ان میں اولیٰ بھی شامل تھی جو ان کے یونان میں سفیر کی بیٹی تھی۔پیکر حسن و جمال ، اپنے کرسچن ڈی اؤر کے چشمے سے اسٹڈیم جیسی کشادہ آنکھوں پر Taupe eye shadow لگاتی تھی۔ویسی ہی ذرا گہری جامنی لپ اسٹک بھی لگاتی تھی۔ مگرگفتگو بھی بہت ذہانت بھری کرتی تھی ،انگریزی کا مطالعہ بھی بہت ہمہ جہت تھا۔
شام کو سیر و تفریح کے لیے جب ہم سب ساتھی نکلتے تو وہ ہمیں کسی نہ کسی طور علیحدہ کرکے ایک موڑ پر غائب ہونے کا اشارہ کرتی تھی۔وہ ہمیں حلب کی گلیاں اور ان کے چھوٹے مگر بے حد لذیذ کھانوں اور جان لیوا نرگیلا (شیشے) والے ہوٹلوں میں لے جاتی تھی۔ہم سے پہلے شیشے کے کش لگاتی تھی۔چاندی کی پنی پر اس کی لپ اسٹک اپنا نشان چھوڑجاتی۔ہم کش لیتے تو وہ رنگین ،نرم لبوں کاترکہ ہمارے ہونٹوں سے چپک جاتا تھا۔وہ ہنستے ہوئے ٹشو پیپر سے جب اسے مٹانے کی کوشش کرتی تو یہ ضرور جتاتی تھی کہ ہماری بیگم یہاں ہوتی تو ہمارا گھر میں داخلے کا مسئلہ ہوجاتا۔ ہم اس سے کہتے تھے کہ ساری عمر ہم نے ناکردہ گناہوں کی صفائی دی ہے۔قیامت میں بھی یہی معاملہ ہوگا۔ہمارا جواب سن کر اس کی ہنسی کا ایک فوارہ بلند ہوتا، لہراتا، کھنکناتا، ادھر
اُدھر ڈولتا۔
حلب شہر کی ان گلیوں اور ان ہوٹلوں کے مالکان اور بیروں کو وہ ایسے ہی جانتی تھی جیسے وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں سے واقف تھی۔دیار باقر نامی ایک قہوہ خانے میں جو حلب یونی ورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے دار الفرقان نامی کتب گھر کی پشت پر ایک تنگ سی گلی میں واقع تھا۔ جب اس کی تقلید میں ہم نے گرما گرم عربی قہوے کا گھونٹ بھرا تو زبان جل گئی۔ تب اسی نے ہمیں بتایا کہ پہلے پیار میں ناکامی ہو یا قہوے کے پہلے گھونٹ پر زبان جل جائے تو دونوں کا مزہ جاتا رہتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ وہ اتنا تلخ گرم قہوہ کیسے اتنے آرام سے گُھٹکالیتی ہے تو کہنے لگی کہ ’’عربی قہوے کے بارے میں ہم شامی کہتے ہیں کہ
لازم ہے ’’ عربی قہوہ محبت کی طرح کھولتا ہوا گرم اور موت کی مانند تلخ ہو‘‘۔
پاکستان پر اس قدر سوال کرتی کہ ہم ہلکان ہوجاتے تھے۔اسی نے ہمیں لکھنے لکھانے کی ترغیب دی۔ سو اب ہم لکھتے ہیں۔ علیٰ الصباح چار بجے حلب یونیورسٹی کی مختلف مساجد کے مناروں سے قرآن الکریم کی بہت مدھم مگر بے حد تقدیس بھری تلاوت سنائی دیتی۔ یہ وہاں کا الارم سمجھ لیں۔ اس کی آواز سنتے ہی ہوسٹل کی کھڑکیوں میں روشنیاں جگمگا نے لگتی تھیں۔
شام کی موجودہ خانہ جنگی جس کا آغاز 15 مارچ 2011 سے ہوا اس کی اُن دنوں علامت دور دور تک دکھائی نہ دیتیں تھیں۔ بشار الاسد کی گرفت حکومت پر بہت مضبوط تھی۔ہر جگہ ان کی تصاویر اور اقوال درج دکھائی دیتے تھے۔ مارچ میں یہ خانہ جنگی عرب بہار (Arab Spring )سے وہاں کے صدر بشار الاسد کے خلاف ایک مقبول تحریک سے شروع ہوئی ۔
ہاتھیوں کی اس جنگ میں پاکستان بھی اس Proxy War کی لپیٹ میں آگیا۔ایران شام میں بشار الاسد کی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے گلگت اور کوئٹہ سے نوجوان بھرتی کرتا ہے۔عرب ان قبائل پر جو اس جنگ میں شامی افواج کا ساتھ دیتے ہیں ان پر حملہ پاکستان میں کرتے ہیں۔ عرب دنیا کے پاکستانی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے حلقوں میں یہ الزام بھی عام طور پر لگایا جاتا ہے کہ شام کی جنگ کے لیے گلگت ،پارہ چنار، کوئٹہ سے ہزارہ نوجوانوں کو ایران بھرتی کرتا ہے۔انہیں پچاس ہزار روپے ماہانہ دیا جاتا ہے۔ دوران جنگ ہلاکت پر پینشن اور بچوں کی ایران میں اعلیٰ تعلیم کا بندوبست بھی ہوجاتا ہے۔جب پاکستان میں وہاں متحارب گروپ حملے کے لیے اس خانہ جنگی میں شامل ہونے والے نئے بھرتی شدہ افراد کو نشانہ بناتے ہیں تو اس میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا عنصر نمایاں انداز میں غالب آجاتا ہے۔
اس تناؤ کو بھڑکانے میں بھارت کی خفیہ ایجنسی را بھی اپنا حصہ ڈالتی ہے تاکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ مخاصمت کو بھڑکایا جاسکے۔ یاد رکھیے مدراس کے کلوے کو کراچی میں لیاقت آباد کے مہاجرین میں تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسا سوکھے تنکوں کے ڈھیر میں سوئی کو ڈھونڈنا۔ بھارت کے بہت سے Sleeping Cells ملیر،اورنگی، لیاقت آباد اور دوسری گنجان آبادیوں اور لوکل گورنمنٹ کے اداروں میں1986 سے تخریب کاری میں مصروف ہیں۔
بادی النظر میں تو شام کی یہ خانہ جنگی سعودی عرب اور ایران کی لڑائی لگتی ہے۔پاکستان میں اس جنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات اور اس جنگ کے نتیجے میں مہاجرین کا ایک سیل رواں جو یورپ ترکی اور دوسرے ممالک کی جانب رواں ہے ،اس پر ہم سب ہی حیران ہوتے ہیں۔اب تک اس جنگ میں پانچ لاکھ افراد لقمہء اجل بن چکے ہیں۔اس سے دگنی تعداد مہاجرین کی ہے۔ایران کی ترانے دوست علی اس جنگ کو ایران کی ISIS کے خلاف کارروائی سمجھتی ہے۔یہ سرکاری پروپیگنڈے کا کمال ہے۔ بظاہر تو یہ خانہ جنگی ، ایسا لگتا ہے کہ پانچ سے بھی کم فیصد والے علوی اقلیت سے تعلق رکھنے بشار الاسد کی حکومت کی مخالفت کی حرب مہم ہے ۔نویں صدی کے علوی جنہیں عرب نصیری کہتے ہیں گو خود اہل تشیع اسے hate speech گردانتے ہیں۔علوی سیدنا علی مرتضیؓ سے تثیلث کا تصور جوڑ کر انہیں خدا وندِ کریم کا انسانی مظہر سمجھتے ہیں۔آپس میں بے حد جڑے اس فرقے کو صلاح الدین ایوبی اور عثمانی خلفاء نے بہت نقصان پہنچایا تھا۔بشار الاسد کی چین ، ایران اور روس کی فوجی حمایت نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے ذہن میں بہت سوالات اٹھا رکھے ہیں۔
اس حمایت کی تہہ میں ہماری طرح کے سی پیک کا ایک بہت بڑا منصوبہ اس اصل فوجی مداخلت کا سبب ہے۔ دو سپر پاور اپنی اپنی پسند کی ایک گیس لائن کھینچ کر یورپ تک لے جانا چاہتے ہیں۔ قدرتی گیس کی یہ دونوں لائنیں شام سے لازماً گزرتی ہیں۔امریکا کی حمایت سے بننے والی یہ مجوزہ لائن دوہا قطر سے نکل کر اردن سے ہوتی ہوئی اناطولیہ ترکی سے ہوتی ہوئی یورپ تک آتی ہے۔یہ یورپ کے موجودہ صنعتی Lay-Out کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔روس کی مجوزہ گیس لائن ایران کے صوبے شیراز سے ہوتی ہوئی عراق کے علاقے اربیل سے ہوتی ہوئی براستہ شام ، قبرص، یونان اور مشرقی یورپ سے روس تک جاپہنچتی ہے۔ روس اپنے لیے اس گیس لائن کو اپنی متبادل لائف لائن سمجھتا ہے۔ سردست یورپ کی چوتھائی کے قریب گیس روس سے خریدی جاتی ہے۔ اس میں سے80 فیصد کے قریب روس کی ایک سرکاری کمپنی Gazprom فراہم کرتی ہے۔روس اپنی اس اجارہ داری کو ہر طور قائم رکھنا چاہتا ہے۔
امریکا کی سوچ یہ ہے کہ اگر وہ اس اجارہ داری کو توڑنے میں کامیاب ہوجائے تو روس کا اثر و رسوخ یورپ میں کمزور ہوجائے گا۔ افغانستان کی جنگ کے بعد وہ بمشکل اس اثر و روسوخ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔اس گیس سپلائی کا متبادل لاکر وہ روس کا باقی ماندہ کنٹرول بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ روس اس معاشی چال بازی کو خوب سمجھتا ہے۔پچھلے دنوں یوکرین اور جیارجیا کی مملکتوں میں روس نے جو براہ راست فوجی مداخلت کی تھی وہ اس کی جوابی حکمت عملی کا حصہ تھی تاکہ یورپ اس کے نعم البدل کے طور پر مشرق وسطی سے منگوائی ہوئی گیس پر انحصار نہ شروع کردے۔امریکا کا ایک دور رس منصوبہ یہ بھی ہے کہ وہ یورپ کی گیس کی باقی ماندہ ضرورت اپنے ہاں سے بحری جہازوں کے ذریعے گیس فروخت کرکے پوری کرے۔
شام کی خانہ جنگی سے پہلے یہ قطر اور ایران کی یہ دونوں گیس لائنوں کا منصوبہ شام کے زیر غور تھا۔ سن 2009 میں تو یہ منصوبہ اس حد تک آگے بڑھ گیا تھا کہ قطر کی گیس کی پائپ لائن میں سعودی عرب بھی ترکی واردن کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔قطر کے پاس بحیرۂ فارس Persian Gulf میں سمندر کی سطح سے 3000 میٹر دنیا میں قدرتی گیس کا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے۔قطر کی مشکل یہ ہے کہ وہ یہ گیس موجود حالت میں صرف بحری جہازوں کے ذریعے فروخت کرسکتا ہے ۔ جو یورپ کو بطور خریدار روس سے خرید ی گئی گیس کے مقابلے میں خاصا مہنگا پڑتا ہے۔ روس اور ایران کے دباؤ میں آ کر جب شام کے صدر بشار الاسد نے 2009 والا منصوبہ رد کیا تو ایران نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا یورپ کو گیس فروخت کرنے کا 10 بلین امریکی ڈالر کا متبا دل منصوبہ سامنے رکھا۔اس منصوبے کے تحت یہ لائن عراق اور شام سے Sea. Mediterranean یعنی بحیرۂ روم سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے۔
بشار الاسد نے اس منصوبے کی منظوری ایران سے مل کر 2012 میں دے دی۔جس کی تکمیل کی مدت چار سال یعنی موجودہ سال تھی۔وہ تمام ممالک جو شام کی خانہ جنگی میں اپنا حصہ ڈالے بیٹھے ہیں ان کا تعلق کسی نہ کسی طور گیس فراہمی کے اسی منصوبے سے ہے۔ یوں معاشیات کی یہ جنگ ساری دنیا کے سامنے شیعہ سنی جنگ کے طور پر سامنے آئی ہے، جب کہ ایسا ہرگز نہیں۔اب تک صرف قطر نے ان تمام باغی حربی دھڑوں کو جو شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار ہیں تین بلین امریکی ڈالر سے مدد کی ہے۔ایران اور شام ان تمام دھڑوں کی اس طرح کی امداد کا الزام سعودی عرب پر بھی لگا تے ہیں۔
اگلا سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ ترکی اس تمام معاملے میں کہاں کھڑا ہے۔ایران الزام لگاتا ہے کہ ترکی کے صدر طیب اردگان براہ راست شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔ترکی پر ایران یہ بھی الزام لگا تا ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کا سب بڑا حامی ہے۔ ترکی میں یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ شام ان کے ہاں کرد باغیوں کی امداد بہت فراخدلی سے کرتا ہے۔ ترکی امریکی پائپ لائن کا اس لیے بھی حامی ہے کہ وہ یورپی یونین کا ممبر بننے کے لیے بہت شدت سے خواہشمند ہے۔یہ پائپ لائن اس کے لیے نہ صرف راہداری کا کرایہ فراہم کرے گی بلکہ اسے بھی گیس یورپ سے بہت سستی ملا کرے گی۔سردست ترکی اپنی گیس کی ضروریات روس کے ذریعے پوری کرتا ہے۔ امریکی پائپ لائن اس کا روس پر انحصار ختم کردے گی۔
بشار الاسد والی ایرانی پائپ لائن البتہ اسے ان تمام فوائد سے محروم کردیتی ہے چونکہ وہ اس کے علاقے سے نہیں گزرتی۔روس جب شامی باغیوں پر فضائی حملے کرتا ہے تو وہ چلتے چلتے ان روسی ترکمان مسلمان قبائل کو بھی ان حملوں کا نشانہ بناتا ہے جو
ترکی کے حامی ہیں۔
سو صاحبو، دیدہ ورو، شام کی خانہ جنگی دین اور فرقوں کی لڑائی نہیں بلکہ وسائل کی ایک نئی سرد جنگ ہے۔
امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد ہی سے مغربی ممالک کے درمیان سنگین نوعیت کے اختلافات سر اٹھارہے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سراقتدار آنے کے بعد یورپی ممالک پر نیٹو کے لیے رقم کی فراہمی میں اضافے کے بعد ہی سے یورپی ممالک امریکا سے ناراض نظر آرہے تھے اور نیٹو میں بھی ان ...
چین نے جنوبی کوریا میں امریکی میزائل دفاعی نظام کو مسترد کر تے ہوئے اسے چین کی سلامتی کے خلاف قرار دیا ‘جنوبی کوریا میں ہمارا تھاڈ دفاعی میزائل نظام اب کام کرنے کی حالت میں آ گیا،امریکی ترجمان امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان تلخیوں میں اضافہ اور نوبت جنگ تک پہنچ جانے کے بعد ام...
[caption id="attachment_44288" align="aligncenter" width="784"] تقریب میں کرشماتی حیثیت کے حامل وزیر اعظم کینیڈاجسٹن ٹروڈو،امریکی صدرکی صاحبزادی ایوانکا بھی اس تقریب میں شریک ہوئیں فیسٹیول کینیڈا کے شہریوں کی طاقت کی علامت، کینیڈین شہریوں کے آئیڈیلز کے اظہار اور نئی امریکی انتظا...
[caption id="attachment_44281" align="aligncenter" width="784"] جنیوامذاکرات کے علاوہ رواں ہفتے استانہ میں سہہ فریقی بات چیت ہونی تھی ،امریکا نے بغیر وجہ بتائے شرکت سے انکار کردیا ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو پوری دنیا میں تنہا کررہے ہیں،ناقدین ۔انکار کے بعد روسی حکام اور اقوام متحدہ کے ...
[caption id="attachment_44130" align="aligncenter" width="784"] شام پر امریکی حملے اور شمالی کوریا کو دھمکی کے تناظر میں گزشتہ روزگوگل پر ’’تیسری عالمی جنگ‘‘ ٹاپ سرچ رہا، شمالی کوریا کی جانب سے ایک اور ایٹمی تجربے کاامکان شمالی کوریا نے اپنے بانی قائد کی 105ویں سالگرہ پر منعقدہ پ...
[caption id="attachment_44083" align="aligncenter" width="784"] ڈونلڈ ٹرمپ خود کو ایک مضبوط قائدانہ صلاحیت کاحامل شخص ثابت کرنے کیلئے سخت فیصلے کریں گے شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی حملے کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں ،اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کا دعویٰ[/caption] اقوام متحدہ...
امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کمبوڈیا کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا سے حاصل کئے گئے قرض کی رقم سود سمیت واپس نہیں کی تو اس کو اس کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔دوسری جانب کمبوڈیا کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ویت نام کی جنگ کے دوران امریکا نے کمبوڈیا کی مع...
امریکا کی قومی سلامتی کے اہم ترین راز چرالئے گئے ہیں، گزشتہ دنوں یہ خبر اس وقت سامنے آئی جب امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے امریکا میں دشمن پر نگاہ رکھنے اور جاسوسی سے متعلق ادارے میں کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کو گرفتار کرلیا، اس 51سالہ ٹھیکیدار کوادارے میں موجود سی آئی اے، اور ام...
ٹرمپ اپنے سرکاری جہازیوایس ایئر فورس ون میں سفرکررہاتھا۔وہ اپنی کرسی سے اٹھااورباتھ روم گیا۔وہاں سے باہر نکل کراس نے تولیے سے ہاتھ پونچھے اور وہاں موجود ایک خاتون سے کہا کہ یہ تولیہ کھردراہے، نرم تولیہ رکھو،تاکہ ہاتھ جلدی خشک ہوسکیں،اس کے بعدٹرمپ اپنی سیٹ پربیٹھ گیا۔مگریہ واقعہ پ...
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل سے دست برداری کو مبصرین نے اس حل کی پیٹھ میں ’رحم دلانہ گولی‘ مارنے کے مترادف قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ کے موقف کے بعد اسرائیل کو فلسطینی عرب علاقوں میں یہودی آباد کاری کا مزید موقع ہاتھ آگیا ہے۔ 1993میں تنظ...
ہمارے نوید منتظر میاں المعروف بہ مونٹی کو دیکھیں تو پنجاب ضلع جھنگ کی تحصیل اٹھارہ ہزاری کی اس مٹیار کی آہِ محبوبیت سمجھ میں آجاتی ہے کہ اُچا لمّا گبھرُو تے اَکھ مستانی۔۔پُتر کسے ماں دا، تے میرا لگے ہانی(ہم عمر).....قد چھ فٹ،کشادہ سینہ،بوجھل آنکھیں،زخموں کی ٹکور کرتا لب و لہجہ،حل...
افغانستان میں اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ 20 عسکری گروپ اور خطے کے بہت سے جنگجو سرگرم ہیں اور افغانستان بدستور دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا علاقائی اور عالمی میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ا س صورت حال کو تبدیل کرنے اور افغانستان سے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو ختم کرکے وہاں موجود دہشت گردوں کی وجہ ...