وجود

... loading ...

وجود
وجود

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

منگل 27 ستمبر 2016 شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی

بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی


یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدیل کرنے اور مشرقی پنجاب میں اپنی کانگریس کی دائمی حمایت کے لیے تین، دہشت پسند تنظیموں کی سرپرستی میں خصوصی دلچسپی لی۔ بنگلہ دیش میں مجیب الرحمان کی مکتی باہنی، مشرقی پنجاب میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کی دمدمی ٹکسال اور ویلوپلائے پربھاکرن کی لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام (L.T.T.E)۔ پہلی سے ہمدردی رکھنے والے میجر فاروق نے مکتی باہنی کے سب سے بڑے سرپرست شیخ مجیب الرحمان کو قتل کیا، اندرا گاندھی صاحبہ کے باڈی گارڈز ستونت سنگھ اور بینت سنگھ نے انہیں ہلاک کیا اور تامل ایلام والوں نے ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی کی جان لی۔

ان اسباب پر غور کیا جائے جو بنگ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی درد ناک وفات کا سبب بنے تو بظاہر کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ حاضر سروس اور ریٹائرڈ میجر صاحبان کا یہ گروپ اس قدر بھیانک اقدام پر اُتر آیا، اس سازش میں شامل ہونے والے تین یا چار ریٹائرڈ افسران کو یقیناً عوامی لیگ کے کچھ لیڈروں سے ضرور ذاتی رنجش تھی جس کی وجہ سے انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا تھا مگر یہ افسران اس سازش میں بہت بعد میں آکر شامل ہوئے تھے۔ ان سب کے درمیان اگر کسی مشترکہ قدر کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو صرف ایک نکتہ مشترک دکھائی دیتا ہے کہ شیخ مجیب الرحمان ہمارے اہل سیاست کی طرح، فوج سے بہت نالاں رہتے تھے۔ وہ ایک قومی ملیشیا کے حامی تھے۔ وہ فوج کو کمزور اور بے توقیر رکھنا چاہتے تھے۔ اس شکایت کواگر شیخ مجیب الرحمان کے خلاف اہم ترین نقطہ نفرت مان لیں تو فوج کے بڑے افسران اس معاملے میں کسی بے چینی کا واضح اظہار نہیں کرتے تھے۔

لیفٹینٹ کرنل فاروق رحمان

لیفٹینٹ کرنل فاروق رحمان


میجر فاروق الرحمان کو بنگ بندھو (فادر آف بنگلہ دیش) سے بہت عقیدت تھی۔ کیوں نہ ہو وہ اسکے نزدیک بنگلہ دیش کی آزادی کے سب سے بڑے رہنما تھے۔ یہ عقیدت بعد میں تین بڑی شکایات اور بالآخر ایک ایسی نفرت میں تبدیل ہوگئی جو شیخ مجیب الرحمان اور انکے تمام اہلِ خانہ کے بھیانک قتل پر منتج ہوئی۔

اکہرے بدن، درمیانہ قد، بڑی بڑی آکٹوپس جیسی گول، گہری آنکھیں جن سے ذہن میں مچلنے والے طوفانوں اور دل میں سازشوں کے پلنے والے اژدھوں کا ہرگز علم نہ ہوتا تھا۔ پاکستان سے فرار ہوکر بنگلہ دیش پہنچنے والا میجر فاروق آپ کو دیکھتا تو لگتا کہ ان آنکھوں کو خواب دیکھنے کی بہت عادت ہے۔ اُسے کتابیں پڑھنے اور فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اپنے جذبات کا بہت کم اظہار کرتا تھا۔ اسکا ذہن خالصتاً ایک فوجی ذہن تھا۔ ایک ایسا ذہن جو انگریزی کی اصطلاح میں Tunnel Vision رکھتا ہے۔ جو اپنے مقصد کے حصول کی دُھن میں حدود سود و زیاں سے بے نیاز رہ کر انجام سے بے خبر ہوکر سوچنے کا عادی ہوتا ہے۔ ایسا ہی فوجی ذہن جرمنی کے ہٹلر کا بھی تھا۔ اپنے کمانڈرز کے ساتھ بیٹھا روس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا کہ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ حملے کے لئے سردی کا موسم اس لیے نامناسب ہے کہ شدید سردی اور برسات کی وجہ سے ہمارا مشن شدید مشکلات سے دوچار ہوکر شکست کا باعث بھی بن سکتا ہے جس کے جواب میں اس نے یہ توجیہ پیش کی کہ یہ برساتیں اور برفباری روسی افواج کے اوپر بھی یکساں اثرانداز ہوگی۔

وہ یکسر یہ بات بھول گیا کہ اس کی افواج دشمن کے علاقے میں پیش قدمی کرتی ہوئی اندر تک جائیں گی۔ روسی افواج اگر حربی پسپائی Tactical Withdrawal کے تحت پیچھے ہٹتی گئیں تو نازی افواج بُری طرح ان کے نرغے میں آجائیں گی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسکا یہ ایک غلط فیصلہ جنگ کا پانسا پلٹنے کا سبب بنا۔ جرمن افواج کا بے تحاشا نقصان ہوا۔ تصدیق نہیں ہوپائی مگر غالباً ایسے ہی موقع پر کہا گیا تھا کہ “جنگ ایک ایسا خوفناک اور سنجیدہ اقدام ہے کہ اس کا معاملہ آپ تنہا جرنیلوں پر نہیں چھوڑ سکتے”۔

میجر فاروق کا خود پر کنٹرول کا یہ عالم تھا کہ جس رات اس نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ اس سہ پہر وہ اطمینان سے اپنے گھر پر سورہا تھا جب کہ چٹاگانگ میں اس کی بیوی فریدہ، اندھے حافظ سے ملنے والے پیغام کو اس تک پہنچانے میں سرگرداں تھی۔ گو اس پیغام کے ملنے میں پورے چار گھنٹے کی تاخیر ہوئی مگر اس نے کوئی بے چینی کا اظہار نہیں کیا۔ اس نکتے کو یاد رکھیں، اس کی تفصیلات آپ کو آگے ملیں گی۔

میجر فاروق کو شیخ مجیب الرحمان سے پہلی شکایت تو یہ تھی کہ وہ ہندوستان سے بہت لگاؤ رکھتے تھے، جس کی وجہ سے بنگلہ دیش ہندوستان کی نو آبادیاتی کالونی کے مقام ذلت تک گر چکا تھا۔ دوسری شکایت یہ تھی کہ شیخ مجیب الرحمان فوج سے اپنے مخصوص پس منظر کی بنیاد پر شدید نفرت رکھتے تھے اور ان کو آپس میں لڑاتے رہتے تھے اور تیسری شکایت یہ تھی کہ ان کی وجہ سے ان کے رشتہ داروں اور قریبی ساتھیوں نے لوٹ مار اور کرپشن کا ایک بازار گرم کر رکھا تھا۔ اس کی شکایت کا اہم پہلو یہ بھی تھا کہ شیخ مجیب الرحمان نے اپنے لیے صدر کے بجائے وزیر اعظم کا عہدہ کیوں چنا۔ بہتر ہوتا کہ وہ اپنے لیے گاندھی کی طرز اپناتے مگر یہاں تو معاملہ الٹ تھا، ان کا بہنوئی عبدالرّب سنرنیبت، بھتیجا شیخ فضل الحق مونی، بھائی شیخ ناصر، بیٹے کمال اور جمال سب کے سب لوٹ مار کے الزامات کی زد میں تھے۔

شیخ مجیب الرحمان،رہائش گاہ اور مارے گئے اہل خانہ

شیخ مجیب الرحمان،رہائش گاہ اور مارے گئے اہل خانہ


ان شکایات پر غور کریں اور ان دنوں وہاں موجود عوامی جذبات کا جائزہ لیں تو یہ شکایات، اپنے بہاؤ میں اتنی ہی متوازن تھیں کیوں کہ بنگ بندھو عوام میں بے حد مقبول بھی تھے۔ انہوں نے ایک واضح اکثریت سے نہ صرف انتخاب جیتا تھا بلکہ بنگلہ دیش کو اسی سال ایک متفقہ آئین بھی دیا جس سال بھٹو صاحب نے پاکستان کو آئین دیا تھا۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے، جن میں اقربا پروری اور کرپشن سب سے سرِفہرست تھے۔ شیخ مجیب الرحمان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے نیچے آگیا تھا اور اسمیں پہلی دراڑ اسوقت پڑی جب 1972ء میں ستمبر کے مہینے میں ڈھاکا کے تاریخی پلٹن میدان میں عبدالرب جو مشہور طالب علم رہنما اور مکتی باہنی کا لیڈر تھا۔ اُس نے کھل کر ان کی حکومت پر تنقید کی۔ الزامات کی فہرست تقریباً وہی تھی جو بنگ بندھو پاکستان کے لیڈروں پر لگاتے تھے۔ حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب بائیں بازو کے طالب علموں کے نئے سال کے دن کا احتجاج بُری طرح کچل دیا گیا۔ طالب علموں کا یہ احتجاج شروع تو ویت نام کی حمایت میں ہوا تھا مگر اس احتجاج کو سختی سے کچلنے کا شاخسانہ یہ نکلا کہ طالب علموں کی ہلاکت کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمان اسی حلقے میں اپنی حمایت کھوبیٹھے جہاں سے انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز کیا تھا۔

اسی اثنا میں ان کے دونوں بیٹوں جمال اور کمال کی وجہ سے اور بھی خرابی ہوئی۔ مسلم حکمرانوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس دردناک حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ انڈونیشیا کے صدر سوہارتو، شیخ مجیب الرحمان، ، عراق کے صدر صدام حسین، لیبیا کے صدر قدافی اور مصر کے صدر حسنی مبارک کے زوال کا سبب ان کے لختِ جگر بنے۔ یہ سب اپنے گھرانوں کو بادشاہت کے سانچے میں ڈھال کر بیٹوں اور بیٹیوں کے ذریعے دائمی اقتدار کے سپنے دیکھتے ہیں۔

فرعون کے گھرانے میں حکمرانی تین ہزار سال سے چلی آرہی تھی۔ اس کے برعکس شاشا اوباما اپنے باپ کی صدارت کے ایام میں بھی ایک برگرجوائنٹ پر کام کرتی ہے تاکہ اپنے خرچے خود اٹھائے۔ صدارت کی موجودہ امیدوار ہلیری کلنٹن کی بیٹی چیلسی کا ان کی مہم میں دور دور تک کہیں ذکر تک نہیں۔ جب کہ ماں صدر بن گئی تو امریکی تاریخ میں بل اور ہلیری پہلا جوڑا ہوگا جو اس منصب پر فائز رہا۔

ساشا اوباما ایک برگر شاپ پر کام کرتے ہوئے

ساشا اوباما ایک برگر شاپ پر کام کرتے ہوئے


شیخ مجیب الرحمان کا چھوٹا بیٹا جمال فوج میں افسر تھا۔ انہیں اس سے بہت امید تھی، وہ چاہتے تھے کہ وہ کسی اہم مقام تک پہنچے۔ سب سے پہلے اسے یوگوسلاویہ کی ایک فوجی اکیڈیمی میں بھیجا گیا جہاں سے وہ کورس درمیان میں چھوڑ کر آگیا اور شفقتِ پدری سے مجبور شیخ مجیب الرحمان نے فیصلہ کیا کہ اسے برطانیا کی مشہور ملٹری اکیڈیمی سینڈہرسٹ میں بھیجا جائے۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے فوج میں چیف آف اسٹاف جنرل شفیع اللہ پر دباؤ ڈالا گیا مگرانہوں نے یہ کہہ کر وزیر اعظم کی بات ماننے سے انکار کردیا کہ اس انتخاب کے لئے ایک مربوط اور با ضابطہ طریقہ کار ہے اور وہاں بھیجے جانے والے کیڈٹس کا انتخاب پہلے ہی ہوچکا ہے اگر وہ چاہیں تو پرائیویٹ کیڈٹ کے طور پر خصوصی فیس ادا کرکے اسے بھیجا جاسکتا ہے۔ فوج میں اب یہ شکایت عام ہوچلی تھی کہ اسے سہولتوں اور ملازمت کے حوالے سے خصوصی طور پر نظر انداز کیا جارہا ہے۔ وہ اس اقربا پروری پر بہت ناخوش ہوئی اور انتخابات میں اسی فیصد فوجیوں نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے خلاف ووٹ ڈالا۔

شیخ مجیب الرحمان گھر پر

شیخ مجیب الرحمان گھر پر


شیخ مجیب الرحمان ایک سادہ لوح انسان تھے۔ طاقت کے معاملے میں ان کا ذہن بڑا یک طرفہ سوچ رکھتا تھا۔ ان کے دل میں یہ خیال بڑی بُری طرح گھر کرگیا تھا کہ بنگلہ دیش میں ان کی مقبولیت کو دور دور تک کوئی چیلنج نہیں۔ انسان جوں جوں بلندیوں پر جاتا ہے آکسیجن کم ہوتی جاتی ہے، جس سے تنفس میں بڑی دشواری ہوتی جاتی ہے، دماغ بھی چکراتا رہتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ طاقت اوراقتدار کی بلندیوں کا ہے اسمیں صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنا تقریباً ناممکن سا ہوجاتا ہے۔ صاحب اقتدار ہر وقت اس غلط فہمی کا شکار رہتا ہے کہ اس کا اقتدار دائمی اور اس کی مخالفت عارضی ہے۔ اپنے سے پہلے اس مسند پر فائز رہنے والے افراد اسے اپنے سے کم عقل لگتے ہیں اور بعد میں آنے والے کمزور اور بے آسرا۔ چین کے ایک مفکر نے کہا تھا “میری بڑی خواہش تھی کہ میں ہمیشہ اقتدار سے وابستہ رہوں، ایسا نہ ہوسکا یہ وقت کی متلون مزاجی کا منہ بولتا ثبوت ہے” اور فرانس کے عظیم بادشاہ نپولین نے اپنے ایام اسیری میں سینٹ ہلینا میں کہا تھا کہ “میرے ایام بادشاہت میں چھ دن بھی میری خوشی کے میسر نہ ہو پائے”، مجیب اگر سوچتے تو پہلے عام انتخابات میں اسی فیصد فوجیوں کا ان کے خلاف ووٹ دینا ایک طرح کی wake up call تھی مگر ایسا انہوں نے سوچنے کی زحمت گوارا نہ کی۔

مجیب الرحمان کے قاتل

مجیب الرحمان کے قاتل


بڑے بیٹے کمال کا معاملہ اور بھی بھیانک ہوا۔ وہ بہت جھگڑالو اور گرم مزاج تھا۔ اسے سراج شکدار سے بہت گلہ تھا۔ یہ ایک کمیونسٹ لیڈر تھا جس نے بنگلہ دیش کی آزادی میں شانہ بشانہ حصہ لیا تھا مگر اسے شکایت یہ تھی کہ آزادی کے بعد بھی ہندوستان کو بنگلہ دیش کی حکومت میں اتنا عمل دخل کیوں ہے۔ سولہ دسمبر 1973 بنگلہ دیش میں بطور یوم آزادی کے منایا جاتا تھا اس دن سراج شکدار اور اس کی پارٹی نے یوم سیاہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ شہر میں جابجا ایسے نعرے اور پوسٹر ٓاویزاں تھے جو عوامی لیگ کو پسند نہ تھے۔ کمال نے اپنے مسلح رضاکاروں کی ایک ویگن بھری، خود بندوق تھامی اور سراج شکدار کی تلاش میں رات کے اندھیرے میں نکل کھڑا ہوا۔ اسے علم نہ تھا کہ پولیس کی اسپیشل برانچ بھی سراج شکدار کو ڈھونڈ رہی ہے۔ ان کی ایک پارٹی انسپکٹر کبریا کی سربراہی میں ایک سادہ کار میں بمعہ اسلحہ اس کی تلاش میں سرگرداں تھی۔

موتی جھیل ڈھاکا کے چوک میں جب اس پولیس پارٹی نے مسلح لوگوں کی ایک ویگن دیکھی تو سمجھے کہ ملزمان ہاتھ لگ گئے ہیں۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فائرنگ کی اور گولی سیدھی کمال کی گردن پر لگی۔ خون کا ایک فوارہ بلند ہوا۔ جب وہ کود کر ویگن سے باہر آیا اور اپنی شناخت کرائی تو پولیس پارٹی کو اس خوفناک حقیقت کا علم ہوا کہ مجروح کون ہے۔ علاقے کا ڈپٹی کمشنر نیند سے جگایا گیا اور وہ سیدھا بنگ بندھو کی رہائش گاہ۳۲۔ دھان منڈی پہنچ گیا کہ وزیر اعظم کو اصل حقیقت سے آگاہ کردے۔ شیخ مجیب الرحمان نے ٹھنڈے دل سے ساری واردات سنی اور آہستہ سے کہا۔ ” مرنے دو اس کو”۔ ہسپتال میں شیخ مجیب الرحمان اپنے صاحبزادے کو دیکھنے تک نہیں گئے۔ وہ اس کی رسوائی اور حرکات سے پہلے ہی پریشان تھے۔ ان کی اس سرد مہری کا بیگم مجیب کو بہت قلق تھا۔

شیخ مجیب کی لاش

شیخ مجیب کی لاش


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم محمد اقبال دیوان - جمعه 16 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر