وجود

... loading ...

وجود
وجود

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

هفته 01 اکتوبر 2016 جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

liaquatabad-protest

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت کی بنیاد پر نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں یہ وہ اسباب تھے جو پارٹی کی تشکیل کے اسباب بن گئے تھے۔ ممکن ہے اس وقت کے حاکم جنرل صاحب (جیسے کہ بعد کے جنرل صاحب نے ثابت کیا کہ میرے لیے لامکاں اوروں کے لیے چار سوُ) اور دیگر پڑوسی ممالک بھی اپنے انداز اور مقاصد سے دلچسپی رکھتے ہوں۔ اس طرح کے آؤٹ فٹس بوتل کا جن ہوتے ہیں۔ آپ گدگدی کرکے انہیں باہر نکالیں تو بہت مزا آتا ہے لیکن وہ جب گدگدی کریں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ اندرا گاندھی نے مکتی باہنی بنا کر مجیب کی ہلاکت کا سامان کیا، دمدمی ٹکسال بنا کر اپنی موت کا بازار سجایا اور تامل ایلام بنا کر بیٹے کی چتا سلگائی۔

یہ پارٹی اپنا وجود تسلیم کرانے اوراپنے کیڈرز میں نوجوانوں کی میدان احتجاج میں صلاحیت کا جائزہ لینے کے لیے ہنگاموں میں بہت دلچسپی رکھتی تھی۔ ہم ان دنوں لیاقت آباد کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ تھے۔ یہ 1980ء کا پرُآشوب سال تھا۔

liaquatabad-protest-2

علاقے کے ہنگاموں میں آج کچھ افاقہ تھا۔ ایک بچی گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھی۔ اس دفعہ ہنگاموں میں فائرنگ کا پہلونیاتھا۔ آتشیں ہتھیاروں کا استعمال کراچی کے ہنگاموں میں ایک نیا عنصر تھا۔ پہلے یہاں پتھراؤ ہوتا تھا، آتش زنی کی وارداتیں اور کچھ لوٹ مار۔ اب کی دفعہ اسلحہ کا استعمال پولیس کے لیے پریشان کن بات تھی اور اہل علاقہ کے لیے حیرانی کا باعث۔ سب یہ کہہ رہے تھے کہ یہ باہر سے آیا ہوا کوئی گروپ ہے جو ہنگامہ آرائی میں شامل ہوگیا ہے۔

پہلے یہاں ایسے نہیں ہوتا تھا۔ لڑکوں کی ٹولیوں میں کئی ایسے لوگ دکھائی دیتے تھے جو اپنے انداز اورعمر کے حساب سے بہت مختلف دکھائی دیتے تھے۔ ہنگامے سرد پڑنا شروع ہوئے تو تفتیش کا آغاز ہوا۔

ڈی۔ ایس۔ پی صاحب نے ہمیں بتلایا کہ فائرنگ سے جو بچی ہلاک ہوئی ہے اس پر فائرنگ کرنے والے لڑکوں کے نام مل گئے ہیں۔ چار کا نام تو مصدقہ ہے، پانچویں پر پولیس کو کچھ شبہ ہے۔ پانچواں نام ایک میڈیکل کے طالب علم کا ہے اور یہ نام ہے نبیل ہارون کا۔ خاکساراس نام پر کچھ چونکا اور اس نے ڈی۔ ایس۔ پی صاحب سے کہا کہ ایک دن بعد وہ انہیں یہ نام کنفرم کردے گا۔ وہ اسے جانتا ہے۔ فی الحال اس کا نام ایف آئی آر میں نہ ڈالا جائے۔ نبیل ہارون اس کے جاننے والوں کا بیٹا تھا۔ اس کی تحقیق سے یہ راز کھلا کہ ان تصدیق شدہ چار لڑکوں میں سے دو لڑکوں سے اسکی دوستی ہے مگر فائرنگ والے دن وہ اپنے کالج کے فن میلے میں اپنی کلاس کے اسٹال پر موجود تھا اور اس کی تصدیق کالج سے بھی کی جاسکتی ہے۔ وہ فائنل ایئر کا اسٹوڈنٹ ہے اور ایسی کسی کارروائی میں شریک ہونے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا۔ خاکسار نے فون کرکے وہاں کالج کے اہم کرتا دھرتا مہر ہنسوٹیا سے تصدیق کی۔ وہ ہنگامے والی صبح واقعی میلے کے اسٹال پر موجود تھا۔

بات کھلی تو نبیل کے گھرانے میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ فیڈرل بی ایریا، صدیق آباد کا ایک امن پسند میمن گھرانہ تھا۔ جیسا کہ کاروباری گھرانوں میں ہوتا ہے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی شادی کردی جائے۔ آنے والی خود ہی اس کے کس بل نکال دے گی۔ بیوی بچوں کا بوجھ پڑے گا تو اس کی دوستیاں خود ہی ایسے لوگوں سے ختم ہوجائیں گی۔

نبیل ہارون کو شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہ تھا مگر اس نے شرط رکھی کہ وہ برادری یا خاندان میں شادی نہیں کرے گا اور اسے کوئی لڑکی اپنے طور پر پسند بھی نہیں۔ والدین اس کے لیے کوئی باہر کی لڑکی تلاش کریں اگر وہ اسے پسند آئی تو وہ ہاں کردے گا۔

ایک شام کسی شادی کی مہندی کی تقریب تھی۔ جس وقت وہ وہاں اپنی امی کو لینے پہنچا تو ایک لڑکی جو برطانیہ سے بطور مہمان آئی تھی۔ اور بڑی سر خوشی سے ناچ رہی تھی۔ لمبا اسکرٹ، ننگے بازو اور دلفریب نقوش، اسے جب نبیل ہارون نے دیکھا تو پہلی نظر میں ہی اس پر دل ہار گیا۔ بعد میں ان لڑکیوں نے جو نبیل کے رشتے پر دانت گاڑے بیٹھی تھیں الزام لگایا کہ یہ تو لڑکوں میں بیٹھ کر چرس پی پی کر بمبئی کے ٹپوریوں کی طرح نعرے بھی مارتی ہے کہ جو نہ پیئے گانجا، سالا وہ چھکےّ(ہیجڑے) کا بھانجا۔ مگر نبیل نے ان کی سنی ان سنی کردی۔

رشتے پر دیگر عوامل کی سازگاری کی وجہ سے لڑکی کے والدین کو کوئی اعتراض نہ ہوا۔ مگر انہوں نے ایک شرط رکھی کہ لڑکابرطانیامیں رہے گا۔ نبیل کے گھروالوں کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا کہ وہ اپنے اس ہونہار کوفیڈرل بی ایریا کی صحبت کے بُرے اثرات سے محفوظ رکھیں۔ شادی کے چند دن بعد ہی نبیل برطانیہ سدھار گیا۔

برطانیہ میں نبیل کی بیوی بشریٰ کی ایک بڑی بہن طوبیٰ بھی تھی جو ایک جرمن لڑکے کے عشق میں بُری طرح گرفتار تھی اور اس کی اس دل لگی سے نبیل کے سسرال والے پریشان تھے۔ انہوں نے اس کا ایک علاج یہ تلاش کیا کہ اسے ریمس Reims فرانس میں بھجوادیا یہاں ایک کانویننٹ اسکول تھا۔ جہاں کی کیتھولک ننزکچھ زیادہ ہی سخت تھیں۔ لڑکی کے ماں باپ کایہ خیال تھا کہ ان کی وجہ سے وہ اس جرمن لڑکے سے ملنے جلنے سے باز رہے گی۔

قسمت کے کارنامے بھی عجب ہوتے ہیں۔ طوبیٰ بیگم کو وہاں ہاسٹل میں رہنے کے لیے جو روم میٹ ملی اس کا تعلق الجزائر سے تھا۔ اسکے گھرانے کے کچھ افراد وہاں آئی۔ ایس۔ ایف (Islamic Salvation Front) کے بڑے سرگرم رکن تھے اور یہ بھی بہت ہی کٹر مذہبی لڑکی تھی۔ اس نے طوبیٰ پر نہ جانے کیاجادو کیا کہ وہ بھی اسی کے رنگ میں ڈھل گئی۔ آزاد خیالی ہوا ہوئی، لباس اور طور اطوار بالکل اسلامی ہوگئے۔ دل کا معاملہ بھی کچھ قید شریعت میں آگیا۔ لیکن پھر ہوا یوں کہ کچھ دنوں بعد وہ جرمن لڑکا وہاں بھی اس کی تلاش میں پہنچ گیا۔ طوبیٰ نے اپنی اس دوست کی رفاقت میں اس سے ملاقات کی اور اس سے کہا کہ اب وہ اس سے ایک شرط پر تعلق رکھ سکتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اس سے شادی کرلے لیکن شادی کے لیے تین شرائط ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے، دوم شریعت کی پابندی کرے اور سوم یہ کہ وہ جہاد میں حصہ لے۔ لڑکے نے مہلت مانگی اور کہا کہ اگر وہ ان شرائط پر راضی ہوگیا تو وہ اس کے گھر دسمبر میں کرسمس کی چھٹیوں میں لندن آئے گا۔ دسمبر کی چھٹیوں میں لکاس کیون Lucas Kevin صاحب لندن پہنچے ہوئے تھے۔ طوبیٰ بیگم سے ان کا نکاح سادگی سے مسجد میں ہواجس میں اسکی والدہ بھی دل پر پتھر رکھ کر شریک ہوئیں، شادی کے بعد ان کا نام حماد کیون رکھ دیا گیا۔

اس واقعے کو چند برس گزر گئے، افغانستان کے مجاہدین جنگ ختم ہونے کے بعد بکھر گئے کچھ تو بوسنیا پہنچ گئے اور کچھ کشمیر۔ ایک رات عدنان کے فلیٹ پر دو بجے دستک ہوئی۔ عدنان نے شیشے کی چھوٹی آنکھ سے دروازے کے باہر جھانکا تو اسے سفید کپڑوں میں ملبوس داڑھیوں والے چند نوجوان دکھائی دیے۔ پہلے تو اسے خیال آیا کہ یہ شاید کوئی تبلیغی گروپ ہے مگر اس نے سوچا کہ وہ ایسے بے وقت نہیں آتے۔ دروازہ کھولنے پراقبال بھائی کا نعرہ بلند ہوا اور نبیل ہارون اس سے لپٹ گیا۔ ہم نے سوچا کہ آپ سے ملتے چلیں۔

میں نے اپنے ساتھیوں سے آپ کا تفصیلی تعارف کرادیا ہے کہ میرے اس بھائی کی مداخلت کی وجہ سے مجھے یہ راہ ہدایت ملی۔ بس اب اچھی سی کافی پلوائیں۔ ان چھ نوجوانوں کو اندر بلایا، دو تو ان میں عرب تھے اور ایک شایدکوئی گورا تھا، باقی دو شاید پاکستانی یا بنگالی لگتے تھے۔ سب کے سب تنومند اور اسلامی جذبات سے سرشار۔ بتلانے لگے کہ ” وہ کچھ دن افغانستان میں تھے اور پھر کشمیر میں، افغانستان وہ بوسنیا سے پہنچے تھے۔ مستار جو بوسنیا ہرزے گوینا کا حصہ تھا وہاں کی مسلمان خواتین کو انہی لوگوں نے سربیائی افواج کے مظالم سے بچایا تھا”۔

ہم نے پوچھا کہ “باجی بشری یعنی بیگم نبیل کہاں ہیں؟” تو کہنے لگا کہ ” وہ تزلا بوسنیا میں پھنسی ہوئی ہے، وہاں میڈیکل سپلائز لے کر گئی تھی، اب پتہ نہیں وہ کہاں ہے۔ اﷲ سب کا نگہبان ہے۔ ہم کسی کی جان کے نگران نہیں۔ جان و مال کی حفاظت اسی کا ذمہ ہے”۔

ہمیں نبیل کی یہ سوچ کچھ بے رحم سی لگی مگر یہ بھی معلوم تھا کہ یہ لوگ سوچ کے ایک ایسے درجے پر ہیں جہاں اس کی شاید رسائی نہیں۔ دورانِ گفتگو ایک موقع پرجب ہم نے ان سے پوچھا کہ” کیا یہ ان کے نزدیک واقعی تہذیبوں کا تصادم ہے؟ “ان میں سے ایک عرب کہنے لگا کہ “اگر آپ بائبل کو موجودہ شکل میں بھی تسلیم کرلیں تووہ بھی ان تمام برائیوں سے روکتی ہے۔ مثلاًشراب نوشی، سود خوری، قمار بازی اور اسی قبیل کی تمام برائیاں اس میں بھی بری قرار دی گئی ہیں۔ مغرب میں لوگ بہت اچھے ہیں۔ ان کی کئی خوبیاں ایسی ہیں جن کو مسلم معاشروں میں تلاش کرنا مشکل ہوگا۔ مگر ان کا کاروباری کارپوریشن کا مالیاتی سودی نظام ان کے معاشرتی زندگی کو اس بری طرح جکڑ کر بیٹھا ہے کہ اسکے کرتا دھرتا ہر جگہ وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے اور اپنی دولت میں اضافے کے لیے جگہ جگہ جنگیں برپا کرتے ہیں اور اس سے بہت ظلم ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بارہ بڑی تہذیبیں اب تک منظر عام پر آئی ہیں”۔ چھ مٹ گئی ہیں یا اب ان میں وہ توانائی باقی نہیں۔ چھ تہذیبیں جن میں اسلام، عیسائیت، یہودیت، بدھ مت، ہندو مت اور لادینیت یعنی سیکورازم ہیں جو اپنا وجود منوانے پر تلی ہوئی ہیں۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم محمد اقبال دیوان - جمعه 16 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم

مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر