وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم

جمعه 16 ستمبر 2016 ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم

سینیٹر غفار خان جتوئی

سینیٹر غفار خان جتوئی


پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ہم مہاجر افسران اور اہل سیاست کو محبت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور بلاوجہ کی Mohajir Bashing یعنی مہاجر گیدڑ کُٹ( سندھی زبان میں ہانکا کرنے کو کہتے ہیں) پر اُتر آئے ہیں تو ایسا نہیں۔ اعلی درجے کے مہاجر افسر اور سیاست دانوں کا داخلہ اب آپ کو اسلام آباد میں بالکل ممنوع دکھائی دیتا ہے۔ مقصود اس سے قطع تعلق نہیں بلکہ صوبائی اور مرکزی بیوروکریسی میں ان کی روز افزوں کمی اور پسپائی کی نشاندہی ہے۔

پہلا قصہ پنجابی سیاست دان کا ہے۔ جنرل ضیا الحق کا دور تھا، این ایچ جعفری صاحب سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تھے۔ ہمارا اسلام آباد سے کراچی تبادلہ مقصود تھا۔ ان کے دودھ شریک بھائی اور فرسٹ کزن پروفیسر نعیم جعفری نے فون کیا تو انہوں نے خود ہمیں اپنے دفتر بلوایا۔ فہرست میں ہمارا نام خاصا نیچے تھا۔ یہ ان کی اپنی فائلوں میں دبی ہوئی ایک فہرست تھی۔ وہ چاہتے تو آسانی سے ہماراتبادلہ کسی بھی محکمے میں کرسکتے تھے۔ مہاجر افسران کسی کا کام نہیں کرتے اور آپ کا کام ان میں شل ( سندھی میں اﷲ نہ کرے) نہ پڑے۔ وہ سوئٹزرلینڈ میں پیک ہوا Evian کامنرل واٹر بھی اُبال کر پیئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ایم کیو ایم کے مہاجر وزیر بھی سندھ میں مہاجر افسران کو اپنے محکموں میں جگہ دینے سے ہچکچا تے تھے۔ ان کے من پسند ڈی ایم جی کے وہ سندھی افسر ہوتے تھے جن کا افسری کا انداز ویسا ہی ہوتا ہے جو شاہد آفریدی کا بیٹنگ کرتے وقت ہوتا ہے۔ ڈی ایم جی کی بم اور بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے وہ انضباطی اور انتقامی کارروائی سے اکثر محفوظ رہتے ہیں۔

سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے سجھاؤنی دی کہ کوئی وفاقی وزیر اپنے کراچی میں واقع کسی دفتر کے لیے ہمارا نام تجویز کریں تو انہیں فی الفور اس تبادلے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ ہم وزیر تجارت زاہد سرفراز سے ملے۔ انہیں کراچی سے کسی میمن دوست نے فون کیا تھا۔ کمپیوٹر کا زمانہ نہ تھا لیکن سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ کے نام خط ان کے عملے نے پندرہ منٹ سے بھی کم عرصے میں تیار کرکے دستخط کراکے ہمارے حوالے کردیا۔ خط جاری ہونا اتنی بڑی بات نہ تھی بلکہ انہوں نے کہا وزارت کے فنڈ سے ہمیں سفری ایڈوانس بھی دیا جائے۔ جس پر فی الفور کارروائی شروع ہوگئی۔ جعفری صاحب خط دیکھ کر حیران ہوئے۔ زاہد سرفراز کی اس سخاوت اور دوستانہ سرپرستی اور عجلت کو پنجابی ہونے کے ناطے قانون اور ضوابط کی عدم پابندی اور بھن جکڑی (سندھی میں شکست و ریخت ) پر سات خون معاف ہونے کا طعنہ دیا اور ہمیں کہا کہ کل ہمارا تبادلے کا نوٹیفیکشن جاری ہوجائے گا۔ انہوں نے اتنی بڑی مشکل حل ہونے پر اپنے بڑے بھائی اور ہمارے سسرالی عزیز نعیم جعفری کو مبارکباد بھی دی۔ اگلے دن جب ہم اپنا تبدیلی کا پروانہ لینے پہنچے تو موصوف نہ صرف ایک ہفتے کے لیے وہاں کی سول سروس کے مطالعاتی دورے پر کوالالمپور روانہ ہوگئے تھے بلکہ ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ فائل بھی اپنی دراز میں بند کر گئے ہیں۔ ہم نے اپنے دوست کرنل ریاض کو شکایت کی تو وہ بھاگم بھاگ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پہنچے۔ جوائنٹ سیکریٹری بریگیڈئیر فضل رحیم جو ان کے کورس میٹ رہے تھے، ہمارے ساتھ پیش آنے والی واردات سن کر انگریزی میں سیکریٹری صاحب کی شان میں باآواز بلند Bloody Clerk Mentality کاتضحیک آمیز نعرہ مستانہ بلند کیا۔ انٹر کام پر فائل طلب کی۔ اس پر لکھا Spoke to Brig Salik. Conveying his displeasure over the delay. Order Issued as per Minister Commerce letter .

اب مہاجر وزیرسیکریٹری ٹرانسپورٹ زبیر قدوائی صاحب نے ہماری شمولیت ایک وفاقی وفد میں سوئیڈن کے لیے کردی۔ افضال منیف صاحب نے ہماری شمولیت چیف سیکرٹری سید سردار احمد سے خصوصی طور پر اپنی نگرانی میں قائم ہونے والے ایک پراجیکٹ کے لیے کرائی تھی۔ وہ ہم سے خوش بھی بہت تھے۔ خود بھی بہت نستعلیق آدمی تھے۔ ارد شیر کاؤس جی جو بڑے بے باک صحافی اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی ایم کیو ایم میں شمولیت پر بڑا ٹھیک ٹھاک ریکارڈ لگاتے تھے۔ ہم فائل لے کر ان کے پاس گئے تو کہنے لگے بیرون ملک کا معاملہ ہے۔ ہم ایڈیشنل چیف سیکرٹری سائیں فضل اﷲ قریشی صاحب سے منظوری لے لیں تو انہیں ہماری شمولیت پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ انہوں نے ساتھ ساتھ چتاؤنی بھی دی کہ فضل اﷲ قریشی صاحب بہت متعصب آدمی ہیں۔ غیر سندھیوں کے کام نہیں کرتے۔ ہمیں سفارش لگانی ہوگی۔ وہ ہمارے شہر حیدرآباد کے تھے۔ اس وجہ سے حیدرآباد خود بھی ایک سفارش تھا۔

ان کا دفتر سامنے ہی تھا اور وہ وزیر صاحب کے ماتحت بھی تھے مگر مہاجر وزیر کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ انٹر کام پر انہیں ہماری پارت(سندھی میں لحاظ ) کا کہتے۔ فضل اﷲ قریشی صاحب نے ہم سے پوچھا کہ میمن ہونے کے ناطے ہم سول سروس میں کیسے آگئے۔ کافی بھی پلائی اور فائل فوراً منظور کرکے ہمارے حوالے کردی۔ افضال منیف صاحب کو اس چمتکار پر یقین نہ آیا تو انٹر کام پر خود فضل اﷲ قریشی صاحب سے تصدیق کی۔ فائل اپنے پاس رکھ لی کہ دوپہر میں وہ سب فائلیں نکالیں گے تو اس کو بھی فارغ کردیں گے۔ دوپہر وہ کسی کام سے نکل گئے اور رات کو لندن روانہ ہوگئے۔ ایک ہفتے بعد واپس آئے اور پرانی تاریخ لگا کر فائل نکالی۔ تب تک وفد کو ہمیں چھوڑ کرسوئیڈن گئے تین دن ہوچکے تھے۔ کراچی کے لیے جو بسیں آنی تھیں وہ سندھ سرکار کی Non-Representationسے پنجاب کو مل گئیں۔ ایسے ہی ایک مہاجر وزیر طارق اسمعیل تھے۔ دن میں دو فون وزیر بننے سے پہلے کرتے تھے۔ سٹی کورٹ کی مختلف مجسٹریٹوں کی عدالت میں ان کے حلقے کے کئی کام پھنسے ہوتے تھے۔ ہم یہ کام بغیر کسی لالچ کے خوش دلی سے کردیا کرتے تھے۔ اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی کسی کمیٹی کے سامنے ہماری پیشی تھی۔ طارق اسمعیل ان دنوں وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات تھے۔ وقت سے پہلے پہنچے۔ وزیر صاحب دفتر میں اجلاس سے آن کر بیٹھے تھے۔ نائب قاصد نے بتایا کہ اخبار پڑھ رہے ہیں۔ کافی پی رہے ہیں۔ ہم نے پرچی بھیجی تو کہنے لگے کہ وہ ہم سے واقف نہیں۔ کام ہے تو ہم ان سے کراچی میں ملاقات کریں۔ پارٹی کی ہدایت ہے کہ کراچی والوں کے کام ایک ضابطے کے تحت کراچی سے ہی کیے جائیں۔ ہم نے پرچی پر لکھ دیا کہ دنیا گول ہے اور گھومتی بھی ہے۔ بہت دن بعد جب ان پر پولیس سختیاں کرتی تھی تو ہم ان کا احوال سن کرمزے لیتے تھے حالانکہ ان کے Tormentors پولیس والوں میں اکثر ہمارے ماتحت رہے تھے اور لحاظ بھی بہت کرتے تھے۔

ان سے دل برداشتہ ہوکر ہم نے سینیٹ کے مارشل سے پوچھا کہ سینیٹرعبدالغفار خان جتوئی اجلاس میں شریک ہیں تو جواب اثبات میں ملا۔ وہ ہمارے پرانے واقف تھے۔ پرچی بھجوائی تو وہ اس کے ساتھ ہی اجلاس چھوڑ کرچلے آئے۔ سیدھے کیفے ٹیریا میں لے گئے۔ پہلے ناشتے کا پوچھا پھر کافی پر بات ٹہری۔ کہنے لگے کہ رات کا کھانا ہم ان کے ساتھ کھائیں، ان کی گاڑی کھڑی ہے وہ استعمال کریں۔ ہم نے کہا رات کا کھانا دوستوں کے ساتھ ہے تو اصرار کرنے لگے کہ انہیں بھی لے آئیں۔ ہم غریبوں کی عزت افزائی ہوجائے گی۔ یاد رہے کہ سینیٹرصاحب بہت بڑے ہسپتال کے مالک، ماہر امراض قلب اور سندھ کے بڑے مشہور جاگیردار خاندان کے فرد تھے۔ ہم نے معذرت کی تو کہنے لگے مجتبیٰ خان جتوئی وزیر مواصلات ہیں۔ وہ ان کے بھتیجے تھے۔ ہم چار عدد درخواستیں آؤٹ آف ٹرن فون کنکشن کے لیے لکھیں۔ ان دنوں لینڈ لائن کنکشن کے لیے بہت بھیڑ ہوتی تھی۔ آسانی سے نمبر نہ آتا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا کریں گے ان کنکشن کی درخواستوں کا تو جواب ملا۔ بابا کراچی میں پندرہ ہزار کی بکتی ہے۔ دلبر، مٹھڑا، ابھی سندھ خالی ہاتھ جانا تو اچھا نہیں۔ بچوں کے لیے کچھ تو لے کر جائیں۔ جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک لفافہ نکالا اس میں پچیس ہزار روپے تھے کہنے لگے اچھا ہمارے شہر کی سوکھڑی لینے کے لیے یہ تو رکھو۔ ہم نے انکار کیا تو ناخوش نظر آئے، کہنے لگے کہ ہماری ہر بات ٹھکراتے ہو۔ سائیں آپ ڈاکٹر ظفر الطاف کے سچے شاگرد ہو۔ وہ ہماری اس ادا سے گھائل تھے کہ جب سیاسی مخالفت کے دور میں افسر لوگ ان سے ملنے سے کتراتے تھے۔ ہم دھڑلے سے اپنی ایس ڈی ایم کی نمبر پلیٹ والی گاڑی ان کے ہسپتال کے باہر کھڑی کرکے ہفتے میں ایک آدھ دفعہ ضرور ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ ان کا تاریخ کا مطالعہ ہمیں حیران کیا کرتا تھا۔ اﷲ بخشے ایسے اعلی ظرف افراد اب کم کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر