وجود

... loading ...

وجود
وجود

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

منگل 20 ستمبر 2016 تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

constitution-1973

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔

پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا پاکستان انقلاب کے دہانے پر ہے تو میرا جواب نفی میں ہے۔ نفی میں اس لیے کہ انقلاب سے پہلے ایک بہت بڑا Intellectual Thought Process جسے آپ عام اردو میں خیالات کا ایک بہت بڑا عمل کہہ سکتے ہیں۔ اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ پاکستان میں طبقاتی کشمکش، کسانوں کی زبوں حالی، ایک بڑا معاشی بحران، عوام میں ایک شدید بے چینی اور مایوسی اور ایسے دیگر تمام عوامل موجود ہیں جو ایک انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ مگر یہاں اس بہت بڑی فکری تحریک کی عدم موجودگی، ان حالات کی مستقل جاں لیوا موجودگی ایک انارکی کی طرف تو مڑ سکتی ہے اور اس راہ پر گامزن بھی ہے مگر وہ جو انقلاب کا راستاہے وہ معدوم اور غیر واضح ہے۔ ہم جسے انقلاب کہتے ہیں وہ دراصل ایک شدید احتجاجی ردعمل کا نام ہے۔ جس میں عوام الناس، ان ارباب بست و کشاد ( جن سے وہ اپنی بہتری کے لئے عمدہ فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں) کی ناکامی اور بداعمالیوں سے تنگ آکراپنے فیصلے کرنے کا اختیار خود اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ پاکستان میں ایک انقلاب کا عمل میڈیا اور عدلیہ کے ذریعے برپا ہوگیا ہے۔ اس بات میں اس حد تک تو صداقت ہے کہ یہ ایک سافٹ Soft انقلاب ہے۔ کسی ملک کی عدلیہ چاہے کتنی ہی بااختیار کیوں نہ ہو اس کا دائرہ کار محدود اور انتظامیہ اور مقننہ کی پیہم امداد کا پابند ہوتا ہے۔ اب رہ گیا میڈیا، تو میڈیا آپ کو باخبر رکھتا ہے، آپ کے گرد و پیش کے بارے میں آپ کو اہم معلومات بھی بہم پہنچاتا ہے مگر ان معلومات کو وصول کرکے اسے ایک ضابطہ عمل میں ڈھالنے کا کام جو ایک بہت پیچیدہ اور دشوار گزار عمل ہے، وہ بہت ہی محدود ہے۔ اس سے عوام میں ایک احساس بے چارگی جنم لیتا ہے۔ یوں ایک بڑے طبقے میں جو یہ احساس عام ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان کا میڈیا مایوسیوں کا زچہ خانہ ہے۔ یہ تاثر یوں بھی درست ہے کہ اس کی عام کی ہوئی معلومات کو نہ تو انتظامیہ کی حمایت حاصل ہے نہ تعلیم کا وہ عمل اس کی مدد کررہا ہے جو اس کی دی ہوئی معلومات کو ایک باعلم طبقے کے ذریعے عملی جامہ پہنائے۔

سوچئے اگر صدر نکسن والے واٹر گیٹ اسکینڈل اور کلنٹن کا مونیکا لیونسکی والا اسکینڈل میڈیا عام کرتا رہتا اور اسے امریکی کانگریس ایک منطقی انجام تک نہ پہنچاتی اور نکسن اور کلنٹن کو بدستور صدر رہنے دیتی تو میڈیا کا کردار صدا بہ صحرا ثابت ہوتا۔ ان دونوں صدور کو کانگریس نے Impeach کیا۔ قوم کے سامنے دنیا کے طاقتور ترین لیڈر صاحبان کو آنسوؤں سے رُلایا۔

عوام کو ان پر کیے جانے والے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے سنگین جرم پر معافی بھی منگوائی اور پھر دھتکار کر ایوان ِصدر سے باہر نکال دیا۔ سو ذرائع ابلاغ کی عوام کو معلومات کی فراہمی، اس وقت تک ایک پاگل کی چیخ ہے جب تک اس کو سہارا دینے کے لیے اور اس کے سامنے لائے ہوئے اسکینڈلز کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ایک باشعور اور باضمیر مقننہ اور ایک فعال انتظامیہ جو عدالت کے فیصلوں کا دل سے احترام کرتی ہو۔ اس کے بارے میں یہ یقین اپنا جزو ایمان سمجھتی ہو کہ اللہ کے بعد انصاف صرف عدالت کے ذریعے مل سکتا ہے، موجود نہ ہو۔ انقلاب ایک خیال خام ہے۔ ایک مجذوب کی بڑ ہے۔ اس لئے صاحبو انقلاب کے لئے وہ Atmoic War Heads کو ڈیلیور کرکے صحیح مقام پر گرانے والے ذہنی گروپ کا موجود ہونا بہت لازم ہے۔ اسی لئے انقلاب سے پہلے ایک فکری تغیر کسی بھی معاشرے میں بہت ضروری ہے۔

ہم اب تک جمہوریت کے نام پر جو ڈکٹیٹر شپ کرتے رہیں اور ڈکٹیٹر شپ کی ناجائز کوکھ سے جس طرح کھینچ کھانچ کر جمہوریت برآمد کرتے رہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس آئین میں چند ترامیم کرلیں۔

ہمارا اس میں رول ماڈل امریکا کا آئین ہو تو اچھا ہے۔ میں چند گزارشات ان ترامیم کے سلسلے میں پیش کرتا ہوں۔ آپ غور فرمائیں گے تو یہ ایک عہدے سے مختص نہیں۔ یہ بہت Structural نوعیت کی ہیں۔

۱) جتنے ڈدیژن ہیں اتنے صوبے بنادیں، حکومت کو عوام کے دروازے تک لے جائیں۔ ہندوستان جب آزاد ہوا تو اس میں اس وقت ان کے کل ہاں کل سات یا آٹھ صوبے تھے اب ان کے ہاں تیس کے قریب صوبے ہیں، ایران نے حتیٰ کہ افغانستان نے اپنے ہاں کئی صوبے بنائے ہیں۔

میرے ناقدین کہیں گے اس سے حکومت کا خرچہ بڑھ جائے گا۔ تو اس کا آسان حل یہ ہے کہ صوبائی سطح پر زیادہ سے زیادہ پانچ اور کم از کم تین وزیر رکھیں۔ امریکامیں معاملہ ایسا ہی ہے۔ اسوقت ان کے ہاں تیرہ کے قریب وزراء صاحبان ہیں جنہیں وہ سیکرٹری کہتے ہیں ان کا کانگریس یا سینٹ کا ممبر ہونا بھی لازم نہیں۔ مرکز میں یہ تعداد کم از کم پانچ اور زیادہ سے زیادہ دس ہوسکتی ہے۔ جنتا کے مسائل جنتا کے دروازے پر حل ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں صوبوں کی موجودہ تقسیم ہندوستان میں انگریزوں کے زمانے کی ہے۔ اب اسمیں آبادی کے حساب سے نئے نئے مسائل اور محرومیوں نے جنم لیا۔ جب ہم ان کی تقسیم ڈویژن کی بنیاد پر کریں گے تو عوام کی شکایات کم سے کم ہوں گی۔

۲) وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی کابینہ کے وزراء اسمبلی کے ممبران نہ ہوں۔ اس سے کرپشن کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ یہ دونوں عہدے دار اسمبلی کو جواب دہ ہوں۔ ان کی کارکردگی کے حوالے سے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اسمبلی کے سامنے جواب دہ ہو۔

۳) ایک آزاد الیکشن کمیشن ہو۔ جو انتخابات کے عمل کو شفاف رکھنے کا ضامن ہو۔ آپ نے دیکھا کہ جب ٹی این سیشن صاحب کو ہندوستان میں چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا تو انہوں نے کس طرح ہندوستان میں انتخابات کے عمل کو شفاف اور قابل اعتبار بنا دیا۔

۴) آپ ہر صوبے سے امریکاکی طرح دو سینیٹر عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب کریں۔ اس سے سیاست میں جو مختلف نوعیت کی فرقہ بندیاں ہوجاتی ہیں ان کی جڑیں کاٹنے میں مدد ملے گی۔ قانون سازی اور محاسبے میں اس کے صادر کردہ فیصلے حرف آخر ہوں۔ ہمیں وفاق کی نمائندگی کے لیے ایک مضبوط اور فعال سینیٹ کی ضرورت ہے جس کے سینیٹر کا دفتر چوبیس گھنٹے کام کرے اس کی اپنی ویب سروس اور فون پر رابطے کی سروس مہیا ہو۔

۵) امریکاکی طرح ہی آپ سینیٹ کی موضوعاتی کمیٹیاں بنادیں۔ جیسے ڈیفنس، لا اینڈ جسٹس کمیٹی، خارجہ امور اور اسی طرح کی دوسری کمیٹیاں۔ ان دنوں امریکی سینیٹ کی کل ملا کر88 کمیٹیاں اور ان کی ذیلی کمیٹیاں ہیں۔ یہ حکومت کے کام کی کڑی نگرانی کرتی ہیں۔ پالیسی اور قانون سازی کے عمل میں لوگوں کو مستقل بنیادوں پر وہ مشورے کے لیے بلاتی ہیں۔ یوں امریکا کی حکومت اور اس کے اہل کار دنیا کے ان چند طاقتور افراد میں سے ہیں جہاں کم از کم لوگ ان کے خلاف عدالتوں میں جاتے ہیں۔ جیسے ان کی سب سے بڑی کمیٹی United States Senate Committee on Appropriations۔ اس میں حکومت کے صوابدیدی اختیارات کے حوالے سے اخراجات کی منظوری لی جاتی ہے۔ اسی طرح ان کی توانائی اور قدرتی وسائل کی کمیٹی حکومت کی پالیسیوں کا جائزہ لے کر ان میں مستقل درستی کے عمل میں لگی رہتی ہے۔ ان کی عدلیہ کی کمیٹی اٹھارہ مختلف معاملات پر دسترس رکھتی ہے جسمیں حکومت یا عدلیہ کے نامزد کردہ جج صاحبان کی تقرری کے حوالے سے ان کی موزونیت پر فیصلے ہوتے ہیں تاکہ بعد میں ان کے ماضی اور ان کی تقرری کے حساب سے کوئی اختلاف رائے نہ پیدا ہو۔ یہ کمیٹیاںLegislative۔ Oversight۔ Investigative۔ Confirmation۔ Field۔ Subpoenas and depositions۔ Closing قسم کی سماعتیں کرتی ہیں۔ ان کی کارروائی براہ راست عوام کی اطلاع کے لیے ٹیلی ویژن پر بھی نشر کی جاتی ہے۔ آپ نے کلنٹن میاں بیوی، کونڈالیزا رائس اور حال ہی میں وزیر خارجہ جان کیری کی ایران کے معاملات پر سماعت کا احوال تو دیکھ ہی لیا ہوگا۔

۶) ان کمیٹیوں کے حوالے سے آپ یہ کام کردیں کہ حکومت کے ہر شعبے کے پانچ بڑے عہدہ داروں کا انتخاب جب تک ان کمیٹیوں کی جانچ پڑتال کے مراحل سے نہ گزرے جیسے امریکامیں ہوتا ہے۔ صدر ریگن رابرٹ بورک کو سپریم کورٹ کا جج بنانا چاہتے تھے مگر سینیٹ کی عدالتی کمیٹی نے منظور نہ کیا۔ یہی معاملہ آٹھ دوسرے جج صاحبان کے ساتھ مختلف ادوار میں ہوا۔ صدر صاحب جب امریکا میں کسی کو اہم عہدے پر فائز کرنا چاہتے ہیں تووہ اس کا نام متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیتے ہیں۔ وہ اس کے تمام معاشقے، معانقے، مصافحے، مغالطے سے وابستہ افراد اور ان پر معترضین کو بلالیتے ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ صرف مرد میداں ہی اس عہدے پر فائز ہوسکتا ہے جو آگ کا یہ دریا عبور کرپائے۔ اسکے بعد اس کا طرز عمل صرف آفس کی حد تک محدود رہ جاتا ہے اور وہ دل جمعی سے اپنی پبلک سروس سرانجام دیتا ہے۔ یہ کمیٹیاں نہ صرف ان عہدوں کے لئے افراد کی تطہیر کرتی ہیں بلکہ حکومت کی پالیسیاں بھی مستقل ان میں زیر بحث رہتی ہیں۔

۷)ایسا عمل وضع کیا جائے کہ مملکت کا کوئی فرد یا ادارہ خود کو اس سے بالاتر نہ سمجھے، عدالت اور یہ کمیٹیاں اس فعل میں مکمل طور پر خود مختار ہوں۔ ان کے سامنے جواب دہی سے کسی کو بشمول صدر کے استثناء حاصل نہ ہو، وہ جس کسی کو چاہے طلب کرسکیں۔

۸)ارتکاز دولت روکنے کے لئے دو سے زیادہ کاروبار ایک گھرانے کے پاس رکھنے پر پابندی ہو۔۔ ۔

۹) ایک سادگی، ٹرانسپرینسی، اینٹی موناپولی اور تحفظ حقوق کا کمیشن بناجائے Simplicity, Transparency Anti Monopoly and Protection of Rights Commission تاکہ عوام سے متعلق امور میں قوانین سے لے کر ہر عمل میں سادگی اور کفایت شعاری کو اپنایا جاسکے۔ اور پچھلی چند دہائیوں میں جو کارٹیل وجود میں آچکے ہیں ان کے چنگل سے حکومت اور عوام کو نجات دلائی جاسکے۔ یہ ایک ایساادارہ ہو جس میں چنیدہ افراد کی خدمات پالیسی کی بنیاد پر معقول معاوضے کی بنیاد پر حاصل کی جاسکیں اور حکومت اور عوام سے متعلق کوئی امور اس کے دائرہ سفارشات سے باہر نہ ہوں۔

یہ تو تھیں آئین کی باتیں مگر آپ کو اس آئین کے ساتھ دو تین قوانین میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔ کچھ طریق کار ٹھیک کرنے ہوں گے۔ اس حوالے سے میری چند موٹی موٹی تجاویز یہ ہیں:

۱) ہتک عزت کا قانون لایا جائے کیوں کہ معاشرے میں اس سے آزادی رائے کے نام پر جو ہرکسی کی پگڑی اچھالنے کا سلسلہ چل نکلا ہے۔ اس کی روک تھام ہوسکے۔ ہتک عزت کے مقدمے میں فیصلے کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک ماہ کی مدت مقرر ہو۔

۲) چھوٹی عدالتوں میں ججوں کا تقرر مقابلے کے ایک امتحان کے ذریعے ہو۔ اسی فیصد اعلیٰ عدالتی تقرریاں انہیں جج صاحبان کے پروموشن کے ذریعے ہوں۔ اس سے اہل لوگ عدالتی منصب پر فائز ہوسکیں گے۔ اسی طرح آپ ماتحت عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم کرنے اور لاء اینڈ آرڈر کے لیے Executive Magistracy کا پرانا نظام بحال کریں۔ پاکستان میں 1993 کے اس نظام کے بعد لاء اینڈ آرڈر کے بہت سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

۳)کسی بھی سطح پر سرکاری ملازمت بغیر مقابلے کے امتحاں کے نہ دی جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں متعلقہ اداروں کے تعیناتی بورڈز جس میں ایک وسیع البنیاد نمائندگی ہو۔ یہ بورڈ بھرتی کا ایک شفاف اور سمجھ بوجھ سے وضع کیے گئے طریقہ کار کے مطابق یہ فریضہ سرانجام دیں۔

۴)اسلحہ لائسنس کے اجرا پر پابندی لگا کر لوگوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ یہ اسلحہ حکومت کے پاس جمع کرادیں۔ ممنوعہ بورکے ہتھیاراور لائسنس فوری طور پر ضبط اور منسوخ کردئے جائیں۔ مقررہ مدت کے بعد اس طرح کے اسلحہ کی برآمدگی کی سزا دس سال قید کی صورت میں ہو۔

۵) ہیوی ٹریفک لائسنس کے لئے کم از کم تعلیم قابلیت میٹرک ہو۔ اس سے آپ کی سڑکوں پر موت کا جو رقص دکھائی دیتا ہے وہ کم ہوجائے گا اور تعلیم یافتہ لوگ اس پیشے میں آئیں گے۔

۶) اپنی سول سروس کو ٹھیک کریں۔ اسے آئینی تحفظ دیں۔ انگریز نے ہندوستان میں تمام کارنامے اسی کے ذریعے سرانجام دئیے۔ وہ اسے اپنا اسٹیل فریم کہتا تھا۔ اس کا سائز کم کریں۔ لوگوں نے اپنی سہولت کے لئے نئے محکمے بنالئے ہیں، جن کے پاس کرنے کو کوئی قابل ذکر کام نہیں۔ اسکے علاوہ آپ کی پینتالیس فیصد بیوروکریسی علم سے ناآشنا ہے۔ اس میں موجود کلرکوں، نائب قاصدوں اور ڈرائیور حضرات کو لکھنا پڑھنانہیں آتا۔ اس طرح کام کیسے چلے گا؟!!!!!! ان کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ اس میں بھرتی کے لئے ہر سطح پر پبلک سروس کمیشن کا کردارہونا چاہئے۔ محکموں میں بھرتی کا اپنا نظام ختم کریں۔

۷) پولیس کو مقامی حکومت کے ماتحت کردیں۔ پولیس ایک مقامی فورس ہے اور خالصتاً آپریشنل نوعیت کی ایک تنظیم ہے۔ اس میں مرکز سے بھرتی کیے ہوئے افسران کا کوئی کام نہیں۔ یہ جب مقامی حکومت کی تابع ہوگی تو اس میں مقامی منتخب نمائندوں کی وجہ سے جواب دہی کا عمل قائم ہوجائے گا۔ اس میں ایس پی سے اوپر کے عہدے ختم کردیں۔ یہ بہت ٹاپ ہیوی ہوگئی ہے۔ پولیس آرڈر 2000 ؁ء نے اسے اپنے معاملات کا مختار کل بنادیا ہے۔ ملک میں جتنی غارت گری اور بد امنی اس قانون کے جاری ہونے کے بعد ہوئی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ آپ نے دیکھا کہ بے نظیر صاحبہ کے انتقال کے سانحے پر جب ہر طرف غارت گری مچی تھی، یہ تھانوں میں تالے ڈال کر خود کو محفوظ کرکے بیٹھ گئی تھی۔ اس طرح کے اور بھی واقعات ہیں جو اس نئے قانون اور ان کی خود مختاری کے حوالے سے اس آرڈر کی ناکامی کی منہ بولتی تصویر ہیں۔

۸) مدت ہوئی آپ اپنی ملکی سطح کی منصوبہ بندی کے لئے مردم شماری نہیں کراسکے۔ اب وقت آگیا ہے اور کام بھی بہت آسان ہے کہ آپ اپنے شناختی کارڈز کی مدد سے یہ کام باآسانی کرلیں۔ ایک مدت کا اعلان کردیں کہ اس مدت کے بعد اگر کسی کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوگا تو اسے مفت معالجے، بنک کے اکاؤنٹ، ریل کا ٹکٹ، بچے کے اسکول میں داخلہ اور ووٹ کی سہولت حاصل نہیں ہوگی۔ اس شناختی کارڈ کو آپ اسمارٹ کارڈ میں بدل لیں۔ اس پر تاریخ پیدائش، رہائش کا پتہ، ووٹ کا یونیورسل نمبر، سیل فون نمبر، تعلیمی قابلیت، ڈرائیونگ لائسنس کا نمبر، اس کی آنکھ کی پتلی کا نمونہ، خون کا گروپ، پاسپورٹ نمبراورایسے دیگر ضروری کوائف موجود ہوں۔ مردم شماری کی بنیاد شناختی کارڈ کو ہی ٹہرایا جائے۔ گھر گھر جاکر کوائف اکٹھا کرنا لازم نہیں۔ یوں آپ کو بہت سی جعل سازیوں سے نجات مل جائے گی۔ ووٹنگ الیکٹرانک مشینوں پر شناختی کارڈ میں درج ووٹرز نمبر سے ہو۔ جیسے بھارت میں ہوتا ہے۔ آپ کے ہاں انتخابات دھاندلی اور بندوق کی سیاست سے پاک ہوجائیں گے۔ ہر حلقے کے نتائج خود ہی الیکشن کمیشن کے پاس پہنچ جائیں گے۔ یہ نہیں ہوگا جو شوکت عزیز کے تھرپارکر سے الیکشن میں ہوا تھا کہ پورے تھرپارکر میں جتنے ووٹر نہیں تھے اس سے زیادہ انہیں ووٹ ملے تھے۔ صرف یہ ایک ا سمارٹ کارڈ آپ کو بے شمار پیچیدگیوں سے محفوظ رکھے گا۔


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم محمد اقبال دیوان - جمعه 16 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40697" align="aligncenter" width="640"] سینیٹر غفار خان جتوئی [/caption] پچھلے کالموں میں پنجابی، سندھی اور مہاجر افسروں کے رویوں کا فرق واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اب کی دفعہ یہی معاملہ اہل سیاست کا ہے۔ ان کالموں کو پڑھ کر اگر یہ تاثر قائم ہوکہ ...

ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر