وجود

... loading ...

وجود
وجود

دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور، سہرا - قسط 2

هفته 10 ستمبر 2016 دیکھو اس طرح سے کہتے ہیں سخن ور، سہرا - قسط 2

police

دوسرا قصہ ایک پنجابی افسر کا ہے!

دو بھائی تھے شہزاد اور عابد۔ شہزاد نرم خو اور معاملہ ساز اور علاقہ مجسٹریٹ تھے، عابد خرانٹ اور بے رحم۔ وہ پولیس کے تھانے دار تھے۔ دونوں بھائی چن کر ایسے علاقے کواپنا رجواڑہ بناتے تھے جہاں آبادی زیادہ اور مکس ہو، جرائم کی بہتات ہو، غیر آباد سرکاری زمین کی بہتات ہو۔ مال، عصبیت اور فرقہ واریت کی وجہ سے یہ عمل کچھ ایسا مشکل نہ ہوتا کہ انہیں اپنی پسند کا ایسا علاقہ ملنے میں جڑواں تعیناتی میں زیادہ دشواری پیش آتی۔

ہمیں سٹی کورٹ کے ایک وکیل صاحب نے بتایا کہ انہوں نے ایس ایچ او عابد صاحب کی موجودگی میں اپنے ہی بھائی کی عدالت میں داخل کیے جانے والے ملزم جوڑے پر جو ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ اورنگی کے خالی گھر میں پڑوسیوں کی مخبری پر بالباس درست لیکن والہانہ ہم آغوشی کی حالت میں پکڑے گئے تھے۔ باعلم ہیڈ محرر صاحب نے بعینہ چالان میں بھی اس کیفیت کا اندراج کیا تھا اور اسی وجہ سے میڈیکل معائنے سے احتراز کیا تھا۔ جنرل ضیا الحق کے تازہ نافذ کردہ حدود آرڈیننس کا چالان سیشن عدالت میں بھیجے جانے کے لیے جب پیش ہوا تو وکیل صاحب نے اعتراض کیا کہ زنا اور حدود کے لیے چار گواہ، مقام، وقت اور حالت مواصلت کا جو لازمہ موجود ہے وہ پورا نہیں ہوتا، لہذا ایف آئی آر ہی کو ساقط کردیا جائے اور ملزمان کو عدالت سے ہی رہا کردیا جائے۔ وکیل صاحب کا اعتراض سن کر تھانے دار، عابد ِبدکار نے اپنی چارلی چپلن جیسی موچھوں کو اپنے بدنما ہونٹوں پر ادھر ادھر گھمایا اور کہنے لگا وکیل صاحب اسلام کے اور آپ کے حساب سے تو گواہی کے جو سولہ لازمی تقاضے ہیں اس سے تو لگتا ہے کہ زنا کو اولمپک میں شامل کرنا پڑے گا تاکہ گواہی کا بندوبست آپ کی تسلی کے عین مطابق آسانی سے ہو جائے۔ یہ بتائیں جب ملزم، ملزمہ کو اپنے خالی گھر میں آغوش میں لیے بیٹھا تھا تو کیا وہ اسے درس نظامی کی تعلیم دے رہا تھا۔ اس کا ارادہ مزید بگاڑ کا تھا۔ وہ تو پولیس موقع پر پہنچ گئی ورنہ گناہ کبیرہ تو تقریباً ہوچلاتھا۔

ہم نے شہزاد صاحب کو فون کیا کہ وہ اگر عدالت میں موجود ہوں تو آجائیں۔ وہ کبھی ہمارے ماتحت رہے تھے۔ ہمارا باہمی سلوک پیار و اخلاق کا تھا۔ یوں بھی وہ بڑے قالین مزاج افسر تھے۔ ہر وقت بچھے بچھے رہتے تھے۔ ہمارا دفتر سٹی کورٹ کے قریب تھا جہاں شہزاد صاحب انصاف کے دریا بہاتے تھے۔ شہزاد صاحب کو اصرار ہوا کہ معاملہ چونکہ ان کی عدالت عالیہ کا ہے لہذا ہمارا آنا ہی بہتر ہوگا۔ ہوا یوں تھا کہ ہمارے ایک کاروباری دوست سلیم کا بیٹا اور اس کے اسکول کا دوست آپس میں اپنی اپنی گرل فرینڈز کو نئی گاڑی دکھاکر متاثر کرنے کے لیے کار بدل کربیٹھے۔ سلیم کے بگڑے بیٹے خرم نے گاڑی لوٹانے میں دیر کی تو دوسرے دوست نے کار چوری کا مقدمہ درج کرادیا۔ بعدمیں وہ دونوں دوست آسٹریلیا چلے گئے۔ یہاں پولیس نے کار چوری کا مقدمہ عدالت شہزاد میں داخل کردایا۔ خرم کو پیش ہونے کے لیے وارنٹ موصول ہوئے تھے اور وہ ہوبارٹ میں پاکستان کا میچ دیکھ رہا تھا۔ شہزاد صاحب ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے سیڑھیوں پر موجود تھے۔ بہت تحمل سے معاملہ سنا۔ پوچھنے لگے ’’دو سال کے اندر خرم واپس تو نہیں آئے گا؟سلیم نے بتایا کہ اس نے چونکہ اب خفیہ طور پر دوسری شادی کرلی ہے اور وہ اپنی پہلی بیوی کو بھی وہیں بیٹے کے پاس بھجوارہا ہے۔ اس پر شہزاد صاحب نے انکشاف کیا کہ وہ اس مقدمہ کو داخل دفتر کرنے کے لیے ایک ڈرامہ رچائیں گے۔ ملزم پیش ہوگا اس پر جرم کی قبولیت اور پہلا جرم ہونے کے ناطے محض ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ یہ جرمانہ وہ پیش کار کے حوالے کردیں تاکہ وہ اس سے وکیل صاحب کو بروقت ادائیگی کرسکیں۔ اس پر شہزاد صاحب چیمبر سے اٹھ کر باہر گئے۔ عدالت سج گئی۔ جیل سے آئی کسٹڈی میں ایک ملزم موجود تھا اس پر ایک پڑیا ہیروئین رکھنے کا الزام تھا، بھرتی کے اس مقدمے میں ضمانت نہ ہونے پر جیل میں سڑ رہا تھا۔ عدالت میں ملزم خرم کو پیش کرنے کا اعلان ہوا تو ایک وکیل بخاری صاحب باقاعدہ طور پر اس کی پیروی کے لیے موجود تھے۔

جیل کسٹڈی والے ملزم کو خرم بنا کر پیش کیا گیا۔ وکیل صاحب نے کہا کہ ان کے موکل کا جرم قبول ہے۔ عدالت ملزم کی کم سنی کا لحاظ کرے اور نرم سزا سنائے جرمانہ کرکے فائل پر ملزم کا انگوٹھا لگوایا گیا جبکہ چالان میں ملزم کی عمر اٹھارہ سال اور پیشہ طالب علم درج تھا۔ تین سو روپے وکیل صاحب، سو روپے ملزم کو دیے گئے پانچ سو روپے تحفتاً پیش کار اور دیگر عملے بشمول جیل والوں میں تقسیم ہوئے۔ ہمارے دوست سلیم کو رحم آگیا تو اس نے اس جیل کسٹڈی والے مجرم سے بھی قبول جرم کرواکے جرمانہ ادا کردیا گیا۔ وکیل صاحب نے اس کی فیس کویہ کہہ کر لینے سے انکار کیا کہ صاحب آپ کی عدالت کے طفیل ہی ہمارا دھندہ چل رہا ہے۔ اس کی فیس نہیں لوں گا مگر سلیم نے وہ تین سو روپے واپس لے کر انہیں پانچ سو کے نوٹ میں بدل دیا۔

اس دن قبول جرم کے دو مختلف مقدمات پر ایک ہی ملزم کے انگوٹھے کے نشان تھے مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ زیر حراست مشہور بینکر یونس حبیب کو اس زمانے میں جو سزا میں تخفیف کے ضابطے تھے، اس کے حساب سے دو دفعہ عطیہ خون پر ایک پی ایس پی افسر نے رعایت کی تھی اس میں دونوں مواقع پر یونس حبیب کے خون کا گروپ مختلف درج ہوا تھا۔ ایک دفعہ اے بی۔ مثبت تو دوسری دفعہ او۔ منفی۔ ایک تخفیفی معافی اسے قرآن حفظ کرنے پر بھی ملی تھی۔ ہم نے پوچھا تو کہنے لگا کہ مجھے تو سورۃ الاخلاص بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ ہم نے کہا یہ تو وزیروں والی خوبی ہے۔ کہنے لگا :مارکیٹ اور جیل میں صرف روکڑے (میمنی زبان میں پیسہ) کی حکومت ہے۔

younus-habib

یونس حبیب


شہزاد صاحب اس واقعے کے پانچ سال بعد جیئے۔ ایک شادی ہمارے دوست کے مشورے سے کی۔ انہیں پارہ چنار سے لائی گئی دلہن، سرگودھا کے کسی حکیم کے کشتے اور شراب تمباکو نوشی لے ڈوبی۔ عابد بدکار نے سمجھایا بھی کہ بھائی جان شراب نوشی سے ذرا پرہیز کریں تو اچھا ہے مگر وہ کہنے لگے کہ پانی پینے والے کون سے ہمیشہ جیتے ہیں۔ آپ نے نوٹ فرمایا نا کہ دونوں برادران بے رحم میں دوسرے کی بات کو ایک گستاخانہ جسارت سے حتمی طور پر ختم کردینے کی خاص عادت تھی جو اختیارات کی قدرت وسائل کی بھرمار اور طاقت ور صوبائی وابستگی کی آسودگی سے پیدا ہوتی ہے۔ جب تک زندہ رہے ہمارا دوست انہیں عید پر مٹھائی اور قیمتی تحائف کی ایک ڈالی بھجواتا تھا۔ مگر شہزاد صاحب جب بھی ہم سے ملتے سلیم صاحب کو دعائیں دیتے کہ بہت محبتیلے انسان ہیں۔ ہمارے گھر میں الفت کا دوسر چراغ بھی ان ہی کے توسط سے جلا۔ ہر عید پر بے چارے ناحق تکلف کرتے ہیں۔ ایک قیمتی ڈالی بھیج دیتے ہیں۔ وہ خود تو اسے گفٹ ہیمپر کہتا تھا۔ اسے برطانوی افسران کی تقلید میں ڈالی کے تاریخی نام سے یاد کرتے تھے۔ وہ اسے برنس روڈ سے خرید کر عید کارڈ بھجواتے تھے۔ ڈالی سلسلۂ تحائف کو کہا جاتا تھا جو غیر منقسم ہندوستان میں ہر بڑے تہوار اور موقع پر علاقے کے اہل ثروت اور مہاراجے انگریز افسران کو بھجواتے تھے۔ ان میں خواتین سے لے کر اناج تک سبھی کچھ شامل ہوتا۔ (جاری ہے)


متعلقہ خبریں


راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2) محمد اقبال دیوان - جمعرات 06 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41354" align="aligncenter" width="576"] رانا سنگھے پریماداسا، سری لنکا کے وزیر اعظم [/caption] پچھلی قسط میں ہم نے بتایا تھا کہ راجیو کا ہفتہ وار میگزین سنڈے میں یہ انٹرویو کہ وہ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سری لنکا سے امن معاہدے کی تجدید کر...

راجیوگاندھی کاقتل (قسط 2)

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱) محمد اقبال دیوان - بدھ 05 اکتوبر 2016

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی اپنے مقاصد کے تیز تر حصول لیے راج نیتی (سیاست) میں شارٹ کٹ نکالنے کی خاطر دہشت گرد تنظیمیں بنانے کی ماہر تھیں ۔ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی بناکر ان کو بنگلا دیش بنانے میں جو کامیابی ہوئی ،اس سے ان کے حوصلے بہت بڑھ گئے۔ اندرا گاندھی جن ...

راجیو گاندھی کا قتل (قسط ۔۱)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط) محمد اقبال دیوان - پیر 03 اکتوبر 2016

[caption id="attachment_41267" align="aligncenter" width="1080"] مارماڈیوک پکتھال[/caption] سن دو ہزار کے رمضان تھے وہ ایک مسجد میں تراویح پڑھ رہا تھا، نمازیوں کی صف میں خاصی تنگی تھی۔ جب فرض نماز ختم ہوئی تو اس نے اُردو میں ساتھ والے نمازی کو کہا کہ وہ ذرا کھل کر بیٹھے ت...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا! (آخری قسط)

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2) محمد اقبال دیوان - اتوار 02 اکتوبر 2016

ہم نے اُن (گوروں اور عرب پر مشتمل ٹولی) سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام اور مسلمان ہر جگہ پر تصادم کی کیفیت میں ہیں۔ کہیں ایسا کیوں نہیں سننے میں آتا کہ بدھ مت کے ماننے والوں میں اور عیسائیوں میں تصادم ہو یا اور ایسے مذاہب آپس میں بر سرپیکار ہوں؟ اس پر وہ گورا کہنے لگا کہ کیا ...

جلا ہے جسم جہاں ، دل بھی جل گیا ہوگا! (قسط 2)

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول) محمد اقبال دیوان - هفته 01 اکتوبر 2016

بہت دن پہلے کی بات ہے۔ اس شعلہ مزاج پارٹی کو سیاست میں قدم رکھے ہوئے بہت دن نہ ہوئے تھے۔ سندھ کے شہری علاقوں میں امتیازی کوٹا سسٹم، ٹرانسپورٹ میں ایک طبقے کی کرائے سے لے کر ہر طرح کی بدسلوکی اور من مانیاں، پولیس جس میں 1978ء سے مقامی لوگوں کی بتدریج تخفیف اور پھر زبان اور عصبیت ک...

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا ! (قسط اول)

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط) محمد اقبال دیوان - جمعرات 29 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41140" align="aligncenter" width="200"] خوندکر مشتاق احمد[/caption] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ، ایک دم، نہیں ہوتا کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیشی فوج کے ٹینکوں کے ساتھ ہوا۔ یہ ٹینک جذبۂ خیر سگالی کے تحت مصر ن...

شیخ مجیب الرحمن کا قتل(آخری قسط)

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط) محمد اقبال دیوان - منگل 27 ستمبر 2016

[caption id="attachment_41071" align="aligncenter" width="370"] بنگ بندھو شیخ مجیب اور بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی [/caption] یہ کوئی عجب بات نہیں کہ وزیر اعظم اندرا گاندھی جیسی نفیس اور زیرک خاتون نے بھارت کا چین سے شکست کا داغ دھونے، بر صغیر کے علاقے کا نقشہ یکسر تبدی...

شیخ مجیب الرحمٰن کا قتل (پہلی قسط)

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟ محمد اقبال دیوان - پیر 26 ستمبر 2016

پچھلے دنوں وہاں دہلی میں بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان کے Security Apparatus اور’’ را‘‘ کے نئے پرانے کرتا دھرتا سب کے سب نریندر مودی جی کو سجھاؤنیاں دینے جمع ہوئے۔ ان سب محافل شبینہ کے روح رواں ہمارے جاتی امراء کے مہمان اجیت دوال جی تھے۔ وہ آٹھ سال لاہور میں داتا دربار کے پاس ایک کھولی ...

کشمیر، اوڑی سیکٹر اور ملاقاتیں، کون کیا سوچ رہا ہے؟

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے محمد اقبال دیوان - هفته 24 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40973" align="aligncenter" width="940"] درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء[/caption] سیدنا نظام الدین اولیاؒ کے ملفوظات کا مجموعہ فوائد الفواد ( یعنی قلوب کا فائدہ ) ان کے مرید خاص علاء الدین سنجری نے مرتب کیا ہے۔ راہ سلوک کا مسافر اگر طلب صادق رکھتا ہو ...

پھر یہ سود ا، گراں نہ ہوجائے

ہاؤس آف کشمیر محمد اقبال دیوان - بدھ 21 ستمبر 2016

[caption id="attachment_40876" align="aligncenter" width="720"] ہاؤس آف کشمیر[/caption] ہمارے پرانے دوست صغیر احمد جانے امریکا کب پہنچے۔جب بھی پہنچے تب امریکا ایسا کٹھور نہ تھا جیسا اب ہوچلا ہے۔ اُن دنوں آنے والوں پر بڑی محبت کی نظر رکھتا تھا۔اس سرزمین کثرت (Land of Plen...

ہاؤس آف کشمیر

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2 محمد اقبال دیوان - منگل 20 ستمبر 2016

معاشرے ہوں یا ان میں بسنے والے افراد، دونوں کے بدلنے کی ایک ہی صورت ہے کہ یہ تبدیلی اندر سے آئے۔ کیوں کہ یہ دونوں ایک انڈے کی طرح ہوتے ہیں۔ انڈہ اگر باہر کی ضرب سے ٹوٹے تو زندگی کا خاتمہ اور اندر سے ٹوٹے تو زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوال بہت کثرت سے پوچھا جاتا ...

تہتر کے آئین میں تبدیلیاں ناگزیر - قسط 2

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں محمد اقبال دیوان - اتوار 18 ستمبر 2016

میرے وطن،میرے مجبور ، تن فگار وطن میں چاہتا ہوں تجھے تیری راہ مل جائے میں نیویارک کا دشمن، نہ ماسکو کا عدو کسے بتاؤں کہ اے میرے سوگوارر وطن کبھی کبھی تجھے ،،تنہائیوں میں سوچا ہے تو دل کی آنکھ نے روئے ہیں خون کے آنسو (مصطفےٰ زیدی مرحوم کی نظم بے سمتی سے) تہتر کا آ...

آئین میں ناگزیر تبدیلیاں

مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر