وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ‘ مہاجر سیاست میں نئے رجحانات

منگل 03 مئی 2016 سندھ‘ مہاجر سیاست میں نئے رجحانات

AFAQ-HAQIQI

سندھ میں قوم پرستی کی تاریخ 1935ء سے شروع ہوتی ہے جب سر شاہنواز بھٹو‘ خان بہادر ایوب کھوڑو‘ حاجی عبداﷲ ہارون‘ پیر علی محمد راشدی اور نوجوان جی ایم سید سمیت سندھی رہنماؤں نے کراچی کی ممبئی پریذیڈنسی میں شمولیت کی سخت مخالفت کی‘ تحریک چلائی اور کراچی کو ممبئی سے الگ کرکے سندھ کا حصہ بنانے میں کامیابی حاصل کی۔ انگریز حکمرانوں کا اصرار تھا کہ چونکہ کراچی میں مسلمانوں کی تعداد کم اور ہندوؤں‘ پارسیوں‘ انگریزوں‘ یہودیوں اور دیگر غیر مسلموں کی تعداد زیادہ ہے لہٰذا اسے ممبئی کا حصہ رہنا چاہئے۔ کراچی میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے کے لئے سر حاجی عبداﷲ ہارون نے بہت جدوجہد کی‘ انگریز حکومت سے لیاری کا علاقہ مسلمانوں کے لئے دو لاکھ روپے دے کر خریدا اور یہاں مسلمانوں کو مفت میں زمین دی تاکہ وہ آباد ہوسکیں۔ اسکول‘ اسپتال اور دیگر سہولتیں بھی مہیا کیں اور بالآخر کراچی میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانے میں کامیاب رہے۔ کراچی ممبئی کا حصہ بننے سے بچ گیا‘ قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی صرف چار لاکھ تھی جو گزشتہ 70 سال میں بڑھ کر دو کروڑ سے تجاوز کررہی ہے۔ 1947ء میں پاکستان بنا تو پنجاب‘ بلوچستان اور صوبہ سرحد (کے پی کے) سمیت پورے مغربی پاکستان کی آبادی صرف ساڑھے تین کروڑ تھی ۔

آفاق احمد نے25سال کے فاصلے مٹاکر پھرمتحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اپنی پارٹی کے اشتراک اور اس مقصد کیلئے خود چل کر متحدہ کے مرکز نائن زیرو جانے کی بات کی ہے۔ وہ رابطہ کمیٹی کی میزبانی کیلئے بھی تیار ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد کراچی کو وفاقی دارالحکومت کا درجہ ملا جو 1960ء میں دارالحکومت کی اسلام آباد منتقلی تک برقرار رہا ۔دس سالہ ایوبی دور حکومت میں کراچی نے بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کی ‘کارخانے لگے‘ اسپتال اور عمارتیں تعمیر ہوئیں۔ 1947ء میں توصرف بھارت سے ہجرت کرنے والے مہارین کی اکثریت نے کراچی‘ حیدرآباد‘ سکھر‘ میرپور خاص وغیرہ کو اپنا مسکن بنایا تھا لیکن ایوبی دور میں ملک بھر سے روزگار کی تلاش میں آنے والوں کی بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہوگئی۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سندھ میں مختلف قومیتوں کے درمیان مسابقت شروع ہوئی جس نے بڑھتے بڑھتے قوم پرستی کی جنگ کی شکل اختیار کرلی۔ تعلیمی اداروں میں داخلوں اور ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم اور زیادتیوں‘ ناانصافیوں نے قوم پرستی کو ہوا دی ۔پاکستان کے لئے 1943ء میں سندھ اسمبلی سے قرارداد پاس کرنے والے صوبے میں سب سے زیادہ منافرت کی ہوا چل پڑی۔ جئے سندھ تحریک اور مہاجر تحریک نے پوری سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مرکز گریز رجحانات نے جگہ پائی۔ سندھودیش کے نعرے لگے۔ 1978ء میں الطاف حسین نے کراچی کے تعلیمی اداروں میں آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس کی بنیاد ڈالی جس نے بعد ازاں مہاجر قومی موومنٹ اور پھر متحدہ قومی موومنٹ کی شکل اختیار کرلی ۔آج یہ پارٹی تین حصوں میں منقسم ہوچکی ہے قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ (الطاف حسین) کی نمائندگی ہے۔ نوزائیدہ پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) گزشتہ دنوں مزار قائد اعظم سے متصل باغ جناح میں اپنا پہلا جلسہ عام منعقد کرچکی ہے ۔پارٹی کے ایک رہنما اور مستعفی رکن سندھ اسمبلی رضا ہارون لاہور پہنچ گئے ہیں۔ اس پارٹی کی بنیاد گوکہ ’’مہاجر ازم‘‘ ہے لیکن اس کے سربراہ مصطفی کمال پورے ملک میں کام اور عوام سے رابطہ کرکے اپنی پارٹی کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔ سندھ میں ’’مہاجر سیاست‘‘ کے تیسرے نقیب آفاق احمد ہیں جنہوں نے 1992ء میں متحدہ کے خلاف آپریشن کے موقع پر اپنے گروپ کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس پارٹی نے 1993ء کا الیکشن بھی لڑا اور اسمبلیوں کی سیٹیں حاصل کرکے سندھ حکومت میں شمولیت بھی اختیار کی۔ آفاق احمد نے25سال کے فاصلے مٹاکر پھرمتحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ اپنی پارٹی کے اشتراک اور اس مقصد کیلئے خود چل کر متحدہ کے مرکز نائن زیرو جانے کی بات کی ہے۔ وہ رابطہ کمیٹی کی میزبانی کیلئے بھی تیار ہیں۔ ان کی تجویز کو متحدہ کی جانب سے کس حد تک قبولیت عطا ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قبل از وقت ہے‘ تاہم اس کے آثار کم ہی نظر آتے ہیں۔ موجودہ پوزیشن یہ ہے کہ مہاجر سیاست کے یہ تینوں علمبردار ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ تینوں کے ایک دوسرے پر الزامات اور تحفظات ہیں۔ سندھ کی سیاست میں جس طرح جئے سندھ تحریک کئی گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے، اسی طرح سے ایم کیو ایم کے بھی تین دھڑے وجود میں آچکے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی وفاقی سیاست کررہی ہے، اس نے قومی پرچم کو اپنی پارٹی کا پرچم قرار دیا ہے۔ قوم پرستی کے نظریہ کی تکمیل کے لئے سب سے پہلے تو قومی سرزمین درکار ہوتی ہے پھر مشترکہ تہذیب و ثقافت‘ رہن سہن اور زبان بھی اہمیت کی حامل ہے۔ مہاجر بھارت سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہوئے تھے گوکہ وہ اپنی ’’قومی سرزمین‘‘ بھارت میں چھوڑ آئے تھے لیکن ان کی آبادکاری اس دور میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور جواہر لعل نہرو کے درمیان معاہدے کا نتیجہ تھی۔اس معاہدے کے تحت مشرقی بنگال سے ہجرت کرکے مغربی بنگال اور سندھ سے ہجرت کرکے بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں کی جائیداد تبادلہ میں ان مسلمانوں کو ملنا تھی جو اپنی جائیدادیں اور گھر بار‘ زمینیں بھارت میں چھوڑ آئے تھے اور ان کے حقدار نقل مکانی کرنے والے ہندو قرار پائے تھے۔ اس معاہدے پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری تھا کہ 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں خان لیاقت علی خان شہید کردیئے گئے۔ راولپنڈی نہ صرف پنجاب کا ایک بڑا شہر تھا بلکہ افواج پاکستان کے جنرل ہیڈ کوارٹرز کا مرکز بھی۔ اس ایک سانحہ نے مہاجروں کو ہلاکر رکھ دیا۔ لیاقت علی خان کی زندگی میں ان پر ایک الزام یہ لگایا جاتا تھا کہ وہ کراچی‘ حیدرآباد اور سندھ کے دوسرے شہری علاقوں میں مہاجروں (آج کے اردو اسپیکنگ) کو آباد کرکے اپنا حلقہ انتخاب بنانا چاہتے تھے۔ یقینا وہ ایسا ہی کرنا چاہتے ہوں گے کہ حلقہ انتخاب جمہوری‘ پارلیمانی سیاست کا جزواعظم ہے۔ نیز یہ کہ مہاجروں کو بہر صورت کہیں نہ کہیں تو آباد کرنا تھا۔ اگر سندھ میں نہیں تو پھر بنگال‘ پنجاب‘ بلوچستان‘ صوبہ سرحد‘ کہیں نہ کہیں۔ چونکہ پاکستان کا دارالحکومت بھی سندھ ہی میں تھا اس لئے مہاجر خود ہی کشاں کشاں ادھر چلے آئے۔ اس میں لیاقت علی خان کا بھلا کیا دوش۔ لیاقت علی خان مہاجر ہونے کے ساتھ ایک دیرینہ سیاست دان بھی تھے اور انہیں اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پٹھانوں اور بنگالیوں کی بھی اتنی ہی ضرورت تھی جتنی مہاجروں کی۔ وہ مہاجروں کے تحفظ کی علامت تو البتہ تھے ہی مگر ضمانت نہیں تھے۔ وہ اول و آخر ایک سیاست دان تھے اور اس مصلحت اور ضرورت کے تابع بھی جو ہر سیاست دان بالخصوص مقتدر سیاست دان کی زندگی کا جزو ہوتیں ہیں۔ مثال کے طور پر انہوں نے پاکستانی فوج کی سربراہی کے لئے صوبہ سرحد کے جنرل ایوب خان کو منتخب کیا۔ حالانکہ اس عہدہ کے لئے ان سے دو سینئر مہاجر افسر میجر جنرل محمد اکبر خاں (رنگروٹ) اور میجر جنرل رضا موجود تھے۔ یہ مثال اس لحاظ سے ضعیف تو ہوسکتی ہے کہ ایوب خان کی ترقی سے پہلے ہی ان دو حضرات کی قسمت کا فیصلہ ہوچکا تھا بہر حال بے جا نہیں۔ مدعا صرف یہ ہے کہ اقتدار کے لئے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ مہاجر‘ مہاجر کا گلا اور پنجابی‘ پنجابی کا گلا کاٹ سکتا ہے۔

فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر عبدالرحمان صدیقی کے یہ الفاظ تاریخ پر نقش ہیں۔ سندھ میں اس وقت اقتدار اور غلبہ حاصل کرنے کی جنگ چل رہی ہے روحانی پیشوا اور فنکشنل مسلم لیگ کے سربراہ پیر صاحب پگارا کی قیادت میں 16 جماعتوں پر مشتمل ڈیموکریٹک الائنس پیپلزپارٹی سے اقتدار چھیننے کی جستجو میں ہے اور مہاجر سیاست کے تین سرخیل الطاف حسین‘ آفاق احمد اور مصطفی کمال اپنی اپنی بالادستی کے لئے کوشاں ہیں۔ الطاف حسین کی متحدہ قومی موومنٹ کو آپریشن کا سامنا بھی ہے جو گزشتہ ایک سال سے ریاستی ادارے اس کے خلاف کررہے ہیں‘ متحدہ صرف سینیٹ اور اسمبلیوں میں ہی نہیں ہے ،اس نے بلدیاتی الیکشن بھی جیت رکھا ہے۔ وسیم اختر اس کے نامزد میئر ہیں جن سے بعض ادارے خوش نہیں ہیں ،انہیں مقدمات کا سامنا بھی ہے کسی مقدمہ میں سزا ہونے پر ان کا حق نمائندگی بھی ختم ہوسکتا ہے۔ سندھ کی سیاست کا اونٹ آئندہ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا انحصار فریقین کے رویہ اور شہری مسائل کے حل کے لئے روٹ میپ پر ہوگا ۔اس کے علاوہ ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات کا بھی اہم کردار ہوگا۔


متعلقہ خبریں


آفاق احمد کا الگ صوبے کے لیے جدوجہد تیز کرنے کا اعلان وجود - پیر 27 دسمبر 2021

مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے کہاہے کہ الگ صوبے کی جدوجہد تیز کرنے کرنے کا اعلان کرتا ہوں ،یکم مارچ سے صوبے کے حصول کے لیے دستخطی مہم شروع کی جائے گی۔23 مارچ کوعالمی مبصرین کی موجودگی میں صوبے کے قیام کے لیے ریفرنڈم ہوگا۔خالد مقبول، عامر خان، فاروق ستار، انیس قائم خانی...

آفاق احمد کا الگ صوبے کے لیے جدوجہد تیز کرنے کا اعلان

جنگ سے پہلے بھارتی شکست مختار عاقل - پیر 03 اکتوبر 2016

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...

جنگ سے پہلے بھارتی شکست

وفادار اور غدار! مختار عاقل - پیر 26 ستمبر 2016

بغاوت کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو توغداری کہلاتی ہے۔ ایم کوایم کے بانی الطاف حسین کے باغیانہ خیالات اور پاکستان مخالف تقاریر پر ان کی اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سمیت پیپلزپارٹی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) اور فنکشنل مسلم لیگ نے سندھ اسمبلی میں ان کے خلاف قرارداد منظور ک...

وفادار اور غدار!

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان مختار عاقل - پیر 19 ستمبر 2016

کراچی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے ذریعے شہر قائد کو رگڑ رگڑ کر دھویا جارہا ہے۔ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی حب کا چہرہ نکھارا جارہا ہے۔ عروس البلاد کہلانے والے اس شہر کو ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بنایا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ قومی ایکشن پلان کا حصہ ہے۔ پاکستان کے عظیم اور ق...

ڈاکٹر فاروق ستار کا امتحان

کیا ایم کیوایم قائم رہے گی! مختار عاقل - پیر 12 ستمبر 2016

کیا متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سے واقعی کراچی چھن گیا ہے‘ ایم کیوایم کے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیوایم کے نئے سربراہ کی حیثیت سے قبول کرلیاگیا ہے۔ کراچی کے ضلع ملیر میں سندھ اسمبلی کی نشست پر منعقد ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایم کیوایم کی نشست پر پیپلزپارٹی ک...

کیا ایم کیوایم قائم رہے گی!

کوٹہ سسٹم کی بازگشت مختار عاقل - پیر 05 ستمبر 2016

قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر اورقائد حزب اختلاف سیدخورشیدشاہ کہتے ہیں کہ ایم کیوایم کو قائم رہنا چاہئے تواس کا یہ مقصدہرگز نہیں ہوتا کہ انہیں سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی متحدہ قومی موومنٹ سے کوئی عشق یا وہ اسے جمہوریت کیلئے ضروری سمجھتے ہیں۔ اگ...

کوٹہ سسٹم کی بازگشت

سندھ میں نئی سیاسی صف بندی مختار عاقل - منگل 23 اگست 2016

پاکستان میں اقتدار کی کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک وسیع حلقہ اس بات کا حامی ہے کہ فوج آگے بڑھ کر کرپشن اور بدانتظامی کے سارے ستون گرادے اور پاکستان کو بدعنوانیوں سے پاک کردے۔ دوسرا حلقہ اس کے برعکس موجودہ سسٹم برقرار رکھنے کے درپے ہے اورمملکت کے انتظام وانصرام میں ...

سندھ میں نئی سیاسی صف بندی

فوج اور سول حکمران مختار عاقل - منگل 16 اگست 2016

وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بالآخر پاکستان پیپلزپارٹی کے عقابوں کو مجبو رکر ہی دیا کہ وہ اپنے نشیمن چھوڑ کر میدان میں آجائیں اور مسلم لیگ (ن) کو للکاریں۔ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ ماڈل ایان علی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی رہائی کے عوض پی پی پی کی اعلیٰ قیادت ...

فوج اور سول حکمران

جب کراچی وفاقی علاقہ تھا! مختار عاقل - پیر 08 اگست 2016

سندھ کا وزیراعلیٰ بننے سے سید مرادعلی شاہ کی ’’مراد‘‘ تو پوری ہوگئی لیکن صوبے کے عوام بدستور اپنے آدرش کی تلاش میں ہیں ۔رشوت اور بدعنوانیوں سے پاک ’’اچھی حکمرانی‘‘ تو جیسے خواب بن کر رہ گئی ہے۔ اوپر سے رینجرز کی تعیناتی کا تنازع‘ جو حل ہونے میں نہیں آرہا ہے‘ وزیراعلیٰ کے آبائی عل...

جب کراچی وفاقی علاقہ تھا!

سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی مختار عاقل - منگل 02 اگست 2016

سندھ کے میدانوں‘ ریگزاروں اور مرغزاروں سے لہراتا بل کھاتا ہوا شوریدہ سر دریائے سندھ کے کناروں پر آباد باشندے اس عظیم دریا کو ’’دریابادشاہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ دریائے سندھ نہ صرف صوبے کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے بلکہ ’’بادشاہت‘‘ بھی بانٹتا ہے۔ پہلے دریا کے دائیں کنارے پر آباد شہر خیرپور...

سندھ میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی

سید قائم علی شاہ کی رخصتی مختار عاقل - بدھ 27 جولائی 2016

نپولین کاشمار دنیا کے مشہورترین جرنیلوں میں ہوتا ہے اس کی جرأتمندی اور بہادری مثالی تھی۔ ’’ناممکن‘‘ کا لفظ اس کی ڈکشنری میں نہیں تھا۔ فرانس میں اس کی حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی‘ اقتدار سے محروم ہوا تو معزول کرکے جزبرہ ’’البا‘‘ میں قید کردیاگیا۔ لیکن جلد ہی وہاں سے بھاگ نکلا۔ ...

سید قائم علی شاہ کی رخصتی

ترکی سے پاکستان تک مختار عاقل - منگل 19 جولائی 2016

15 جولائی 2016 ء کی شب گزشتہ 48 سال کے دوران چوتھی مرتبہ ترکی میں ’’فوجی انقلاب‘‘ کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ بغاوت کا المیہ ہے کہ اگر کامیاب ہوجائے تو انقلاب اور ناکام ہو تو غداری کہلاتی ہے۔ 15 جولائی کا فوجی اقدام چونکہ ناکام ثابت ہوا لہٰذا باغیوں کے سرخیل 5 جرنیل اور 29 کرن...

ترکی سے پاکستان تک

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر