وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاناما لیکس اور ہمارے حکمران۔۔۔۔!

جمعرات 07 اپریل 2016 پاناما لیکس اور ہمارے حکمران۔۔۔۔!

panama-papers

ایک سیاح کسی ملک کے ہوٹل میں گیا۔ کاؤنٹر پر 100 ڈالر کا نوٹ بطور ایڈوانس رکھا اور کمرہ پسند آنے کی صورت میں بکنگ کا کہہ کر کمرہ دیکھنے چلا گیا۔ اتنی دیر میں اس ہوٹل کو گوشت سپلائی کرنے والا قصائی آیا اور اپنے قرضے کے عوض وہی 100 ڈالر کا نوٹ اٹھا کر چلا گیا۔ قصائی اپنے جانوروں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا مقروض تھا، اس نے وہ نوٹ اس ڈاکٹر کو دے دیا۔ ڈاکٹر کے بیشتر مہمان اسی ہوٹل میں قیام کرتے تھے اور وہ ہوٹل کا مقروض تھا۔ اس نے وہ نوٹ ہوٹل بھجوادیا اور ایک بار پھر اس کاؤنٹر پر وہی 100 ڈالر کا نوٹ پڑا تھا۔ سیاح واپس کاؤنٹر پر آیا اور کمرہ پسند نہ آنے کا کہہ کر اپنا 100 ڈالرکا نوٹ اٹھا کر چلا گیا۔ اس پورے عمل سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا لیکن کئی لوگوں کا قرضہ ضرور اترگیا۔

یہ قصہ سوشل میڈیا پر بہت مشہور ہے اوراس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر سرمایہ ملک میں آئے گا تو قرضے ضرور اتریں گے، لیکن اگر سرمایہ باہر جائے گا تو قرضے بڑھنے پر تعجب بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ جب ملک کے حکمران اپنا سرمایہ باہر لگائیں گے تو باہر سے کون پاکستان آئے گا۔ اس طرح ملک کو’’ایشین ٹائیگر‘‘ تو دور ایشین بلی بھی نہیں بنایا جاسکتا۔

وکی لیکس اور سوئس لیکس کے بعد’’پاناما لیکس‘‘ نے دنیا بھر کے سربراہان مملکت اور دیگر سیاستدانوں کے 60 قریبی رشتہ دار اور رفقا کے نام ‘لیک’ کرکے تہلکہ مچادیا ہے۔ روسی صدر پیوٹن کے قریبی رفقا، چینی صدر کے بہنوئی، یوکرین کے صدر، ارجنٹائن کے صدر، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے آنجہانی والد اور وزیر اعظم پاکستان کے چار میں سے تین بچوں کا ان دستاویزات میں ذکر موجود ہے۔ آئس لینڈ، برطانیہ سمیت غیر ملکی سربراہ، شہنشاہ، امیتابھ ایشوریا خاندان اور جیکی چن بھی کمپنیوں کے مالک نکلے۔ ایسے لوگ کالے دھن کو سفید کرنے کے لئے ایسی کمپنیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی تعداد دو لاکھ چودہ ہزار کے قریب ہے۔

یہاں بکری چوری پر تو سزا ہے لیکن عوام کے پیسے کی ہاتھی نما چوری پرکوئی موثر قانون موجود نہیں

تہلکہ خیز انکشافات کے بعد کئی ممالک میں تحقیقات شروع ہوگئی ہیں جبکہ بعض ممالک کی سیاسی جماعتیں بحث اور الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات جرمن اخبار ’’سودیوچے زیتنگ‘‘ نے حاصل کیں جس نے انہیں تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم آئی سی آئی جے کے ساتھ شیئرکیا۔ یہ کنسورشیم 76 ملکوں کی 109 میڈیا آرگنائزیشنز کے صحافیوں پر مشتمل ہے۔ اس میں برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ بھی شامل ہے اور ان دستاویزات کا تجزیہ کرنے میں ایک سال سے زیادہ لگاہے، یہ عجلت میں جاری کی گئی کوئی دستاویزات نہیں ہیں۔ بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکس ہیں جس کے مقابلے میں وکی لیکس بھی چھوٹی ہیں۔ پاناما لیکس میں دو لاکھ 14 ہزار افراد، کمپنیوں، ٹرسٹ اور فاؤنڈیشن کی تفصیلات ہیں۔ پاناما لیکس میں اب تک 200 پاکستانیوں کی نشاندہی کی جاچکی ہے اور یہ گنتی ابھی جاری ہے، مزید کتنے پاکستانی کتنی لا فرمز کا استعمال کرکے غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت اپنے پاس رکھتے ہیں اس کا اندازہ نہیں؛ حالانکہ اب تک محض ایک ہی کمپنی کا ریکارڈ دستیاب ہوا ہے۔ ان دستاویزات میں 1977 سے لے کر دسمبر 2015 تک کی معلومات موجود ہیں۔ ان دستاویزات کا بڑا حصہ ای میلز پر مشتمل ہے، لیکن معاہدوں اور پاسپورٹس کی تصاویر بھی شامل ہیں۔

ٹیکس سے بچنے کے کئی قانونی طریقے ہیں لیکن اس وقت دنیا بھر میں زیادہ تر دولت کے حقیقی مالک کی شناخت چھپانا، دولت حاصل کرنے کے ذرائع کو خفیہ رکھنا اور اس دولت پر ٹیکس نہ دینے جیسے اقدامات کرنا عام ہے۔ آف شور کمپنیاں ظاہری طور پر تو قانونی ہیں لیکن اندر سے کھوکھلی ہوتی ہیں اور دولت کے مالک کی شناخت کو چھپاتی ہیں۔

پاناما لیکس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑرہے ہیں۔ عوام کا پیسہ چوری کرکے باہر لے جانے والوں کے ثبوت اب آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔کالے دھن کی بات ہو اور پاکستانی سیاست دانوں کا ذکر نہ ہو، ایسا ممکن ہی نہیں۔ پاناما لیکس نے جہاں دنیا بھرکے سیاستدنواں کا کچھا چٹھا کھول کر سامنے رکھا، وہیں پاکستانی سیاست کے بڑے بڑے ناموں کی ہنڈیا بھی بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔کیا نواز! کیا بھٹو! بڑے سیاسی مہرے کالے دھن کی ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

خفیہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد بھٹو اور شریف خاندان سمیت کئی معززین کے ناموں کی دھجیاں اڑ گئیں۔ کالے دھن اور ٹیکس چوری میں صنعت کار، ججز، بینکر بھی شامل ہیں جبکہ پڑوسی ملک بھارت کے بگ بی امیتابھ، حسن کی دیوی ایشوریا اور کے پی سنگھ کی شہرت اور عزت بھی داغ دار ہوگئی ہے۔

بعض حکومتی شخصیات کا کہنا ہے کہ لندن کا مقدمہ لندن میں چلے گا۔ ان سے ایک مودبانہ سوال ہے کہ ایک امریکی اخبار کی خبر پر ایگزیکٹ نامی کمپنی کا نام ونشان ختم کرنے کیلئے ایف آئی اے نے سر دھڑکی بازی کیوں لگائی؟ عمران فاروق کا قتل لندن میں ہوا لیکن ایف آئی آر پاکستان میں کیوں درج ہوئی؟ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں قانون کی کمزوری کو ظاہرکرتا ہے۔ یہاں بکری چوری پر تو سزا ہے لیکن عوام کے پیسے کی ہاتھی نما چوری پرکوئی موثر قانون موجود نہیں۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی صاحب آرٹیکل 6کو تو آئین سے نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن تمام خرابیوں کی جڑ اور ان کی اپنی تیار کردہ اٹھارویں ترمیم پر کوئی بات کیوں نہیں کی جاتی۔ پاکستان میں پہلے ہی ’’لوٹ مار‘‘ کم تھی جو اٹھارویں ترمیم کے نا م پر ’’لائسنس ٹو لوٹ‘‘ دے دیا گیا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں ایسی قانون سازی کی جائے کہ سرکاری وسائل کے غلط استعمال اور لوٹ مار کا ’’چانس‘‘ ہی ختم ہو جائے۔ سیاستدان رقوم کے لئے نہیں قوم کے لئے سوچیں۔ قوم کمیشن اور کک بیکس کے بارے میں سوچنے سے نہیں حکمرانوں کی پلاننگ اور پالیسیوں سے بنتی ہے۔ ہمارے یہاں اکثر’’پاورفل ‘‘شخصیات لوٹ مار کی’’کیٹ واک ‘‘میں اپنے’’’ جلوے‘‘ دکھانے کے لئے بے چین رہتی ہیں۔

مہاتیر محمد نے ملائیشیا کو کن بلندیوں پر پہنچا دیا۔ لی کوآن یو نے جب اقتدار سنبھالا تو سنگاپور میں ایک میل لمبی سڑک بھی پکی نہیں تھی، لیکن جب اقتدار چھوڑا توسنگاپور میں ایک فٹ کچی سڑک نہیں تھی۔ لی کوآن یو کی پالیسیوں کے نتیجے میں 18سال کا ہر نوجوان لڑکا یا لڑکی حکومت سے اپنی پسند کا روزگار اور گھر حاصل کرنے کا حقدار تھا، آج بھی سنگاپور میں بچے کی پیدائش کا الاؤنس دیا جاتا ہے۔ ان حکمرانوں نے اپنی منصوبہ بندی سے عوام کی قسمت بدلی کیونکہ انہوں نے کبھی اپنی قسمت بدلنے کا نہیں سوچا۔ اگر وہ اپنی قسمت بدلنے کا سوچتے تو وہاں کے عوام آج پاکستانی عوام جیسی زندگی گزار رہے ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں حکمرانوں کا ذکر آتے ہی وہاں کے عوام کی آنکھیں آج بھی نم ہوجاتی ہیں۔ حکمرانی خدا کا عطیہ ہے اور اسے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے والے اکثر حکمرانوں کی قبروں کے قریب سے بھی کوئی نہیں گزرتا۔

پاکستانی حکمرانوں اور سرکاری افسران کو قانون کے ذریعے پابند کیا جائے کہ وہ اقتدار میں آنے سے قبل جو سیاسی حلف اٹھاتے ہیں اس میں یہ جملہ بھی شامل ہو کہ ’’نہ میں خود کوئی مالی کرپشن کروں گا نہ میرے بچے اوررشتہ دارایسا کریں گے‘‘ اور نہ ہی میں کسی کرپٹ شخص کی کوئی مدد کروں گا۔ جس طرح سرکاری ملازم پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے دو سال تک الیکشن نہیں لڑسکتا اسی طرح حکمرانوں پر بھی یہ پابندی ہونی چاہیے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد کوئی کاروبار نہیں کریں گے۔ بھارت کا کوئی سابق وزیر اعظم یا صدر کسی بیرونی ملک میں رہائش پذیر نہیں ہے، ہمارے اکثر حکمران رہتے بیرون ملک ہیں اور حکومت کرنے پاکستان آتے ہیں۔۔۔۔ ملک کو ایسے’’گردشی‘‘ حکمرانوں سے نجات دلانا ہوگی۔


متعلقہ خبریں


معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟ صبا حیات - بدھ 26 اکتوبر 2016

یہ شاندار بات ہے کہ آپ نے مختصر سفر کے دوران مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی،کرسٹین لغرادکا وزیر اعظم سے مکالمہ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرنے شرح نمو میں اگلے سال مزید کمی ہونے کے خدشات کابھی اظہار کردیا عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغرادگزشت...

معاشی ترقی کا اعتراف یا عوام کو ٹیکسوں میں جکڑنے پر شاباشی؟؟

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے! نجم انوار - جمعه 21 اکتوبر 2016

پانامالیکس کی عدالتی کارروائی میں پیش رفت کو حزب اختلاف کے تمام رہنماؤں نے بہت زیادہ اہمیت دی ہے،معاملہ معمول کی درخواستوں کی سماعت سے مختلف ثابت ہوسکتا ہے عمران خان دھرنے میں دائیں بازو کی جماعتوں کولانے میں کامیاب ہوگئے تو یہ دھڑن تختہ کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے،متنازعخبر کے معاملے ...

وزیراعظم تین سمتوں سے گھیرے میں آگئے!

تحریک انصاف دھرنا ..مسلم لیگ نون نے نفسیاتی جنگ شروع کردی! نجم انوار - جمعرات 20 اکتوبر 2016

اخبارات میں مختلف خبروں اور تجزیوں کے ذریعے دھرنے کے شرکاکیخلاف سخت کارروائی کے اشارے دیے جائیں گے عمران خان کے لیے یہ"مارو یا مرجاؤ" مشن بنتا جارہا ہے، دھرنے میں اْن کے لیے ناکامی کا کوئی آپشن باقی نہیں رہا مسلم لیگ نون کی حکومت نے تحریک انصاف کے دھرنے کے خلاف ایک طرح سے نفسیا...

تحریک انصاف دھرنا ..مسلم لیگ نون نے نفسیاتی جنگ شروع کردی!

پاناما کے بعد’’بہاماس لیکس‘‘، انکشافات کی لہر کہاں جاکر تھمے گی؟ عارف عزیز پنہور - هفته 24 ستمبر 2016

ابھی پاناما لیکس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھا بھی نہ تھا کہ ’’انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس‘‘ (آئی سی آئی جے) نے اس اسکینڈل کی اگلی قسط چھاپ دی، جس میں دنیا بھر کی ایسی شخصیات کے ناموں کے انکشاف کیا گیا ہے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے ملک میں عائد ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جزائ...

پاناما کے بعد’’بہاماس لیکس‘‘، انکشافات کی لہر کہاں جاکر تھمے گی؟

احتجاجی تحریک پر حکومت بدحواس! دباؤ میں آتے ہی ایف بی آر نے نوٹسز جاری کردیے باسط علی - اتوار 04 ستمبر 2016

تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حکومت مخالف اور پاناما لیکس پر احتجاج سے حکومت اب کچھ بدحواس نظر آتی ہے۔ کنٹینرز سے احتجاج اور ریلیوں کوروکنے کے عمل نے کہ ثابت کردیا ہے کہ حکومت "نے باگ ہاتھ میں ہے ، نہ پاہے رکاب میں" کی عملی تصویر بنتی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی...

احتجاجی تحریک پر حکومت بدحواس! دباؤ میں آتے ہی ایف بی آر نے نوٹسز جاری کردیے

ایف بی آر نے وزیراعظم کے بچوں سمیت 350 افراد سے آمدنی کی تفصیلات مانگ لیں! وجود - اتوار 04 ستمبر 2016

ایف بی آر (فیڈرل بورڈ آف ریونیو) نے پاناما لیکس میں سامنے آنے والے افراد سے اُن کی آمدنی کی تفصیلات مانگ لی ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایف بی آر نے اس ضمن میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز شریف کو بھی نوٹس ارسال کیے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشر...

ایف بی آر نے وزیراعظم کے بچوں سمیت 350 افراد سے آمدنی کی تفصیلات مانگ لیں!

پاناما لیکس: الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو بھی نوٹس جاری کردیا! وجود - جمعرات 18 اگست 2016

پاناما لیکس پر وزیراعظم نوازشریف کے قوم سے کیے جانے والے وعدے کے بھی ایفانہ ہونے کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نوازشریف اور دیگر متعلقین کے خلاف نااہلی کے ریفرنس دائرکیے گئے ۔جس پر الیکشن کمیشن نے وزیراعظم نوازشریف سمیت دیگر چھ فریقین کو بھی 6 ستمبر کے لیے نوٹس جاری کردیئ...

پاناما لیکس: الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو بھی نوٹس جاری کردیا!

عمران خان کا پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ جانے کا اعلان وجود - بدھ 17 اگست 2016

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے پاناما لیکس کے معاملے پر سپریم کورٹ جانے اور 3 ستمبر سے پاکستان مارچ کا اعلان کردیاہے۔ عمران خان نے بنی گالہ میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوازشریف نے کرپشن کا پیسہ بیرونِ ملک بھیجا جس کے خلا ف ہم الیکشن کمیشن میں جاچکے ہیں اور اب ع...

عمران خان کا پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ جانے کا اعلان

پاناما پیپرز: حکومت تحقیقات اور قانون سازی دونوں سےبچنا چاہتی ہے! وجود - منگل 21 جون 2016

پاناما پیپرز کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ضوابط کار کے تعین کی خاطر قائم پارلیمانی کمیٹی سے باقی رہ جانے والی معمولی امیدیں بھی اب دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ حکومت دراصل ایک غیر موثر کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو قالین کے نیچے چھپانا چاہتی ہے۔ متحدہ حزب اختلاف ک...

پاناما پیپرز: حکومت تحقیقات اور قانون سازی دونوں سےبچنا چاہتی ہے!

تحریک انصاف نوازشریف خاندان کے گھیراؤ کی تیاری میں وجود - منگل 21 جون 2016

تحریک انصاف جہاں ایک طرف پاکستان میں نواز حکومت کے خلاف عید الفطر کے بعد تحریک چلانے کی تیاریاں کررہی ہے، وہیں وہ نواز شریف اور اُن کے خاندان کے خلاف لندن کی عدالت سے رجوع کرنے پر بھی اپنے صلاح مشورے مکمل کر چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف نے پاناما لیکس کے مسئلے پر لندن ...

تحریک انصاف نوازشریف خاندان کے گھیراؤ کی تیاری میں

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟ محمد انیس الرحمٰن - جمعه 17 جون 2016

خطے کے حالات جس جانب پلٹا کھا رہے ہیں اس کے مطابق افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان کے خلاف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی کرزئی انتظامیہ کا روپ دھارتی جارہی ہے جس کا مظاہرہ اس وقت کابل انتظامیہ کی جانب سے بھارت اور ایران کے ساتھ مزیدزمینی تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کی شک...

نریندر مودی کی خطے میں ’’شٹل ڈپلولیسی‘‘ کیا رنگ لائے گی؟

سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، عمران خان کی حزب اختلاف کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت وجود - پیر 13 جون 2016

پاناما لیکس پر تحقیقات کے لیے ضوابط کار کی تیاری کی خاطر قائم پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی پر تحریک انصاف نے سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل اراکین کے سات اجلاس ہونے کے باوجود تاحال تعطل برقرار رہنے کے باعث یہ خیال جڑ پکڑ رہا ہے کہ پارلیمانی ...

سڑکوں پر آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، عمران خان کی حزب اختلاف کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت

مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر