وجود

... loading ...

وجود
وجود

غازی علم الدین شہید ۔ شہیدِ پاک طینت

هفته 31 اکتوبر 2015 غازی علم الدین شہید ۔ شہیدِ پاک طینت

anwar haqi

جیل یا عقوبت خانے کا تصور یا تاثر کبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔۔۔ پھانسی گھاٹ تو ہوتا ہی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔انسان کو اپنا سکون اور جان بہت عزیز ہوتی ہے۔ اس لئے جیل جانا کسی کو بھی پسندیا قبول نہیں ہوتا۔۔ 31 ؍ اکتوبر غازی علم دین شہید کی برسی کے موقع پر سینٹرل جیل میانوالی کے دورے کی خواہش تھی ۔ خوش قسمتی سے ایک روز پہلے مجھے یہ دعوت موصول ہوئی کہ کل سینٹرل جیل میں غازی علم دین شہیدؒ کے لئے قرآن خوانی کا اہتمام ہے۔ دعوت کو سعادت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی جیل پہنچ گئے۔پنجاب کی اس معروف جیل کا ماحول بدلا بدلا اور ہر قسم کے خوف سے آزاد محسوس ہو رہا تھا۔ جیل کے احاطے میں مختلف قسم کی مشقتوں میں مصروف قیدی تھے یا ڈیوٹی پر مامور جیل کا عملہ ۔۔۔ ہر کوئی صاف سُتھرا اور دُھلا دُھلا سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ جو بھی ملتا یہی سوال کرتا کہ آپ غازی علم دین شہید کے لئے ہونے والی قرآن خوانی میں شرکت کے لئے آئے ہیں۔ ہمارا جواب اثبات میں پا کر سوال کرنے والا عجیب سی خوشی محسوس کرتا اور ایسا محسوس ہوتا تھاکہ شاید ہماری جیل آمد کو وہ اپنی کسی خوشی میں شرکت سمجھ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ شاید صورتحال بھی ایسی ہی تھی۔۔۔۔

یہ سب کچھ سرشاری کے احساس کو استقرار عطا کر رہا تھا۔ایسے میں یہ سوچ مسلسل میرے دماغ میں رہی کہ غازی علم دین شہید ؒ کا عرس تو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں منایا جا رہا ہے۔ رحمتوں کا نزول مرقدِ پاک طینت سے سینکڑوں میل دور بھی کس قدر تابانیاں بکھیر رہا ہے۔ جیل کے قیدیوں اور عملے نے بتایا کہ صبح سویرے انہوں نے پھانسی گھاٹ (جو 86 سال قبل غازی علم دین کی شہادت گاہ بنا تھا )پر شہید کے لئے فاتحہ خوانی اور بلندی درجات کی دُعا بھی کی ہے۔ دن بھر قیدی اُس ’’کوٹھری ‘‘(Death Cell ) میں تلاوتِ کلام پاک میں مصروف رہے، جہاں شہادت سے قبل غازی علم دین شہید نے اپنی زندگی کے آخری ایام گذارے تھے۔ وہ پھانسی کی اس کوٹھری میں سترہ دن (14 اکتوبر1929 ء سے 31 اکتوبر1929 ء) قید رہے۔۔۔جیل حکام نے کئی سال پہلے اس ڈیتھ سیل کو محفوظ قرار دیا تھا۔ لیکن موجودہ سپریٹنڈنٹ مرزا ساجد بیگ نے اس کوٹھڑی میں قرآن مجید اور جائے نماز رکھوا دیا ہے۔ جیل ذرائع کے مطابق قیدیوں اور حوالاتیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہاں بیٹھ کر تلاوت کریں اور نوافل ادا کریں۔ اور اکثر قیدی یہاں آکر آقائے نامدار تاجدار انبیاء رحمت العالمین ﷺ پر درود و سلام پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یوں تقریباً ہر روز ہی سینٹرل جیل میانوالی کے اس گوشے میں درودو سلام کی بہار رہتی ہے۔

تاریخِ انسانی میں شہیدانِ ناموسِ رسالت ﷺ کے روشن ، درخشاں، اُجلے اور سنہری دبستان کا مطالعہ کریں تو شاتمانِ رسول کے ان جگر دار دشمنوں ۔۔۔۔۔۔ استقامت کے تراشے ہوئے پیکروں۔۔۔ ایمان کی تجسیم کے معطر و برگزیدہ ناموں کی فہرست میں غازی علم دین شہید کا نام ضو فشانیاں بکھیرتا نظر آتا ہے۔۔غازی علم دین شہید نے ایمان کی پختگی اور جذبے کی ثقاہت کو دار کی کسوٹی پر کس کے دیکھا۔ملعون راجپال کی بہیمانہ حرکت کی خبر سن کر غازی علم دین شہید کا رُواں رُواں سر کشیدہ نظر آتا تھا۔۔۔انہوں نے جس انداز میں جنابِ رسالت مآب ﷺ سے اپنی محبت اور والہانہ عقیدت کا ثبوت دیا اس سے شماتت کی ہر جسارت سر نگوں ہو ئی اور حفاظتِ حرمت کی کوشش سر بلند ٹہری ۔۔۔۔ آج غازی علم دین شہیدؒ کی حیثیت اور مقام کے سامنے دنیا کی عظمتیں سر نگوں بیٹھی ہیں اور عقبیٰ کی نعمتیں خیر مقدم کے لئے سروقد کھڑی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرحبا ۔۔۔ اے شہیدِ پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرحبا ۔۔

سینٹرل جیل میانوالی میں غازی علم دین شہید ؒ کے یوم ِ شہادت کے موقع پر جو معطر ماحول پیدا ہوا ۔ اس کی مہک دور تک محسوس کی جائے گی۔جو ایک طرف اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سے دلبستگی رکھنے والوں کو مسحور کرے گی تو دوسری طرف’’ سفید مغرب ‘‘ اور ’’ سُرخ مشرق‘‘کو تشویش میں مبتلا کر دے گی۔ایسا کیوں ہوگا ۔۔۔؟ میرے نزدیک یہ سوال بھی پُرانا اور اس کا جواب بھی پُرانا۔۔۔۔کیونکہ ہمارے ہاں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو تناقضِ فکر میں مبتلا ہیں۔ دوسال پہلے کی بات ہے کہ عین اُس وقت جب لاہور کے قبرستان میانی صاحب سمیت ملک کے طول و عرض میں مسلمان غازی علم الدین شہید ؒکا یومِ شہادت منانے میں مصروف تھے۔ تو پاکستان کے بنیاد پرست حکمران جنرل ضیاء الحق مرحوم کی نمازِ جنازہ کی کوریج کرتے ہوئے غمناک انداز اختیارکرنے والے حسین حقانی کا ایک انٹرویو بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ’’رائٹر ‘‘ نے جاری کیا تھا جس میں امریکامیں پاکستان کے اس سابق سفیر کا کہنا تھا۔’’ جہادی سوچ ختم کئے بغیر پاکستان اور خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔پاکستان اسی کی دہائی میں جہاد کے لئے تربیت اور اسلحہ کا گڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستان نے اس کا رُخ بھارت باالخصوص کشمیر کی طرف موڑ دیا۔پاکستان میں کسی بھی حکومت کے لئے جہادیوں کا بوریا بستر لپیٹنا مشکل کام ہے۔‘‘

حسین حقانی جنرل ضیاء الحق مرحوم کے اُسی دور میں سرکاری ذریعہ ابلاغ ’’ پی ٹی وی ‘‘ کے دسترخوان سے نعمتیں سمیٹتے رہے ہیں جس دور کو وہ پاکستان میں جہادی تربیت اور اسلحہ کا گڑھ قرار دینے کا دور قرار دے رہے ہیں۔ حسین حقانی گزشتہ دورِ حکومت میں امریکا میں پاکستان کے سفیرتھے تو ان کی حرکات و سکنات ایسا ظاہر کرتی تھیں کہ پاکستان کے خرچے پر وہ امریکا میں امریکا کے ہی سفیر ہیں۔وہ اپنی نئی کتاب میں بھی پاکستانی حکومت پر عسکری تنظیموں کی براہ راست امداد کا الزام بھی عائد کر چکے ہیں۔۔ ’’بوسٹن یونیورسٹی ‘‘ میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کی حیثیت سے بھی وہ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔انہوں نے اپنے آقاؤں کو مسلمانوں سے ’’ روحِ محمد ﷺ‘‘ نکال دینے کی پرانی استعماری تجویز کا بار باراعادہ کیا ہے۔۔۔ امریکی حکومت سے ڈالروں کے عوض اپنی غیرت او ر حمیت کا سودا کرنے والے حسین حقانی کو پتہ ہی نہیں کہ حقیقی مسلمان حق کے لئے اپنا سب کچھ لُٹا دیتا ہے۔مال و دولت ، رشتے ناطے،دنیاوی وقاراور اپنی زندگی سے وابستگی سب کچھ عشقِ خدا میں نثار کر دیتا ہے ۔ قرآن ِ کریم میں ارشاد ہے کہ ’’ یقینا اﷲ نے مسلمانوں کے جان ومال جنت کے عوض خرید لئے ‘‘اب کوئی چیز مسلمانوں کی اپنی نہیں رہی۔وہ سب کچھ بیچ چُکے ہیں ۔اور ان کے بدلے میں خُدا نے انہیں جنت عطا کی ہے۔اور اپنی رضامندی سے انہیں نواز دیا اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصدِ حقیقی بھی ہے۔

دن بھر قیدی اُس ’’کوٹھری ‘‘(Death Cell ) میں تلاوتِ کلام پاک میں مصروف رہے، جہاں شہادت سے قبل غازی علم دین شہید نے اپنی زندگی کے آخری ایام گذارے تھے۔

اسلام برداشت ، امن و آشتی کا دین ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے کبھی بھی قدامت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ انتہاپسندی کی تمام شکلیں بشمول مذہبی انتہا پسندی امریکاکی جانب سے اختیار کی گئی ہیں۔ نہ جانے مذہبی انتہا پسندی کو مسلمانوں کے ساتھ منسوب و محدود کرنے والوں کوامریکا کی مذہبی انتہا پسندی کیوں نظر نہیں آتی۔یہ لوگ اس حقیقت سے آشناکیوں نہیں ہوتے کہ امریکا میں’’رینڈ کارپوریشن ‘‘کے نام سے جو تھنک ٹینک ہے وہ نہ صرف اسلام دشمن ہے بلکہ اس کے تمام کے تمام ارکان جن کی تعدا د9 ہے قدامت پسند ہیں ۔ یا یہ لوگ سولہ اکتوبر 2005 ء کواے ایف پی کی جاری کردہ اس خبر کو کیوں بھول جاتے ہیں۔جس میں اُس وقت کے امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ ’’ افغانستان اور عراق پر حملے کا حکم مجھ (بُش ) کو خدا نے دیا تھا۔‘‘اے ایف پی کے مطابق جارج ڈبلیو بُش نے جون2003 ء میں فلسطین کے رہنما محمود عباس نبیل سے ایک ملاقات کے دوران انہیں بتایا تھا کہ ’’ میں ( بُش )خدا کی طرف سے تفویض کردہ مشن کی تکمیل کر رہا ہوں۔خُدا نے مجھ سے یہ کہا ہے کہ جارج جاؤ اور افغانستان میں دہشت گردوں کا تعاقب کرو۔میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر مجھے خُدا نے کہاکہ جارج جاؤ اور عراق میں مطلق ا لعنانیت ختم کردو، میں نے ایسا ہی کیا اور اب مجھے خدا نے فلسطینی ریاست کے قیام کا حکم دیا ہے ‘‘

اب کوئی حسین حقانی اور ان جیسے دوسرے روشن خیالوں اور اعتدال پسندوں سے پوچھے کہ سابق امریکی صدر کے اس مذہبی رُجحان کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے۔کیا امریکی معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی اپنی آخری حدو ں کو چھوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔کیا تھوڑی سی روشن خیالی اور اعتدال پسندی پاکستان سے امریکابرآمد کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر ہمارے یہ دانشور مغربی تاریخ کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو انہیں کروڑوں انسانوں کے قتل کی حیرت انگیز داستانیں اور مذہبی انتہا پسندی کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہی وہ وقت نہیں جہاں ہمیں اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کر نی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟


متعلقہ خبریں


بدلنے والا شیخ انوار حسین حقی - پیر 03 اکتوبر 2016

راولپنڈی کی لال حویلی کے مکین شیخ رشید احمد نے جب سے’’ اپنی ‘‘ سیاست شروع کی ہے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے خود کو سیاست میں ’’ اِن ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اُن کی سیاسی کہانی مدو جذر اور پلٹنے جھپٹنے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود راولپنڈی کے...

بدلنے والا شیخ

شیر کا شکاری اور رائے ونڈمارچ انوار حسین حقی - جمعه 30 ستمبر 2016

میں جب بھی یہ نعرہ سنتا ہوں ’’ دیکھو دیکھو کون آیا ۔ شیر کا شکاری آیا ‘‘ تو مجھے قیامِ پاکستان سے پہلے ’’کپتان ‘‘ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کی ایک خونخوار شیر سے ’’ ہاتھا پائی ‘‘ کا واقعہ یاد آ جاتا ہے ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے ضلع میانوالی اور ...

شیر کا شکاری اور رائے ونڈمارچ

اندھے سفر کا حاصل ۔۔؟ انوار حسین حقی - پیر 05 ستمبر 2016

کراچی کے نو منتخب میئر وسیم اختر نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ـ’’ جئے بھٹو ‘‘ اور ’’ جئے عمران خان ‘‘ کے نعرے لگائے تو ماضی کے دھندلکوں سے 12 ستمبر2007 ء کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ مری یادوں کے خزانے چٹیل ویرانوں اور کچلے ہوئے خوابوں کے ریزوں جیسے ہیں۔ تپاں جذبوں سے ...

اندھے سفر کا حاصل ۔۔؟

عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور سیاست کی بھیرویں انوار حسین حقی - پیر 29 اگست 2016

پروفیسر منور علی ملک میرے انگزیری کے اُستاد اور عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے دوست ہیں ۔ اپنی کتاب ’’ درد کا سفیر ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ اُونچے سُروں کی شاخوں میں اُلجھ کر جب یہ آواز کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھٹراتی ہے تو روح کا شجر جڑوں تک لرز اُٹھتا ہے ۔ اور پھر جب اس بلندی سے کسی ...

عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور سیاست کی بھیرویں

محمد منصور آفاق انوار حسین حقی - جمعه 30 اکتوبر 2015

محمد منصور آفاق شاعر ، ادیب، ڈراما نگار اور کالم نگار کی حیثیت سے ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہے ۔ وہ اپنی ہر غزل، نظم ،شعر ، مصرعے، ڈرامے اور کالم سے پہچانا جاتا ہے ۔ میں محمد منصور آفاق کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ تخلیقی عمل میں پوری طرح گرفتار ہونے کے لئے ’’قلبی وارداتیں ‘‘ کرنے ک...

محمد منصور آفاق

کپتان کا خاندانی پس منظر انوار حسین حقی - هفته 10 اکتوبر 2015

نیازی قبائل کی برصغیر میں آمد کا سلسلہ ہندستان پر سلطان محمود غزنوی کی ’’ دستک ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔لیکن ان قبائل کی باقاعدہ منظم شکل میں اس علاقے میں آمد بہت بعد کی بات ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ نیازیوں کی اکثریت اوائل میں غزنی کے جنوبی علاقے میں آباد تھی ۔ اس علاقے پر انڈروں اور خلجیو...

کپتان کا خاندانی پس منظر

کپتان کی گھریلو زندگی اور پاکستانی ذرایع ابلاغ انوار حسین حقی - هفته 26 ستمبر 2015

پاکستان کے انحطاط پزیر معاشرے کی صحافت کے رنگ نرالے ہی نہیں مایوس کُن بھی ہیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے غیر تربیت یافتہ اینکرز کی صحافت ایک ایسی موج کی طرح رقص کناں ہے جسے ہر دم یہ گماں رہتا ہے کہ اُس کا عین اگلا اُچھال اُسے ساحلِ مراد سے ہمکنار کر دے گا۔ لیکن حقائق کی منہ زور ہو...

کپتان کی گھریلو زندگی اور پاکستانی ذرایع ابلاغ

شیر کا شکاری اور نمل شہرِ علم انوار حسین حقی - جمعه 18 ستمبر 2015

کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کے ہمراہ’’نمل شہر علم ‘‘ میں موجود تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم جیسا سماجی خدمت کا ادارہ قائم کیا ۔ کراچی اور پشاور کے شوکت خانم ہسپتال بھی تکمیل کے مراحل کے قریب ہیں ۔میں نے ان عظیم الشان اداروں کے حوالے سے عمران خان کو کبھی...

شیر کا شکاری اور نمل شہرِ علم

اکیسویں صدی کا پاکستان اورغیر انسانی وسیلہ روزگار انوار حسین حقی - بدھ 16 ستمبر 2015

دریائے سندھ کے شمالی کنارے اور سلاگر پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد سینکڑوں سال پرانے شہر کالاباغ کامحنت کش اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کے لئے ’’ سائیکل رکشہ‘‘ کے ذریعے جانوروں کی طرح انسان کا بوجھ کھینچنے پر مجبور ہے۔عظیم مسلمان فاتح سلط...

اکیسویں صدی کا پاکستان اورغیر انسانی وسیلہ روزگار

اُردومتمدن ہے گلبانگِ ثقافت ہے انوار حسین حقی - جمعرات 10 ستمبر 2015

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس جوادایس خواجہ بطور چیف جسٹس اپنی بائیس روزہ تعیناتی مکمل کرکے ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ 18 ؍ اگست 2015 ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اُنہوں نے قوم کے ماضی کے حسین البم سے نغمہ عشق و محبت کی کہانی کے طور پر اردو زبان کو نطق و تکلم کے جواں عالم ...

اُردومتمدن ہے گلبانگِ ثقافت ہے

’’راہ وچ قبر ہووے ڈھولا لنگھے دعا کرکے‘‘ انوار حسین حقی - اتوار 06 ستمبر 2015

قدرت نے ’’ کپتان‘‘ کی زندگی کو نعمتوں کا موسمِ بہار بنایا ہوا ہے ۔ یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ برطانیہ کے وائس چانسلر ’’ مارک کلیری‘‘ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے انسانیت کی خدمت کی بدولت دنیا بھر میں اپنے لئے احترام حاصل کیا ہے۔ بڑے اور لیجنڈ عمران خان کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ کچھ ...

’’راہ وچ قبر ہووے ڈھولا لنگھے دعا کرکے‘‘

مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر