... loading ...
جیل یا عقوبت خانے کا تصور یا تاثر کبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔۔۔ پھانسی گھاٹ تو ہوتا ہی خوف اور دہشت کی علامت ہے۔انسان کو اپنا سکون اور جان بہت عزیز ہوتی ہے۔ اس لئے جیل جانا کسی کو بھی پسندیا قبول نہیں ہوتا۔۔ 31 ؍ اکتوبر غازی علم دین شہید کی برسی کے موقع پر سینٹرل جیل میانوالی کے دورے کی خواہش تھی ۔ خوش قسمتی سے ایک روز پہلے مجھے یہ دعوت موصول ہوئی کہ کل سینٹرل جیل میں غازی علم دین شہیدؒ کے لئے قرآن خوانی کا اہتمام ہے۔ دعوت کو سعادت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی جیل پہنچ گئے۔پنجاب کی اس معروف جیل کا ماحول بدلا بدلا اور ہر قسم کے خوف سے آزاد محسوس ہو رہا تھا۔ جیل کے احاطے میں مختلف قسم کی مشقتوں میں مصروف قیدی تھے یا ڈیوٹی پر مامور جیل کا عملہ ۔۔۔ ہر کوئی صاف سُتھرا اور دُھلا دُھلا سا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ جو بھی ملتا یہی سوال کرتا کہ آپ غازی علم دین شہید کے لئے ہونے والی قرآن خوانی میں شرکت کے لئے آئے ہیں۔ ہمارا جواب اثبات میں پا کر سوال کرنے والا عجیب سی خوشی محسوس کرتا اور ایسا محسوس ہوتا تھاکہ شاید ہماری جیل آمد کو وہ اپنی کسی خوشی میں شرکت سمجھ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ شاید صورتحال بھی ایسی ہی تھی۔۔۔۔
یہ سب کچھ سرشاری کے احساس کو استقرار عطا کر رہا تھا۔ایسے میں یہ سوچ مسلسل میرے دماغ میں رہی کہ غازی علم دین شہید ؒ کا عرس تو لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں منایا جا رہا ہے۔ رحمتوں کا نزول مرقدِ پاک طینت سے سینکڑوں میل دور بھی کس قدر تابانیاں بکھیر رہا ہے۔ جیل کے قیدیوں اور عملے نے بتایا کہ صبح سویرے انہوں نے پھانسی گھاٹ (جو 86 سال قبل غازی علم دین کی شہادت گاہ بنا تھا )پر شہید کے لئے فاتحہ خوانی اور بلندی درجات کی دُعا بھی کی ہے۔ دن بھر قیدی اُس ’’کوٹھری ‘‘(Death Cell ) میں تلاوتِ کلام پاک میں مصروف رہے، جہاں شہادت سے قبل غازی علم دین شہید نے اپنی زندگی کے آخری ایام گذارے تھے۔ وہ پھانسی کی اس کوٹھری میں سترہ دن (14 اکتوبر1929 ء سے 31 اکتوبر1929 ء) قید رہے۔۔۔جیل حکام نے کئی سال پہلے اس ڈیتھ سیل کو محفوظ قرار دیا تھا۔ لیکن موجودہ سپریٹنڈنٹ مرزا ساجد بیگ نے اس کوٹھڑی میں قرآن مجید اور جائے نماز رکھوا دیا ہے۔ جیل ذرائع کے مطابق قیدیوں اور حوالاتیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہاں بیٹھ کر تلاوت کریں اور نوافل ادا کریں۔ اور اکثر قیدی یہاں آکر آقائے نامدار تاجدار انبیاء رحمت العالمین ﷺ پر درود و سلام پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یوں تقریباً ہر روز ہی سینٹرل جیل میانوالی کے اس گوشے میں درودو سلام کی بہار رہتی ہے۔
تاریخِ انسانی میں شہیدانِ ناموسِ رسالت ﷺ کے روشن ، درخشاں، اُجلے اور سنہری دبستان کا مطالعہ کریں تو شاتمانِ رسول کے ان جگر دار دشمنوں ۔۔۔۔۔۔ استقامت کے تراشے ہوئے پیکروں۔۔۔ ایمان کی تجسیم کے معطر و برگزیدہ ناموں کی فہرست میں غازی علم دین شہید کا نام ضو فشانیاں بکھیرتا نظر آتا ہے۔۔غازی علم دین شہید نے ایمان کی پختگی اور جذبے کی ثقاہت کو دار کی کسوٹی پر کس کے دیکھا۔ملعون راجپال کی بہیمانہ حرکت کی خبر سن کر غازی علم دین شہید کا رُواں رُواں سر کشیدہ نظر آتا تھا۔۔۔انہوں نے جس انداز میں جنابِ رسالت مآب ﷺ سے اپنی محبت اور والہانہ عقیدت کا ثبوت دیا اس سے شماتت کی ہر جسارت سر نگوں ہو ئی اور حفاظتِ حرمت کی کوشش سر بلند ٹہری ۔۔۔۔ آج غازی علم دین شہیدؒ کی حیثیت اور مقام کے سامنے دنیا کی عظمتیں سر نگوں بیٹھی ہیں اور عقبیٰ کی نعمتیں خیر مقدم کے لئے سروقد کھڑی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرحبا ۔۔۔ اے شہیدِ پاک طینت را ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرحبا ۔۔
سینٹرل جیل میانوالی میں غازی علم دین شہید ؒ کے یوم ِ شہادت کے موقع پر جو معطر ماحول پیدا ہوا ۔ اس کی مہک دور تک محسوس کی جائے گی۔جو ایک طرف اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سے دلبستگی رکھنے والوں کو مسحور کرے گی تو دوسری طرف’’ سفید مغرب ‘‘ اور ’’ سُرخ مشرق‘‘کو تشویش میں مبتلا کر دے گی۔ایسا کیوں ہوگا ۔۔۔؟ میرے نزدیک یہ سوال بھی پُرانا اور اس کا جواب بھی پُرانا۔۔۔۔کیونکہ ہمارے ہاں ایسے دانشوروں کی کمی نہیں ہے جو تناقضِ فکر میں مبتلا ہیں۔ دوسال پہلے کی بات ہے کہ عین اُس وقت جب لاہور کے قبرستان میانی صاحب سمیت ملک کے طول و عرض میں مسلمان غازی علم الدین شہید ؒکا یومِ شہادت منانے میں مصروف تھے۔ تو پاکستان کے بنیاد پرست حکمران جنرل ضیاء الحق مرحوم کی نمازِ جنازہ کی کوریج کرتے ہوئے غمناک انداز اختیارکرنے والے حسین حقانی کا ایک انٹرویو بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ’’رائٹر ‘‘ نے جاری کیا تھا جس میں امریکامیں پاکستان کے اس سابق سفیر کا کہنا تھا۔’’ جہادی سوچ ختم کئے بغیر پاکستان اور خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔پاکستان اسی کی دہائی میں جہاد کے لئے تربیت اور اسلحہ کا گڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد پاکستان نے اس کا رُخ بھارت باالخصوص کشمیر کی طرف موڑ دیا۔پاکستان میں کسی بھی حکومت کے لئے جہادیوں کا بوریا بستر لپیٹنا مشکل کام ہے۔‘‘
حسین حقانی جنرل ضیاء الحق مرحوم کے اُسی دور میں سرکاری ذریعہ ابلاغ ’’ پی ٹی وی ‘‘ کے دسترخوان سے نعمتیں سمیٹتے رہے ہیں جس دور کو وہ پاکستان میں جہادی تربیت اور اسلحہ کا گڑھ قرار دینے کا دور قرار دے رہے ہیں۔ حسین حقانی گزشتہ دورِ حکومت میں امریکا میں پاکستان کے سفیرتھے تو ان کی حرکات و سکنات ایسا ظاہر کرتی تھیں کہ پاکستان کے خرچے پر وہ امریکا میں امریکا کے ہی سفیر ہیں۔وہ اپنی نئی کتاب میں بھی پاکستانی حکومت پر عسکری تنظیموں کی براہ راست امداد کا الزام بھی عائد کر چکے ہیں۔۔ ’’بوسٹن یونیورسٹی ‘‘ میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کی حیثیت سے بھی وہ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔انہوں نے اپنے آقاؤں کو مسلمانوں سے ’’ روحِ محمد ﷺ‘‘ نکال دینے کی پرانی استعماری تجویز کا بار باراعادہ کیا ہے۔۔۔ امریکی حکومت سے ڈالروں کے عوض اپنی غیرت او ر حمیت کا سودا کرنے والے حسین حقانی کو پتہ ہی نہیں کہ حقیقی مسلمان حق کے لئے اپنا سب کچھ لُٹا دیتا ہے۔مال و دولت ، رشتے ناطے،دنیاوی وقاراور اپنی زندگی سے وابستگی سب کچھ عشقِ خدا میں نثار کر دیتا ہے ۔ قرآن ِ کریم میں ارشاد ہے کہ ’’ یقینا اﷲ نے مسلمانوں کے جان ومال جنت کے عوض خرید لئے ‘‘اب کوئی چیز مسلمانوں کی اپنی نہیں رہی۔وہ سب کچھ بیچ چُکے ہیں ۔اور ان کے بدلے میں خُدا نے انہیں جنت عطا کی ہے۔اور اپنی رضامندی سے انہیں نواز دیا اور یہی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصدِ حقیقی بھی ہے۔
اسلام برداشت ، امن و آشتی کا دین ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے کبھی بھی قدامت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ جبکہ انتہاپسندی کی تمام شکلیں بشمول مذہبی انتہا پسندی امریکاکی جانب سے اختیار کی گئی ہیں۔ نہ جانے مذہبی انتہا پسندی کو مسلمانوں کے ساتھ منسوب و محدود کرنے والوں کوامریکا کی مذہبی انتہا پسندی کیوں نظر نہیں آتی۔یہ لوگ اس حقیقت سے آشناکیوں نہیں ہوتے کہ امریکا میں’’رینڈ کارپوریشن ‘‘کے نام سے جو تھنک ٹینک ہے وہ نہ صرف اسلام دشمن ہے بلکہ اس کے تمام کے تمام ارکان جن کی تعدا د9 ہے قدامت پسند ہیں ۔ یا یہ لوگ سولہ اکتوبر 2005 ء کواے ایف پی کی جاری کردہ اس خبر کو کیوں بھول جاتے ہیں۔جس میں اُس وقت کے امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ ’’ افغانستان اور عراق پر حملے کا حکم مجھ (بُش ) کو خدا نے دیا تھا۔‘‘اے ایف پی کے مطابق جارج ڈبلیو بُش نے جون2003 ء میں فلسطین کے رہنما محمود عباس نبیل سے ایک ملاقات کے دوران انہیں بتایا تھا کہ ’’ میں ( بُش )خدا کی طرف سے تفویض کردہ مشن کی تکمیل کر رہا ہوں۔خُدا نے مجھ سے یہ کہا ہے کہ جارج جاؤ اور افغانستان میں دہشت گردوں کا تعاقب کرو۔میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر مجھے خُدا نے کہاکہ جارج جاؤ اور عراق میں مطلق ا لعنانیت ختم کردو، میں نے ایسا ہی کیا اور اب مجھے خدا نے فلسطینی ریاست کے قیام کا حکم دیا ہے ‘‘
اب کوئی حسین حقانی اور ان جیسے دوسرے روشن خیالوں اور اعتدال پسندوں سے پوچھے کہ سابق امریکی صدر کے اس مذہبی رُجحان کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے۔کیا امریکی معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی اپنی آخری حدو ں کو چھوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔کیا تھوڑی سی روشن خیالی اور اعتدال پسندی پاکستان سے امریکابرآمد کرنے کی ضرورت نہیں۔اگر ہمارے یہ دانشور مغربی تاریخ کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو انہیں کروڑوں انسانوں کے قتل کی حیرت انگیز داستانیں اور مذہبی انتہا پسندی کی بے شمار مثالیں ملیں گی۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہی وہ وقت نہیں جہاں ہمیں اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کر نی چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
راولپنڈی کی لال حویلی کے مکین شیخ رشید احمد نے جب سے’’ اپنی ‘‘ سیاست شروع کی ہے۔ اُس وقت سے لے کر اب تک انہوں نے خود کو سیاست میں ’’ اِن ‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اُن کی سیاسی کہانی مدو جذر اور پلٹنے جھپٹنے سے عبارت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود راولپنڈی کے...
میں جب بھی یہ نعرہ سنتا ہوں ’’ دیکھو دیکھو کون آیا ۔ شیر کا شکاری آیا ‘‘ تو مجھے قیامِ پاکستان سے پہلے ’’کپتان ‘‘ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ کی ایک خونخوار شیر سے ’’ ہاتھا پائی ‘‘ کا واقعہ یاد آ جاتا ہے ۔ تاریخی حوالوں کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے ضلع میانوالی اور ...
کراچی کے نو منتخب میئر وسیم اختر نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں ـ’’ جئے بھٹو ‘‘ اور ’’ جئے عمران خان ‘‘ کے نعرے لگائے تو ماضی کے دھندلکوں سے 12 ستمبر2007 ء کا منظر میری آنکھوں کے سامنے آگیا۔ مری یادوں کے خزانے چٹیل ویرانوں اور کچلے ہوئے خوابوں کے ریزوں جیسے ہیں۔ تپاں جذبوں سے ...
پروفیسر منور علی ملک میرے انگزیری کے اُستاد اور عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے دوست ہیں ۔ اپنی کتاب ’’ درد کا سفیر ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ اُونچے سُروں کی شاخوں میں اُلجھ کر جب یہ آواز کسی زخمی پرندے کی طرح پھڑپھٹراتی ہے تو روح کا شجر جڑوں تک لرز اُٹھتا ہے ۔ اور پھر جب اس بلندی سے کسی ...
محمد منصور آفاق شاعر ، ادیب، ڈراما نگار اور کالم نگار کی حیثیت سے ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہے ۔ وہ اپنی ہر غزل، نظم ،شعر ، مصرعے، ڈرامے اور کالم سے پہچانا جاتا ہے ۔ میں محمد منصور آفاق کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ تخلیقی عمل میں پوری طرح گرفتار ہونے کے لئے ’’قلبی وارداتیں ‘‘ کرنے ک...
نیازی قبائل کی برصغیر میں آمد کا سلسلہ ہندستان پر سلطان محمود غزنوی کی ’’ دستک ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔لیکن ان قبائل کی باقاعدہ منظم شکل میں اس علاقے میں آمد بہت بعد کی بات ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ نیازیوں کی اکثریت اوائل میں غزنی کے جنوبی علاقے میں آباد تھی ۔ اس علاقے پر انڈروں اور خلجیو...
پاکستان کے انحطاط پزیر معاشرے کی صحافت کے رنگ نرالے ہی نہیں مایوس کُن بھی ہیں۔ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے غیر تربیت یافتہ اینکرز کی صحافت ایک ایسی موج کی طرح رقص کناں ہے جسے ہر دم یہ گماں رہتا ہے کہ اُس کا عین اگلا اُچھال اُسے ساحلِ مراد سے ہمکنار کر دے گا۔ لیکن حقائق کی منہ زور ہو...
کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ عمران خان اپنی اہلیہ ریحام خان کے ہمراہ’’نمل شہر علم ‘‘ میں موجود تھے۔ عمران خان نے شوکت خانم جیسا سماجی خدمت کا ادارہ قائم کیا ۔ کراچی اور پشاور کے شوکت خانم ہسپتال بھی تکمیل کے مراحل کے قریب ہیں ۔میں نے ان عظیم الشان اداروں کے حوالے سے عمران خان کو کبھی...
دریائے سندھ کے شمالی کنارے اور سلاگر پہاڑ کی ڈھلوان پر آباد سینکڑوں سال پرانے شہر کالاباغ کامحنت کش اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کا پیٹ بھرنے کے لئے ’’ سائیکل رکشہ‘‘ کے ذریعے جانوروں کی طرح انسان کا بوجھ کھینچنے پر مجبور ہے۔عظیم مسلمان فاتح سلط...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس جوادایس خواجہ بطور چیف جسٹس اپنی بائیس روزہ تعیناتی مکمل کرکے ریٹائر ہو گئے ہیں ۔ 18 ؍ اگست 2015 ء کو اپنا منصب سنبھالتے ہوئے اُنہوں نے قوم کے ماضی کے حسین البم سے نغمہ عشق و محبت کی کہانی کے طور پر اردو زبان کو نطق و تکلم کے جواں عالم ...
قدرت نے ’’ کپتان‘‘ کی زندگی کو نعمتوں کا موسمِ بہار بنایا ہوا ہے ۔ یونیورسٹی آف بریڈ فورڈ برطانیہ کے وائس چانسلر ’’ مارک کلیری‘‘ کا کہنا ہے کہ عمران خان نے انسانیت کی خدمت کی بدولت دنیا بھر میں اپنے لئے احترام حاصل کیا ہے۔ بڑے اور لیجنڈ عمران خان کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہیں۔ کچھ ...