وجود

... loading ...

وجود

پسماندہ صوبہ بلوچستان میں احساسِ محرومی نیا نہیں !!

جمعه 11 اگست 2017 پسماندہ صوبہ بلوچستان میں احساسِ محرومی نیا نہیں !!

پاکستان کے 44 فیصد رقبے اور صرف 7 فیصد آبادی کے ساتھ صوبہ بلوچستان بہت سے حوالوں سے سرخیوں کا موضوع رہا ہے۔تیل، گیس، تانبے اور سونے جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کا محل وقوع انتہائی حساس اور اہم ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود بلوچستان ملک کے سب سے غریب اور پسماندہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔تاہم شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل بلوچستان 1876 میں برطانوی راج کے تحت آ گیا اور اسے تقسیم کر کے اس کا مغربی حصہ ایران کے حوالے کر دیا گیا۔ مشرقی حصے کو بھی برطانوی بلوچستان اور بلوچستان کی چار خود مختار ریاستوں قلات، خاران، لسبیلہ اور مکران میں تقسیم کر دیا گیا جبکہ اس کے علاقے سیستان کا کچھ حصہ افغانستان میں شامل کر دیا گیا۔یوں ان علاقوں کی حد بندی کر کے ڈیرہ جات اور جیکب آباد برٹش بلوچستان کا حصہ بنے۔برطانوی حکومت نے بلوچستان کو محض روس کی توسیع پسندی کے خلاف ایک فوجی چوکی کے طور پر استعمال کیا اور یہ تمام علاقہ اْس معاشی اور معاشرتی ترقی سے یکسر محروم رہا جو انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز سے غیر منقسم ہندوستان کے دوسرے علاقوں کا مقدر بنی۔
الگ انتظامی یونٹ ہونے کے باوجود برطانوی راج میں بلوچستان کو وہ حیثیت نہیں دی گئی جو باقی ریاستوں کی تھی۔ انتظامی طور پر بلوچستان کے لیے گورنر جنرل کا نمائندہ ہی سرکاری کام چلاتا ہے۔ محمد علی جناح کو بلوچستان سے خصوصی دلچسپی تھی اور اْنہوں نے اپنے مشہور 14 نکات میں بھی خاص طور پر بلوچستان کا ذکر کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ بلوچستان کو ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی طرح مساوی حیثیت دی جائے اور وہاں مناسب اصلاحات کا عمل شروع کیا جائے۔ تاہم 1920 کی دہائی کے دوران برطانوی حکومت نے بلوچستان میں اظہار رائے پر پابندی عائد کردی۔اْس وقت تک بلوچستان میں کوئی اخبار موجود نہیں تھا۔ 1929 میں بلوچستان کے مگسی قبیلے کے سردار یوسف علی خان مگسی نے لاہور سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں ’فریاد بلوچستان‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ اْس کے دس برس بعد اْنہوں نے ایک پمفلٹ نکالا۔ ’بلوچستان کی آواز‘ سے موسوم اس پمفلٹ کا مقصد بلوچستان کی حالت زار کے بارے میں برطانوی پارلیمان کو آگاہ کرنا تھا۔سردار یوسف علی خان مگسی اس مقصد کے لیے 1934 میں برطانیہ بھی گئے اور وہاں جاتے اور واپس آتے ہوئے دونوں بار اْنہوں نے بمبئی میں محمد علی جناح سے ملاقات کی۔بلوچستان کے ایک نوجوان وکیل قاضی عیسیٰ 1938 میں لندن سے اپنی تعلیم مکمل کر کے جب ہندوستان لوٹے تو اْنہوں نے بھی بمبئی میں جناح سے ملاقات کی۔ وہ اْن کی شخصیت اور لگن سے بہت متاثر ہوئے اور بلوچستان پہنچتے ہی اْنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی بلوچستان شاخ کی بنیاد رکھی۔ اْس کے بعد جناح نے متعدد بار بلوچستان کا دورہ کیا۔ 1934 میں بھی جناح بلوچستان گئے اور وہاں دو ماہ تک قیام کیا۔اس دوران مسلم لیگ کانفرنس کے ایک عوامی سیشن میں قاضی عیسیٰ نے جناح کو ایک خاص تلوار کا تحفہ پیش کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ تلوار احمد شاہ ابدالی کی تھی۔
اس موقع پر قاضی عیسیٰ نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔’’ تاریخ کے دوران یہ تلوار ہمیشہ مسلمانوں کا ساتھ دیتی آئی ہے۔ جب مسلمانوں کو قیادت میسر نہیں تھی، یہ محفوظ ہاتھوں میں رہی۔ اب جبکہ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت سنبھال لی ہے، میں یہ تلوار آپ کے سپرد کر رہا ہوں ۔ یہ تلوار ہمیشہ دفاع کے لیے استعمال کی گئی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے محفوظ ہاتھوں میں یہ اسی مقصد کے لیے استعمال ہو گی۔‘‘
اس دورے کے دوران جناح خان آف قلات میر احمد یار خان کی خاص دعوت پر چار روز کے لیے قلات پہنچے۔ اْنہی دنوں جناح کی ہدایت پر نوابزادہ لیاقت علی خان نے مرکزی اسمبلی میں بلوچستان کے لیے آئینی اصلاحات کا مطالبہ پیش کر دیا۔ بالآخر مرکزی اسمبلی نے مارچ 1944 میں لیاقت علی خان کی قرارداد کو منظور کر لیا۔ہندوستان کی تقسیم سے قبل جناح نے بلوچستان میں جمہوری نظام کا مطالبہ کیا تھا لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قبائلی سرداری نظام کی وجہ سے جمہوری نظام کی کامیابی کی توقعات کم ہیں ۔ تاہم جناح کے مشورے پر بلوچستان میں ریفرنڈم کروانے پر اتفاق کر لیا گیا تاکہ بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے بارے میں فیصلہ کیا جا سکے۔ 30 جون ، 1947 کو ہونے والے شاہی جرگے کے تمام کے تمام 54 ارکان اور کوئٹہ میونسپلٹی نے مکمل اتفاق رائے سے پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں فیصلہ کر دیا۔تاہم برطانوی راج کے خاتمے کے بعد خان آف قلات نے آزاد قلات ریاست کا اعلان کر دیا۔ لیکن بقیہ تین آزاد ریاستوں خاران، لسبیلہ اور مکران نے پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔
11 فروری 1948 کو پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح بلوچستان کے شہر سبی پہنچے جہاں خان آف قلات نے اْن سے ملاقات کی۔ اگلے روز ایک اور ملاقات قلات کے سرمائی دارالحکومت ڈاڈر میں ہوئی لیکن ان دونوں ملاقاتوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ تاہم 28 مارچ، 1948 کو خان آف قلات نے اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد پاکستان میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔ اْن کے بھائی پرنس عبدالکریم نے اْن کے فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے ہتھیار اْٹھا لئے لیکن بلوچستان بھر میں اْنہیں کوئی خاص حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔قائد اعظم محمد علی جناح اور اْن کے بعد پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے احمد یار خان کو خان آف قلات کا خطاب برقرار رکھنے کی اجازت دی۔ 1955 میں جب ون یونٹ بحال کیا گیا تو باقی صوبوں کی طرح بلوچستان کی صوبائی حیثیت بھی تحلیل ہو گئی۔لیکن 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں چاروں صوبے ایک بار پھر بحال ہو گئے۔ یوں بلوچستان کو بھی اپنی صوبائی حیثیت دوبارہ مل گئی۔ تاہم قوم پرست بلوچ شہریوں نے مختلف وقتوں میں داخلی خود مختاری کے لیے مسلح تحریک چلائی لیکن اس تحریک کو عوامی مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔
بلوچستان کے معروف صحافی صدیق بلوچ نے ایک خصوصی گفتگو میں ہمیں بتایا کہ شروع میں بلوچستان کے چند گروہوں میں پاکستان سے الحاق کے بارے میں کچھ مزاحمت پائی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ صوبے کی سیاسی قیادت نے پاکستان کا حصہ بننے کو دل سے قبول کر لیا تھا۔ 1955 میں بلوچستان کی دو قد آور شخصیات گل خان نصیر اور غوث بخش بزنجو نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔صدیق بلوچ کہنا ہے کہ اب بلوچستان میں کوئی بھی آزادی کی حمایت نہیں کرتا اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی بقا کا دارومدار متحدہ اور مضبوط پاکستان میں ہے۔تاہم بلوچستان کے بیشتر لوگ اب بھی زندگی کی بنیادی ضروریات اور اقتصادی ترقی کے ثمرات سے محروم ہیں ۔
امریکہ میں مقیم معروف بلوچ صحافی اور انگریزی اخبار ’’بلوچ ہل‘‘ کے مدیر اعلیٰ ملک سراج اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی مرکزی حکومت نے حقیقی طور پر اب بھی بلوچ عوام کا خاطر خواہ خیال نہیں رکھا ہے اور گزشتہ کئی دہائیوں میں جو بھی وزرائے اعظم اقتدار میں آئے ہیں ، اْنہوں نے بلوچستان کا برائے نام ہی دورہ کیا ہے۔ ان حالات میں بلوچ عوام میں مایوسی پیدا ہونا فطری بات ہے۔تاہم اب پاکستان چین اقتصادی راہداری اور اس سے ملحقہ بنیادی ڈھانچے، مواصلات اور توانائی کے منصوبے شروع ہونے کی توقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی گوادر کی بندرگاہ بھی بھی ترقی کی ضمانت دے رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان اقدامات سے بلوچستان کے عام شہری کس حد تک مطمئن ہو پائیں گے۔
تحریر :۔شبّیر جیلانی


متعلقہ خبریں


تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ہائبرڈ جنگ، انتہاء پسند نظریات اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سید عاصم منیرکا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ ،فارمیشن کی آپریشنل تیاری پر بریفنگ جدید جنگ میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، چابک دستی اور فوری فیصلہ سازی ناگزیر ہے، پاک فوج اندرونی اور بیر...

تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس نہ ہوں ،حکمران طبقہ نے قرضے معاف کرائے تعلیم ، صحت، تھانہ کچہری کا نظام تباہ کردیا ، الخدمت فاؤنڈیشن کی چیک تقسیم تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس...

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

حملہ آوروں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ہے پشاور میں چند دن تک قیام کیا تھا خودکش جیکٹس اور رہائش کی فراہمی میں بمباروں کیسہولت کاری کی گئی،تفتیشی حکام ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے والے دہشتگرد نیٹ ورک کی نشاندہی ہو گئی۔ تفتیشی حکام نے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کا تعلق ...

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

غذائی اجناس کی خود کفالت کیلئے جامع پلان تیار ،محکمہ خوراک کو کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر ہر صورت دستیابی یقینی بنائی جائے،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے محکمہ خوراک کو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ...

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ادارہ جاتی اصلاحات سے اچھی حکمرانی میں اضافہ ہو گا،نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں،شہبا زشریف فنی ٹریننگ دے کر برسر روزگار کریں گے،نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل چکاہے،ترقی کی جانب رواں دواں ہیں، ادارہ جات...

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم وجود - هفته 13 دسمبر 2025

عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے،سماجی و اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پاکستان کی اولین ترجیح،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تنازعات کا پرامن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ،فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے بنیادی حق...

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی وجود - هفته 13 دسمبر 2025

حکومت نے 23شرائط مان لیں، توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائیگی، ہا...

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف وجود - هفته 13 دسمبر 2025

پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں میرٹ پر ٹکت دیں گے میرٹ پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا،صدر ن لیگ مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ بھیک نہیں ہے یہ تو حق ہے، وزیراعظم سے کہوں گا...

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - هفته 13 دسمبر 2025

تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر سیاست کریں، خود پنجاب کی گلی گلی محلے محلے جائوں گا، چیئرمین پیپلز پارٹی کارکن اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، گورنر سلیم حیدر کی ملاقات ،سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ،دیگر کی بھی ملاقاتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول...

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز وجود - هفته 13 دسمبر 2025

منظوری کے بعد ایک لیٹر پیٹرول 263.9 ،ڈیزل 267.80 روپے کا ہو جائیگا، ذرائع مٹی کا تیل، لائٹ ڈیزلسستا کرنے کی تجویز، نئی قیمتوں پر 16 دسمبر سے عملدرآمد ہوگا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل، پیٹرول کی قیمت میں معمولی جبکہ ڈیزل کی قیمت میں بڑی کمی کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ذ...

پیٹرول 36 پیسے، ڈیزل 11 روپے لیٹر سستا کرنے کی تجویز

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف

مضامین
بیانیہ وجود اتوار 14 دسمبر 2025
بیانیہ

انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات وجود اتوار 14 دسمبر 2025
انڈونیشین صدرکادورہ اور توقعات

افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت وجود اتوار 14 دسمبر 2025
افغان طالبان اورٹی ٹی پی کی حمایت

کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن وجود هفته 13 دسمبر 2025
کراچی کا بچہ اور گٹر کا دھکن

بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست وجود هفته 13 دسمبر 2025
بھارتی الزام تراشی پروپیگنڈا کی سیاست

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر