وجود

... loading ...

وجود

کیسی ہو گی خودکار گاڑیوں والی دنیا؟

پیر 07 اگست 2017 کیسی ہو گی خودکار گاڑیوں والی دنیا؟

دنیا بھر میں ایسے پروجیکٹس پر کام جاری ہے جن کے تحت انسانی ڈرائیوروں کی چھٹی ہو جائے گی۔اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ راہگیروں، سائیکل سواروں کو دوسرے انسانوں کا تحفظ کیسے ممکن بنایا جائے گا؟اس وقت چند ہزار خودکار گاڑیاں بک رہی ہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق 2030 تک ایسی گاڑیوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔بغیر ڈرائیور گاڑیاں فی الحال تو عجیب معلوم ہوتی ہیں لیکن ماہرین کے مطابق آئندہ چند برسوں کے اندر اندر آپ انھیں روزانہ استعمال کرنے لگیں گے۔ اس پیش رفت سے کیسی دنیا وجود میں آئے گی؟پیرس اور ہیلسنکی کی سڑکوں پر اب بھی مکمل طور پر خودکار بسیں چل رہی ہیں جنھیں کمپیوٹر چلا رہا ہے، جب کہ امریکی ریاست کولاراڈو میں 18 ٹائروں والا ٹرک ہائی وے پر ڈیڑھ سو کلومیٹر تک بغیر ڈرائیور کے چلا گیا۔لیکن دنیا میں اس وقت گاڑیوں کی کل تعداد ایک ارب کے لگ بھگ ہے۔ اس لیے اصل چیلنج یہ ہو گا کہ ڈرائیور والی اور بغیر ڈرائیور والی گاڑیاں کیسے ایک ساتھ سڑکوں پر چلیں گی۔مثال کے طور پر ایک چوک کا تصور کیجیے جہاں گاڑیاں، راہگیر اور سائیکل سوار ایک دوسرے کے چہرے کے تاثرات، اشاروں یا پھر اندازے کی بنا پر سڑک پار کر لیتے ہیں۔
بغیر ڈرائیور والی نسان لیف گاڑی لندن میں تجربات سے گزر رہی ہے۔کیا یہ کام مشینیں بھی کر پائیں گی؟اس کے علاوہ خراب موسم کا مسئلہ الگ ہے جس کی وجہ سے گاڑی کی سینسر غلط معلومات دے سکتے ہیں۔مزید یہ کہ خودکار گاڑیوں کو یہ بھی سیکھنا ہو گا کہ کب ٹریفک اصول توڑنا ہیں۔ مثال کے طور پر ہنگامی صورتِ حال میں، یا پھر جب کسی سائرن بجاتی ایمبولینس یا پولیس کار کو راستہ دینا ہو۔فی الحال کمپیوٹر کی مدد سے چلنے والی گاڑیوں تربیت کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ انھیں سیکھنا ہو گا کہ غیر متوقع صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے جو ڈرائیونگ کے دوران اکثر پیش آتی رہتی ہے۔ماہرین کے مطابق اکثر حادثات انسانی غلطی سے پیش آتے ہیں، جن میں اناڑی پن، غفلت، نیند یا پھر شراپ پی کر مدہوشی شامل ہیں۔ یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ خودکار گاڑیاں ایسی تمام غلطیوں سے مبرا ہوں گی اس لیے حادثات کم ہو جائیں گے۔تاہم بغیر ڈرائیور گاڑیوں حادثات میں ملوث رہی ہیں۔ ٹیسلا کمپنی کی ایک گاڑی کے حادثے میں تو ایک شخص ہلاک بھی ہوا ہے۔ جب کہ یہ گاڑیوں اشارے توڑتے ہوئے بھی پائی گئی ہیں۔حکام اس سلسلے میں قوانین وضع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے مطابق فی الحال سینکڑوں برس اور کھربوں میل پر مشتمل آزمائشوں کے بعد ہی یقین سے کہا جا سکے گا کہ بغیر ڈرائیور گاڑیاں انسانوں سے کم حادثات کا موجب ہوں گی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض حالات میں انسان گاڑیاں چلائیں اور دوسرے حالات میں کمپیوٹر۔اب تک بین الاقوامی سطح پر بغیر ڈرائیور گاڑیوں کے بین الاقوامی حفاظتی اصول وضع نہیں کیے گئے اور ہر ملک اپنے اپنے قوانین بنا رہا ہے۔ اس سلسلے میں متفقہ نتائج پر پہنچنا مشکل ہے۔

خودکار گاڑیوں کے چند ممکنہ مضمرات

٭لوگ گاڑیاں خریدنا بند کر کے آن ڈیمانڈ گاڑیاں استعمال کریں گے
٭سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد کم ہو جائے گی
٭دنیا بھر کے کروڑوں ڈرائیوروں کا روزگار ختم ہو جائے گا
٭بلدیہ کو ٹریفک کے جرمانوں کی مد میں جو رقم ملتی تھی وہ ختم ہو جائے گی
٭ماہرین کے مطابق تبدیلی بتدریج ہو گی۔ پہلے پہل لوگ آسان سڑکوں پر کمپیوٹر کو گاڑی چلانے دیں گے، اور مشکل حالات میں خود سٹیئرنگ سنبھال لیں گے۔جب تک گاڑیاں مکمل طور پر خودکار نہیں ہو جاتیں، اس وقت تک صنعت کار ان میںا سٹیئرنگ ویل اور بریک وغیرہ لگاتے رہیں گے۔اس کے علاوہ خودکار گاڑیوں میں سیٹ بیلٹ پہننا پڑیں گی کیوں کہ کوئی ٹیکنالوجی بے عیب نہیں ہوتی۔البتہ ایک فائدہ یہ ہو گا کہ لوگوں کو ڈرائیونگ لائسنس لینے کی مصیبت سے چھٹکارا مل جائے گا۔ایک سوال اخلاقیات کا بھی ہے۔ فرض کیجیے بغیر ڈرائیور گاڑی میں ایک شخص بیٹھا ہوا ہے، اور گاڑی تیز رفتاری سے چلی جا رہی ہے کہ اچانک سڑک پر دو لوگ آ جاتے ہیں اور حادثے سے بچنا ناممکن ہے۔ گاڑی میں نصب کمپیوٹر کیا فیصلہ کرے گا؟ کیا وہ گاڑی کے مالک کی جان بچانے کے لیے دو لوگوں پر گاڑی چڑھا دے گا؟ یا پھر گاڑی کھائی میں گرا کر مالک کی قربانی دے دے گا؟اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ ایسی گاڑی خریدنا پسند کریں گے جو دوسروں کی زندگیاں بچانے کے لیے آپ کو داؤ پر لگا دے؟
ادھر برقی یعنی بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے والی مشہور کمپنی ٹیسلا کی تمام نئی گاڑیوں میں ’سیلف ڈرائیونگ‘ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے ۔ٹیسلا کے ماڈل ایس اور ماڈل ایکس آٹو پائلٹ فیچر سے آراستہ کاریں ہیں۔برقی گاڑیاں بنانے والی کمپنی ٹیسلا کا کہنا ہے کہ اب اس کی تمام گاڑیوں میں انھیں خودکار طریقے سے چلانے کے لیے درکار پرزے نصب کیے جائیں گے۔تاہم کیمرے، سینسرز اور ریڈارز متعارف کروائے جانے کے بعد بھی یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ گاڑیوں کو مکمل طور پر خودکار بنانے کے لیے کئی سال لگ سکتے ہیں۔
ٹیسلا نے گذشتہ سال آٹو پائلٹ نظام متعارف کروایا تھا جس میں خودکار بریک کا نظام شامل کیا گیا تھا۔لیکن فی الحال کمپنی نے اس نئے نظام کا ’بھرپور‘ تجزیہ کرنے کے لیے اس آٹو پائلٹ نظام کو تمام نئی گاڑیوں میں بند کر دیا ہے۔ٹیسلا موٹر کار کے بانی اور اس کے چیف ایگزیکٹیو ایلن مسک کا کہنا ہے کہ ’ہارڈوئیر بنیادی طور پر گاڑی میں سپر کمپوٹر کی طرح تھا۔‘تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ریگولیٹرز اور عوام پر منحصر ہے کہ وہ گاڑی کے خودکار نظام کو کب استعمال کرنا چاہتے ہیں۔فی الحال یہ ہارڈوئیر ’شیڈو موڈ‘ میں کام کرے گا، تاکہ معلومات جمع کی جا سکیں کہ کب اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے حادثہ ہوا یا اس سے بچا جا سکا۔
ایلن مسک کو امید ہے کہ ایک دن ٹیسلا اس اہم معلومات کے ذریعے ریگولیٹرز کو دکھا دے گا کہ خودکار ٹیکنالوجی گاڑیوں کو چلانے والے انسانوں سے کہیں زیادہ محفوظ ہے۔ٹیسلا کے ماڈل ایس اور ماڈل ایکس آٹو پائلٹ فیچر سے آراستہ کاریں ہیں، جو کہ خود سے ہی راستہ بھی بدل سکتی ہیں اور ٹریفک کی مناسبت سے خود ہی راستہ پہچانتی رہتی ہیں۔تاہم رواں سال ہی اس کار کو حادثہ پیش آیا تھا جس میں ٹیسلا کے 45 سالہ ڈرائیور جوشوا براؤن کی تو موت ہوگئی تھی لیکن ٹرک کے ڈرائیور کو کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
٭٭٭

تہمینہ حیات نقوی


متعلقہ خبریں


مضامین
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی وجود جمعه 02 مئی 2025
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی

دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے وجود جمعه 02 مئی 2025
دنیا کی سب سے زیادہ وحشت ناک چیز بھوک ہے

بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر