وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاک چین اقتصادی راہداری ‘چینی منصوبہ سازوں کی نظر پاکستانی زراعت سے استفادے پر ۔۔!!

جمعرات 18 مئی 2017 پاک چین اقتصادی راہداری ‘چینی منصوبہ سازوں کی نظر پاکستانی زراعت سے استفادے پر ۔۔!!

سڑکوں اور اہم بازاروں میں ویڈیو سیکورٹی سسٹم نصب ہوگا، زراعت میں آنے والی چینی کمپنیوں کو ان کی حکومت کی جانب سے غیرمعمولی مراعات کی پیشکش کی جائے گی ،چینی سیاحوں کو ویزا کے بغیرپاکستان میں داخل ہونے کی اجازت پرزور، فائبر آپٹک اولین ترجیحات میں شامل ‘ سی پیک کی تفصیلی دستاویزات سامنے آگئیں

سی-پیک کے طویل المدتی منصوبے کی تفصیلات پہلی بار عوام کے سامنے آئی ہیں۔یہ طویل المدتی منصوبہ ہے جس کی نظریں زراعت پر ہیں ،اس منصوبے کے تحت راہداری میں شامل شہروں کی نگرانی کا وسیع منصوبہ تیار ہوگا،جبکہ چینی شہریوں کو ویزا کے بغیرپاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔
وزیراعظم نواز شریف ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں شرکت کے لیے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر بیجنگ پہنچے جہاں ان کے ایجنڈے کا سب سے اہم حصہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے طویل المدتی پلان کو حتمی شکل دینا تھا۔یہ منصوبہ کیا ہے اور اس پر عملدرآمد کس طرح ہوگا ،اس کی تفصیلات اس کی اصل دستاویز میں موجود ہیں جو اب منظر عام پر آئی ہیں، حتمی پلان میں تفصیلی معلومات شامل ہے کہ آنے والے 15سال میں چین کے پاکستان کے حوالے سے کیا ارادے اور ترجیحات ہوں گی۔
تفصیلات کے مطابق اس منصوبے کے تحت ، ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی چینی کمپنیوں کو لیز پر دی جائے گی جہاں بیجوں کی اقسام سے لے کر زرعی ٹیکنالوجی کے مظاہرے کے منصوبے تشکیل دیے جائیں گے۔پشاور تا کراچی مانیٹرنگ اور نگرانی کا مکمل نظام قائم کیا جائے گا جہاں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے سڑکوں اور اہم بازاروں میں 24 گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کی سہولت موجود ہوگی۔قومی فائبرآپٹک کا ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جائے گا جو نہ صرف ملک کے انٹرنیٹ ٹریفک بلکہ براڈکاسٹ ٹیلی ویژن کی مقامی علاقوں میں ڈسٹری بیوشن یقینی بنائے گا، یہ ٹیلی ویژن چینی کلچر سے متعلق آگاہی بڑھانے کے لیے چینی میڈیا سے بھی تعاون کرے گا۔
اس منصوبے کے 2 ورژن ہیں، جس میں سے ایک چین کے ڈویلپمنٹ بینک اور نیشنل ڈویلپمنٹ ریفارمز کمیشن نے تیار کیا ہے۔پنجاب حکومت کو منصوبے کا مکمل ورژن دیا گیاجبکہ دیگر صوبوں کو مختصر دورانیے کے منصوبوں کی مختصر تفصیل منظوری کے حصول کے لیے فراہم کی گئی ہے ۔
پلان کے تحت کچھ علاقوں میں مارکیٹوں میں چینی کمپنیوں کا قیام یقینی بنانا ہے، مختلف شعبوں میں چینی کمپنیاں اپنی پہچان بناچکی ہیں جبکہ دیگر شعبے جیسے کہ ٹیکسٹائل و ملبوسات، سیمنٹ و تعمیری مٹیریل، فرٹیلائزرو زرعی ٹیکنالوجی میں نئی آمد کے لیے انفرااسٹرکچر کی تعمیر اورسازگار پالیسی ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔
پلان کے مطابق اس حوالے سے ایک اہم اقدام صنعتی پارکس یا خصوصی معاشی زونز کا قیام ہے جو ’پانی کی فراہمی، بہترین انفرااسٹرکچر، توانائی کی مطلوبہ فراہمی اور سیلف سروس پاور کی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بناسکے‘۔
تاہم سی پیک کے بظاہر اہم ترین صنعتی، ٹرانسپورٹ، پاور پلانٹ اور شاہ راہوں کے عمومی تاثر کے اس پلان کا اہم ترین حصہ زراعت ہے، اور اس پلان کے تحت زراعت کے کئی منصوبوں پر کام شامل ہے۔کوریڈور چین کی خودمختار مسلم اکثریتی آبادی والی ریاست سنکیانگ سے پاکستان کے جغرافیائی حدود سے منسلک ہوگا،اور یوں جنوبی سنکیانگ پاکستان سے زمینی رابطے میں آجائے گا، اسے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا، جیسے تابکاری کے علاقوں میں چین کے کاشغر، تومشوق، اتوشی اور سنکیانگ کا علاقہ ایکٹو آف کزلسو۔ پاکستان کے علاقوں اسلام آباد، پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقوں سمیت گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں، یہ علاقے ایک ہی خطے کی تین گزرگاہوں، 2 محوری مرکزوں اور 5 متحرک زونز پر مبنی ہیں، جو راہداری کی ٹریفک کے لیے نہایت اہم ہیں۔
زراعت کے شعبے کے لیے اس پلان میں سپلائی چین کے ایک سے دوسرے سرے تک کی رابطہ کاری کے بارے میں خلاصہ شامل ہے، بیجوں اور دیگر چیزوں جیسے کھاد، کیڑے مار دواو¿ں اور پیسے کی فراہمی تک، چینی کمپنیاں اپنے فارمز اور پھلوں، سبزیوں اور اناج کی پروسیسنگ کے لیے قائم ہونے والے مراکز کا کام خود سنبھالیں گے۔ لاجسٹک کمپنیاں زرعی پیداوار کے لیے بڑے ذخیروں اور ترسیلات کے انتظامات سنبھالیں گی۔
اس میں ان مواقع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو کئی مسائل سے گھرے پاکستان کے زرعی شعبے میں چینی کمپنیوں کی آمد سے حاصل کیے جا سکیں گے۔ مثلاًکولڈ چین لاجسٹک اور پراسیسنگ مراکز کی کمی کے باعث، کٹائی اور ترسیلات کے دوران 50 فیصد زرعی پیداوار خراب ہو جاتی ہے۔منصوبے کی نگرانی کے لیے کراچی سے پشاور تک 24 گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کا سیکیورٹی سسٹم بنایا جائے گا، جو سڑکوں سمیت مصروف کاروباری مقامات اور امن و امان کی صورتحال کی ریکارڈنگ کرے گا۔
زراعت میں آنے والی چینی کمپنیوں کو ان کی حکومت کی جانب سے غیرمعمولی سطح پرمراعات کی پیشکش کی جائے گی۔ انہیں چینی حکومت کی مختلف وزارتوں اور چائنا ڈولپمنٹ بینک سے زیادہ تر آزاد سرمایہ اور قرضے حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ی کمپنیوں کے پاکستان اور چین کی حکومتوں کے سینئر نمائندگان کے ساتھ رابطے میں مددفراہم کرنے کے میکنیزم کے بارے میں بھی تفصیل شامل ہے۔
چین کی حکومت، زرعی بیرونی سرمایہ کاری کے قرضوں پر سود میں رعایت کے لیے قومی خصوصی فنڈز کو استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ طویل مدتی تناظر میں دیکھیں تو نئے اقسام کی سرمایہ کاریوں، جیسے کنسورشیم قرضوں، مشترکہ نجی ایکوئٹی اور مشترکہ قرضے کے اجرا، مختلف ذرائع اور غیر مرکزیت کے حامل مالی رسک کے ذریعے فنڈز میں اضافے سے سرمایہ کاری رسک میں مزید بہتری آئے گی ۔ پلان میں لائیو اسٹاک کی افزائش نسل اور دیگر جدید تقاضوں کو متعارف کرنے اور آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مشینوں اور سائنسی طریقوں کو پاکستان میں لانے کے لیے ژن جیانگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کورس سے خدمات لینے کی تجویز دی گئی ہے۔ وہ اس اہم موقع کو کاشغر پریفیکچر کی مدد کی صورت میں دیکھتے ہیں، جو کہ ژنجیانگ کے بااختیار زون کے اندر کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہے، جہاں 50 فیصد غربت ہے اور طویل فاصلے ہونے کی وجہ سے بڑی منڈیوں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے اور ترقی کی راہوں میں رکاوٹ آ جاتی ہے۔ 2012 میں پریفیکچر کی زراعت، جنگلات، جانوروں کی افزائش اور فشریز میں کل پیداوار کا حجم 5 ارب ڈالر سے تھوڑا ہی زیادہ رہا جبکہ 2010 میں یہاں کی آبادی 40 لاکھ سے بھی کم تھی، شاید ہی اس مارکیٹ سے پاکستان کو زبردست حد تک فائدہ حاصل ہو۔مگر چینیوں کے لیے، پاکستان کے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کے پیچھے فائدے چھپے ہیں۔ مزید برآں مقامی مارکیٹ سے وابستہ ہونے سے چینی کمپنیاں کئی منافع بخش فوائد حاصل کر سکتی ہیں۔ پلان میں بندرگاہوں سے زرعی اشیا کی برآمدات کے حوالے سے چند خلاصے تو ملتے ہیں، مگر زیادہ تر توجہ کاشغر پریفیکچر اور ژنجیانگ پروڈکشن کورز، اور ساتھ ہی مقامی مارکیٹ میں کام کرنے پر دیے جانے والے منافع بخش مواقع پر مرکوز کی گئی ہے۔
پلان کے اندر مارکیٹ کے بارے میں مناسب تفصیلات بھی شامل ہیں۔ مارکیٹ کے 17 خصوصی منصوبوں سمیت 10 اہم منصوبوں کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ جن میں ابتدائی طور پر 8 لاکھ ٹن کے سالانہ پیداوار والے ایک این پی کے فرٹیلائزر پلانٹ کی تعمیر شامل ہے۔ کمپنیوں کو، کھیتوں میں کام کرنے کے لیے ضروری ساز و سامان، جیسے ٹریکٹر، ’پودوں کے مو¿ثر تحفظ کی مشینری، کم توانائی استعمال کرنے والے پمپ کے سازوسامان، ڈرپ آبپاشی کے ذریعے فصل اگانے کے نظام کا سازوسامان’ اور فصل کی بوائی اور کٹائی کی مشینری کرائے پر دینے کے لیے نظام قائم کیا جائے گا۔
سکھر میں 2 لاکھ ٹن کی سالانہ پیداوار دینے والے گوشت پروسسنگ پلانٹس اور ہر سال 2 لاکھ ٹن دودھ پروسس کرنے والے دو نمائشی پلانٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کاشتکاری کی بات کریں تو، زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں اور آبپاشی کے نمائشی منصوبوں کے لیے 6 ہزار 5 سو ایکڑ سے زیادہ زمین( زیادہ تر پنجاب میں) مختص ہوگی۔ ٹرانسپورٹ اور گودام کے شعبے کی بات کریں تو، پلان میں ایک ’ملکی سطح پر لاجسٹکس نیٹ ورک بنانے اور پاکستان کے بڑے شہروں کے درمیان گوداموں اور اناج، سبزیوں اور پھلوں کو دھیان میں رکھتے ہوئے تقسیم کاری کے نیٹ ورک میں توسیع کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد اور گوادر میں گودام تعمیر کیے جائیں گے، دوسرے مرحلے میں کراچی، لاہور اورگوادر میں تعمیر کیے جائیں گے، اور 2026 اور 2030 کے درمیان کراچی، لاہور اور پشاور میں بھی ایک ایک گودام تعمیر کیے جائیں گے۔
ہر شعبے میں، چینی کمپنیاں مرکزی کردار ادا کریں گی۔ چینی سرمایہ کاری کی حامل کمپنیاں کھاد، کیڑے مار دواو¿ں اور مویشیوں کے چارے کی پیداوار کے لیے کارخانے قائم کریں گی۔
دستاویزات میں منصوبے میں شامل ایک خصوصی اور دلچسپ باب کا ذکر بھی کیا گیا ہے، جس میں ساحلی پٹی کے علاقوں میں سمندری سیاحت وآتش بازی کے سیاحی منصوبے، پارکس، کھیل کے میدانوں، تھیٹرز اور گولف کورسز کی تعمیر، موسم گرماو سرما کے حساب سے ہوٹلز اور واٹر اسپورٹس جیسے منصوبوں کی تعمیر شامل ہے۔
سیکیورٹی اقدامات کے طور پرپلان میں چینی کمپنیوں کو مقامی لوگوں کے مذاہب اور رسومات کا احترام، لوگوں سے برابری کا سلوک کرنے اور ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ انہیں مقامی ملازمتوں میں اضافے، ذیلی معاہدوں اور کنسورشیم کے ذریعے مقامی معاشرے کے لیے کام کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔
صنعت کے حوالے سے مندرجات میں تین صنعتی حصوں کا ذکر ہے ۔ مغربی اور شمال مغربی، وسطی اور جنوبی حصہ۔ان حصوں میں سے ہر ایک زون کے نامزد صنعتی پارکس میں مخصوص صنعتیںقائم کی جائیں گی جن میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا گیا۔
مغربی اور شمال مغربی حصہ جو زیادہ تر بلوچستان اور خیبر پختوانخوا پر مشتمل ہے ان علاقوں کو معدنیات نکالنے کے حوالے سے ظاہر کیا گیا ہے خصوصاَ کروم کچ دھات ، سونا اور ہیرے کے حصول کے لیے۔ایک اور شعبہ معدنیات کاہے جس کے بارے میں اس منصوبے میں سنگ مرمر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ چین پاکستان سے سنگ مر مر خریدنےو الا سب سے بڑا ملک ہے جو ہر سال 80 ہزار ٹن سنگ مر مر خریدتا ہے۔منصوبے کے مطابق شمال میں گلگت اور کوہستان کے علاقے سے لے کر جنوب میں خضدارتک 12 سنگ مر مر اور گرینائٹ کی پروسیسنگ کے کارخانے لگائے جائیں گے۔
وسطی زون کو ٹیکسٹائل، گھریلو استعمال کی اشیا اور سیمنٹ کی صنعتوں کے لیے مختص کیا گیا ہے اور چار علاقوں داو¿د خیل، خوشاب، عیسیٰ خیل اور میاںوالی کو علیحدہ سے ظاہر کیا گیا ہے جہاں مستقبل میں سیمنٹ تیار کی جائے گی۔منصوبے کے تحت پشاور میں پائلٹ سیف سٹی بنائے جانے کا بھی ذکر ہے۔سیمنٹ کا معاملہ دلچسپ ہے کیونکہ اس منصوبے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سیمنٹ کی صلاحیت سے مالا مال ہے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مستقبل میں سیمنٹ پراسیس کی ٹرانسفورمیشن کے لیے چین کے پاس سرمایہ کاری اور تعاون کے بڑے مواقع موجود ہوں گے۔
منصوبے میں جنوبی زون کیلئے تجویز کیاگیاہے کہ کراچی اور اس کی بندرگاہ قریب ہونے کی وجہ سے پاکستان اس خطے میں پیٹروکیمیکل، لوہے اور اسٹیل کی صنعت، بندرگاہ کی صنعت، انجینئرنگ مشینری کی صنعت، تجارتی پروسیسنگ اور آٹو پارٹس تیار کرنے کی صنعت تعمیر کرے۔حیران کن طور پر اس رپورٹ میں آٹو انڈسٹری کا واضح طور پر تذکرہ نہیں ہے حالانکہ یہ صنعت ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعت ہے۔اس خاموشی کی وجہ یا تو چین کی طرف سے اس صنعت میں عدم دلچسپی ہوسکتی ہے یا پھر سفارتی احتیاط کیونکہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری پر مکمل طور پر جاپانی کمپنیوں (ٹویوٹا، ہونڈا اور سوزوکی) کا غلبہ ہے۔گوادر بھی اس ہی جنوبی زون کا حصہ ہے جو افغانستان اور بلوچستان کو ملاتا ہے اور ایک براہ راست غیر پیمائش شدہ حصہ ہے۔
سی پیک کا داخلی راستہ اور اہم گیٹ وے ہونے کی حیثیت سے یہ منصوبہ تجویز کرتا ہے کہ گوادر میں کیمیائی اور ہیوی انڈسٹریز کی ایک بنیاد تعمیر کی جائے جن میں لوہے اور اسٹیل کی صنعت اور پیٹروکیمیکل کی صنعت شامل ہے۔
پلان کے مطابق چین کا صوبہ سنکیانگ پہلے ہی ٹیکسٹائل میںاعلیٰ پیداواری معیار حاصل کر چکا ہے لہٰذا چین پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کی ترقی کے لیے پاکستان کی زیادہ تر منڈیوں تک سستا خام مال پہنچا سکتا ہے جو کہ کاشغر میں اضافی افرادی قوت کو بروئے کار لانے میں بھی مدد گار ثابت ہوگا۔پلان کے تحت بننے والے نئے انڈسٹریل پارکس میں سرمایہ کاری کے لیے کمپنیوں کو متوجہ کرنے کے لیے ترجیحی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی۔جن شعبوں میں ان ترجیحی پالیسیوں کی ضرورت ہوگی ان میں زمین، ٹیکس، لا جسٹکس اینڈ سروسز اس کے علاوہ انٹرپرائز انکم ٹیکس، ٹیرف میں کمی اور مستثنیٰ اور سیلز ٹیکس کی شرح شامل ہیں۔ چینی حکومت کی اولین ترجیحات میں پاکستان اور چین کو فائبر آپٹک کے ذریعے جوڑنا شامل ہے۔چین کی پاکستان کے ساتھ فائبر آپٹک کے زمینی لنک کی خواہش کی مختلف وجوہات ہیں جن میں اس کی محدود تعداد میں سب میرین لینڈنگ اسٹیشنز کی موجودگی اور انٹرنیشنل گیٹ وے ایکسچینجز شامل ہیں جوکہ مستقبل میں انٹرنیٹ ٹریفک میں اضافے کی صورت میں رکاوٹ کی حیثیت اختیار کر سکتا ہے اور یہ چین کے مغربی صوبوں کے لیے درست ہے۔پاکستان کے پاس اپنے ملک میں انٹرنیٹ ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لیے چار سب میرین کیبلز ہیں جبکہ صرف ایک ہی سب میرین لینڈنگ اسٹیشن ہے جس کی وجہ سے سیکیورٹی خدشات مزید بڑھ جاتے ہیں۔لہٰذا اس منصوبے سے یہ بات عیاں ہے کہ ایک زمینی کیبل خنجراب پاس سے گزر کر اسلام آباد سے ملے گی جبکہ ایک سب میرین اسٹیشن گوادر میں بنایا جائے گا جو سکھر سے ملے گا۔یہاں سے یہ دونوں کیبل اسلام آباد کے ساتھ ساتھ پورے ملک سے منسلک ہوجائیں گی۔یہ وسیع ہونے والی بینڈ ودتھ سے ملک میں ڈیجیٹل ایچ ڈی ٹیلی ویژن کی علاقائی نشریات کا آغاز ہوسکے گا جسے ڈیجیٹل ٹیلی وژن ٹیرسٹریئل ملٹی میڈیا براڈکاسٹنگ (ڈی ٹی ایم بی) کہا جاتا ہے۔یہ ثقافت کی منتقلی کا ذریعہ ہے جس سے مستقبل میں پاکستان اور چینی ذرائع ابلاغ کا باہمی تعاون پاکستان میں چینی ثقافت اور دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان باہمی افہام و تفہم اور روایتی دوستی کو فروغ دینے کے لیے فائدہ مند ہوگا۔راہداری کے حوالے سے دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی حکام اس بات پر بضد ہیں کہ چین گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر کا کام شروع کرے، جب کہ چینی حکام چاہتے ہیں کہ پہلے ایسٹ بے ایکسپریس وے کا کام مکمل کیا جائے۔
پلان کے تحت خنجراب میں سرحد کی الیکٹرانک نگرانی اور کنٹرول سسٹم کے قیام کے ساتھ ساتھ سیف سٹی پروجیکٹس چلانے کا بھی منصوبہ ہے۔سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت پاکستان کے زیادہ تر شہری علاقوں میں اہم شاہراہوں، پر خطر علاقوں اور پر ہجوم مقامات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایکسپلوزیو ڈٹیکٹرز اور اسکینرز لگائے جائیں گے تاکہ ان علاقوں میں براہ راست نگرانی اور 24 گھنٹے کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جا سکے۔ منصوبے کے مطابق پشاور میں ایک پائلٹ سیف سٹی کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے جسے شمال مشرقی پاکستان میں شدید سیکیورٹی خطرات کا سامنا ہے جبکہ بعد ازاں اس پروجیکٹ کا دائرہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی تک بھی پھیلایا جائے گا اور ڈیٹا ایک دوسرے سے شیئرز کیا جائے گا اور ریکارڈ بھی کیا جائے گا۔
اس منصوبے کے سب سے دلچسپ چیپٹرز میں سے ایک ساحلی سیاحت کی صنعت کی ترقی ہے۔پلان میں ساحلی لطف اندوزی کی صنعت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں بوٹ ہارف، کروز ہوم پورٹس، نائٹ لائف، سٹی پارکس، عوامی تفریحی چوکوں، تھیٹرز، گالف کورسز، ہوٹلز اور واٹر اسپورٹس شامل ہے۔یہ ساحلی پٹی کیٹی بندر سے جیوانی تک ہے ۔
پلان میںبعض منصوبوں کی حیران کن تفصیلات شامل کی گئی ہیں مثال کے طور پر گوادر میں بین الاقوامی کروز کلب ہوگا جو میرین سیاحوں کو پرائیویٹ کمرے مہیا کرے گا، جہاں وہ ایسا محسوس کر سکیں گے کہ وہ سمندر کے اندر رہ رہے ہیں۔منصوبے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوسٹل ووکیشن پروڈکٹس کی ترقی کے لیے اسلامی کلچر، تاریخی کلچر، فوک کلچر اور میرین کلچر کو یکجا کیا جائے گا۔اورماڑا کےلیے یہ منصوبہ منفرد تفریحی سرگرمیوں کے لیے تعمیرات کی تجویز دیتا ہے جو قدرتی، دلچسپ، شراکتی اور پر کشش خصوصیات کے حصول کی حوصلہ افزائی کرے گا۔کیٹی بندر کے لیے جنگلی حیات کی پناہ گاہوں، ایک ایکوریم اور ایک نباتاتی باغ کی تعمیر کی تجویز اس منصوبے میں شامل ہے۔
سونمیانی کے لیے اس منصوبے کے تحت کوسٹل بیچ، وسیع گرین وے، کوسٹل ولا، کار کیمپ، ایس پی اے، کھیل کا میدان اور سی فوڈ کھانے کی اسٹریٹ تعمیر کی جا سکتی ہے۔یہ ایک وسیع ویژن ہے تاہم اس منصوبے کے اختتام پر یہ کہا گیا ہے پاکستان کو چین کے ساتھ ویزا فری سیاحت کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ پاکستان میں چینی سیاحوں کو زیادہ آسان اور معاون ماحول میسر آسکے۔تاہم پلان میں چین جانے والے پاکستانی شہریوں کے ساتھ اسی طرح کے انتظامات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
مالیات اور خطرات:کسی بھی منصوبے میں مالی وسائل کا سوال ہمیشہ اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کے مالیاتی شعبے، حکومتی ڈیبٹ مارکیٹ، کمرشل بینکنگ کی گہرائی اور مالیاتی نظام کی مجموعی صحت پر تبادلہ خیال کے دوران چائنا ڈویلپمنٹ بینک نے ایک طویل المیعاد منصوبہ تیار کیا۔ جب پاکستانی معیشت میں طویل المیعاد سرمایہ کاری کے دوران سامنے آنے والے خطرات کی بات ہو تو یہ بہت غیرجذباتی قسم کا منصوبہ ہے۔اس منصوبے میں سیاست اور سیکیورٹی کو بڑے خطرات سمجھا گیا ہے اور اسے تیار کرنے والوں نے لکھا ہے پاکستانی سیاست میں متعدد عناصر اثر انداز ہوتے ہیں، جس میں مخالف جماعتیں، مذہب، قبائل، دہشت گرد اور مغربی مداخلت، حالیہ برسوں کے دوران سیکورٹی کی صورتحال بدترین رہی ہے۔ اگلا بڑا خطرہ حیران کن طور پر افراط زر ہے جس کے بارے میں منصوبے میں لکھا ہے کہ یہ گزشتہ6 سال کے دوران اوسطاً 11.6 فیصد رہی ہے بلند افراط زر کی شرح کا مطلب منصوبے کی لاگت میں اضافہ اور منافع میں کمی ہے۔
منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے اقدامات کیے جائیں اور جب راہداری کے اخراجات کی واپسی شروع ہوجائے تو پاکستان کے لیے کم شرح سود یا بلاسود قرضے مہیا کیے جائیں، مگر یہ بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ کوئی مفت سہولت نہیں ،پاکستان کی وفاقی اور متعلقہ مقامی حکومتوں کو بھی مالیات کی ذمہ داری کا اپنا بوجھ اٹھانے اس کے لیے سورن گارنٹی بانڈز کا اجراءکیا جائے، دوسری جانب راہداری کی تعمیر کے لیے حکومتی فنڈز کے حصے اور پیمانے کو مالیاتی بجٹ میں بہتر کیا جائے۔
آئی ایم ایف، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے تخمینہ جات پر انحصار کرتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ سالانہ دو ارب ڈالرز سے زائد کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری پاکستانی معیشت پر دباؤ بڑھائے بغیر جذب نہیں ہوسکتی لہٰذایہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں چین کی سالانہ زیادہ سے زیادہ براہ راست سرمایہ کاری ایک ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہونی چاہئے۔اس منصوبے میں چینی کمپنیوں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے احتیاطی اقدامات کریں ‘ پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی کاروباری تعاون بنیادی طور پر حکومت کے ساتھ بطور تعاون کیا جانا چاہئے، بینکوں کا کردار ثالثی ایجنٹ جبکہ کاروباری افراد بنیادی سہارا ہوں گے’۔ اسی طرح مزید کہا گیا ‘ پاکستان کے مالیاتی اور معاشی شعبوں میں تعاون کا مقصد چین کی سفارتی حکمت عملی کی مدد کرنا ہوگا’۔
اس منصوبے کے لیے ایک اور بڑا خطرہ زرمبادلہ کو قرار دیا گیا، پاکستان کی زرمبادلہ کے حصول کی صلاحیت کے حوالے سے کمزوری کی جانب توجہ دلائی گئی اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے منصوبے میں آر ایم بی اور پاکستانی روپے کے درمیان تبادلے کے میکنزم میں تین گنا اضافے سے تیس ارب یوآن تک پہنچانے کی تجویز دی گئی، اسی طرح خریداری کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر کی بجائے آر ایم بی اور روپے کو ترجیح دی جائے گی، ہانگ کانگ مارکیٹ کو آر ایم بی بانڈز کے لیے استعمال اور کاروباری قرضوں کو وسائل کے وسیع صف بندی میں تقسیم کیا جائے۔
یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ پاکستان اس منصوبے کی تکمیل پرکتنی توجہ سے کام کو آگے بڑھائے گاتاہم منصوبے میں شامل دلچسپی کے مرکزی نکات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زرعی معیشت میں بہتری کے لیے چین کی جانب سے آلات کی فراہمی اولین ترجیح ہے، اس کے بعد چین کے لیے سنکیانگ کے ٹیکسٹائل خام مال کو استعمال میں لانا ہے، جب کہ گارمنٹ اور ویلیو ایڈڈ جیسے شعبوں کو بھی چینی ٹیکنالوجی میں ضم کرنے جیسے معاملات بھی چین کے لیے اہم ہیں۔ترجیحات میں اگلا ہدف مقامی صنعت کی بہتری ہے، خصوصی طور پر سیمنٹ اور گھریلو استعمال کی اشیاءجیسے منصوبے ہیں۔آخر میں منصوبے کے تحت مالی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے چینی کرنسی کوعالمگیریت کے طور پر آگے بڑھانا ہے، اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں داخل ہونے والے چینی کاروباری اداروں کو درپیش خطرات کو بھی نظر میں رکھنا ہے۔یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کی جائے کہ گوادرپہلے ہی اقتصادی وسعت کے لیے اہم مرکز کی حیثیت حاصل کرچکا ہے، جسے بنیادی طور پربلوچستان اور افغانستان سے قدرتی معدنیات کی منتقلی کے لیے پورٹ جب کہ جنوبی افریقا سے نیوزی لینڈ تک بحر ہند کے ذریعے وسیع تجارتی مقاصد کے طورپرایک منڈی کی حیثیت سے استعمال کیا جاسکے گا۔
گوادر کے ذریعے چین کی بیرونی تجارت بھی ہوگی یا نہیں، اس حوالے سے منصوبے کے مندرجات میں کوئی ذکر نہیں، جب کہ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی حکام کی جانب سے چین پر اس بات کا زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گوادرانٹرنیشنل ایئرپورٹ پربھی کام کریں، جب کہ اس کے برعکس چینی حکام ایسٹ بے ایکسپریس کی جلد تکمیل پر زور دے رہے ہیں۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ چینی ادارے صرف سی پیک منصوبے تک محدود نہیں ہیں، اس کی تازہ مثال چینی اداروں کی جانب سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) اور کراچی الیکٹرک (کے الیکٹرک) کے شیئرز کا حصول ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پیک ترقی کے لیے کھلنے والا صرف پہلا دروازہ ہے، اب اس دروازے کے ذریعے کیا کچھ داخل ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
خرم حسین


متعلقہ خبریں


مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا۔بھکر آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات میں حکومتوں کا کوئی رول نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کا رول ہوتا ہے ، جس کا الیکشن کے لیے رول تھا انہوں نے رول ...

مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم وجود - جمعه 17 مئی 2024

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کے دوران شر پسند عناصر کی طرف سے صورتحال کو بگاڑنے اور جلائو گھیرائوں کی کوششیں ناکام ہو گئیں ، معاملات کو بہتر طریقے سے حل کر لیاگیا، آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں، کشمیریوں کی قربانیاں ...

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی وجود - جمعه 17 مئی 2024

ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، اصل بات وہی ہے ۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سم...

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے وجود - جمعه 17 مئی 2024

رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا ہے کہ جج کے پاس وہ طاقت ہے جو منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں، جج کے پاس دوہری شہریت بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، عدلیہ کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا کہ کیا دُہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی...

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام وجود - جمعه 17 مئی 2024

شکارپور میں کچے کے ڈاکو2مزید شہریوں کواغوا کر کے لے گئے ، دونوں ایک فش فام پر چوکیدرای کرتے تھے ۔ تفصیلات کے مطابق ضلع شکارپور میں بد امنی تھم نہیں سکی ہے ، کچے کے ڈاکو بے لگام ہو گئے اور مزید دو افراد کو اغوا کر کے لے گئے ہیں، شکارپور کی تحصیل خانپور کے قریب فیضو کے مقام پر واقع...

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

سندھ کے سینئروزیرشرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ بانی پی ٹی آئی کی لائونچنگ، گرفتاری، ضمانتیں یہ کہانی کہیں اور لکھی جا رہی ہے ،بانی پی ٹی آئی چھوٹی سوچ کا مالک ہے ، انہوں نے لوگوں کو برداشت نہیں سکھائی، ہمیشہ عوام کو انتشار کی سیاست سکھائی، ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مزید بہتر کرنے کی کوشش...

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا

پنجاب حکومت، ہتک ِ عزت بل کی منظوری اتوار تک موخر وجود - جمعرات 16 مئی 2024

پنجاب حکومت نے مزید مشاورت کرنے کیلئے ہتک عزت بل کی اسمبلی سے منظوری اتوار تک موخر کر دی جبکہ صوبائی وزیر وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا ہے کہ مریم نواز کی ہدایت پرمشاورت کے لئے بل کی منظوری کو موخر کیا گیا ہے ، ہم سوشل میڈیا سے ڈرے ہوئے نہیں لیکن کسی کو جھوٹے الزام لگا کر پگڑیاں...

پنجاب حکومت، ہتک ِ عزت بل کی منظوری اتوار تک موخر

دبئی لیکس پہلااوور ، 20اوور میچ کے 19اوور باقی ہیں، شبر زیدی وجود - جمعرات 16 مئی 2024

سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)شبر زیدی نے دبئی پراپرٹی لیکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاستدان یہ بتائیں کہ جن پیسوں سے جائیدادیں خریدیں وہ پیسہ کہاں سے کمایا؟ایک انٹرویو میں دبئی میں پاکستانیوں کی جائیدادوں کی مالیت 20 ارب سے زیادہ ہے ، جن پیسوں سے جائیدادیں خر...

دبئی لیکس پہلااوور ، 20اوور میچ کے 19اوور باقی ہیں، شبر زیدی

اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو رونا دھونا جاری رہیگا، بلاول بھٹو وجود - جمعرات 16 مئی 2024

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ اگر اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو ان کا رونا دھونا جاری رہے گا۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ان کا لیڈر رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے مجھے نکالو، مجھے نکالو، یہ انگلی ...

اپوزیشن 9 مئی کی معافی مانگنے پر تیار نہیں تو رونا دھونا جاری رہیگا، بلاول بھٹو

لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو گرڈ اسٹیشن خود سنبھال لیںگے، علی امین گنڈا پور وجود - جمعرات 16 مئی 2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کے لیے وفاقی حکومت کو ڈیڈ لائن دے دی۔علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت صوبے میں لوڈشیڈنگ کم کرنے کے لیے آج رات تک شیڈول جاری کرے ، اگر شیڈول جاری نہ ہواتو کل پیسکو چیف کے دفتر جاکر خود شیڈول دوں ...

لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو گرڈ اسٹیشن خود سنبھال لیںگے، علی امین گنڈا پور

190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں عمران خان کی ضمانت منظور وجود - جمعرات 16 مئی 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 190ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں بانی پی ٹی آئی کی 10 لاکھ روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کرلی۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے بانی پی ٹی آئی کی ضمانت منظور کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ عد...

190 ملین پاؤنڈز ریفرنس میں عمران خان کی ضمانت منظور

خواجہ آصف کا ایوب خان کی لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ وجود - منگل 14 مئی 2024

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کی جانب سے آرٹیکل 6 کے مطالبے کی حمایت کرتا ہوں اور ایوب خان کو قبر سے نکال کر بھی آرٹیکل 6 لگانا چاہیے اور اُسے قبر سے نکال کر پھانسی دینا چاہیے ۔قومی اسمبلی اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر عمر...

خواجہ آصف کا ایوب خان کی لاش پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ

مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر