... loading ...
برطانیہ میں یورپی یونین سے علیحدگی کیلئے شروع ہونے والی مہم کے دوران یہ تاویل پیش کی جارہی تھی کہ یورپی ممالک کے تارکین کی بے تحاشہ آمد کے سبب برطانیہ کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات رونماہورہے ہیں اور برطانوی شہریوں کیلیے روزگار کے مواقع میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں بات کرنے والے اس طرح شور مچارہے تھے جیسے کہ کشتی نوح میں عین دورانِ سفر آگ لگ گئی ہو۔
اس وقت برطانیہ میں یورپی ممالک سے تعلق رکھنے والے کم وبیش 20 لاکھ محنت کش موجود ہیں۔ جن میں ہنر مند ، نیم ہنر مند ،بے ہنر، تعلیم یافتہ اور نیم خواندہ و ناخواندہ سب ہی شامل ہیں۔جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف 10سال قبل ان کی تعداد آج کے مقابلے میں کم وبیش دگنی تھی۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق یورپی یونین سے برطانیہ آنے والوں کی مجموعی تعداد سالانہ کم وبیش 2لاکھ ہے؟کیا یہ درست نہیں ہے کہ لاکھوں افراد نے صرف اس لیے ووٹ دیے کہ یورپی ممالک سے برطانیہ آنے والے تارکین کی تعداد میں کمی کی جائے؟لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جب یہ سیلاب رک جائے گا، اور سیلابی پانی خشک ہونا شروع ہوگا تو ایک وقت ایسا آئے گا جب زمین کے سوتے خشک ہوچکے ہوں گے اور ہمیں پینے کیلیے ایک گلاس پانی بھی دستیاب نہیں ہوسکے گا؟شاید ہم نے اس پر کبھی غور نہیں کیا۔
2015ء میں ہماری افرادی قوت میں برطانیہ میں پیداہونے والی افرادی قوت کی تعداد 26.5 ملین بتائی جاتی ہے جو کہ اس وقت تک کے اعدادوشمار کے مطابق سب سے زیادہ تھی۔اس کے معنی یہ ہیں کہ برطانوی کمپنیوں اور صنعتوں میں اگر افرادی قوت کی طلب میں اضافہ ہوتاہے توہمیں یہ طلب پوری کرنے کیلئے تارکین کی ضرورت ہوگی۔اب ہمیں اپنے معمر رشتہ داروں ،ماں ،باپ ، دادا، دادی،نانا ،نانی اور دیگر افراد کی دیکھ بھال کرنے کیلیے درکار اضافی ورکرز کی طلب پر غور کرنے کی ضرورت ہے یہ اضافی ورکرز جو کیئر ورکرز کہلاتے ہیں ،کہاں سے آئیں گے ۔کیا برطانیہ میں پیداہونے والے کیئر ورکرز اتنی تعداد میں دستیاب ہیں جو ہماری موجودہ ضروریات کی تکمیل کرسکیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے اورجب ہمارے پاس اپنی موجودہ ضرورت کی تکمیل کیلئے اپنے کیئر ورکرز موجود نہیں ہیں تو ہماری مستقبل کی ضروریات جو موجودہ ضرورت کے مقابلے میںزیادہ ہوں گی کیونکہ انسان کی اوسط عمرمیں اضافے کے ساتھ ہی ملک میں معمر افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوگا اوران کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی ہمیں کیئر ورکرز کی ضرورت بھی زیادہ ہوگی۔ان اضافی کیئر ورکرز کی طلب بھی ہمیں تارکین ہی کے ذریعے پوری کرنا ہوگی۔
اب ان ڈاکٹروں اورنرسوں کے بارے میں سوچیے جن کو ہمارے مریضوں سے بھرے ہوئے ہسپتالوں کے وارڈز میں سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی،ان کے واپس چلے جانے یا نئے ڈاکٹروں کے برطانیہ نہ آنے کی صورت میںان کی بڑھتی ہوئی طلب کیسے پوری ہوگی،کیاہم برطانیہ میں پیداہونے والے بچوں کو اتنی بڑی تعداد میں ڈاکٹر بناسکتے ہیں جو ہماری موجودہ اور مستقبل کی ضروریات پوری کرسکیں، ظاہر ہے کہ بظاہر اس کاکوئی امکان نظر نہیں آتااور ہمیں اپنی ڈاکٹروں اور نرسوں اور دیگر نیم طبی عملے کی ضروریات کی تکمیل کیلیے بھی تارکین کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور رہنا پڑے گا۔
اب آئیے سافٹ ویئر ڈیولپرز کی جانب ،ریسرچ میں مصروف سائنسدانوں کی جانب،انجینئروں کی جانب، دیگر شعبوں کے ہنر مندوں کی جانب اور سب سے بڑھ کر تعمیراتی کام انجام دینے والے ہنر مند اور بے ہنر افرادی قوت کی جانب، کیا برطانیہ میں پیداہونے والے ان تمام شعبوں کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔کیا ہم قومی معیشت اور پیداواری عمل کو جاری رکھنے کیلیے ان کی خدمات کو نظر انداز کرسکتے ہیں، یاکیاہم ان کی خدمات کے بغیر پیداواری عمل کو، معیشت کی بحالی اور ترقی کے عمل کو جاری رکھ سکتے ہیں۔ ظاہر کہ اس کا جواب مثبت نہیں ملے گا بلکہ اس کاجواب نفی میں ہی آئے گا۔ہم اپنی موجودہ ورک فورس کو ملک میں روک کر اپنی موجودہ ضرورت توکسی طرح پوری کرلیں گے لیکن اس طرح نہ تو ہماری موجودہ ضروریات پوری ہوسکیں گی اور نہ ہی ہماری مستقبل کی ضروریات پوری ہوسکیں گی۔ ہمیں اس کے لیے تارکین کی ضرورت ہوگی، ہمیں اس بات کی ضرورت ہوگی کہ ہم اپنی افرادی قوت کی ضرورت پوری کرنے کیلیے تارکین کو برطانیہ آنے کی ترغیب دیں۔ہمیں اپنی افرادی قوت کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کیلیے بیرون ملک سے افرادی قوت درآمد کرنے پرمجبور ہونا پڑے گالیکن اگر بیرون ملک سے افرادی قوت برطانیہ آنے پر تیار ہی نہ ہوتو پھر ہماری معیشت کس کروٹ بیٹھے گی؟
قومی شماریات دفترکی جانب سے اسی ہفتے جاری کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق برطانیہ کی افرادی قوت میں اس وقت یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کم وبیش 2.3 ملین یعنی کم وبیش23لاکھ ہے۔جبکہ اعدادوشمار سے ظاہرہوتاہے کہ اب یورپی یونین سے تارکین کی آمد میں کمی ہورہی ہے۔یورپی یونین سے آنے والے تارکین کی تعداد میںہونے والے کمی کے اس رجحان کے ساتھ ہی آجرین نے افرادی قوت کی کمی کی شکایات کرنا شروع کردی ہیں۔
کنگز کالج لندن کے تارکین سے متعلق امور کے ماہر پروفیسر جوناتھن پورٹس نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلے برسوں کے دوران یورپی یونین سے آنے والے تارکین کی تعداد میں بڑے پیمانے پر کمی ہونے کی توقع ہے۔جبکہ برطانوی سیاستدانوں کاخیال ہے کہ بریگزٹ کے بعد یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد یورپی یونین سے تعلق رکھنے والی افرادی قوت کی حالت پانی سے بھرے ہوئے اس برتن کی سی ہوگی جو کبھی بالکل الٹ جائے گایعنی خالی ہوجائے گا اور کبھی پورا بھر جائے گا۔ یعنی اس میں کمی بیشی ہوتی رہے گی۔ان کا خیال ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی افرادی قوت دوسرے ملکوں سے برطانیہ لاسکیں گے اور اس طرح امیگریشن پر پورا کنٹرول رکھ سکیں گے۔ان کا یہ خیال اپنی جگہ درست ہوسکتاہے لیکن اس وقت کیا ہوگا جب پانی کا یہ برتن بالکل ہی خالی ہوجائے اور بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے،اور پیداواری عمل جاری رکھنے کیلیے افرادی قوت کی سپلائی کامسئلہ پیدا ہوجائے۔
گزشتہ برسوں کے دوران تارکین کے حوالے سے برطانیہ کاماحول برطانوی حکومت کا طرز عمل اورپالیسیاں کسی طور بھی حوصلہ افزا نہیں رہی ہیں۔بریگزٹ کے سوال پر ریفرنڈم کے دوران تو یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے تارکین پر حملوں کے واقعات بھی دیکھنے اور سننے میں آئے،برطانیہ کو اپنا وطن بنانے والے یورپی تارکین کے مستقبل کے حقوق کے مسئلے پر بھی تارکین میں تشویش پیدا ہوتی رہی اور اب بھی موجود ہے۔اس حوالے سے برطانیہ کے طاقتور پرنٹ میڈیاکالہجہ بھی بہت ہی تلخ رہاہے۔ہمارے سینئر سیاستدان برطانوی عوام کے معیار زندگی پر تارکین کے اثرات کے حوالے سے سائنسی حقائق کو غلط طورپر پیش کرتے رہے ہیں۔جبکہ بعض لوگ حقائق کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتے رہے ہیں اور دائیں بازو کی جانب سے ہدف بننے کے خوف سے اس معاملے پر بات کرنے ہی سے گریز کرتے رہے ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر یورپی ممالک کے کسی ہنر مند یا بے ہنر ورکر کو برطانیہ یا کسی دوسرے ملک میں ملازمت کا آپشن ملے تو وہ برطانیہ کے غیر دوستانہ رویے اور ماحول کی وجہ سے دوسرے ملک کو برطانیہ پر ترجیح دے گا۔ایسی صورت میں آپ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ جب آپ کو ضرورت پڑے گی آپ اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق افراد ی قوت دوسرے ملکوں سے لے آئیں گے اورلوگ آپ کی پکار پر دوڑے چلے آئیں گے۔یہ وہ حقائق ہیں بریگزٹ پرپوری طرح عمل سے قبل ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے ،کیونکہ کارآمد افرادی قوت کونکالنا، پھینکنا توآسان ہے لیکن ان کا دوبارہ حصول بہت مشکل بلکہ ناممکن بھی ثابت ہوسکتاہے۔
٭٭
انگریزی زبان کے لفظ Rendition کے دنیا ئے شاعری و موسیقی میں تو معنی بہت دلنشین ہوتے ہیں یعنی صوتی ادائیگی مگر قانون اپنے بیانیے میں چونکہ کتابوں میں تو بالکل ہی اندھا اور نو نان سینس ہوتا ہے لہذا وہاں اس کے معنی ایک تحویل سے دوسری تحویل میں کسی فرد یا جائداد کی حوالگی کے ٹہرتے ہی...