وجود

... loading ...

وجود

ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!

جمعه 12 دسمبر 2025 ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

انتھونی ہاپکنز نے ایک بار کہا تھا: دوسرے میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کہتے ہیں اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں ہے۔ میں صداقت کے ساتھ جیتا ہوں، اس بات کی بنیاد پر کہ میں کون ہوں اور میری کیا قدر ہے۔ میں توثیق کا پیچھا نہیں کرتا یا دوسروں کی رائے سے چمٹا نہیں رہتا، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ حقیقی سکون زندگی کی نعمتوں اور اس کے چیلنجوں کو کھلے بازوؤں سے قبول کرنے سے حاصل
ہوتا ہے۔ توقعات کو چھوڑ کر اور تمام تجربات کا خیرمقدم کرتے ہوئے، مجھے ایک قسم کی آزادی ملتی ہے جو ہر دن کو ہلکا اور زیادہ پورا کرنے
والا بناتی ہے۔ہم ایک ایسے وقت میں رہتے ہیں جب ظاہری شکل دل سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اور تقریبات اکثر ان جذبات سے
کہیں زیادہ ہوتی ہیں جن کا مقصد ان کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں لوگ شاندار ڈسپلے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، پھر بھی کنکشن اور موجودگی کی پرسکون، ضروری خوبصورتی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ جنازوں کو خراج تحسین کے طور پر تیار کیا جاتا ہے، پھر بھی اکثر منائے جانے والے شخص کے جوہر سے محروم رہتے ہیں۔ شادیاں دو لوگوں کے درمیان محبت سے زیادہ شو کے بارے میں بن جاتی ہیں۔ ہم تصاویر، لیبلز، اور تعریفوں کی قدر کرتے ہیں، جو اکثر اندر کی روح، کردار اور مہربانی کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ظاہری شکل کے اس کلچر میں، واقعی معنی خیز چیز کو نظر انداز کرنا آسان ہے۔لیکن میں مختلف طریقے سے رہنے کا انتخاب کرتا ہوں۔ میں سطح سے آگے جانے، ڈسپلے پر گہرائی کی قدر کرنے، اور ان چیزوں کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہوں جن کو پسندیدگیوں یا لیبلز سے ماپا نہیں جا سکتا۔
زندگی اس وقت امیر ہو جاتی ہے جب ہم لوگوں کو ان کی روحوں کے لیے، ان کی گرمجوشی کے لیے، اور ان کے حقیقی روابط کے لیے
جو وہ ہماری زندگیوں میں لاتے ہیں۔ دوسروں کے لیے منظوری حاصل کرنے یا پرفارم کرنے کے لامتناہی چکر میں پھنسنے سے بچنے کے
لیے شور سے پیچھے ہٹنا آزاد ہے۔ اس کے بجائے، میں اپنی اقدار کو پروان چڑھانے، بامعنی تعلقات استوار کرنے، اور زندگی کو
خوبصورت بنانے والے چھوٹے، مستند لمحات میں خوشی تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہوں۔اس طرح زندگی گزارنا ظہور کے جنون میں
مبتلا دنیا میں بغاوت کا خاموش عمل ہے۔ یہ ظاہری نمائش پر اندرونی طاقت، رسم پر محبت، اور معاشرے کے معیارات پر دل کی سچائیوں
کا احترام کرنے کا انتخاب کر رہا ہے۔ میں سادگی اور مادہ کو قبول کرتا ہوں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حقیقی قناعت اسپاٹ لائٹ میں نہیں بلکہ
امن، شکرگزاری اور حقیقی تعلق کے لمحات میں پائی جاتی ہے۔لہذا، میں فیصلے کے شور یا موافقت کے دباؤ سے بے نیاز ہوکر اپنے راستے
پر چلتا رہوں گا۔ میں جیسا کہ میں ہوں کافی ہوں، اور میری زندگی اس چیز کی قدر کرنے کے لیے زیادہ امیر ہے جو واقعی اہم ہے۔ ایک
ایسی دنیا میں جو اکثر تحفے سے زیادہ لپیٹنے کو اہمیت دیتی ہے، میں جیسا کہ میں ہوں، مستند طور پر، غیر معذرت کے ساتھ، اور خوشی سے
زندگی گزارنے کا انتخاب کرتا ہوں، یہ جان کر کہ حقیقی دولت ان دیکھی خصوصیات میں پنہاں ہے جو روح کی تشکیل کرتی ہیں۔ہمارے
غصے ، جھنجھلا ہٹ، طیش میں آنے، احساس بربری کا شکار ہوجانے ، نفرت ، اپنے آپ کو ناگزیر سمجھنے، صرف اپنے آپ سے محبت کرنے
کے پیچھے حالات و واقعات نہیں ہوتے بلکہ ہماری ذہنی و جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں اگر ہم ذہنی و جسمانی طور صحت مند ہونگے تو ہمارے
روئیے بھی صحت مند ہونگے جب روئیے صحت مند ہونگے تو ان سے صحت مند حالات و واقعات کا جنم ہوگا لیکن اگر ہم ذہنی و جسمانی
طورپر بیمار ہونگے تو ہمارے روئیے بھی بیمار ہونگے اور جب روئیے بیمار ہونگے تو پھر اس سے بیمار حالات و واقعات جنم لیں گے ایسا
ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی صحت مند آدمی غصے، جھنجھلاہٹ، احساس بر تری یا صرف اپنے آپ سے محبت کرنے جیسی بیماریوں کا شکا ر
ہوجائے ۔ اس لیے اگر آپ کو کوئی شخص غصے، جھنجھلاہٹ ، طیش میں بے تکی باتیں یا تقریر کرتے ہوئے نظر آئے تو آپ کارویہ اس کے
ساتھ وہ ہی ہونا چاہیے جو ایک بیمار آدمی کے ساتھ آپ کا ہوتا ہے اس لیے آئیں سب سے پہلے تو ہم اپنے ملک کے سب ذہنی و جسمانی
بیماریوں کے لیے مل کر دعا کریں ۔ یہ اس لیے بھی بہت ضروری ہے کیونکہ بیمار سخت بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں ۔ سارتر لکھتاہے کہ ”
میری ماں صرف یہ دعا مانگتی تھی کہ اسے سکون نصیب ہو ‘ ‘ جبکہ سیموئیل جانسن کہتاہے ” اطمینان کے سوتے ذہن سے پھوٹتے ہیں اور
انسانی فطرت کے بارے میں وہ کم علم جو اپنی بجائے دوسری چیزوں کو تبدیل کرکے خو شیوں کے حصول کے متمنی ہوتے ہیں وہ نہ صرف
اپنی تمام کوششوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ ان ہی غموں کو اپنے لیے بڑھا لیتے ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے وہ ساری جدو جہد کررہے
ہوتے ہیں ”۔
یاد رہے جب ہم مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور یہ سو چتے ہیں کہ مسئلہ کہیں باہر ہے تو دراصل یہ سو چ ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے یہ کہہ کر ہم اپنا کنٹرول اس باہر کے مسئلے کے ہاتھ میں دیتے ہیں لیکن کبھی بھی مسئلہ باہر نہیں ہوتا مسئلہ ہمیشہ اندر ہوتاہے ۔ اسی لیے ایمر سن کہتا تھا کہ ” تم جو کچھ ہو اس ہونے کا شو ر میرے کانوں میں اسی قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا ” ۔اب ہمارے ملک کے اہم کرداروں کو ہی لے لیجئے جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی کی جارہی ہے غصے، طیش اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں وہ سب کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں یہ سو چے سمجھے بغیر کہ مسئلہ باہر نہیں ہے بلکہ مسئلہ خود ان کے اندر ہے اور یہ وہ بات تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں حتی کہ انہوں نے نا سمجھی میں اپنی ہر چیز دائو پر لگا دی ہے نتیجے میں مسئلے نے تو کیا ختم ہونا تھا انہوں نے اپنی لیے ان گنت اور نئے مسائل پیدا کردئیے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ یہ نئے مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے او ر وہ مسائل اور نئے مسائل کو جنم دیں گے اور پھر وہ وقت آجائے گا کہ وہ اگر چاہیں گے بھی تو کبھی اپنے مسائل سے نکل ہی نہیں پائیں گے اصل میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم اپنی دنیا کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس عینک پر بھی غور کر لیاکریں کہ جس کے ذریعے ہم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوتے ہیںدنیا کے بارے میں ہمارے خیالا ت کی ساری تشکیل کا اسی عینک پر انحصار ہے لیکن افسوس ہماری اکثریت ساری زندگی اپنی عینک کے بارے میں بھی سو چتی تک نہیں ہے یاد رکھیں ہم جوکچھ ہیں اس کا سب کو پتہ ہوتا ہے سوائے خود ہمارے ۔نامور ماہر نفسیات اسٹیفن آر کو ۔ کو وے لکھتاہے ” برائے مہربانی کو شش کیجئے کہ اپنے ذہن سے ہر چیز نکال دیں اور اپنی پوری توجہ میری بات پر مرکو ز رکھیں اپنے وقت ، بزنس، خاندان ، احباب وغیرہ کسی کے بارے میں بھی فکر مند نہ ہوں اور اپنے ذہن کو حقیقتاً کھلا رکھیں ۔ اب آپ اپنے ذہن کی آنکھ سے اپنے آپ کو اپنی کسی پیارے کے جنازے پر جاتا دیکھیں خود کو جنازے کی جگہ پر پہنچتا دیکھیں اور اپنی کار سے باہر آتا دیکھیں آپ جب عمارت میں داخل ہوتے ہیں تو پھول دیکھتے ہیں اور دھیمی دھیمی ماتمی موسیقی آپ کے کانوں میں پڑتی ہے آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں آپ کا احساس زیاں وہاں موجود ہر شخص کے دل سے بہہ رہا ہے اور شناسائی کے مہ وسال کی خوش کن یادوں میں بھی بڑھتا جاتا ہے یہ احساس آپ کے دل میں بھر جاتا ہے جب آپ اس کمرے کے آخر پر پہنچتے ہیں اور تابوت میں جھانکتے ہیں تو اچانک آپ خود کو اپنے مقابل پاتے ہیں یہ آپ کی اپنی میت ہے اور آخری رسومات کی تقریب ہے جو کہ آج سے تین سال بعد منعقد ہورہی ہے۔ اور یہ تمام لوگ آپ کے لیے اپنی عزت کا اظہار کرنے اپنی محبت نچھاور کرنے اور آپ کی بھر پور زندگی کی یاد میں یہاں اکٹھے ہوئے ہیں آپ رسومات کے شرو ع ہونے کے انتظار میں جب اپنی نشست پر بیٹھتے ہیں تو آپ کی نظر اپنے ہاتھ میں رسومات کے پروگرام کی کاپی پر پڑتی ہے تقریب میں چار مقرر ہونگے پہلا ، آپ کے خاندان سے قریبی یادور کا، بچوں ،بھائیوں ، بہنوں ، بھانجے ، بھتیجوں ، چچائوں میں سے کوئی جو سارے ملک کے طول و عر ض سے آپ کے جنازے میں شرکت کے لیے جمع ہوئے ہیں دوسر امقرر ،آپ کے دوستوں میں سے کوئی ہوگا جو کہ آپ کی شخصیت پر روشنی ڈال سکے تیسرا مقرر ،آپ کے پیشے سے متعلق ہوگا اور چوتھا آپ کے مذہبی یا پھر ایسے فلاحی ادارے سے کہ جہاں آپ اپنی خدمات پیش کرتے رہے۔ اب آپ ذرا گہرائی سے سوچئے آپ ان تمام مقررین کے منہ سے اپنے اور اپنی زندگی کے بارے میں کیسی باتیں سننا پسند کریں گے؟ تو پھر آپ کو اپنی کامیابی کی تعریف مل جائے گی اور یہ ممکن ہے کہ یہ تعریف آپ کے ذہن میں اس سے پہلے موجود تعریف سے مختلف ہو ہماری تمام جدوجہد کے مطمح ہائے نظر یعنی شہرت، کامیابی، دولت اور ایسی ہی دوسری چیزیں شاید صحیح دیوار کا حصہ بھی نہ نکلیں ۔اس لیے آئیں پہلی فرصت میں اپنی عینک کو بدل دیں تاکہ آپ دیکھ سکیں کہ مسائل باہر نہیں بلکہ آپ کے اندر ہیں اور آخر کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنا آج گذاریں یا درکھیں ایک نہ ایک دن ہم سب نے چلے جانا ہے یہ ہمارے آج پر منحصر ہے کہ کل لوگ ہمیں کس طرح یاد کریں گے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جب خاموشی محفوظ لگنے لگے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!

riaz وجود جمعه 12 دسمبر 2025
riaz

ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!

شادیوں میں نمود و نمائش ۔۔بھارتی ثقافت کا بڑھتا اثر وجود جمعرات 11 دسمبر 2025
شادیوں میں نمود و نمائش ۔۔بھارتی ثقافت کا بڑھتا اثر

کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے وجود جمعرات 11 دسمبر 2025
کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر