وجود

... loading ...

وجود

جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کااعلان

هفته 22 نومبر 2025 جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کااعلان

حمیداللہ بھٹی

دنیا میںاِس وقت معاشی ،تجارتی کے ساتھ نئے دفاعی اتحادبن رہے ہیں ۔تباہ کُن ہتھیاروں کے ذخائر اور جدیدترین لڑاکا طیاروں کے باوجود ریاستیں قومی سلامتی کے حوالے سے فکرمندہیں امن پسندی کی دعویدارکچھ طاقتوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کااِتنا ذخیرہ ہے جس سے پوری دنیا کو کئی بار تباہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس کے باوجودتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ایجاد پر کام ہورہا ہے ۔حالانکہ آواز کی رفتار سے تیزمیزائل اور لڑاکا جہاز بن چکے لیکن دفاعی فکرمند ی موجودہے۔ دولت کے لیے امریکہ جیسے ممالک کا ہتھیاروں کی برآمد بڑھانا امن کے لیے نقصان دہ ہے ۔
سرد جنگ کے بعدچار عشرے تک یہ خیال دنیاکے اذہان میں راسخ رہا کہ جتنے جوہری ہتھیار بنائے جا چکے وہ دفاع کے لیے کافی ہیں۔ اِس لیے ایک تو مزید ممالک کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جائے گا اور جو ممالک جوہری طاقت حاصل کر چکے ہیں وہ مزید تجربات نہیں کریں گے۔ اِس پر کچھ عرصہ عمل بھی ہوا۔ روس اور امریکہ کے درمیان اِس حوالے سے معاہدہ طے پانے پر یہ پیغام لیاگیاکہ بڑی طاقتیں امن کے حوالے سے سنجیدہ ہیں اور وہ دنیا میںجوہری ہتھیارمحدودکرنا چاہتی ہیں تاکہ دنیاکوجوہری ہتھیاروں کاڈھیر نہ بنایا جائے ۔یہ امن کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت تھی مگر یہ اطمینان اُس وقت غارت ہوگیا جب بھارت نے دوسری بار جوہری تجربات کرناشروع کر دیے ،اِن تجربات نے دنیا کو چونکادیا۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عالمی طاقتیں بھارت کی سرزنش کرتیں لیکن عملی طورپر ایسا کچھ نہ ہوابلکہ بظاہر ناپسندیدگی کے باوجود یہ کہہ کرسفارتی حوصلہ افزائی کی گئی کہ بھارت جیسے بڑے ملک کواپنی ضروریات کے مطابق دفاعی تیاریوں کا حق حاصل ہے جس سے شہ پاکر بھارتی قیادت حملہ کرنے اورپاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دینے لگی۔ مزید حیران کُن پہلو یہ کہ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو جوابی جوہری تجربات سے منع کرنا شروع کر دیا۔ اگر بھارت کے جوہری تجربات پر ذمہ داری کا مظاہرہ کیاجاتا اور معاشی وتجارتی پابندیاں لگادی جاتیں تو ممکن ہے پاکستان انتہائی اقدام سے گریز کرتا لیکن بھارت کے جارحانہ رویے نے جواب دینے پر مجبور کردیا۔
دنیا کے مسائل حل کرنے ہیں تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہوگا ۔ہتھیاروں کی بجائے تعلیم اور صحت کے لیے وسائل وقف کرنا ہوں گے۔ معدنیات ہتھیانے کی سوچ ترک کرنا ہوگی ۔بدقسمتی سے ایسا نہیں ہورہا۔ قدیم اور جدید دور کی سوچ میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ ماضی میں طاقتور ریاستیں کمزور ریاستوں کو تاراج کرتیں اور وسائل لوٹ لیتیں۔آج طاقتورممالک معاہدوں کے ذریعے غریب ممالک کی معدنیات ہڑپ کررہے ہیں ۔علاوہ ازیں کمزور ممالک کو دھمکا کر ہتھیار خریدنے پر مجبور کیا جانے لگا ہے۔ جس سے اسلحہ کی پیدوارمیں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اسلحے کی دوڑ تیز ہورہی ہے۔ اِس وقت امریکہ غیر ضروری تنازعات میں الجھنے سے اب معاشی طورپر روبہ زوال ہے اِس کی وجہ عراق،لیبیا،افغانستان اور ایران جیسے ممالک کونشانہ بنانے کے دوران معیشت کوثانوی درجہ دیناہے لیکن چین نے معیشت ودفاع پر یکساں توجہ دی۔ اسی بناپر آج طاقت میںامریکہ کا ہم پلہ نہیں تو کم بھی نہیں۔اب تو امریکہ اور چین میں دنیاسے معدنیات چھیننے کابھی مقابلہ جاری ہے۔ امریکہ نے چینی معاشی ترقی کاتوڑ اسلحہ بیچنے میں تلاش کرلیا ہے ۔سعودی عرب،بھارت ،اسرائیل ،عرب امارات،قطر اور ترکیہ کی شکل میں اُسے اچھے خریدار حاصل ہیں۔اِس کے باوجود چینی معیشت مات دینے کے قریب ہے۔ باربار کا شٹ ڈائون امریکی نظام کو کھوکھلا کررہا ہے۔ ابھی حال ہی میں 43 روزہ شٹ ڈائون کاخاتمہ ہوا ہے لیکن ایسے خطرات کا مستقبل میں بھی امکان موجود ہے جس امریکہ کے روشن مستقبل کے لیے نقصان دہ ہے ۔
امریکی سربراہی میں قائم چار رُکنی بھارت،جاپان اور آسٹریلیا پر مشتمل کواڈ کی فعالیت کم ہوچکی ہے مگرامریکہ بھارت سے دس سالہ دفاعی معاہدے کے تحت اسلحہ فروخت کرتا رہے گا۔ حال ہی میں سعودیہ کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ دیکر بھی اسلحے کا بڑا سودا کیا ہے۔ قطر اور عرب امارات سے بھی اسلحہ فراہمی کے اربوں ڈالر کے معاہدے کررکھے ہیں۔ لیکن یہ بھاری بھرکم معاہدے کیا اِ ن ممالک کی سلامتی کو یقینی نہیں بنا سکتے کیونکہ اب عددی برتری اور ہتھیاروں کے ذخائر کے ساتھ جنگیں جیتنا مشکل ہوگیاہے ۔جدید ہتھیاروں کے ساتھ مہارت اور بہتر جنگی حکمت عملی بھی ضروری ہے۔ وگرنہ وہی ہوناہے جو بھارت کے ساتھ مئی کی فضائی اور زمینی جھڑپوں میں ہوچکا۔اِس دوران بھارت کو ایسی ہزیمت کا سامنا کرناپڑا جس سے نہ صرف عالمی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عسکری مورال بھی متاثر ہواہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اسلحے کے بڑے خریدارتمام تر تیاریوں کے باوجود اسرائیلی رحم وکرم پر ہیں ۔دوحہ پر اسرائیلی حملے کے بعد امریکہ نے قطر سے دفاعی معاہدہ کیا ہے جس کے تحت دو نوں میں سے کسی ایک پر حملہ دونوں پر شمار ہو گاجبکہ چینی اسلحہ جسے امریکی ہتھیاروں کے مقابلے میں کم تر سمجھا جاتا تھا اُسے بہتر استعمال سے پاکستان آج دنیا کانہ صرف پسندیدہ ہے بلکہ چینی ہتھیاروں کی مانگ میں اضافے کا باعث بناہے کیونکہ پاکستان نے مہارت اور بہتر جنگی حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا ۔اب ہتھیاروں اور نفری سے جیت کے خواب دیکھنا ٹھیک نہیں تو دنیاکیوں اسلحے کی دوڑ چھوڑ کر تنازعات کے حل پر توجہ نہیں دیتی تاکہ جنگوں کی نوبت ہی نہ آئے مگر ایسا تبھی ممکن ہے جب عالمی طاقتیں ہتھیار بیچ کر دولت بٹورنے کے عمل سے کنارہ کش ہوں۔ ایسا ہوتا نظر نہیں آتا اب تو شمالی کوریا اور اسرائیل بھی اعلانیہ جوہری بم رکھنے کے دعویدار ہیں۔ یہ دنیا کے مزیدغیر محفوظ ہونے کی طرف اِشارہ ہوتا ہے ۔اسرائیل تو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی پاسداری بھی نہیں کرتا جس کی وجہ امریکی تھپکی ہے۔ اس طرح کے ممالک کاجوہری طاقت رکھناامن کے لیے مُضرہے ۔
اگر یہ کہا جائے کہ تمام تر ترقی کے باوجود روایتی اورجوہری ہتھیاروں کی شکل میں دنیا بارود کا ڈھیربن چکی ہے تو بے جا نہ ہوگا جس کی ذمہ داری بڑی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر یہ طاقتیں انصاف کا دُہرا معیار چھوڑ دیں اور ہتھیاروں کی دوڑ کی حوصلہ شکنی کریں تو اسلحے کی خرید پر ہونے والے اخراجات انسانی خوشحالی پر صرف ہوں۔ غریب ممالک اپنی معدنیات کو غربت اوربے روزگاری پر قابو پا نے کے لیے استعمال کریں تعلیم اور صحت کے مسائل پر قابو پائیں لیکن ایسے حالات میں جب دنیا کو امن کی ضرورت ہے ،عالمی طاقتوں نے طاقت کے بل بوتے پر معدینات ہتھیانے کے معاہدے کرنا شروع کردیے ہیں اور امریکی صدرٹرمپ نے جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کا اعلان کردیا ہے جس سے مزید ممالک ایسی روش پر چل سکتے ہیں۔ اِس طرح حقیقی مسائل توشاید حل نہ ہوں البتہ دنیا مزید غیر محفوظ ہوجائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
عہدِ حاضر میں برداشت، امن اور ہم آہنگی کی ضرورت وجود هفته 22 نومبر 2025
عہدِ حاضر میں برداشت، امن اور ہم آہنگی کی ضرورت

زور پکڑتی خالصتان تحریک وجود هفته 22 نومبر 2025
زور پکڑتی خالصتان تحریک

جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کااعلان وجود هفته 22 نومبر 2025
جوہری ہتھیاروں کے نئے تجربات کااعلان

سائبر ڈپلومیسی اور بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی ہوئی فطرت وجود جمعه 21 نومبر 2025
سائبر ڈپلومیسی اور بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی ہوئی فطرت

بھارتی فوج میں سیاست وجود جمعه 21 نومبر 2025
بھارتی فوج میں سیاست

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر