وجود

... loading ...

وجود

آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم

پیر 10 نومبر 2025 آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم

محمد آصف

پاکستان کی سیاسی تاریخ آئینی ترامیم، اقتدار کی کشمکش، اور طاقت کی مرکزیت سے عبارت ہے ۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے ہی ملک کو ایسے آئینی بحرانوں کا سامنا رہا جنہوں نے جمہوری روایات کو کمزور اور ادارہ جاتی توازن کو متزلزل کیا۔ آئین کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے جو اقتدار کی تقسیم، عوامی حقوق، اور قومی یکجہتی کی ضمانت فراہم کرتا ہے ، مگر جب آئین کو بار بار ذاتی یا جماعتی مفادات کے تابع کیا جائے تو یہ قومی اتفاقِ رائے کے بجائے اختلافِ رائے اور انتشار کو جنم دیتا ہے ۔ پاکستان کی آئینی تاریخ میں متعدد ایسی ترامیم کی مثالیں موجود ہیں جن کا مقصد جمہوری اداروں کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ مخصوص افراد یا جماعتوں کے اقتدار کو دوام بخشنا رہا ہے ۔
ابتدائی دنوں میں پاکستان کو ایک ایسا آئین دینے میں تاخیر ہوئی جو عوامی امنگوں کے مطابق ہوتا۔1956ء میں پہلا آئین نافذ ہوا مگر محض دو سال بعد اسے منسوخ کر کے مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔1962ء کا آئین صدارتی نظام کے تحت ایک فرد کے گرد مرکوز طاقت کی علامت بن گیا۔ اسی طرح1973ء کا متفقہ آئین بلاشبہ ایک تاریخی پیش رفت تھی، مگر جلد ہی اس میں ترامیم کے ذریعے اختیارات کے توازن کو بگاڑ دیا گیا۔ ہر حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے مطابق آئین میں ردوبدل کیا کسی نے صدر کو طاقتور بنایا تو کسی نے وزیراعظم کو، مگر عوام کے بنیادی حقوق ہمیشہ کمزور ہوتے گئے ۔
آئینی ترمیم کا مقصد بنیادی طور پر ریاستی ڈھانچے کو بہتر بنانا اور نظام کو بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے ۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر ترامیم عوامی فلاح کی بجائے اقتدار کے تحفظ کے لیے کی گئیں۔ 8ویں ترمیم نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دے کر جمہوری نظام کو عدم استحکام کا شکار کیا، جبکہ 17ویں ترمیم نے اسی سوچ کو مزید تقویت دی۔ دوسری جانب 18ویں ترمیم بظاہر پارلیمان کی بالادستی کے لیے تھی، مگر اس نے مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ یوں ہر ترمیم کے پیچھے سیاسی نعرہ ضرور تھا، مگر عمل میں اکثر ذاتی یا جماعتی مفاد غالب رہا۔
پاکستان میں آئین کو اکثر ایک سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے مخالف جماعتوں کو کمزور کرنے ، اداروں کو قابو میں رکھنے ، اور اپنی سیاسی بقا یقینی بنانے کے لیے آئینی تبدیلیوں کا سہارا لیا۔ عدالتوں کے فیصلے بھی بعض اوقات اسی سیاسی ماحول کا حصہ بنے ۔ یوں ایک ایسا ماحول پیدا ہوا جہاں آئین محض الفاظ کا مجموعہ بن کر رہ گیا، جبکہ اس کی روح یعنی انصاف، مساوات اور عوامی شراکت پس منظر میں چلی گئی۔اقتدار کی تحکیم کا یہ رجحان نہ صرف سیاسی عدم استحکام کو بڑھاتا ہے بلکہ اداروں کے درمیان تصادم کو بھی جنم دیتا ہے ۔ پارلیمان، عدلیہ، اور انتظامیہ کے درمیان اختیارات کا توازن آئینی نظام کی بنیاد ہے ، مگر جب کوئی فریق دوسروں پر بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرے تو ریاستی ڈھانچہ متزلزل ہو جاتا ہے ۔ اقبال نے کہا تھا: افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ مگر جب افراد خود کو آئین سے برتر سمجھنے لگیں تو قوموں کی تقدیر کمزور ہو جاتی ہے ۔
آئین میں ترامیم ناگزیر ہیں کیونکہ زمانہ بدلتا ہے ، مسائل نئے پیدا ہوتے ہیں، اور معاشرتی تقاضے تبدیل ہوتے ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترامیم عوامی ضرورت کے لیے کی جاتی ہیں یا اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے ؟ اگر ترمیم کا مقصد عوامی نمائندگی میں اضافہ، شفاف نظام، اور عدل و مساوات کی فراہمی ہو تو وہ ترمیم جمہوریت کی خدمت ہے ، لیکن اگر مقصد سیاسی مخالفین کو کچلنا، طاقت کو مرکوز رکھنا، یا ذاتی اقتدار کو طول دینا ہو تو وہ ترمیم دراصل جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے ۔ اقتدار کی تحکیم کا ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ عوام آئین اور سیاست سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ جب انہیں محسوس ہوتا ہے کہ قانون اور آئین صرف طاقتوروں کے لیے ہیں، تو ان کے دلوں میں نظام کے لیے اعتماد باقی نہیں رہتا۔ یہی بیگانگی عوامی بے بسی، مایوسی اور بالآخر ریاستی کمزوری کا باعث بنتی ہے ۔ آئینی عمل میں شفافیت، شمولیت، اور احتساب کو یقینی بنانا ضروری ہے تاکہ ترمیم عوام کے مفاد میں ہو، کسی فرد یا طبقے کے لیے نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ آئین کوئی کھیل نہیں جسے ہر حکومت اپنے مفاد کے مطابق بدل دے ۔ اگر آئین کی بالادستی برقرار نہ رکھی گئی تو جمہوری تسلسل خطرے میں پڑ جائے گا۔
اقتدار کے حصول کی خواہش فطری ہے ، مگر اس کے لیے آئینی حدود کی پاسداری ضروری ہے ۔ اقتدار کی تحکیم وقتی تسکین تو دے سکتی ہے مگر طویل المیعاد نقصان پہنچاتی ہے ۔ قوموں کی تعمیر ان اصولوں پر ہوتی ہے جہاں قانون سب پر یکساں ہو اور ریاست کا نظام شخصیات نہیں بلکہ اداروں کے تابع ہو۔آج کے پاکستان کو آئینی استحکام، ادارہ جاتی توازن، اور عوامی اعتماد کی ضرورت ہے ۔ اگر ہر حکومت آئین کو اپنی مرضی سے ڈھالتی رہے تو نہ قانون رہے گا نہ نظام۔ آئینی ترمیم صرف اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے جب وہ قومی مفاد میں، شفاف طریقے سے ، اور تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے کی جائے ۔اختتاماً کہا جا سکتا ہے کہ آئین کی ترمیم اور اقتدار کی تحکیم کے درمیان فرق سمجھنا ضروری ہے ۔
آئین کی ترمیم اصلاحِ نظام کے لیے ہو تو یہ ترقی کی علامت ہے ، مگر اگر ترمیم محض اقتدار کو دوام دینے کے لیے ہو تو یہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتی ہے ۔ پاکستان کی اصل ضرورت ایک ایسا نظام ہے جہاں آئین محکم ہو، قانون بالادست ہو، اور اقتدار خدمت کا ذریعہ بنے ،حکمرانی کا ہتھیار نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ وجود پیر 10 نومبر 2025
پاکستان سے جنگ نہ کرنا، بھارت کو انتباہ

آر ایس ایس پر پابندی کتنی ضروری ؟ وجود پیر 10 نومبر 2025
آر ایس ایس پر پابندی کتنی ضروری ؟

آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم وجود پیر 10 نومبر 2025
آئین کی ترمیم یا اقتدار کی تحکیم

زہران ممدانی کی جیت وجود اتوار 09 نومبر 2025
زہران ممدانی کی جیت

بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز وجود اتوار 09 نومبر 2025
بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کی لہر تیز

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر