وجود

... loading ...

وجود

معافی اور مافیا

جمعه 11 جولائی 2025 معافی اور مافیا

آواز
۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

عام آدمی کا خیال ہے کہ پاکستان کی شوگر اندسٹری ایک خونخوار مافیا کا روپ دھارچکی ہے۔ جسے اپنے ہم وطنوں پر کوئی ترس نہیں آتا۔ یہ مافیا جب چاہے مصنوعی قلت پیداکرکے چینی کی قیمتوںمیں اضافہ کردیتاہے ۔انہیں کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔ اس وقت پاکستان میں کل 90 شوگر ملیں ہیں جن میںسے 82 شوگر ملیں فعال ہیں۔ کچھ ذرائع کے مطابق موجودہ صدر آصف زرداری خاندان (اومنی گروپ) کے پاس 18 سے 21 شوگر ملیں ہیں، جو کہ کل ملوں کا تقریباً 22 سے 25 فیصد بنتا ہے۔ شریف خاندان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس 12 سے 16 شوگر ملیں ہیں، جو کہ کل ملوں کا تقریباً 15 سے 20 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر، دونوں خاندانوں کی ملکیت میں تقریباً 37 سے 45 فیصد شوگر ملیں ہو سکتی ہیں۔تاہم، یہ اعداد و شمار ایکس پر پوسٹس،سوشل میڈیا اور کچھ ویب رپورٹس پر مبنی ہیں، جن کی صداقت کی مکمل تصدیق نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر، ایکس پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ زرداری خاندان کی 18 اور شریف خاندان کی 12 شوگر ملیں ہیں، جبکہ ایک اور پوسٹ نے ان دونوں خاندانوں کو 80 فیصد ملوں کا مالک قرار دیا، جو مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے۔ ویب ذرائع میں بھی واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ جہانگیر ترین، چوہدری برادران اور دیگر گروپس بھی شوگر انڈسٹری میں بڑا حصہ رکھتے ہیں یعنی یہ سب مالکان جن میں زیادہ پاکستان کے سیاستدان شامل ہیں جو دن رات عوام کی محبت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے لیکن حیرت ہے یہ سب کے سب عوام کو کوئی ریلیف دینے کے لئے تیار نہیں۔
ان سیاسی افراد کا پاکستان میں چینی کی حکومتی پالیسیوں پر کتنا اثر و رسوخ ہے، ا س بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ ہرسال حکومت شوگر انڈسٹری کو اربوں روپے سبسٹڈی بھی دیتی ہے لیکن اس کا فائدہ بھی عوام کو نہیں ملتا۔ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے 48 ارکان ہیں۔ تاہم ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نامی سرکاری ادارے کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 72 شو گر ملز کام کر رہی ہیں۔ جبکہ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی تعداد 85 ہے جن کی اکثریت یعنی 45 شوگر ملز پنجاب میں قائم ہیں جبکہ سندھ میں ان کی تعداد 32 اور خیبر پختونخوا میں8 ہے۔چینی سے جڑے تنازعات پر اکثر شوگر ملز مالکان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے منافع کی قیمت عام صارفین کو چکانی پڑتی ہے۔درحقیقت ملک میں قائم کئی شوگر ملز کاروباری افراد کے علاوہ بااثر سیاسی شخصیات اور خاندانوں کی ملکیت میں بھی ہیں۔ پاکستان کے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ‘یہ حقیقت ہے کہ جب شوگر ملز کو سبسڈی چاہیے تو انھیں مل جاتی ہے، جب برآمد کرنے کی اجازت چاہیے وہ بھی مل جاتی ہے اور جب چینی در آمد کرنے کی اجازت چاہیے تو وہ بھی مل جاتی ہے’ ۔ اس کا مطلب ہے کہ شوگر ملز مالکان کا حکومتی پالیسیوں پر اثر و نفوذ ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ پالیسیاں عوام کی نظر سے نہیں بلکہ شوگر ملز مالکان کے نکتہ نظر سے بنائی جاتی ہیں۔سابق مشیر خزانہ نے کہا کہ ‘یہ ایک قسم کا کارٹیل ہے اور ان کی ایسوسی ایشن بھی بہت طاقتور ہے’۔انھوں نے کہا کہ ‘چینی ایک ضروری آئٹم بن چکا ہے اور اس میں شوگر ملز کو کسی مقابلے کا سامنا نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی پیداوار سے لے کر اس کی مارکیٹ میں فروخت تک، ہر چیز پر اثر انداز ہوتے ہیں’۔انھوں نے کہا کہ ‘اس شعبے میں حکومتی مداخلت بہت زیادہ ہے، اس لئے آئے دن شوگرا سکینڈل سامنے آتے رہتے ہیں جب تک حکومتی مداخلت ختم نہیں ہوتی، یہ اسکینڈل آتے رہیں گے’۔ان کی تجویز ہے کہ ‘حکومتی مداخلت کے بجائے مارکیٹ فورسز چینی کی قیمت اور اس کی طلب و رسد کا تعین کریں’۔ان کی تجویز ہے کہ گھریلو صارفین کے لئے چینی پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے تو حکومت کے ریونیو پر کوئی فرق نہ پڑے والاکیونکہ زیادہ مقدار میں چینی انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے’۔ تاہم گھریلو صارفین کے لیے سیلز ٹیکس کے چینی پر خاتمے سے اس کی قیمت کو نیچے لایا جا سکتا ہے’ ۔
اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ چینی کی قیمتوںمیں استحکام لانے کیلئے ٹھوس پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرناناگزیرہے ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر سطح پر حکومتی مداخلت ختم کی جائے اور شوگر انڈسٹری کو دی جانے والی سبسڈی کا فائدہ عوام کو ملنا چاہیے ۔ شوگر انڈسٹری مالکان بھاری منافع پر چینی ایکسپورٹ کردیتے ہیں پھر اسی چینی کو زیادہ قیمت پر امپورٹ کرتے ہیں جس سے ملک کا قیمتی زرمبادلہ ضائع کیا جاتاہے۔ شنیدہے کہ ملی بھگت سے کاغذوںمیں ہی ایکسپورٹ اور امپورٹ کی جاتی ہے اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ کیونکہ یہ لوگ منافع کمانے کے 101گُرجانتے ہیں حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عوامی مفاد میں ایسے لوگوںکے خلاف سخت ایکشن لے جو محض اپنے مفادات کے لئے عام آدمی کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں ۔یقینا ان کا یہ مکروہ دھندا ناقابل ِ معافی جرم ہے جب تک حکومت کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کرکے قانون کی حکمرانی قائم نہیں کرتی عوام کو کبھی ریلیف نہیں مل سکتا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
برکس اور بھارت وجود هفته 12 جولائی 2025
برکس اور بھارت

بے گورو کفن وجود هفته 12 جولائی 2025
بے گورو کفن

ہم اپنے آپ کو دوبارہ کیسے بنا سکتے ہیں؟ وجود هفته 12 جولائی 2025
ہم اپنے آپ کو دوبارہ کیسے بنا سکتے ہیں؟

نظر بند کشمیری قیادت سے ناروا سلوک وجود جمعه 11 جولائی 2025
نظر بند کشمیری قیادت سے ناروا سلوک

معافی اور مافیا وجود جمعه 11 جولائی 2025
معافی اور مافیا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر