... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ
ڈبلیو بی ٹیٹیس نے کہا تھا ” لمبے عرصے کی قربانی دل پتھر کر دیتی ہے ” ۔اسی لیے آج ہمارے سماج میں صرف پتھر باقی رہ گئے ہیں، انسان مر چکے ہیں اور پتھروں سے چیخنے ، چلانے ،رونے اور حرکت کی امید رکھنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔ذہن میں رہے جس جگہ پر انسان مرجاتے ہیں پھر اس جگہ پر چمگادڑیں قبضہ کرلیتی ہیں اور انسانیت کی بے لباس ، ننگی ،ادھڑی ،زخموں سے چور لاش بیچ چوراہیسے پر پڑی ہوئی ہوتی ہے اور لاش کے چاروں طرف چمگادڑیں چیخ رہی ہوتی ہیں، اندھیرے اور وحشت قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں ۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ دھر کے بتائیں کیا یہ ہی منظر آج پاکستان کا نہیں بنا ہوا ہے ۔ آئیں اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ منظر کیوں کر بنتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہم اس بات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ مصر کے لوگ مبارک کی حکومت کے خلاف کیوں کھڑے ہوئے ۔نہا حامد جو قاہرہ میں ایک اشتہارتی ایجنسی میں ایک چو بیس سالہ کارکن ہے ،اس بارے میں کہ اس نے تحریر چوک میں کیوں مظاہرہ کیااور اپنے خیالات کااظہار یوں کیا ” ہم بد عنوانی ، ظلم اورکمتر تر تعلیم کا شکار ہیں ہم ایک بدعنوان نظام کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں جسے لازماًتبدیل ہونا چاہیے ”۔ چوک میں موجود ایک اور شخص فارمیسی کے طالب علم معصب الشامی نے اس سے اتفا ق کرتے ہوئے کہا ” ہم اس بدعنوانی کا خاتمہ کر دیں گے جس نے اس ملک پر قبضہ کیا ہو اہے ”، محمدا لبرادی جو کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق ڈائر یکٹر ہیں نے 13 جنوری 2011کو ٹو ئیٹر پر لکھا ، دبائو +سماجی انصاف کا عدم وجود +پرامن تبدیلی کے لیے راستوں سے محرومی = ٹکٹکاتا ہوا بم ۔ انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتاہے جس سے اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے ،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتاہے۔ انسان ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی ناقابل برداشت ہے ۔ بدعنوانی ناانصافی کی ماں ہے اور جذبات پر فالج پڑجانا،احساسات کا مردہ ہوجانا ، اداروں کو کینسر لگ جانا، خوابوں کو کوڑہ لگ جانا ، حوصلوں کو پولیو ہوجانا ، ناانصافی کے ناجائز بچے ہیں ۔ 1754میں روسوکی دوسری کتاب ” نابرابری کی ابتداء ” شائع ہوئی جس میں وہ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ” دیکھو یہ ہے تمہاری تاریخ جیسی کہ ہونی چاہیے نہ کہ وہ تاریخ جو کتابوں میں قلمبند ہے کیونکہ کتابوں کے مصنف جھوٹ بولتے ہیں ۔البتہ نیچر جھوٹ نہیں بولتی اور میں نے نیچر کی ہی تقلید کی ہے ۔یہ امر قانون قدرت کے خلاف ہے کہ بچہ بوڑھے پر حکم چلائے ۔اپاہج دانشور کی راہ نمائی کرے اور مٹھی بھر آدمیوں کے پیٹ تو دنیا بھر کے الا بلا سے بھرے ہوں اور بھوکی اکثریت زندگی کی ضرورتوں کو ترسے۔ طبقاتی تقسیم، دولت منداور مفلس، طاقتوراور کمزور ، آقااورغلام ہی نے سماج میں دنیا بھر کی خرابیاں پیدا کر دی ہیں ”۔
آج بہت کم لوگ مابلی کے نام اور کام سے واقف ہیں ۔ لیکن اٹھارویں صدی میں اس کی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی تحریروں کی 24جلدیں چار ایڈیشنوں میں شائع ہوئیں۔ پروفیسر الکزنڈر گرے نے اعتراف کیا ہے کہ اس زمانے میں ہر شخص مابلی کو پڑھتا اور اس کی تحریروں کا حوالہ دیتا تھا ۔مویسو ژان نے تقریبا سو سال بعد گواہی دی کہ پیرس میں کتابو ں کی دُکان میں سب سے زیادہ فروخت مابلی کی ہوتی تھیں ۔ مابلی کہتا ہے ” قدرت ہم سے بے شمار طریقوں سے کہتی ہے کہ تم سب میرے ہو اور میں تم سب سے برابر محبت کرتی ہوں سارا کرہ ارض تم میں سے ہر ایک کا ورثہ ہے جس وقت تم نے میرا ہاتھ چھوڑا ،اس وقت تم سب برابر تھے، ہماری ضرورتیں یکساں ہیں اور مساوات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہی ہے کہ قدرت نے ہر شخص کو آزاد اور مساوی پیدا کیا ہے۔ قدرت نے نہ تو بادشاہ پیدا کیے ،نہ حاکم نہ آقا نہ غلام نہ امیر نہ غریب ۔ جب قدرت نے انسانی تخلیق کا عمل مکمل کیا تو عدم مساوات کانام و نشان تک نہ تھا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ طبعی حالات کی وجہ سے انسانوں کے درمیان فرق پیدا ہوجاتا ہے تو مابلی اس کے جواب میں کہتا ہے کہ قدرتی صلاحیتیں سب لوگوں میں قریب قریب یکساں ہوتی ہیں جو فرق ہمیں نظر آتاہے وہ دراصل تعلیم و تربیت اور معیار زندگی کے فرق کا نتیجہ ہوتاہے ۔ بددیانتی ، رشوت ، چوری، دوسروں کے مال و متاع پر غاصبانہ قبضہ ، دوسروں کی محنت سے ناجائز فائدہ اٹھا ناسب کا محرک ذاتی ملکیت کی ہوس ہے یہاں تک کہ جنگیں بھی اسی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ دنیا میں جو ترقی ہوئی ہے خواہ وہ سائنسی علوم میں ہویا ادب وفنون میں اس میں ذاتی فائدہ کا جذبہ نہیں رہا ہے۔ کیا افلاطون یا سقراط یا ہومر نے پیسے کی خاطر لکھاتھا ؟ انسان جس سماج میں پرورش پاتاہے، اس کی برائیاں اس کو بد بنادیتی ہیں ۔
پولینڈ کے نامور مصنف ریشا رد کا پوشنکی اپنی کتاب میں لکھتا ہے ” ہر انقلاب سے پہلے شدید تھکن اوربے بسی کا دور آتاہے ”۔ اور پھر ایک نہ ایک لمحہ ایسا آہی جاتاہے جب تما م ناانصافیوں کا حاصل جمع نکالا جانا ناگزیر ہو جاتاہے، انسانی تاریخ باربار گواہی دیتی ہے کہ وقت کے بادشاہ ، آمر ، جابر حکمران اپنے ہی لوگوں پر ہر قسم کی زیادتیا ں ، ظلم ، ناانصافیاں کرتے رہے لیکن ان پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں ہوا۔ پھر ایک روز اچانک لوگوں کے صبر کی حدیں آخر کار پامال ہو ہی گئیں اور پھر بادشاہ ، آمر ، جابر حکمران بے بس ، ہکا بکا اور حیران ہوکر پوچھنے لگے ” میں نے آخر کیا کیا ہے ” ۔ آج پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کون سی ایسی ناجائز ی ، ظلم، زیادتی ، ناانصافی، تکلیفیں، دکھ درد باقی رہ گئے ہیں جو اور ہونے ہیں کونسے اور ایسے آنسو ، آہیں ، و بکائیں باقی بچ گئی ہیں، بس جن کا ان کو سامنا کرنا ابھی باقی ہے ، کونسا ایسا اور ماتم کرنا باقی بچا ہے جو ان کو اور کرنا ہے کون سے ایسے اور فاقے ، ذلتیں ، گالیاں، طعنے باقی بچے ہیں جو انہیں کرنا یا سننا باقی ہیں ۔ میرے ملک کے امیروں ، با اختیاروں اور طاقتوروں سن لو اب تو لوگوں کے پاس اپنا کفن تک خریدنے کے پیسے باقی نہیں بچے ہیں لیکن اگر تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ تمہاری عیاشیاں ، مکاریاں ، چالبازیاں اور غلاظتیں اسی طرح سے قائم و دائم رہیں گی تو تم انتہائی بے وقوف اور احمق ہو، وہ دن بالکل سامنے ہی کھڑا ہے جب تم بے بسی ، ہکا بکا ،اور حیران ہوکر پوچھنے لگوگے کہ” میں نے آخر کیا کیاہے ” اوراس وقت انسانی تاریخ زور زور سے قہقہے لگا نا شروع کر دے گی ، انسانی تاریخ میں لکھے محفوظ لفظ دوبارہ جی اٹھیں گے اور خو شی کے مارے نا چنا شروع کردیںگے ، فرعو ن ، ہٹلر، یزید ، شاہ ایران ، مسو لینی سے لے کر سارے گزرے بادشاہ ، آمر، جابر حکمران اپنی اپنی قبروں میں ہنسنا شروع کردیں گے ۔ بادشاہوں ، آمروں اور جابرحکمرانوں کے دور کے واقعات ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا شروع کردیں گے ۔پرانے قصے اور کہانیاں مچلنا شروع کردیں گی۔ آہ واقعی انسان خسارے میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔