وجود

... loading ...

وجود

انقلاب سے پہلے شدید مایوسی کا دور آتا ہے!

هفته 28 جون 2025 انقلاب سے پہلے شدید مایوسی کا دور آتا ہے!

اونچ نیچ
۔۔۔۔۔۔
آفتاب احمد خانزادہ

ڈبلیو بی ٹیٹیس نے کہا تھا ” لمبے عرصے کی قربانی دل پتھر کر دیتی ہے ” ۔اسی لیے آج ہمارے سماج میں صرف پتھر باقی رہ گئے ہیں، انسان مر چکے ہیں اور پتھروں سے چیخنے ، چلانے ،رونے اور حرکت کی امید رکھنے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں۔ذہن میں رہے جس جگہ پر انسان مرجاتے ہیں پھر اس جگہ پر چمگادڑیں قبضہ کرلیتی ہیں اور انسانیت کی بے لباس ، ننگی ،ادھڑی ،زخموں سے چور لاش بیچ چوراہیسے پر پڑی ہوئی ہوتی ہے اور لاش کے چاروں طرف چمگادڑیں چیخ رہی ہوتی ہیں، اندھیرے اور وحشت قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں ۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ دھر کے بتائیں کیا یہ ہی منظر آج پاکستان کا نہیں بنا ہوا ہے ۔ آئیں اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ منظر کیوں کر بنتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہم اس بات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ مصر کے لوگ مبارک کی حکومت کے خلاف کیوں کھڑے ہوئے ۔نہا حامد جو قاہرہ میں ایک اشتہارتی ایجنسی میں ایک چو بیس سالہ کارکن ہے ،اس بارے میں کہ اس نے تحریر چوک میں کیوں مظاہرہ کیااور اپنے خیالات کااظہار یوں کیا ” ہم بد عنوانی ، ظلم اورکمتر تر تعلیم کا شکار ہیں ہم ایک بدعنوان نظام کے تحت زندگی بسر کررہے ہیں جسے لازماًتبدیل ہونا چاہیے ”۔ چوک میں موجود ایک اور شخص فارمیسی کے طالب علم معصب الشامی نے اس سے اتفا ق کرتے ہوئے کہا ” ہم اس بدعنوانی کا خاتمہ کر دیں گے جس نے اس ملک پر قبضہ کیا ہو اہے ”، محمدا لبرادی جو کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سابق ڈائر یکٹر ہیں نے 13 جنوری 2011کو ٹو ئیٹر پر لکھا ، دبائو +سماجی انصاف کا عدم وجود +پرامن تبدیلی کے لیے راستوں سے محرومی = ٹکٹکاتا ہوا بم ۔ انسان پر سب سے شدید حملہ ناانصافی کا ہوتاہے جس سے اس قدر تباہی پھیلتی ہے کہ تصور بھی محال ہے ،اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ انسان کی عزت نفس پر ہوتاہے۔ انسان ہر چیز برداشت کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے اپنی عزت نفس کی بے حرمتی ناقابل برداشت ہے ۔ بدعنوانی ناانصافی کی ماں ہے اور جذبات پر فالج پڑجانا،احساسات کا مردہ ہوجانا ، اداروں کو کینسر لگ جانا، خوابوں کو کوڑہ لگ جانا ، حوصلوں کو پولیو ہوجانا ، ناانصافی کے ناجائز بچے ہیں ۔ 1754میں روسوکی دوسری کتاب ” نابرابری کی ابتداء ” شائع ہوئی جس میں وہ انسان کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ” دیکھو یہ ہے تمہاری تاریخ جیسی کہ ہونی چاہیے نہ کہ وہ تاریخ جو کتابوں میں قلمبند ہے کیونکہ کتابوں کے مصنف جھوٹ بولتے ہیں ۔البتہ نیچر جھوٹ نہیں بولتی اور میں نے نیچر کی ہی تقلید کی ہے ۔یہ امر قانون قدرت کے خلاف ہے کہ بچہ بوڑھے پر حکم چلائے ۔اپاہج دانشور کی راہ نمائی کرے اور مٹھی بھر آدمیوں کے پیٹ تو دنیا بھر کے الا بلا سے بھرے ہوں اور بھوکی اکثریت زندگی کی ضرورتوں کو ترسے۔ طبقاتی تقسیم، دولت منداور مفلس، طاقتوراور کمزور ، آقااورغلام ہی نے سماج میں دنیا بھر کی خرابیاں پیدا کر دی ہیں ”۔
آج بہت کم لوگ مابلی کے نام اور کام سے واقف ہیں ۔ لیکن اٹھارویں صدی میں اس کی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ اس کی تحریروں کی 24جلدیں چار ایڈیشنوں میں شائع ہوئیں۔ پروفیسر الکزنڈر گرے نے اعتراف کیا ہے کہ اس زمانے میں ہر شخص مابلی کو پڑھتا اور اس کی تحریروں کا حوالہ دیتا تھا ۔مویسو ژان نے تقریبا سو سال بعد گواہی دی کہ پیرس میں کتابو ں کی دُکان میں سب سے زیادہ فروخت مابلی کی ہوتی تھیں ۔ مابلی کہتا ہے ” قدرت ہم سے بے شمار طریقوں سے کہتی ہے کہ تم سب میرے ہو اور میں تم سب سے برابر محبت کرتی ہوں سارا کرہ ارض تم میں سے ہر ایک کا ورثہ ہے جس وقت تم نے میرا ہاتھ چھوڑا ،اس وقت تم سب برابر تھے، ہماری ضرورتیں یکساں ہیں اور مساوات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہی ہے کہ قدرت نے ہر شخص کو آزاد اور مساوی پیدا کیا ہے۔ قدرت نے نہ تو بادشاہ پیدا کیے ،نہ حاکم نہ آقا نہ غلام نہ امیر نہ غریب ۔ جب قدرت نے انسانی تخلیق کا عمل مکمل کیا تو عدم مساوات کانام و نشان تک نہ تھا۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ طبعی حالات کی وجہ سے انسانوں کے درمیان فرق پیدا ہوجاتا ہے تو مابلی اس کے جواب میں کہتا ہے کہ قدرتی صلاحیتیں سب لوگوں میں قریب قریب یکساں ہوتی ہیں جو فرق ہمیں نظر آتاہے وہ دراصل تعلیم و تربیت اور معیار زندگی کے فرق کا نتیجہ ہوتاہے ۔ بددیانتی ، رشوت ، چوری، دوسروں کے مال و متاع پر غاصبانہ قبضہ ، دوسروں کی محنت سے ناجائز فائدہ اٹھا ناسب کا محرک ذاتی ملکیت کی ہوس ہے یہاں تک کہ جنگیں بھی اسی وجہ سے ہوتی ہیں ۔ دنیا میں جو ترقی ہوئی ہے خواہ وہ سائنسی علوم میں ہویا ادب وفنون میں اس میں ذاتی فائدہ کا جذبہ نہیں رہا ہے۔ کیا افلاطون یا سقراط یا ہومر نے پیسے کی خاطر لکھاتھا ؟ انسان جس سماج میں پرورش پاتاہے، اس کی برائیاں اس کو بد بنادیتی ہیں ۔
پولینڈ کے نامور مصنف ریشا رد کا پوشنکی اپنی کتاب میں لکھتا ہے ” ہر انقلاب سے پہلے شدید تھکن اوربے بسی کا دور آتاہے ”۔ اور پھر ایک نہ ایک لمحہ ایسا آہی جاتاہے جب تما م ناانصافیوں کا حاصل جمع نکالا جانا ناگزیر ہو جاتاہے، انسانی تاریخ باربار گواہی دیتی ہے کہ وقت کے بادشاہ ، آمر ، جابر حکمران اپنے ہی لوگوں پر ہر قسم کی زیادتیا ں ، ظلم ، ناانصافیاں کرتے رہے لیکن ان پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں ہوا۔ پھر ایک روز اچانک لوگوں کے صبر کی حدیں آخر کار پامال ہو ہی گئیں اور پھر بادشاہ ، آمر ، جابر حکمران بے بس ، ہکا بکا اور حیران ہوکر پوچھنے لگے ” میں نے آخر کیا کیا ہے ” ۔ آج پاکستان کے لوگوں کے ساتھ کون سی ایسی ناجائز ی ، ظلم، زیادتی ، ناانصافی، تکلیفیں، دکھ درد باقی رہ گئے ہیں جو اور ہونے ہیں کونسے اور ایسے آنسو ، آہیں ، و بکائیں باقی بچ گئی ہیں، بس جن کا ان کو سامنا کرنا ابھی باقی ہے ، کونسا ایسا اور ماتم کرنا باقی بچا ہے جو ان کو اور کرنا ہے کون سے ایسے اور فاقے ، ذلتیں ، گالیاں، طعنے باقی بچے ہیں جو انہیں کرنا یا سننا باقی ہیں ۔ میرے ملک کے امیروں ، با اختیاروں اور طاقتوروں سن لو اب تو لوگوں کے پاس اپنا کفن تک خریدنے کے پیسے باقی نہیں بچے ہیں لیکن اگر تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ تمہاری عیاشیاں ، مکاریاں ، چالبازیاں اور غلاظتیں اسی طرح سے قائم و دائم رہیں گی تو تم انتہائی بے وقوف اور احمق ہو، وہ دن بالکل سامنے ہی کھڑا ہے جب تم بے بسی ، ہکا بکا ،اور حیران ہوکر پوچھنے لگوگے کہ” میں نے آخر کیا کیاہے ” اوراس وقت انسانی تاریخ زور زور سے قہقہے لگا نا شروع کر دے گی ، انسانی تاریخ میں لکھے محفوظ لفظ دوبارہ جی اٹھیں گے اور خو شی کے مارے نا چنا شروع کردیںگے ، فرعو ن ، ہٹلر، یزید ، شاہ ایران ، مسو لینی سے لے کر سارے گزرے بادشاہ ، آمر، جابر حکمران اپنی اپنی قبروں میں ہنسنا شروع کردیں گے ۔ بادشاہوں ، آمروں اور جابرحکمرانوں کے دور کے واقعات ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا شروع کردیں گے ۔پرانے قصے اور کہانیاں مچلنا شروع کردیں گی۔ آہ واقعی انسان خسارے میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ایس سی او اجلاس اور پاکستان وجود هفته 28 جون 2025
ایس سی او اجلاس اور پاکستان

انقلاب سے پہلے شدید مایوسی کا دور آتا ہے! وجود هفته 28 جون 2025
انقلاب سے پہلے شدید مایوسی کا دور آتا ہے!

بھارت میں مسلمانوں ، عیسائیوں پرحملوں میں اضافہ وجود هفته 28 جون 2025
بھارت میں مسلمانوں ، عیسائیوں پرحملوں میں اضافہ

تہذیبوں کا عروج وزوال وجود جمعه 27 جون 2025
تہذیبوں کا عروج وزوال

خبر کے بھید وجود جمعه 27 جون 2025
خبر کے بھید

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر