... loading ...
میری بات/روہیل اکبر
آج ایران اور اسرائیل کی جنگ عروج پر ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں بغیر کسی بیرونی مدد کے ایران نے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اسے بتا دیا کہ ایمان کی دولت کیا ہے اور اللہ پر یقین رکھنے والے کسی سے نہیں ڈرتے۔ جب کچھ اسی طرح کی صورتحال بوسنیا میں پیدا کی گئی تھی تو اس وقت بھی مسلم ممالک کی خاموشی آج جیسی تھی لیکن اس وقت پاکستان نے بوسنیا کی مدد کرکے اسے نہ صرف جنگ کی دلدل سے نکالا بلکہ اسے کامیابیاں بھی دلائی ۔یہ کام ہمارے نیشنل ہیرو اور محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انجام دیا ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان اگر آج زندہ ہوتے تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہوتا مجھے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بطور سیکریٹری اطلاعات اور پھر انکے ترجمان کے بہت وقت گذارنے کا موقع ملا ۔انکے گھر برآمدے میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تنہائی میں گذرا وقت بہت یادگار ہے اور ان یادوں کو رائو نعمان کبھی کبھی چار چاند لگادیتے ہیں۔ رائو صاحب کا ڈاکٹر صاحب کے ساتھ تعلق بہت ہی خاص اور پیار والا تھا اور انکی یاد داشت بھی مجھ سے ہزار گنا بہتر ہے۔ ایران اسرائیل کے تناظر میں رائو صاحب نے مجھے ڈاکٹر صاحب کا ایک کالم بھیجا جو انہوں نے مقامی روزنامہ میں 21 جون 2021 کوبوسنیا۔ درد اور شجاعت کی داستان کے عنوان سے لکھا جو آج کے حالات کی عکاسی کرتا ہے میں اس تحریر کو اسی طرح لکھ رہا ہوں جیسے ڈاکٹر صاحب نے لکھا تھا اور میں خاص طور پر رائو نعمان کاشکر گذار ہوں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کی یاد کو فراموش نہیں ہونے دیتے ۔
ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ آج آپ کی خدمت میں بوسنیا کی دردناک مگر شجاعت کی اعلیٰ کہانی پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ابھی پچھلے دنوں اس کی تیسویں سالگرہ منائی گئی ہے۔ بوسنیا(یعنی سرویہ) کو ترکوں نے سلطان محمد فاتح(فاتح استنبول) کے دور میں فتح کیا۔ انہوں نے البانیہ، کریمیا اور سقوطری پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور مسیحیوں کو عبرتناک شکست دی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے گئے ترکوں نے 1539میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا بھی محاصرہ کر لیا تھا۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے یورپی ممالک طاقتور ہوتے گئے اور ترک کمزور ہوتے گئے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکی کے ہاتھ سے مشرقی یورپ، عرب ممالک نکل گئے۔ انگریزوں سے مل کر ترکوں کے خلاف غدّاری کی گئی، عرب ممالک ترکی سے تو آزاد ہو گئے مگر انگلستان اور فرانس کی غلامی میں آگئے اور اس کے نتیجے میں اسرائیل بنا اور یہ ناسور آج بھی عربوں کی غیرت کو للکار رہا ہے۔ ترکی کی فوج کے چند دستے جاں نثاری کے نام سے مشہور تھے۔ یہ اسلام اور اپنی قوم و ملک پر جانیں نثار کرنے میں ماہر تھے، ان کی بہادری سے یورپ کے مسیحی کانپتے تھے۔ ترکوں کی اعلیٰ شان حکومت 1299سے 1923تک قائم رہی۔ مشرقی یورپ کی فتوحات سے البانیہ، سربیا، کوسوْو، بوسنیا اور دوسرے ممالک میں لاتعداد ترک رہائش پذیر ہو گئے تھے۔ بوسنیا میں ان کی اکثریت تھی۔ کمیونسٹ حکومت تھی، آزادی کا فقدان تھا۔ 1991میں روس کی سلطنت بکھرنے کے بعد تمام وسطی ایشیا کے اسلامی ممالک آزاد ہو گئے اور یوگوسلاویہ بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بوسنیا کے مسلمانوں اور کروشیا کے مسیحیوں نے آزادی کا اعلان کر دیا، سربوں نے ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور پورا نزلہ بوسنیا کے مسلمانوں پر گرا۔ سربوں نے سراجیوو کو محاصرہ میں لے لیا۔ یہ مسلمانوں کی اکثریت کا شہر تھا اور یہاں ونٹر اولمپکس ہوئے تھے، بہت خوبصورت شہر تھا۔ سربوں کو تمام مسیحی اور کمیونسٹوں کی حمایت حاصل تھی صرف کروشیا ان کا مخالف تھا۔ سرب آہستہ آہستہ ٹینکوں کی مدد سے آگے بڑھ رہے تھے، ان کی توپوں سے عمارتیں تباہ ہوتی جا رہی تھیں اور ان کے پاس جو RPG تھے جن کی مار صرف 200 گز تھی اور ٹینک ان کی پہنچ سے دور تھے۔ اخبارات میں، ٹی وی پر سربوں کی وحشیانہ بمباری اور قتل و غارتگری دکھائی جا رہی تھی مگر مغربی ممالک خوش تھے کہ مسلمانوں کا صفایا ہو رہا ہے۔ UNکا سیکریٹری جنرل مصری کٹّر مسیحی بطروس غالی تھا وہ سربوں کی حمایت کر رہا تھا۔ UNفورسز تماشائی بنی ہوئی تھے۔ بیحاج اور سراجیوو میں مسلمان قتل ہو رہے تھے۔ برٹش جنرل روز نے UNفورسز سے حملہ کرنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ انگلستان کے وزیر خارجہ لارڈ کیرنگٹن نے غرور سے کہا کہ ترک جو ممالک تلوار سے نہ لے سکے اب وہ پلیٹ پر ہم سے چاہتے ہیں۔ امریکی بھی تماشائی بنے ہوئے تھے۔ ایک دن میرے نہایت پیارے دوست عبدالجلیل خان(بعد میں کمشنر انکم ٹیکس بن گئے تھے) نے مجھے فون کیا کہ بوسنیا کے وزیر خارجہ ڈاکٹر حارث سلاجک آئے ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں میں نے فوراً دعوت دی کہ وہ ان کو لے کر گیسٹ ہاؤس آ جائیں اور لنچ ساتھ کریں۔ جب میں وہاں پہنچا تو چھ فٹ کے دراز قد نہایت خوبصورت ترک نژاد وزیر خارجہ سے ملا۔ کھانے پر میں نے دیکھا کہ ان کے حلق سے نوالہ نہیں اتر رہا تھا انہوں نے ٹینکوں سے ان پر ہونے والے حملوں کی بات بتائی۔ ہم اس وقت نہایت اعلیٰ اینٹی ٹینک، بکتر شکن میزائل بنا رہے تھے اور فوج کو سپلائی کر رہے تھے۔ میں نے نواز شریف صاحب کو تیار کر لیا کہ ہم 200 بکتر شکن(اینٹی ٹینک) میزائل بوسنیا بھیج دیں۔ دو سو میزائل سراجیوو پہنچا دی گئیں۔ دو ہفتے بعد بوسنیا کے سفیر بے حد خوش خوش میرے پاس آئے اور ڈاکٹر حارث کے شکریے کا خط دیا کہ ان کی فوج نے تین دن میں سربوں کے 83ٹینک اڑا دیئے اور وہ بھاگ گئے۔ 50میزائل انہوں نے بیحاج بھیج دیے وہاں بھی انہوں نے تباہی پھیلا دی اور اب جبکہ بوسنیا کا پلہ بھاری ہونے لگا تو سربوں نے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ اس کے بعد بھی سربوں نے ان علاقوں پر حملے کئے جہاں مسلمان محصور ہو گئے تھے اور گوراگا(Goraga)، سریبرینیسا(Srebrenica)، اور زیپا(Zepa) پر حملے شروع کر دیے اور ہزاروں مسلمانوں کو قیدیوں کے مراکز بنا کر فاقہ کشی پر مجبور کر دیا اور ہزاروں مسلمان شہید ہو گئے۔ سرب کمانڈر ملادچ(Mladic) نے Zepa کے مسلمان لیڈر کو میٹنگ کے لئے دعوت دی۔ کافی اور سگریٹ دی اور فوراً حملہ کر کے قتل کردیا۔ سربرینیسا کو دو سال تک محاصرہ میں رکھا۔ UNنے اس کو حفاظتی شہر قرار دیدیا تھا اور یہاں ڈچ فوج تعینات کر دی تھی وہ سربوں سے مل گئے مسلمانوں کو دھوکہ دیا کہ وہ ہتھیار دے دیں تو انھیں سراجیوو بھیج دیا جائے گا۔ جونہی انہوں نے ہتھیار ڈال دیے ملادچ نے حملہ کر کے 12000مسلمانوں کو ٹرکوں میں ڈال کر لے جا کر قتل کر دیا جن میں مرد اور لڑکے شامل تھے، کئی دن قتل عام جاری رہا اور یورپ کے ممالک تماشائی بن کر خوش ہوتے رہے۔ یہاں یعنی بوسنیا میں جو مسلمانوں کا قتل عام ہوا وہ مسیحیوں کے مسلمانوں کے قتل عام جو مسجدالاقصیٰ میں ہوا تھا، سے بدتر تھا۔ سربوں نے مساجد، لائبریریز، علماء وغیرہ کونشانہ بنایا۔ انہوں نے 800سے زیادہ مساجد مسمار کیں اور تقریباً ساڑھے تین لاکھ مسلمان شہید کئے۔ 60ہزار سے زیادہ خواتین کی عصمت دری کی اور ڈیڑھ لاکھ لوگ پناہ گزیں بن گئے۔ اور دنیائے اسلام تماشہ دیکھتی رہی سوائے ترکی، ملائشیا، پاکستان اور سعودی عرب کے کسی نے مدد نہیں کی۔ سعودی عرب اور ملائیشیا نے مالی مدد کی اور ترکی اور پاکستان نے ہتھیاروں سے مدد کی۔ مغربی ممالک نے ایک خالص اسلامی ملک نہ بننے دیا۔ بوسنیا اب ایسا ملک ہے جہاں باری باری سرب، کروٹ اور بوسنن صدر اور وزیراعظم بنتے ہیں۔ جب بھی بوسنیا کے آرمی چیف، وزیر دفاع اور وزیر خارجہ پاکستان آئے وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہماری آزادی کے معمار ہیں آپ نے ہمیں بچا لیا۔ ہمارے ایک ہزار طاقتور راکٹوں نے سربوں کی کمر توڑ دی تھی۔ کاش مسلمان متحد ہو کر ایسے حالات کا مقابلہ کریں۔ ویت نام اور افغانستان روشن مثالیں ہیں انہوں نے سْپر پاورز کی کمر توڑ دی اور بہادری کی مثال قائم کر دی۔ مصطفی کمال پاشا نے نہایت نازک اور غیر مناسب حالت میں یونان، انگریزوں، آسٹریلین اور نیوزی لینڈ کی فوجوں کی کمر توڑ دی تھی۔