وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارتی وزرائے اعظم کے فیصلوں کا اسٹائل

جمعرات 17 اگست 2023 بھارتی وزرائے اعظم کے فیصلوں کا اسٹائل

افتخار گیلانی

گو کہ 2014کے بعد سے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزارت اعظمیٰ کے دفتر کے کام کاج میں کافی تبدیلیاں کی ہیں، مگر عموماً اندرا گاندھی سے منموہن سنگھ تک سبھی وزرائے اعظم اپنا دن کا معمول علی الصبح چھ بجے خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی بریفنگ سے شروع کرتے رہے ہیں۔
گھٹنے کے آپریشن سے قبل آنجہانی اٹل بہاری واجپائی، وزیر اعظم ہاؤس کے وسیع و عریض لان میں ہر صبح واک کرتے تھے اور اسی واک کے دوران ہی پہلا آدھا گھنٹہ انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ اور پھر خارجی خفیہ ایجنسی راء کے سربراہ باری باری ان کو ملک اور دنیا بھر میں اس روز ہونے والے واقعات سے پیشگی آگاہ کرتے تھے ۔یعنی جب وہ دفتر میں میز کے پاس بیٹھتے تھے ، تو ان کو ملک اور دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کا اندازہ ہوتا تھا اور ان پر اپنی حکومت کی طرف سے رد عمل تیار رکھتے تھے ۔مجھے یا د ہے کہ 20جون 2001کو جنرل پرویز مشرف صدر رفیق تارڑ سے استعفیٰ لے کر خود صدر کے عہدے پر فائز ہو رہے تھے ، تو اس کی پیشگی اطلاع صبح سویرے کی بریفنگ میں را نے واجپائی کو دی تھی۔ انہوں نے قبل از وقت ہی مشرف کو صدر بننے کی مبارکبادے دی، جس سے وہ ہکا بکا رہ گئے ۔ اب یہ واجپائی کی زبان پھسل گئی تھی، یا جان بوجھ کر انہوں نے مشرف کو باور کرایا کہ ان کی ہر حرکت پر ان کی نظر ہے ، کہنا مشکل ہے ؟
خیر،اس وقت کالم کا موضوع ہندوستان کی معروف سیاسی رپورٹر نیرجا چودھری کی حال ہی میں شائع کتاب ہاؤ پرائم منسٹرز ڈیسائیڈ ہے ۔ کئی دہائیوں سے ہندوستانی سیاست کور کرنے والے صحافیوں میں نیرجا چودھری کانام نینا ویاس، پورنیما جوشی، صبا نقوی، آرتی جیراتھ، قربان علی، رشید قدوائی، پربھو چاولہ اور ونود شرما وغیرہ کے ساتھ صف اول کے ان صحافیوں میں شامل ہے ، جو سیاسی نبض پرکھنا جانتے ہیں اور جنہوں نے سیاست کی باریکیوں کو کور کرکے سمجھا بھی ہے اور ان کی رپورٹوں، تجزیوں کے بین السطور میں سیاست کے اونٹ کی کروٹ کا اندازہ ہوتا رہتاہے ۔
نیرجا فی الوقت انڈین ایکسپریس کی کنٹریبیوٹنگ ایڈیٹر ہیں اور ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ پچھلے 10عام انتخابات انہوں نے گراؤنڈ سے کور کیے ہیں۔ 491صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے اندرا گاندھی سے لے کر منموہن سنگھ کے ادوار اور ان کے کام کرنے کے اسٹائل کا احاطہ کیا ہے ۔ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مودی کو کیوں نظر انداز کیا ہے ؟ تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ وزیر اعظم کے ارد گرد کے افراد نے ان سے تعاون کرنے سے گریز کیا اور وہ فی الحال آن ریکارڈ نہیں آنا چاہتے ہیں۔ویسے سیاسی رپورٹنگ کی تربیت کے دوران بتایا جاتا تھا کہ کسی بھی لیڈرکے انٹرویو کے آف ریکارڈ حصے یا دن بھر کی رپورٹنگ کے معمول کے دوران لیڈران کے ساتھ گفت و شنید کے ایسے حصے ، جن کو اس وقت میڈیا کی زینت نہیں بنایا جاسکتا ہو، کو ایک ڈائری میں نوٹ کرلینا چاہیے ۔ ایک عرصے کے بعد یہ ایک بہت بڑ اخزانہ ثابت ہو سکتا ہے ۔ مختلف وزرائے اعظم کے قریبی افراد کے ساتھ گفت شنید کے علاوہ نیرجا چودھری نے اپنی کتاب میں شاید اسی ڈائری کا استعمال کیا ہے ۔
ہندوستان میں تین وزرائے اعظم گلزاری لال نندہ، اندر کمار گجرال اور منموہن سنگھ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ مرارجی دیسائی اور نریندر مودی گجرات سے سیاست میں آئے ۔ ایچ ڈی دیوی گوڑا اور نرسمہا راؤ جنوبی ہندوستان کے صوبوں بالترتیب کرناٹک اور آندھرا پردیش سے دہلی وارد ہوگئے ۔ 14میں آٹھ وزرائے اعظم کا تعلق ایک ہی صوبہ یعنی اتر پردیش سے تھا۔ ان میں جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، چرن سنگھ، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، چندر شیکھر اور اٹل بہاری واجپائی کا تعلق اسی صوبہ سے تھا۔ یعنی مشرقی ہندوستان بنگال، اڑیسہ یا شما ل مشرقی صوبوں سے ابھی تک کوئی دہلی کی گدی پر فائز نہیں ہوا ہے ۔کتاب میں کئی دلچسپ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ہندوستان کی مضبوط ترین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ملاقاتیوں پر نظر رکھنے کے لیے ان کے وزراء وزیر اعظم دفتر کے چپراسیوں کو رقوم دیتے تھے ، تاکہ وہ ملاقاتیوں کے بارے میں ان کو باخبر رکھیں۔
ہریانہ کے ایک وزیر اعلیٰ بھجن لال، جو مرکزی کابینہ میں بھی وزیر رہے ، جب بھی وزیر اعظم کے دفتر یا سرکاری رہائش گاہ پر آتے ، تو وہاں مالی سے لے کر چپراسیوں، کچن میں کام کرنے والوں کو خوب نوازتے تھے ۔ اس کے بدلے وہ ان کے لیے بطور مخبر کام کرتے تھے اور ملاقاتیوں کے بارے میں ان کو آگاہ کرتے تھے ۔جب کبھی کوئی صحافی اندرا گاندھی کا انٹرویو لیتا، موبائل فون کا زمانہ تو نہیں تھا، دفتر پہنچتے ہی بھجن لال کا فون آتا تھا۔ صحافی حیران و پریشان اور بھجن لال بھی اپنی اہمیت جتانے کے لیے اس کو یقین دلاتے تھے کہ اس انٹرویو کے لیے اور اس کو وقت دینے سے قبل اندراگاندھی نے ان سے مشورہ کیا تھا۔کتاب کے مطابق 1977کے عام انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے فوراً بعد ہی اندرا گاندھی نے صفدر جنگ روڑپر واقع اپنی رہائش گاہ پر صنعت کار اور اپنے معتمد ین کپل موہن اور انل بالی کو بتایا تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہوکر ہماچل پردیش کے پہاڑوں میں بقیہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ اپنی توجہ اب کتاب لکھنے پر مرکوز کرنا چاہتی ہیں۔ان کو معلوم تھا کہ اب نئی حکومت ان کو اس بڑے سرکاری بنگلہ میں رہنے نہیں دے گی۔ وہ اس بنگلہ میں موجود قیمتی کشمیری قالینوں اور اس کی جمع کی ہوئی ہاتھ سے بنائی لاتعداد اشیاء کے بارے میں فکر مند تھیں۔ وہ اب ممبر پارلیمنٹ بھی نہیں تھیں۔ کپل موہن، جوشراب کی ایک مشہور کمپنی کے مالک تھے ، نے اس مشکل کو حل کرتے ہوئے ان کو آفر دی کہ وہ اس پورے ساز و سامان کو پیک کرواکے اپنی کمپنی کے گودام میں رکھوا دیں گے ۔ جب وہ نیامکان لیں گیں، تو وہ اس سامان کو وہاں پہنچا دیں گے ۔
خیر اندرا گاندھی کے لیے ان کے ایک دست راست محمد یونس، جو خان عبدالغفار خان کے پرائیوٹ سکریٹری رہ چکے تھے ، نے ولنگٹن اسٹریٹ پر بنگلہ خالی کرواکے ان کو وہاں شفٹ کروایا۔ اس وقت کی جنتا پارٹی حکومت نے بھی اس پر کچھ زیادہ اعتراض نہیں کیا۔ اس دوران اندرا گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے راجیو گاندھی اور ان کی فیملی کو ممبئی میں کسی دوست کے پاس رہنے کے لیے بھیجا تھا۔ان کا خیال تھا کہ ان پر اب جو عتاب نازل ہونے والا ہے ، اس کی زد میں ان کی فیملی بھی آسکتی ہے ۔ وہ اس حد تک پریشان تھیں کہ راجیو، سونیا اور ان کے بچوں راہل اور پرینکا کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے وہ کئی صنعت کاروں کے ذریعے پرائیوٹ جیٹ کا انتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔اس کی سن گن جب حکومت کو لگی، تو وزیر اعظم مرارجی دیسائی نے حکومتی جنتا پارٹی اتحاد کے روح رواں جئے پرکاش نارائن سے مشورہ کیا اور رات کے اندھیرے میں دونوں اندرا گاندھی کے بنگلہ پر پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کا ان کی فیملی سے بدلہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔اندرا گاندھی نے ان کو بتایا کہ و ہ اپنی پھوپھی وجے لکشمی پنڈت کی طرح پہاڑوں میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے جا رہی ہے ۔مگر دونوں لیڈرا ن نے ان کو سیاست میں مستعد اور فعال رہنے کا مشورہ دیا۔
نیرجا چودھری کے مطابق 1977کے انتخابات میں شکست کے بعد اندرا گاندھی کا سیکولرازم پر یقین متزلزل ہوگیا تھا اور انہوں نے اپنی سیاست کو ہندو قوم پرستی میں ڈھالنا شروع کر دیا۔شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان انتخابات میں مسلمانوں نے یک مشت ہوکر ان کے خلاف ووٹ دے کر جنتا پارٹی کو کامیاب بنادیا تھا۔ کپل موہن کے ہی ذریعے اندرا گاندھی اور ان کے جاں نشین سمجھے جانے والے فرزند سنجے گاندھی نے ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ کے ساتھ روابط استوار کرنے شروع کر دیے تھے ۔اپنے والدجواہر لال نہرو کے برعکس اندرا گاندھی نے کسی بھی نظریہ سے جڑنے کے بجائے اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کوبنیاد بنادیا۔1966 میں پہلی بار وزارت اعظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ تصدیق کرتی ہوں ، کے الفاظ ادا کیے تھے ، جبکہ 1980میں انہوں نے ایشوریعنی بھگوان کے نام پر حلف لیا۔ان کی سوچ کے محرک ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی تھے ، جن کے کام کا اسٹائل بھی بہت ہی آمرانہ نوعیت کا تھا۔ اتر پردیش کے کسی علاقہ میں وہ گاڑی چلا رہے تھے اور ان کی بغل میں ویر بھدر سنگھ (جوبعد میں صوبہ کے وزیر اعلیٰ رہے ) موجود تھے ۔ رات کا وقت تھا، اور ان کو راستہ نہیں مل رہا تھا۔گھوم پھر کر وہ وہیں پہنچ جاتے تھے ۔ آخر تنگ آکر سنجے نے ویر بھدر سنگھ کو بتایا کہ راستہ کس طرف ہے ؟ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ سنجے نے ان کو گاڑی سے اترنے کا حکم دے دیا۔ جوں ہی وہ نیچے اترے ، گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی چلی گئی اور ویر بھدر سنگھ پوری رات ویران بیابان میں پیدل چل کر کسی گاؤ ں میں پہنچے اور پھر بس لے کر لکھنؤ روانہ ہوگئے ۔ خیریت تھی کہ کسی نے ان کو نہیں پہچانا۔
سال 1977کے انتخابات میں شکست کے بعد اندرا گاندھی کے حوصلے پست ہو گئے تھے ۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کو احساس ہوا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنتا پارٹی کے اندر وزیر اعظم دیسائی، وزیر داخلہ چرن سنگھ اور وزیر دفاع جگجیون رام کے درمیان رسہ کشی شروع ہو چکی تھی۔کابینہ میں روزانہ ہونے والے جھگڑوں کی کہانیاں اندرا کے پاس پہنچ رہی تھیں۔ پھر آر ایس ایس کے ساتھ سلسلہ جنبانی نے بھی اپنا کام کردکھایا۔ ان کو 1980میں ہونے والے انتخابات میں 543نشستوں میں 353نشستیں حاصل ہوگئیں۔اس جیت کے فوراً بعد وہ واپس صفدر جنگ والے بنگلے پر واپس آگئیں اور آتے ہی ہندو پجاریوں اور برہمنوں کو بلا کر ہون کروایا۔ نیرجا کے مطابق اندرا گاندھی کی قریبی دوست پاپل جیاکر رنجیدہ تھیں کہ وزیرا عظم بہت زیادہ توہم پرستی کی طرف مائل ہو گئی تھیں۔ جون 1984کو سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کرنے سے قبل اندرا نے اپنے گھرپر مہا مرتویونج یگیہ ایک ماہ تک کروایا۔اقتدار سے بے دخلی کے دنوں کے دوران انہوں نے ہماچل پردیش کے پالم پور میں واقع چمندا دیوی کے مندر جانا شروع کردیا تھا۔ چمندا دیوی کو ہندو مت میں درگا دیوی کا ایک روپ مانا جاتا ہے ۔ درگا طاقت، جنگ، تباہی اورمضبوطی کی علامت مانی جاتی ہے ۔ سال 1971کی جنگ کے بعد خود اندرا گاندھی کو درگا کا خطاب دیا گیا تھا۔اس مندر میں انہوں نے کئی بار تزک و احتشام کے ساتھ پوجا کروائی اور وہ ایک لفافہ میں ایک سو ایک روپیہ پجاری کے حوالے کرکے دہلی لوٹ جاتی تھیں۔اس کے علاوہ بھی وہ ہر دو ماہ بعد انل بالی کے ہاتھ پچاریوں کو ایک لفافہ پہنچاتی تھیں۔جب وہ 1980میں دوبارہ اقتدار میں آئیں تو بالی نے ان کو یاد دلایا کہ ان کو مندر میں حاضری دینی چاہیے ۔ آخر مئی 1980کو اندرا گاندھی کے سکریٹری آر کے دھون نے بالی کو اطلاع دی کہ 20جون کی دوپہر کو وزیر اعظم پالم پور پہنچ رہی ہیں۔ بتایا گیا کہ وزیر اعظم کو جموں جانا ہے اور وہاں سے وہ ہیلی کاپٹر میں سیدھے پالم پور چمندا دیوی کے مندر میں حاضری دیں گی۔ اس روز ہماچل پردیش کے وزیرا علیٰ اور دیگر کئی اعلیٰ افسران اور وزیر بھی ان کے استقبال میں پالم پور پہنچ چکے تھے ۔ پجاری نے پوجا کرنے کے لیے تمام تیاری مکمل کر لی تھیں کہ اسی دوران اطلاع آئی کہ وزیر اعظم نے دورہ ملتوی کردیا ہے ۔پجاری آپے سے باہر ہوگیا۔ مندر کے دروازے پر اس نے وزیر اعلیٰ اور بالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیوی کا اپمان ہوا ہے ، اس کا بدلہ وزیر اعظم کو چکانا پڑیگا۔ ماتا درگا ان حکمرانوں کو معاف نہیں کرتی ہے ، جو اس کی بے عزتی کرتے ہیں۔بالی نے کسی طرح پچاری کو شانت کرواکے پوجا مکمل کروائی۔ اس کے تیسرے دن اس کا سکریٹری دوڑتا ہوا آیا اور خبر سنائی کہ دہلی میں اندرا گاندھی کے فرزند اور جاں نشین سنجے گاندھی ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ خبر ریڈیو پاکستان سے سنی ہے ۔ انل بالی دہلی کے لیے روانہ ہوگئے اور دیر رات گئے وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے ۔ سنجے گاندھی کی لاش کے سرہانے اندرا گاندھی سمیت فلم اداکار سنیل دت اور ان کی اہلیہ نرگس موجود تھیں۔ بالی کو دیکھتے ہی اندرا نے اس کو سائیڈ پر لے جاکر پوچھا کہ کیا دیوی ناراض ہو گئی ہے ۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میرا پروگرام کیسے اور کس نے کینسل کروایا۔مجھے بتایا گیا کہ پالم پور میں موسم خراب ہے ، اس لیے ہیلی کاپٹر اُتر نہیں سکتا ہے ۔ بالی نے ان کو کہا کہ وہاں موسم تو بالکل ٹھیک تھا۔ وزیر اعلیٰ بھی تو ہیلی کاپٹر سے ہی وہاں آکر انتظار کر رہے تھے ۔یہ کبھی پتہ نہیں چل سکا کہ جموں کے ایرٹاور کو کس نے پالم پور میں موسم کے خراب ہونے کی خبر دی تھی۔ سنجے کی موت کے بعد اندرا ٹوٹ چکی تھیں۔
دسمبر میں وہ چمندا دیوی کے مندر پہنچی اور بقول پجاری کے وہ اندر زار و قطار رونے لگی اور کئی گھنٹوں تک سر جھکا کر آنسو بہاتی رہیں۔ پجاری نے ان کو تسلی دے کر کہا کہآپ کے تو 60کروڑ بیٹے ہیں، آپ ان کا خیال رکھیں۔ مندر سے واپسی کے بعد وہ بالکل مختلف اندرا تھی۔ وہ ماں سے پھر واپس وزیر اعظم بن چکی تھیں۔ ان کا اعتماد بحال ہو چکا تھا۔دہلی واپس آکر وہ سیدھے کانگریس کے اخبارنیشنل ہیرالڈ اور اس کے اردو روزنامہ قومی آواز کی تقریب میں شرکت کرنے پہنچ گئیں۔ اسی تقریب میں راجیو گاندھی نیچے ہال میں کرسی پر برا جمان تھے۔ اندرا نے ان کو اسٹیج پر بلا کر ان کے لیے کرسی رکھوائی، یعنی یہ ایک اعلان تھا کہ انہوں نے اپنا جاں نشین اور دہلی کے تخت کا وارث ڈھونڈ لیا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر