وجود

... loading ...

وجود
وجود

کرناٹک میں مسلم ریزرویشن پر ڈاکہ

پیر 03 اپریل 2023 کرناٹک میں مسلم ریزرویشن پر ڈاکہ

معصوم مرادآبادی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی سیاسی سرگرمیاں تیزہوگئی ہیں۔کرناٹک کا چناؤ اس اعتبار سے بڑی ا ہمیت کا حامل ہے کہ ا س کے ذریعے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کا رخ طے ہوگا۔ریاست میں برسراقتدار بی جے پی اور اس کی حریف کانگریس کے درمیان جنگ کا بگل بج چکا ہے ۔کرناٹک کا الیکشن جیتنے کے لیے بی جے پی پہلے ہی فرقہ وارانہ کا رڈ کھیل چکی ہے ۔ اس نے ریاست کے او بی سی مسلمانوں کو پچھلے 27 برسوں سے حاصل ریزرویشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔بی جے پی جب بھی انتخابات کی بھنور میں پھنستی ہے تو وہ مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی اقدام کرکے اپنے فرقہ پرست ووٹ بینک کو مضبوط کرتی ہے ۔
کسی نے درست ہی کہا ہے کہ اگر اس ملک میں مسلمان نہ ہوتے تو شایدبی جے پی کا وجود ہی نہ ہوتا۔بی جے پی کی سیاست پوری طرح مسلمانوں کی مخالفت کے گرد گھومتی ہے ۔حالانکہ بی جے پی نے الیکشن کمیشن میں خود کو ایک سیکولر پارٹی کے طورپر رجسٹرڈکرارکھا ہے ، لیکن سبھی جانتے ہیں کہ اس کا یہ سیکولرازم فریب مسلسل کے سوا کچھ نہیں ہے ۔بی جے پی اعلانیہ ایک فرقہ پرست اور مسلم مخالف پارٹی ہے اور اس کا ہرقدم مسلمانوں کے خلاف ہی اٹھتا ہے ۔اس کے وزرائے اعلیٰ سب کے ساتھ بلاتفریق مذہب وملت انصاف کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں، لیکن عملی طورپر ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے ان کا فرقہ پرست ہندو ووٹ بینک مضبوط ہو۔خاص طورپر جب بھی کسی ریاست میں چناؤ ہوتا ہے تو وہاں بی جے پی اپنے ہندوووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسی چال ضرور چلتی ہے جس کی ضرب مسلمانوں پر پڑے ۔
اب یہی دیکھئے نا کہ کرناٹک اسمبلی کاالیکشن قریب آتے ہی وہاں بی جے پی کی صوبائی حکومت نے پسماندہ مسلمانوں کو حاصل چار فیصد ریزرویشن ختم کردیا ہے ۔ 2Bزمرے کا یہ چار فیصد ریزرویشن مسلمانوں سے چھین کر وکالیگاؤں اور لنگایتوں میں دودو فیصد کے حساب سے تقسیم کردیا گیاہے ۔ واضح رہے کہ یہ دونوں طبقات معاشی اور تعلیمی اعتبار سے طاقتور ہیں اور پہلے سے ہی ریزرویشن سے فیضیاب ہورہے ہیں۔اس فیصلے سے یقینا معاشی اور تعلیمی طورپر کمزوران مسلمانوں کو زبردست دھچکا لگا ہے ، جو برسوں سے اس ریزرویشن کا فیض اٹھا رہے تھے ۔بی جے پی نے مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کی دلیل یہ دی ہے کہ یہ آئین کے خلاف تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بی جے پی کرناٹک میں پہلے بھی کئی بار برسراقتدار رہی ہے ، لیکن اسے کبھی یہ ریزرویشن غیر آئینی نظرنہیں آیا، لیکن اب جبکہ کرناٹک میں اس کا اقتدار داؤ پر لگا ہوا ہے تو وہ پوری طرح جارحانہ ہندتوا پر اترآئی ہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ کرناٹک میں بی جے پی نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے تاکہ وہ اوبی سی مسلمانوں کے سماجی و معاشی حالات کی قیمت پر آئندہ اسمبلی انتخابات میں ہندتو کی بالا دستی کے ایجنڈے میں سیاسی فائدہ اٹھاسکے ۔کرناٹک جنوبی ہند کی واحد ریاست ہے جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے ۔ اس نے یہ اقتدار فرقہ وارانہ موضوعات کو ہوا دے کر ہی حاصل کیا ہے اور وہ مسلسل ایسے موضوعات کو اچھالتی رہتی ہے جن کا تعلق مسلمانوں کونقصان پہنچانے سے ہوتا ہے ۔ معاملہ خواہ حجاب پر پابندی کا ہو،ٹیپو سلطان کی مسلسل کردار کشی کا، نام نہاد ’لوجہاد‘کا ہو یا پھر مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کا۔ ان سب کے پیچھے ایک ہی منشا ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کی قیمت پر اقتدار حاصل کیا جائے اور ملک میں نفرت کی فضا برقرار رکھی جائے ۔
وزیرداخلہ امت شاہ نے کرناٹک میں مسلم ریزرویشن ختم کرنے کے فیصلے کاخیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر دیا گیا ریزرویشن آئین کے خلاف تھا، اس لیے اسے ختم کردیا گیا ہے ۔ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ ریزرویشن سابق وزیراعلیٰ ویرپا موئلی نے شروع کیا تھا۔یہ قصہ 27برس پرانا ہے ۔ مگر ہمارے وزیرداخلہ امت شاہ کو اب معلوم ہوا کہ یہ ریزرویشن غیرآئینی تھا اور اس کا ختم ہونا بے حد ضروری ہے ۔ سابق وزیرقانون اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کپل سبل نے ایک ٹوئٹ کر کے وزیرداخلہ سے تلخ سوال پوچھا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کیا مذہب کی بنیاد پر سیاست اور پروپیگنڈہ آئین کے خلاف نہیں ہے ۔کپل سبل نے سوال کیا کہ امت شاہ مذہب پر مبنی سیاست آئین کی خلاف ورزی ہے تو مذہب کی بنیاد پر سیاست، پروپیگنڈہ، تقریریں، ایجنڈا اور پروگرام کے بارے میں کیا خیال ہے ۔کیا یہ آئین کے منافی نہیں ہیں؟ہمیں معلوم ہے کہ وزیرداخلہ امت شاہ کپل سبل کے اس تیکھے سوال کا جواب ہرگز نہیں دیں گے ۔کیونکہ ان کی پوری سیاست ہی دستور مخالف فرقہ پرستی اور مسلم مخالفت پر ٹکی ہوئی ہے ۔ اگر انھوں نے اسے چھوڑ دیا تو پھر ان کے پاس کیا باقی رہے گا؟
قابل ذکربات یہ ہے کہ کرناٹک میں مسلم اوبی سی کوریزرویشن ان کے مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کی سماجی، معاشی اور تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ ریزرویشن کے اس زمرے میں ان کی شمولیت چنپا ریڈی کمیشن کی سفارشات پر عمل میں آئی تھی۔بعد میں سچر کمیٹی کی رپورٹ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔ رنگاناتھ مشرا کمیشن نے تو اقلیتوں کو دس فیصد ریزرویشن دینے کی سفارش کی تھی جس میں آٹھ فیصد ریزرویشن مسلمانوں کے لیے مختص کرنے کا ذکر تھا۔ لیکن ابھی تک ان سفارشات پر عمل نہیں کیا گیاہے ۔ الٹے جن پسماندہ مسلمانوں کو اوبی سی زمرے میں ریزرویشن حاصل ہے ، اسے ختم کرنے اور مسلمانوں کو بالکل حاشیہ پر پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کرناٹک اس کی تازہ ترین مثال ہے ۔کرناٹک میں مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کا فیصلہ اندراساہنی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بھی خلاف جاتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریزرویشن کے حقوق رکھنے والے زمروں کی فہرست میں کسی کمیونٹی کا اضافہ یا حذف کرنا کمیشن کے تجزیاتی ڈاٹا پر مبنی مطالعہ پر مرکوز ہونا چاہئے ، لیکن سپریم کورٹ کی اس واضح ہدایت کو نظرانداز کرکے اورکرناٹک اسٹیٹ کمیشن برائے پسماندہ طبقات کی کسی حتمی سفارش کے بغیر بی جے پی سرکار فیصلہ لے رہی ہے ۔یہ دراصل بی جے پی حکومت کی طرف سے پسماندہ برادریوں کو ساختی طور پر کمزور کرنے اور انھیں مزید پسماندہ بنانے کی منظم سازش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ریزرویشن کی سیاست بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن رہی ہے اور اس کا داؤ الٹا پڑرہا ہے ۔
بی جے پی کی دوغلی پالیسیوں کے سبب ہی حال ہی میں بنجارہ برادری نے سابق وزیراعلیٰ یدی یوروپا کے گھر پر جمع ہوکر زبردست احتجاج کیا ہے ۔دراصل ریزرویشن کے تعلق سے بی جے پی کی منافقانہ پالیسی کی وجہ سے کئی محاذ ایک ساتھ کھل گئے ہیں۔ ایک طرف جہاں مسلم ریزرویشن کو ختم کرنے کے خلاف احتجاج ہورہا ہے تو وہیں دوسری طرف دلتوں کے ریزرویشن کو چار زمروں میں تقسیم کرنے کی سفارش بی جے پی کے گلے کا پھندہ بنتی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ دلتوں میں شامل بنجارہ برادری سڑکوں پر اترآئی ہے ۔ اس نے یدی یروپا کے گھر کے سامنے نہ صرف بی جے پی کے جھنڈے نذرآتش کیے بلکہ وہاں پتھراؤ بھی کیا۔اسمبلی انتخابات سے قبل بنجارہ برادری کی یہ ناراضگی بی جے پی کوخاصی مہنگی پڑسکتی ہے ، کیونکہ کرناٹک میں دلتوں کی آبادی بیس فیصد ہے جو کسی بھی پارٹی کا کھیل بگاڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ دلتوں کو اب تک 15فیصد ریزرویشن مل رہا تھا۔گزشتہ سال بی جے پی سرکار نے اسے بڑھاکر 17فیصد کردیا۔اس فیصلے سے دلت اب تک خوش تھے ، لیکن گزشتہ 24مارچ کو دلتوں کے لیے ریزرویشن کو داخلی سطح پر چار حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔پہلے کے ریزرویشن نظام میں بنجارہ برادری کو10فیصد تک فوائد مل رہے تھے ، لیکن ریزرویشن کی اندرونی تقسیم کے بعد ان کے لیے ساڑھے چار فیصد مقررکیا گیا ہے جسے وہ اپنی حق تلفی تصور کرتے ہیں۔ کرناٹک میں بی جے پی ریزرویشن کے بھنور میں بری طرح پھنس چکی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر