وجود

... loading ...

وجود
وجود

پیٹرولیم پرمحدود رعایت کی دھوکے بازی اور آئی ایم ایف!

جمعرات 23 مارچ 2023 پیٹرولیم پرمحدود رعایت کی دھوکے بازی اور آئی ایم ایف!


وزیر اعظم شہباز شریف کی جا نب سے ابھی پیٹرولیم پر محدود رعایت دینے کے اعلان کا طریقہ کار بھی سامنے نہ آیا تھا کہ آئی ایم ایف نے اس پر اپنے تحفظات ظاہر کردیے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد وزیرمملکت پٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ موٹر سائیکل والوں کیلئے پیٹرول پر 100 روپے سبسڈی دی جائے گی، موٹر سائیکل مالکان کو 21 لیٹر تک ماہانہ سبسڈی دی جائے گی، یومیہ2سے 3 لیٹر دیا جائے گا، 800 سی سی سے کم گاڑی پر 30 لیٹر اور اس سے اوپر کے مالکان کو ماہانہ ایک ٹینک بھرانے کی اجازت ہوگی، سبسڈائز پیٹرول یومیہ2 سے 3 لیٹر فراہم کیا جائے گا،موٹر سائیکل مالک خود کوشش کرے گا کہ 21 لیٹر سے زیادہ ماہانہ خرچ نہ کروں، 800سی سی سے کم گاڑی پر ماہانہ 30لیٹرپیٹرول پر سبسڈی دی جائے گی، 800سی سی گاڑی مالکان کوا یک ٹینک بھروانے پر سبسڈی ملے گی، گاڑی والے کو ایک تہائی پیٹرول پر موٹر سائیکل والے کو100فیصد پیٹرول پر سہولت ملے گی،سبسڈائز پیٹرول کیلئے گاڑی چلانے والے کے نام پر ہونی چاہئے، اس پالیسی سے گاڑی اپنے نام پر کرانے میں بھی اضافہ ہوگا، ہم چاہتے ہیں لوگ بڑی گاڑیاں چھوڑ کر چھوٹی گاڑیوں پر آئے، اس سے پیٹرول کی بھی بچت ہوگی۔ موٹر سائیکل اورچھوٹی گاڑیوں کے مالکان کو پیڑول پر محدود سبسڈی دینے کے حوالے سے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے وزیرمملکت پٹرولیم مصدق ملک کے اعلانات کا مقصد بظاہر یہی لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ارکان کو پیڑول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ملک میں آنے والے مہنگائی کے طوفان پر شدید تشویش ہے اور وہ ملک کو درپیش شدید معاشی مشکلات کے باوجود غریب عوام کی مدد کرنے کی نیت سے تمام ممکنہ اقدامات کر ر ہے ہیں،لیکن حکومت کے اس اعلان کا توجہ سے جائزہ لیاجائے تو واضح ہوجاتاہے کہ یہ اعلان پبلسٹی اسٹنٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اس اعلان کے عملی جامہ پہننے سے متعلق موجود مشکلات اپنی جگہ ہے مگر دوسری طرف یہ بھی یقینی نہیں کہ آئی ایم ایف اس اعلان پر عمل درآمد کرنے بھی دے گا یا نہیں۔ اس غیر یقینی صورت حال کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یہ منصوبہ عملاً ناقابل عمل بھی ہے۔ کیونکہ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ایک جانب اعلان کررہے ہیں کہ موٹر سائیکل مالکان کو روزانہ 2-3 لیٹر پیٹرول سبسڈی پر یعنی کم قیمت پر دیاجائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ 3 لیٹر کی شرح سے 90 لیٹر ماہانہ میں دوتہائی حد تک کمی کرکے اس سبسڈی کو صرف21 لٹر ماہانہ تک محدود کرنے کااعلان بھی کررہے ہیں،کیا وزیر مملکت عوام کے معاملات اور زمینی حقائق سے اتنے ہی ناواقف اور لاعلم ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اب شہر اس قدر وسعت اختیار کرچکے ہیں کہ موٹر سائیکل پر شہر کے وسط سے دوسرے کنارے پر آنے جانے پر بھی 2 لیٹر سے زیادہ پیٹرول خرچ ہوجاتاہے یعنی اگر کوئی شخص صرف ملازمت پر آنے جانے کیلئے ہی موٹرسائیکل استعمال کرے تو بھی اسے ماہانہ 60 لیٹر سے زیادہ پیٹرول کی ضرورت ہوتی ہے۔اس اعلان کا مقصد صرف سستی شہرت حاصل کرنا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتاہے کہ حکومت نے ابھی تک یہ سبسڈی دینے کا تفصیلی طریقہ کار بھی طے نہیں کیا ہے جس کا اعتراف خود وزیر اعظم نے یہ کہہ کر کیاہے کہ انہوں نے ہدایت کی ہے کہ پیٹرولیم ریلیف کے اس پیکیج کا طریقہ کارطے کر کے جلد اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے،اگر وزیراعظم غریب عوام کی مشکلات پر اتنے ہی پریشان ہوتے تو وہ تمام طریقہ کار طے کرکے سبسڈی کے اعلان کے ساتھ اس کا طریقہ کار بھی بتادیتے۔ وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام متعلقہ ادارے باہمی تعاون سے سبسڈی پر موثر عملدرآمد کیلئے جامع حکمت عملی تیار کریں۔
آئی ایم ایف پروگرام کے حصول کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے اس کے پس نظر میں وزیر اعظم نے یہ اعلان کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے عوام کو سہولت دینے کیلئے آئی ایم ایف کی جانب سے پیٹرول پر سبسڈی کے خاتمے کی شرط کا توڑ نکال لیاہے،وزیراعظم کے اس اعلان پران کی مدح سرائی کرنے والے چینلز اور اخبارات یقینا تعریفوں کے ڈونگرے برسائیں گے،لیکن یہ بات عام آدمی بھی سمجھتاہے کہ آئی ایم ایف کے ارباب اختیار نہ تو اتنے بھولے ہیں اور نہ ہی اتنے بے خبر کہ یہ معلوم نہ ہوسکے کہ ان کی شرائط کو پامال کرنے کے کیا طریقے اختیار کیے جارہے ہیں،اور اگر وزیر اعظم کے اس اعلان سے آئی ایم ایف کو اپنی شرائط کی معمولی سی خلاف ورزی کا اندیشہ ہوا تو وہ امدادی رقم کی وہ قسط فوری روک دے گا جس کے انتظار میں ہماری پوری کابینہ ایک ایک لمحہ گن گن کر گزاررہی ہے،وزیر اعظم کی جانب سے عوام کیلئے اعلان کردہ اس مصنوعی ریلیف پر خرچ کا تخمینہ ایک کھرب 20ارب روپے لگایا گیا ہے۔ اب سبسڈی کا میکنزم مرتب کیا جائے گا۔صارفین کو اس رعایت کے حصول کیلئے رجسٹریشن کرانا ہو گی جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں ہوگی۔ پیٹرولیم ریلیف پیکیج جہاں ایک اچھا اقدام ہے، وہاں اس پر عملدرآمد میں بہت سی مشکلات کا بھی سامنا کرنا ہو گا۔ کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ کی رقم لوگوں سے زبردستی کاٹی جانے والی زکوٰۃ سے حاصل ہوتی ہے اور ہمارے ملک میں غریبوں کی ایک بڑی تعداد عسرت میں زندگی گزارنے کے باوجود زکوٰۃ کی رقم سے کوئی ریلیف لینا پسند نہیں کرے گی،جبکہ دوسری جانب مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بعض عملی پیچیدگیوں اور پیٹرولیم ڈیلرز کے منفی رویے کی وجہ سے اس پیکیج کی کامیابی ایک سوالیہ نشان ہے۔ ملک کی آئل انڈسٹری زرمبادلہ کی صورت حال اور روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر کے باعث خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کے حوالے سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے ایک بڑا عنصر اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ بھی ہے جس سے آئل کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں۔ وہ حکومت پر زور دے رہی ہیں کہ بینک ان کیلئے قرضوں کی حد میں بہتری لائیں تاکہ وہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک غور طلب معاملہ یہ بھی ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کا ضروریات زندگی کی ہر چیز کے نرخوں پر اثر پڑا ہے۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کی بلند ترین سطح اسی کا نتیجہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ موٹر سائیکل رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کیلئے پیٹرول کے فی لیٹر نرخ میں 50روپے کی کمی سے زندگی کی بنیادی اشیا کی قیمتوں کے حوالے سے عام آدمی کو کتنا ریلیف ملے گا؟ مہنگائی سے متاثر ہونے والے لوگوں کی بڑی تعداد تو گرانی کی چکی میں پستی رہے گی۔ اس لئے حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے اس کی افادیت سے ایک بڑا طبقہ محروم رہے گا۔ اس کیلئے حکومت کو کچھ مزید اقدامات اٹھانا ہوں گے تاکہ ان کو بھی فائدہ پہنچے جو چھوٹی گاڑیاں رکشوں اور موٹر سائیکل کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔اگر یہ تسلیم کربھی لیاجائے کہ حکومت کو درپیش صورتحال کا پوری طرح ادراک ہے اور وہ غریبوں کے دکھ درد بانٹ رہی ہے مگرپیٹرول پر مخصوص اور محدود مقدار میں سبسڈی کی فراہمی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کیلئے مزید اقدامات کی ضرورت موجود ہے جس پر غور کرنا چاہئے۔ غریب عوام کو سبسڈی دینے کے اعلان کے بعد وزیراعظم براہ راست سابق وزیراعظم عمران خان پر برس پڑے۔ حالانکہ اجلاس غریب اور کم آمدنی والے صارفین کے لیے پیٹرولیم ریلیف پیکیج کے حوالے سے تھا لیکن اس اجلاس میں بھی انہوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو سابق وزیراعظم نے چار سال تک اختیار کیے رکھا۔ اب پی ڈی ایم حکومت کو بھی تقریباً 11 ماہ ہونے کو ہیں۔ انہیں اب سابق حکومت کے کارناموں پر بات کرنے کے بجائے اپنے کاموں کی بات کرنی چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جو اجلاس کیا ہے اس میں ان کے معاشی ٹائیگر اسحق ڈار، مصدق ملک، سیکریٹری خزانہ، ان کے مشیر احمد چیمہ، طارق باجوہ اور دیگر شریک ہوئے۔ عوام تک تو اتنی خبر پہنچائی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ حکومت کے نزدیک کم آمدنی والوں کی زیادہ سے زیادہ آمدنی کی کیا حد ہے۔ کتنی آمدنی والوں کو وہ کم آمدنی والا سمجھتے ہیں۔ گاڑی کے سائز اور موٹر سائیکل کے ذریعے لوگوں کی غربت ناپنے والے یہ ماہرین صرف اتنا بتادیں کہ کیا ان کے پاس اس امر کے اعداد و شمار ہیں کہ ملک میں کتنے افراد موٹر سائیکل استعمال کرتے ہیں اور کتنے 8 سو سی سی تک کی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ پھر ان لوگوں تک سبسڈی پہنچانے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔ مشکل تو یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ہر کام میں چور دروازہ تلاش کرلیتا ہے بلکہ پہلے چور دروازہ بنایا جاتا ہے پھر منصوبہ،جس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بنانے والوں نے اس پر عمل سے قبل چور دروازہ بنالیا تھا، اپنے ہاریوں کے شناختی کارڈ ہتھیالیے ان پر سپورٹ پروگرام کی رقم بھجوائی جاتی اور خود وصول کرلی جاتی تھی۔ ہزاروں سرکاری افسروں پر بے نظیر انکم کی رقم ہتھیالنے کا الزام ہے لیکن ملک کے غریب اور کم مایہ لوگوں کے نام پر سرکاری رقوم بٹورتے پکڑے جانے کے باوجود یہ تمام افسر نہ صرف بدستور اپنے عہدوں پر فائز ہیں ان کے خلاف کسی ایسی کارروائی کی خبر سامنے نہیں آسکی جس سے دوسروں کو عبرت ہوتی بلکہ اطلاعات کے مطابق ان میں سے بعض افسران غریبوں کی رقم ڈکارنے کی صلاحیت کی بنیاد پر اپنے عہدوں پر ترقی بھی حاصل کرچکے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق بے نظیر انکم سپورٹ کی کم و بیش 32فیصد رقم اب بھی ہڑپ کر لی جاتی ہے اب اگر پیٹرول سبسڈی کے لیے کوئی کارڈ جاری کیا گیا تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تمام کارڈز حقدار موٹر سائیکل سواروں اور چھوٹی گاڑیوں کے مالکان کو ملیں گے اور بڑے افسر اور حکمران طبقہ اپنے ملازمین کو گاڑیاں دے کر ان میں سستا پیٹرول ڈلواکر یہ سبسڈی بھی ہڑپ نہیں کرجائے گا۔ اس سبسڈی کی فراہمی کے لیے میکنزم بنانے اور مختلف طریقے اختیار کرنے پر خرچ کے بجائے پیٹرول ہی سستا کردیا جائے تو کیا ہرج ہے۔ یہ حکمران اپنی بڑی بڑی گاڑیوں میں سرکاری پیٹرول بھی ڈلوالیتے ہیں اور طرح طرح کے بہانوں سے دیگر سہولتیں بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ عوام کے نام پر لوٹ مار کا نیا نظام وضع کرنے کی محنت کرنے کے بجائے یہ ہمت کرکے پیٹرول پر 100 روپے فی لیٹر کی سبسڈی کا اعلان کریں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جن رکشہ والوں کو سستا پیٹرول دیا جائے گا وہ اپنی سواریوں سے کرایہ کم وصول کریں گے۔ ہمارے حکمران عوام کو سہولت دینے کے لیے اچھی ٹرانسپورٹ تو مہیا نہیں کرتے انہیں رکشوں اور ویگنوں میں دھکے کھانے پر مجبور کرتے ہیں اور ویگنوں کی بڑی تعداد بھی پولیس اور دیگر سرکاری افسروں کی یا ان کے رشتے داروں کی ہوتی ہے اور جو نہیں ہوتی انہیں ان تمام لوگوں تک حصہ پہنچانا ہوتا ہے تو عوام کو کیا ریلیف ملے گا۔ لہٰذا حکمران شہرت اور ہمدردی حاصل کرنے والے اعلانات کے بجائے حقیقی ریلیف کے اقدامات کریں۔ یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ عوام عوام کی رٹ لگانے والے سارے ہی حکمرانوں کی سواریاں عالیشان اور بڑی بڑی ہوتی ہیں جبکہ عوام اور کم آمدنی والوں کی گاڑیوں کے لیے انہوں نے ازخود چھوٹی گاڑی، موٹر سائیکل اور رکشہ کا پیمانہ مقرر کرلیا ہے۔ یہاں لوگ عوامی سواریوں میں خود سفر نہیں کرسکتے، عوام کو ایسا ٹرانسپورٹ نظام دیں کہ جب انہیں خود بھی سفر کرنا ہو تو عوام کے درمیان سفر کرسکیں۔ عمران خان، نواز شریف، شہباز شریف، بلاول، آصف زرداری ان کی پارٹیوں کے دانشور قوم کو امریکہ یورپ اور دنیا بھر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہاں ایسا ایسا ہوتا ہے وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ ان کے حکمران عوام کے درمیان رہتے ہیں عام گاڑیاں استعمال کرتے ہیں عام پروازوں سے سفر کرتے ہیں، حکمران بڑے چھوٹے کا فرق ختم کردیں، کسی سبسڈی کی ضرورت نہیں رہے گی۔


متعلقہ خبریں


رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت وجود - منگل 26 دسمبر 2023

انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے ملک اور بالخصوص پشاور اور پختونخوا کے دیگر شہروں میں منشیات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 درجن سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلاکر انھیں کارآمد شہری بنانے کیلئے قائم کئے بحالی مراکز پر منتقل کئے جانے کی اط...

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت

انتخابات ملتوی کرانے کے حربے وجود - بدھ 13 دسمبر 2023

لاہور میں نوازشریف نے پارلیمانی بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے یہ نیا مطالبہ کیا ہے کہ صرف حکومت نہیں جعلی مقدمات پر احتساب بھی چاہتے ہیں، ان کے7 سال کس نے ضائع کیے، کس نے جھوٹے مقدمات بنا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سب کے نام سامنے آ چکے ہیں مگر ان کا احتساب کون کرے گا؟ بات اس...

انتخابات ملتوی کرانے کے حربے

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر