وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلدیاتی انتخابات سے آگے بھی تو بڑھیں

پیر 13 فروری 2023 بلدیاتی انتخابات سے آگے بھی تو بڑھیں

 

ایک تو سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا ہی بڑی مشکل سے ہے، اَب جب کہ صوبہ بھر میں بلدیاتی انتخابات کے تمام مراحل خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل کرلیئے گئے ہیں اورموصولہ نتائج کے لحاظ سے سندھ کی حکمران جماعت، پاکستان پیپلزپارٹی کو دیگر حریف سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تاریخ ساز برتری بھی حاصل ہوچکی ہے۔ ایسی حوصلہ افزا انتخابی کامیابی کے باجود بھی سندھ حکومت کی جانب سے منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندوں کو اُن کی انتظامی ذمہ داریوں تفویض کرنے میں غیر ضروری تاخیر سے کام لینا سمجھ سے یکسر بالاتر ہے ۔یاد رہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ 26 جون 2022 کو مکمل ہوا تھا اور آخری مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج جاری ہوئے ہوئے بھی کئی ہفتے گزر چکے ہیں ۔مگرنہ تو ابھی تک بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں منتخب ہونے والے بلدیاتی اُمیدوار اپنے اپنے علاقوں کے میئر اور ڈپٹی میئر کو منتخب کرسکیں ہیں اور نہ ہی بلدیہ عظمی کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئرکا انتخاب عمل میں آسکا ہے۔ حالانکہ کراچی سمیت سندھ بھر کے اکثر اضلاع کے بلدیاتی اداروں میں پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اُمیدواروں نے ہی میئر اور ڈپٹی میئرز منتخب ہونا ہے۔
چلیں تھوڑی دیر کے لیئے فرض کرلیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے کراچی کی 6 یونین کونسل کے رُکے ہوئے نتائج کے جاری ہونے اور 11 یوسیز پر ملتوی ہونے والے انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے بعد ہی بلدیہ عظمیٰ کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ممکن ہوسکے گا۔ مگر یہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ صوبہ سندھ کے جن اضلاع کے بلدیاتی انتخابات کے حتمی نتائج جاری ہوئے بھی تقریباً 8 ماہ کی طویل مدت گزر چکی ہے ۔وہاں بلدیاتی اداروں میں میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب میں کیا امر مانع ہے؟۔سندھ حکومت کو کم ازکم وہاں تو منتخب بلدیاتی نمائندوں کو انتظامی اختیارات فوری طور پر دے دینے چاہیئے۔تاکہ عوام نے اپنے علاقوں میں جن لوگوں کو بھی مقامی مسائل کے حل کے لیئے ووٹ کی طاقت سے منتخب کیا ہے ، اُن سے وہ اپنے کام نکلوا سکیں ۔ بظاہر صوبہ بھر میں عوام کے ہزاروں بلدیاتی نمائندے گلی محلے کی سطح پر موجود ہیں ۔ لیکن جب لوگ اُ ن کے پاس اپنے کسی مسئلہ کے حل کے لیئے جاتے ہیں تو منتخب کونسلر ،چیئر مین اور وائس چیئرمین کی جانب سے ٹکا سا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ’’ ابھی تک تو میں نے اپنے عہدہ کا حلف بھی نہیں اُٹھایا ہے تو میں کارِ سرکار میں مداخلت کر کے آپ کا مسئلہ کیسے حل کرسکتاہوں ‘‘۔
دوسری جانب امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کراچی میں 11 یوسیز پر انتخابی شیڈول جاری نہ کرنے کے خلاف الیکشن کمیشن کے خلاف علامتی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’’اگر کراچی میں جلدازجلد بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل نہ ہوا تو وہ ٹرین مارچ کے ذریعہ اسلام آباد پہنچیں گے اور ملک گیر احتجاج اور ہڑتال کریں گے‘‘۔غالب اِمکان یہ ہی ہے کہ حافظ نعیم الرحمن کی احتجاجی دھمکی جلدیا بدیر ضرور اثر دکھائے گی اور بالآخر سندھ حکومت، بلدیہ عظمی کراچی کے دروازے میئر اور ڈپٹی میئر کے لیئے کھولنے پر مجبور ہوجائے گی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کا میئر پیپلزپارٹی سے ہی ہو گا اور جماعت اسلامی کے حصہ میں زیادہ سے زیادہ ڈپٹی میئر کا عہدہ ہی آسکے گااور وہ بھی صرف اُس صورت میں جب جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی کے مابین اتحاد ہوجائے ۔ بصورت دیگر اِس بات کابھی قوی امکان ہے کہ پیپلزپارٹی سیاسی جوڑ توڑ کرکے میئرکے ساتھ ساتھ ڈپٹی میئر بھی اپنا لے کر آسکتی ہے۔
اگرچہ حافظ نعیم الرحمن کا میئر کراچی بننا ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے ۔مگر اچھی بات یہ ہے کہ اُس کے باوجود اُن کا سارا سیاسی اصرار اور احتجاجی دباؤ اِس ایک نقطہ پر مرکوز ہے کہ جلد سے جلد کراچی کے تمام اضلاع میں بلدیاتی اداروں کو فعال کیا جائے۔ یعنی حافظ نعیم الرحمن کی اوّلین کوشش ہی یہ ہے کہ بلدیاتی نظام کے ذریعے جہاں تک ممکن ہوسکتاہے ،وہ اپنے حلقوں میں لوگوں کو دیرینہ مسائل کو حل کریں ۔ یہ ایک ایسا طرزِ عمل ہے جسے کراچی کی عوام میں خوب پذیرائی مل رہی ہے ۔ دوسری جانب سے ایم کیوا یم پاکستان کی جانب سے بلدیاتی انتخابات کے نتائج اور حلقہ بندیوں کے خلاف باربار احتجاج اور دھرنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ فی الحال تو ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے یہ دھرنا بحریہ کی اَمن مشقیں ختم ہونے تک موخر کردیا ہے۔ لیکن اگر مستقل قریب میں یہ دھرنا اپنی پوری سیاسی قوت کے ساتھ ہو بھی جاتاہے اور جاری بھی غیر معینہ مدت تک رہتا تب بھی میرا نہیں خیال اِس کا کوئی اثرحالیہ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر قائم ہونے والے بلدیاتی اداروں پر پڑ سکتاہے۔
واضح رہے کہ ایم کیوا یم پاکستان حالیہ بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے کراچی کے بلدیاتی نظام سے اُس وقت تک مکمل طور پر خود کوبے دخل کر چکی ہے جب تک کراچی میں اگلے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا۔ جہاں تک نئی حلقہ بندیوں کے لیئے سڑکوں پر احتجاج اور دھرنے دینے کا تعلق ہے تو اُس کا کوئی فوری فائدہ تو ایم کیو ایم پاکستان کو سیاسی طور پر حاصل ہونہیں سکتا۔ کیونکہ اگر ایم کیوایم پاکستان کے مطالبہ پر نئی حلقہ بندیاں ہوبھی جاتی ہیں تو ایم کیوایم کو اُس کا فائدہ تو پھر بھی اگلے بلدیاتی انتخابات میں ہی ہوسکتاہے۔
ویسے بھی چند ہفتوں بعد ملک بھر میں پہلی بار ڈیجیٹل خانہ و مردم شماری کا آغاز ہونے والا ہے۔ اگر مذکورہ ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج پر تمام سیاسی جماعتوں کا کامل اتفاق رائے ہوجاتاہے تو پھر نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک بھر میں نئی حلقہ بندیاں کا عمل تو دہرایا ہی جائے گا ۔ توکیا ایم کیوا یم کی قیادت کے لیئے یہ زیادہ بہتر نہیں ہوگا کہ وہ پہلے ڈیجیٹل مردم شماری ہونے کا انتظار کرلے ۔بالفرض محال اگر اُس کے بعد بھی نئی حلقہ بندیاں نہیں ہوتیں تو پھر وہ اس معاملہ پر شوق سے احتجاج کرسکتی ہے۔ تب تک ایم کیوایم پاکستان اگلے قومی انتخابات یا ضمنی انتخابات میں ماضی سے کچھ اچھی کارکردگی دکھانے کے لیئے اپنی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سے مل کر کسی سیاسی حکمت پر دل جمعی کے ساتھ کام کرلے۔ جبکہ سندھ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ جلد ازجلد بلدیہ عظمی کراچی میں نئے میئر کی تقریب حلف برداری کا اہتمام کرے تاکہ صوبہ سندھ کی اتھل پتھل سیاست میں وقتی طور پر سہی کچھ سیاسی استحکام تو دیکھنے کوملے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر