وجود

... loading ...

وجود
وجود

خوابوں کے سوداگر

هفته 28 جنوری 2023 خوابوں کے سوداگر

ملک میں اصولی سیاست ہو رہی ہے؟ جواب نہیں کے سواکچھ اور نہیں ہو سکتاوطن میں خوابوں کی سوداگری عروج پرہے اِس آڑمیں ایسی ایسی شاطرانہ چالیں چلی جارہی ہیں جوقطعی طور پرملک و قوم کے مفاد کے منافی ہیں حکمرانوں نے آج ملک کو اِس حال تک پہنچا دیا ہیں کہ تمام عالمی اِدارے ملکی معیشت بارے اچھاگمان ترک کر چکے ہیں اور ایسے خدشات ظاہر کرنے لگے ہیں کہ پاکستان کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر اِتنے قلیل ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں لیکن اپوزیشن عام انتخابات کے لیے تو متحرک ہے لیکن عوامی بدحالی کے حوالے سے خاموش ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں فرائض ادا کرنے کی بجائے صرف خواب فروخت کررہے ہیں ظاہر ہے یہ عوامی سیاست نہیں ۔
تحریکِ انصاف جوتحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے مستعفی ہو گئی تھی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے استعفے الیکشن کمیشن کوبھی ارسال کردیے مگر الیکشن کمیشن نے ڈی نوٹیفائی کا عمل مکمل نہ کیا راجہ پرویز اشرف نے بھی اسپیکر کا منصب سنبھالنے کے بعد موقف اختیار کیا کہ جب تک ہر ممبر انفرادی حثیت میں پیش ہو کر اپنے استعفے کی تصدیق نہیں کرے گا وہ منظور نہیں کریں گے جس پر پی ٹی آئی سراپا احتجاج رہی اور استعفے منظورکرنے کا مطالبہ کرتی رہی مگر شنوائی نہ ہوسکی حکومت کہتی رہی کہ مستعفی اراکین واپس ایوان میں آکر زمہ داراپوزیشن کا کردار ادا کریں جانے کِس سنجیدہ اور جہاندیدہ شخص نے عمران خان کو بتایا کہ آپ کی جماعت نے مستعفی ہو کرحکومت کو من مانی کرنے کی کُھلی چھوٹ دے دی ہے اوراگر راجہ ریاض ہی اپوزیشن لیڈر رہے تو اپنی مرضی کانگران سیٹ اَپ بناکر حکومتی اتحاد عام انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں کر سکتا ہے جس پر واپس اسمبلی جانے کا فیصلہ کیاگیا تاکہ اپوزیشن لیڈر اور اے پی سی کی چیئرمینی کا منصب لیکر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جاسکے مگر بغیر سوچے سمجھے اظہارِ خیال کی عادت لے ڈوبی اِدھر عمران خان نے اسمبلیوں میں جاکر حکومت کے لیے مشکلات بڑھانے کا اعلان کیا اُدھرحکومت نے زمہ دار اپوزیشن بننے کادکھایا خواب توڑ دیااور اسپیکر نے حکومتی اشارے پرعمران خان کی نام لیوا تحریکِ انصاف کے ممبرانِ اسمبلی کے استعفے منظور کرتے ہوئے ایوان سے صفایا کر دیا حالانکہ کئی ممبران ِ اسمبلی استعفے واپس لینے کا عندیہ دے چکے اِن ممبران نے اِس حوالے سے اسپیکر سے ملنے کی کوشش بھی کی لیکن باوجود کوشش کے ملاقات کا موقع نہ مل سکامزید یہ کہ وہی استعفے جو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی طرف سے ارسال کرنے کے باوجودالیکشن کمیشن نے ڈی نوفیفائی نہ کیے وہی راجہ پرویز اشرف کی طرف سے ارسال کرتے ہی نہ صر منظورکیے بلکہ فوری طورپر ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے نشستیں خالی قرار دے دیں عام تاثر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن میں اگر انتخابی تیاریوں بارے سرگرمیاں عروج پر ہیں تو ساتھ ہی عمران خان کے خلاف دائر کیسزکا عام انتخابات سے قبل فیصلہ کرنے پرکام جاری ہے اور کم از کم نااہل کرنے کی سزا سنانا چاہتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ قواعدو ضوابط کے مطابق ہے ؟ اِس کا حکومتی حلقوں کے سواکوئی بھی ہاں میں جواب نہیں دے سکتاانصاف نہیں یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہاہے جس کا مقصد عام انتخابات کے نتائج کو حکومتی اتحاد کے حق میں یقینی بنانا ہے عجلت و سرعت سے مستعفی ممبران کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے اب عمران خان کی نااہلی نوشتہ دیوار ہے ۔
یہ خیال قوی ترہوتا جارہاہے کہ فیصلوں سے قبل تحریکِ انصاف اثرات و مُضمرات پر غور نہیں کرتی اورمشاورت کی بجائے جذبات میں فیصلے کیے جاتے ہیں جس کااُسے نقصان ہورہا ہے عمران خان وزارتِ عظمٰی کے منصب سے معزول ہونے کے بعد فوری عام انتخابات کاخواب دیکھتے رہے جذبات میں ایک سے زائد ایسے فیصلے کیے جن کا موجودہ حکومت کونقصان کی بجائے اُلٹافائدہ ہوا مثال کے طورپر حکومت کو گھر بھیج کروہ فوری طور پر عام انتخابات کے خواہاں تھے مگر جب بات نہ بنی تو پنجاب اور کے پی کے میں بہترین کام کرتی اپنی ہی جماعت کی صوبائی حکومتوں کو گھر بھیج دیا یہ ایسا فیصلہ ہے جو ہوش کی بجائے جوش کا شاخسانہ معلوم ہوتاہے اِس غلط فیصلے سے مرکزی حکومت دو صوبائی حکومتوں کے بوجھ سے آزاد ہو ئی اور اِس پوزیشن میں آگئی ہے کہ اب جو اُس کا من چاہے کام کر سکتی ہے ایسا کیوں ہوا؟ ظاہر ہے وجہ عمران خان کی ضدی اور جھگڑالوطبعیت ہے جس کا نقصان اُٹھانے کے لیے پی ٹی آئی تیاررہے اب بھی اگر خواب غفلت سے نہیں جاگتی توانتخابی نتائج بارے زیادہ خوش گمان نہ رہے۔
قومی اسمبلی میں اگر پی ٹی آئی کا وجود ختم نہ ہوتا تو راجہ ریاض جیسے شخص کو ہر حکومتی فیصلے کی تائید کا موقع نہ ملتا علاوہ ازیں نیب قوانین اور انتخابی قواعد وضوابط میں ترامیم اتنی آسانی سے منظور نہ ہو پاتیں ڈالر کی تاریخی اُڑان کے باوجودحکومت کیوں مطمئن ہے؟ وجہ عیاں ہے دوصوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد وہ پی ٹی آئی کے خوف سے آزاد ہوگئی ہے اگر کے پی کے اور پنجاب کی حکومتیں موجود ہوتیں توموجودہ گرفتاریاں اورمقدمے بنانے کے لیے حکومت کو جرات نہ ہوتی اگرمرکزی حکومت دھونس کا مظاہرہ کرتی تو دوصوبائی حکومتیں راہ روکنے کے لیے موجود ہوتیں نیز پی ٹی آئی کو اپنے منشور پر عمل کرانے کاموقع حاصل رہتا مگر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد تہیہ کر چکے ہیں کہ اگر وہ حکومت میں نہیں رہتے تو اپنی جماعت یا اتحادی جماعت کے کسی بندے کو بھی اقتدارمیں نہیں رہنے دینا یہی سوچ عمران خان کے لیے مشکلات بڑھارہی ہے چلیں عمران خان پُرانے سیاستدان نہیں بلکہ ناتجربہ کارہے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اُن کے ساتھی بھی یاتو اچھا مشورہ دیتے یاپھرکنویں میں چھلانگ لگانے پر اُکساتے محسوس ہوتے ہیں یا شایدممکن ہے وہ فیصلوں سے قبل کسی سے مشاورت ہی نہیں کرتے جو بھی ہے غلط ہے اسی بناپر ملکی سیاست میں فضول گرما گرمی اور تنائو ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ عمران خان ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ مقبولیت اب اُن کے غلط فیصلوں سے زوال پذیر ہے ۔
حکومتی اتحاد تو اسی میں خوش ہے کہ اُس نے عمران خان کی حکومت ختم کردی لیکن کیا ملکی مسائل حل کرنے میں بھی کامیاب ہے ؟ اِس کا ہاں میں جواب دینا قطعی طور پر غلط ہو گاآج پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 215اور250ہے ڈالر کی قیمت 270کے لگ بھگ ہو چکی فی کلوآٹے کی قیمت 150کے قریب ہے ملک کو بجلی اور گیس کے بدترین بحران کا سامنا ہے غریب لوگوں کوماہانہ جوبارہ ہزار ہ مالی مدد ملتی تھی وہ بھی موجودہ حکومت نے دوہزار کردی ہے ایک طرف ملک میں کاروباراور صنعتوں بن ہورہیں مگر حکومت نے سود بڑھا کر سترہ فیصد کر دیا ہے دراصل حکومت کے عوام کو دکھائے خوابوں کا حقیقت سے دورکا بھی واسطہ نہیں موجودہ حکومتی اتحاد عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام ہے مہنگائی اور بے روزگاری کا الگ ریکارڈ بن چکا عوام کو بہتری کے خواب دکھاتے دکھاتے حکومتی اتحاد نے اپنے لیے آسانیاں پیداکرلی ہیں نہ صرف بدعنوانی کے اکثر کیس ختم کرالیے بلکہ نیب کوبھی بے بس کر دیا ہے یہ ایسے فیصلے ہیں جن سے عوام میں حکومتی مقبولیت کم ہوئی ہے اسی بنا پر حکمران اتحادعام انتخابات میں جانے سے گریزاں ہے اور چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے اقتدار میں رہنے کاکوئی بہانہ حاصل رہے ظاہر ہے ایسا ہونا زیادہ دیرممکن نہیں آج نہیں تو کل عام انتخابات کی طرف جانا ہے مگر کارکردگی کے نام پراُس کے پاس کچھ نہیں عوام کو یقین ہے کہ سیاست کی بجائے ریاست بچانے کے دعویدارحکمران عوامی نہیں زاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اسی لیے عوام کی بہتری کے حوالے سے کوئی کام نہیں کر رہی دراصل حکومت اور اپوزیشن دونوں خوابوں کے سوداگر ہیں اُنھیں عوام سے کوئی غرض نہیں بس ایسے خواب دکھارہے ہیں جن کی زمینی حقائق سے دورکا بھی واسطہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر