وجود

... loading ...

وجود
وجود

ہجوم ،کب تک قتل کرتارہے گا؟

جمعرات 03 نومبر 2022 ہجوم ،کب تک قتل کرتارہے گا؟

ایک مدت سے سنتے آئے تھے کہ گھر سے باہر اپنی روزی ، روٹی کمانے کے لیئے نکلنے والا کوئی بھی شخص لوگوں کے درمیان، یعنی ہجوم میں زیادہ محفوظ ہوتا ہے ۔ لیکن گزشتہ ہفتہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقہ مچھر کالونی میں رونما ہونے والے ایک دلخراش واقعہ نے بزرگوں کا یہ مقولہ بھی سراسر، غلط ثابت کردیا ہے ۔کیونکہ اَب ہم لوگ ،ہجوم میں بھی بالکل محفوظ نہیں رہے ہیں اور کوئی بھی ہجوم کسی کی بھی شخص کی ،کبھی بھی ،کہیں بھی اور کسی بھی طریقہ سے جان لے سکتاہے۔ آپ یقین کریں یا نہ کریں مگر سچ یہ ہی ہے کہ صرف ایک افواہ کی بنیاد پر کراچی ،ڈاکس کے علاقے مچھر کالونی کے علاقہ مکینوں نے ایک نجی ٹیلی کام کمپنی میں ملازم دو افرادپر بچوں کے اغوا کا الزام عائد کرکے ہلاک کردیا۔
غصے میں بپھرے اور نفرت سے بھرے ہوئے ہجوم کے ہاتھوں بے جرم و سزا، جاں بحق ہونے دونوں افرد کی شناخت ایمن جاوید اور اسحاق کے ناموں سے کرلی گئی ہے۔ ایمن جاوید ،ٹیلی کام کمپنی کا انجینئر، جبکہ اسحاق ڈرائیورتھا اور یہ دونوں افراد اپنی گاڑی میں لیپ ٹاپ اور دیگر تیکنیکی سامان کے ذریعے علاقے میں لگے سیلولر ٹاورز کے سگنلز چیک کررہے تھے۔ جب وہ دونوں افراد، اپنا کام ختم ہوجانے کے بعد، مذکورہ علاقے سے باہر نکلنے کے لیے ایک بچے سے راستہ پوچھنے کے لیے بات چیت کر رہے تھے تو عین اُسی وقت کسی نے علاقے میں افواہ پھیلادی کہ سفید گاڑی میں دو افراد ایک بچہ کو اغواء کر کے لے جارہے ہیں ۔افواہ سنتے ہی علاقہ مکین جتھے کی صورت میں جمع ہوئے اور دونوں افراد کو چاروں طرف سے گھیر کر اُن پر پتھروں ،اینٹوں اور سیمنٹ کے بلاکوں کی اتنی بارش کی کہ دونوں شخص موقع پر ہی دم توڑ گئے ۔
یادرہے کہ اسی علاقہ میں پولیوٹیم کے ساتھ موجود ایک پولیس اہلکار ہجوم کے نرغے میں پھنسے ہوئے دونوں افراد کی امداد کے لیے بھی پہنچا تھا اور اُس نے لوگوں سے چیخ چیخ کر یہ اپیل بھی کی تھی کہ چونکہ دونوں افراد ہماری گرفت میں آچکے ہیں ۔لہٰذا ، ایک بار اِن سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ وہ یہاں کیا کررہے تھے یا انہیں تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کردیتے ہیں ۔لیکن بپھرے ہوئے ہجوم نے اُس پولیس اہلکار کی بات سننے کے بجائے، اُلٹا اُسے بھی تھپڑ، مکے ، پتھر اور اینٹیں مار ، مار کر شدید زخمی کردیا۔ بظاہر پولیس نے واقعہ کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز کی مدد سے 8 افراد کو شناخت کرکے ان میں سے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے ۔جبکہ چیف جسٹس آف سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ مچھر کالونی کا ازخود نوٹس لے کر آئی جی سندھ ، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو واقعہ کی مکمل رپورٹ کے ساتھ عدالت میں طلب کرلیاہے۔ یقینا عدالت عالیہ کے متحرک ہونے کے بعد غالب امکان یہ ہی ہے کہ واقعہ میں شامل تمام ملزمان بہت جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائیں گے۔
مگر یہاں ذرا ایک لمحہ کے لیے سوچئے ! کہ جب مذکورہ سانحہ میں ملوث ملزمان کو سزا ہونے کے بعد یہ معلوم ہوگا کہ جن افراد کے بہیمانہ قتل کے جرم میں اُنہیں قرار واقعی سزا سنائی گئی ہے ، وہ افراد تو بے گناہ تھے ، تو اُن کی حالت کیا ہوگی؟۔ جبکہ اس وقت مقتولین اور گرفتار ملزمان کے لواحقین بھی کم و بیش ایک جیسے ہی کرب سے تو گزر رہے ہیں ۔یعنی مقتولین کے وارث اس غم میں مبتلا ہیں کہ اُن کے اپنے بے جرم و خطا کیوں قتل کردیئے گئے؟ اور قاتلوں کے وارث اِس صدمہ سے پریشان ہیں کہ اُن کے پیاروں نے بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھ کیوں رنگ لیے؟ ۔ سادہ الفاظ میں سمجھ لیجئے کہ اگر مقتولین کے ورثا غم زدہ ہیں تو اُن کے قاتل بھی شرمندہ تو ضرور ہی ہوں گے۔
واضح رہے کہ ہجوم کے ہاتھوں تشدد سے بہیمانہ قتل کے واقعات کا رجحان ہمارے ملک میں اپنی انتہائی حدوں کو چھورہا ہے اور ہجوم کے ہاتھوں قتل و غارت کے پرتشدد واقعات روز بروزبڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ مثال کے طور پر خانیوال کے ایک گائوں جنگل ڈیرہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے ایک شخص کو پہلے مارنے اور پھر اس کی لاش کو درخت سے لٹکانے کا واقعہ، گوجرانوالہ میں موٹرسائیکل چوری کرنے کا الزام لگانے کے بعد ہجوم کے تشدد سے ایک فرد کی ہلاکت کی خبر، ڈسکہ روڈ سیالکوٹ میں دو نوجوانوں پراہل علاقہ کی جانب سے ڈاکہ زنی اور قتل کا جھوٹا الزام لگا کر رسیوں سے باندھنے، ڈنڈوں سے بدترین تشدد اور پھر ان کی لاشوں کو سرعام لٹکانے کا سانحہ اور سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں سری لنکن منیجرپریانتھا کمار کے ہجوم کے نرغے میں مرنے جیسے اندوہ ناک واقعات سے اظہر من الشمس ہے کہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر نفرت زدہ ہوگیا ہے اور اَب ہمیں کسی انسان کو قتل کرنے کے لیے کسی ٹھوس وجہ کی ضرورت بھی نہیں رہی ہے ۔
مچھر کالونی کراچی میں رونما ہونے والا تازہ ترین سانحہ سراسر سوشل میڈیا کے غلط استعمال کا شاخسانہ ہے ۔ دراصل گزشتہ چند ہفتوں سے سوشل میڈیا پر ایسی ڈیپ فیک ،یعنی خودساختہ اور جھوٹی ویڈیوز وائرل ہورہی تھیں ،جن میں دکھایا جارہا تھا کہ بعض اغوا کار لوگوں کو اغواء کرکے زندہ حالت میں ہی اُن کے اعضا چھری ، پیچ کس اور پلاس سے نکال رہے ہیں ۔ ایسی تمام ویڈیو کے اختتام میں دیکھنے والوں سے یہ اپیل بھی کی جارہی تھی کہ وہ اپنے دروازے پر آنے والے کسی بھی شخص کو پانی نہ پلائیں ، کھانا نہ کھلائیں اور بھیک نہ دیں ۔کیونکہ یہ لوگ آپ کے بچے اغواء کر کے لے جائیں گے۔ یاد ر ہے کہ یہ ویڈیوز ، ڈیپ فیک اور مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی مدد سے اس تیکنیکی مہارت سے بنائی گئی ہیں کہ اُن پر بالکل حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔
دوسری جانب طرفہ تماشہ یہ ہے کہ ایسی ڈیپ فیک ویڈیوز کے بارے میں بعض افراد اتنا مرچ مصالحہ لگا کر گفتگو کرتے ہیں کہ سننے والوں کے ہوش و حواس رفوچکر ہوجاتے ہیں اور ایک لمحہ کے لیے تو سامع کو اپنے سامنا کھڑا ہوا ہر اجنبی مشکوک، دھوکہ باز،اغواکار اورقاتل نظر آنے لگتاہے ۔ غالب گمان یہ ہی ہے کہ مچھر کالونی کے مکینوں نے بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایسی ہی ڈیپ فیک ویڈیو ز کے زیر اثر آکر سیلولر کمپنی کے ملازمین کو اغوا کار سمجھ لیا اور یوں دو معصوم افراد ہجوم کے بہیمانہ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع واردات پر ہی جاں بحق ہوگئے۔کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں ہی اُس رحمت العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کے دعوے دار تھے کہ جنہوں نے آج سے چودہ سو برس قبل ارشاد فرمادیا تھا کہ ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات (تحقیق کیے بغیر )آگے بیان کردے‘‘۔جبکہ قرآن حمید فرقان میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ’’جھوٹ تو وہی افترا کیا کرتے ہیں ،جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے اور وہی جھوٹے ہیں ‘‘۔
کیا درج بالا آیت و حدیث کی روشنی میں ہم میںسے کسی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر نظر آنے والی ویڈیو یا پوسٹ کو کسی دوسرے شخص کے ساتھ شیئر کرنے سے پہلے کبھی اُس کی تصدیق کرنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ مذکورہ پوسٹ کا مواد ،درست ہے یا غلط ؟۔اگر آپ کا جواب بھی نہیں میں ہے تو پھر یقینا پاکستان میں ہجوم کے ہاتھوں قتل و غارت کے واقعات یوں ہی ہوتے رہیں گے اورمشتعل ہجوم قانون اپنے ہاتھ میں لیتا رہے گا۔ کیونکہ ریاست کتنی بھی طاقت ور ہوجائے بہرحال وہ ہر شخص کے ساتھ ایک پولیس والا کھڑا کرنے کے قابل تو کبھی بھی نہیں ہوسکے گی۔ لہٰذا ، اس بار ہماری حکومت سے نہیں بلکہ پاکستانی عوام سے التماس ہے کہ وہ مچھرکالونی کراچی میں رونما ہونے والے سانحہ کا سختی سے فوری نوٹس لے اور خبر کے لیے صرف مصدقہ ذرائع مثلاً اخبار اور نیوز چنیلز پر انحصار کرے ۔جبکہ سوشل میڈیا کو فقط سستی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھے ۔ تاکہ پاکستانی معاشرہ کو افواہ ساز فیکٹری بننے سے بچایا جاسکے۔بقول شاعر
چہرے اُداس کردیے خوف و ہراس نے
افواہ کو نہ دیکھ ، حقیقت تلاش کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر