وجود

... loading ...

وجود
وجود

لانگ مارچ اور سازشی بیانیہ

هفته 29 اکتوبر 2022 لانگ مارچ اور سازشی بیانیہ

عمران خان کہتے ہیں کسی حکومت کو گرانے یا لانے کے لیے مارچ نہیں کر رہے بلکہ حقیقی آزادی کے لیے حتمی اور فیصلہ کن جنگ ہے انھوں نے لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کر دیا ہے جو ایک ہفتے تک اپنی منزل دارالحکومت پہنچے گا لانگ مارچ کی کال دینے بارے واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ارشد شریف کی وفات سے پیداشد ہ صورتحال کی وجہ سے لانگ مارچ جلدی شروع کیاگیا ہے حالانکہ بادی النظر میں تبدیلی کے لیے ابھی حالات کچھ زیادہ سازگار نہیں قبل ازیں بھی جلدی بازی میںکیے لانگ مارچ اور ایک سو چھبیس روزہ دھرنے کے باوجود اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے پھربھی کامیابی کے لیے پی ٹی آئی حلقے کافی پُر امید ہیں مگر ناکامی کی کئی ایک وجوہات واضح ہیں ایک بڑی وجہ تو ملک کے معاشی حالات ہیںجو پالیسیوں کے تسلسل کے متقاضی ہیں کیونکہ بڑھتی درآمدات کی وجہ سے زرِ مبادلہ کے ذخائر گرتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کے خطرات ہیں اِن پریشان کُن حالات میں ملک کسی غیر جمہوری یا غیر قانونی تبدیلی کا ہرگزمتحمل نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہوتاہے تو عدمِ استحکام بڑھنے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا جومکمل معاشی تباہی پر منتج ہو سکتاہے اسی بناپرہراِدارہ حکومت کے ساتھ ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کا امکان تاریک دکھائی دیتاہے ۔
اِداروں نے سیاسی معاملات سے خود کوبڑی حد تک الگ تھلگ کر لیا ہے کیونکہ سیاستدان مطلب کے لیے پہلے مدد لیتے ہیں پھر اقتدار حاصل کرنے والے اپنے محسنوں پر ہی تنقید کرتے ہیںایسے ہی تلخ تجربات بدظن کرنے کا باعث بنے ہیں اِس وقت سیاسی منظر نامے پر جتنی بھی بڑی پارلیمانی جماعتیں ہیں وہ ماضی میں کسی نہ کسی حوالے سے اِداروں کی اعانت سے اقتدار میں آ ئیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ تمام بڑی پارلیمانی جماعتیں اِداروںپرتنقید کے نشتر چلانے کا بھی طویل ترین ریکارڈ قائم کرچکی ہیں اب اِدارے سیاسی معاملات میںمداخلت سے الگ ہو گئے ہیں اِس پرحکومت اتحاد تو خوش ہے لیکن اپوزیشن ناخوش ہے اسی ناخوشی میںکل جمعہ سے لانگ مارچ کا آغاز کر دیاہے مگر جب عمران خان کہتے ہیں کہ حکومت گرانے یا لانے کے لیے نہیں حقیقی آزادی کے لیے نکل رہے ہیں تو کوئی یقین نہیں کرتا اور جاری ہلچل کو لوگ قتدار کی لڑائی تصور کرتے ہیں اقتدار سے محرومی کو اِداروں کوزمہ دار قرار دینا ہر گزدرست نہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ زوال پذیر معیشت،بڑھتی مہنگائی و بے روزگاری اور دوست ممالک سے تعلقات میں تنائونے اپوزیشن کو عدمِ اعتماد لانے کی طرف راغب کیا جب کہ اداروں نے مزید بیساکھی بننے کی بجائے خود کو سیاست سے لاتعلق ہوکر فرائضِ منصبی تک محدود کر لیا اسی وجہ سے تحریکِ عدمِ اعتماد باآسانی کامیاب ہو گئی حالیہ سیاسی بدمزگی غلط فہمی پر مبنی ہے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم نے پریس کانفرنس میں یہ تسلیم کیا ہے کہ اُن کے سامنے عسکری سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت تک توسیع کی پیشکش کی گئی جسے قبول کرنے کی بجائے ٹھکردیا گیا اِس انکشاف کے بعدپی ٹی آئی کا سازشی بیانیہ بے روح ہو جاتا ہے ویسے بھی اگر سپہ سالار غدار ہے تو مدتِ ،لازمت میں توسیع کی پیشکشیں کیوں کی جاتی رہیں ؟ سازش تو یہ ہوتی کہ توسیع لیکر حکومت کو قائم رکھنے میں مدد کی جاتی مگر یہاں تو سازش میں حصہ دار بننے کی بجائے الگ رہنے کا مستحسن فیصلہ کیا گیا جس پر تنقید نہیں تحسین کی جانی چاہیے۔
آج کل سوشل میڈیا پر ایسی مُہم چل رہی ہے جس میں کچھ اِداروں اور شخصیات پر بلاجواز تنقید کی جارہی ہے جب پوچھا جاتا ہے کہ اگر غدار ہیں تو رات کی تاریکی میں خاموشی سے بند دروازوں کے پیچھے کیوں ملتے ہیں ؟توحیران کُن طور پر سوال کا جواب نہیں دیا جاتا بلکہ نظر اندازکرتے ہوئے گریز کیا جاتا ہے یہ درست ہے کہ بشری خامیوں سے کوئی بھی پاک نہیں سب سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر غدار اور سازشی کہنا اور سیاسی مقاصد کے لیے فوج اور اِداروں کو بدنام کرنے کی روش پر چلنا ملک کو نقصان پہنچانے اور کمزورکرنے کے مترادف ہے ایسا کرنا کسی رہنما کے شایانِ شان نہیںلانگ مارچ احتجاج کی ہی شکل ہے سب کو اِس کاحق حاصل ہے اسی لیے حکومتی استدعا سپریم کورٹ نے مسترد کی مگر اِس آڑ میںاِداروں کے خلاف جاری منفی مُہم کی حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی عمران خان کا شمار ملک کے بڑے سیاسی رہنما ئوں میں ہوتاہے ضرورت اِس امرکی ہے کہ زہنی پستی کا مظاہرہ نہ کریں کیونکہ محدود سیاسی مفاد کے لیے فوج اور عوام میں دوریاں پیدا کرنا کسی طورحب الوطنی نہیں بلکہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ایسی نوعیت کی ہر سرگرمی بدترین ابن الوقتی اور مفاد پرستی کے زمرے میں آتی ہے۔
آزادی اظہار کے حق سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا لیکن ایسا آزادی اظہار جس سے اِداروں کی ساکھ متاثر ہو کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی ہمسایہ ملک بھارت یا امریکہ میں کوئی ایسی جسارت کرے تو اُسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے مگر پاکستان میں جس کا دل چاہتا ہے منہ کھول کر اِداروں پر تنقید شروع کر دیتاہے اورکوئی پوچھنے والا نہیں اگر پوچھ تاچھ کی جائے تو آزادی اظہار کا راگ شروع کر دیا جاتا ہے یہ رویہ یا سوچ کسی طور لائق ِ تحسین یا قابلِ تقلید نہیں بلکہ من حیث القوم ہمیں ایسے رویے اور سوچ کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے عمران خان اور پی ٹی آئی کو محب الوطن ہونے کابڑا زعم ہے لیکن اِ داروں پربھی بغیر ثبوت شک کرنے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی ملکی دفاع کے ضامن اِدارے کاکوئی ایسا شخص جس نے کئی دہائیوں پر محیط ملازمت کے دوران دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دیا ہو وہ کسی بیرونی سازش میں آلہ کار بن ہی نہیں سکتا اسی بات کی وضاحت کے لیے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کے ساتھ پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کو کو پریس کانفرنس کا حصہ بنناپڑا ہے میر جعفر و میرصادق ، نیوٹرل ،سازشی ،جانور اور غدار جیسے القابات سے پکارنا وطن پرستی یا وطن دوستی تو ہر گز نہیں سچ یہ ہے کہ زبان درازی کی وجہ سے عمران خان خود اپنی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں اِس لیے اُنھیں محتاط گفتگو کرنی چاہیے رواں برس گیارہ مارچ کو بطوروزیرِ اعظم انھوں نے سائفر پرخود کہا کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں مگر سیاسی فضا خلاف ہوتی دیکھ کر 27 مارچ کے جلسے میں کاغذ لہرانا اوربیرونی سازش قرار دینا ظاہر کرتاہے کہ سازشی بیانیہ اپناکرلانگ مارچ کے لیے نکلنا سیاسی اہداف حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔
ارشد شریف کی ناگہانی موت پرملک کا ہر مکتبہ فکر سوگوار ہے اور قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے ساتھ سزا پاتے دیکھنا چاہتا ہے مگر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اِس واقعہ کا زمہ دارحکومت اور وزیرِ داخلہ رانا ثنا اللہ کو قرار دینے پر بضد ہے مجھے حکومت یا رانا ثنا اللہ کی صفائی دینے کا کوئی شوق نہیں بلکہ رانا ثنا اللہ اور مریم نواز کی طرف سے اِس اندوہناک سانحے پر ابتدائی تبصرہ راقم کو اچھا نہیں لگا جھوٹ اور دشنام طرازی کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہیے اِس سوال کا جواب حاصل کرنانہایت ضروری ہے کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا اور کون کون سہولت کارتھا ؟نیز دبئی سے کینیا بھیجنے میں کیا مصلحت اور کس کا ہاتھ تھا سفری معاملات انجام دینے سے لیکر قیام و طعام میں کون مددگاراور پیش پیش رہا اور کس نے کہا کہ ملک میں واپس نہ آنا وگرنہ ماردیا جائے گا اورزندہ رہناہے تو آپ کے لیے کینیا کی سرزمین ہی محفوظ ہے وقار احمد اور خرم احمد کے کردار کا جائزہ لیا جانا بھی ضروی ہے اگر مزکورہ سوالات کے جوابات مل گئے تو قاتل تک پہنچنا آسان ہو جائے گا باعثِ اطمنان یہ ہے کہ عسکری اِدارے نے عدالتی
کمیشن بنانے کی سفارش کی جسے حکومت نے تسلیم کرتے ہوئے عملدرآمد بھی کر دیا ہے اب اگر کمیشن غیرجانداری سے آزادانہ کام کرتے ہوئے جلدحقائق سامنے لے آتا ہے تونہ صرف کئی رازوں سے پردہ اُٹھ جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر