وجود

... loading ...

وجود
وجود

ممنوعہ عطیات کے بارے فیصلہ

بدھ 03 اگست 2022 ممنوعہ عطیات کے بارے فیصلہ

طویل سماعت کے بعدپولیٹکل پارٹیز آرڈر 2022کی دفعہ چھ کے تحت الیکشن کمیشن نے ممنوعہ عطیات بارے آخرکار فیصلہ سناہی دیا جس کے مطابق پی ٹی آئی نے غلط رقوم وصول کی ہیں مگر وصولی عطیات کے حوالے سے صرف آٹھ تسلیم جبکہ سولہ اکائونٹس کی تفصیلات کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پوشیدہ رکھاجو آئین کے آٹیکل سترہ کی خلاف ورزی ہے نیز چونتیس غیر ملکیوں سے بھی وصولیاں کیںجو ثابت ہو چکی ہیں اِس فیصلے کی روشنی میں تحریکِ انصاف کو کافی نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ نہ صرف پارٹی کے سربراہ کے طور پرعمران خان کے جمع کرائے گئے بیانِ حلفی غلط قرار دے دیے گئے ہیں بلکہ پی ٹی آئی کو غلط وصولیاںضبط کرنے کاشوکاز نوٹس بھی مل چکا ہے جس سے جماعت کے لیے مقبولیت برقراررکھنے میں مشکلات پیداہوں گی بظاہر پی ٹی آئی رہنما اِس فیصلے کو بہت نر م سمجھ رہے ہیں بلاشبہ شوکاز اور ممنوعہ عطیات ضبط کرنے کے حوالے سے دیکھیں تو یہ فیصلہ زیادہ سخت نہیں کیونکہ جماعت کالعدم ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے مگر عطیات کی بابت جمع کرائے جانے والے پارٹی چیئرمین عمران خان کے بیانِ حلفی کوغلط قرار دینے کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں اِس ایک فیصلے سے اب عمران خان بھی اُسی پوزیشن قریب آگئے ہیں جس مقام پر ملک کی دیگرمقبول قیادت ہے خود کو صادق و آمین ثابت کرنے کا انھیں بھی مرحلہ درپیش ہے اگر وہ جمع کرائے بیانِ حلفی کو درست ثابت نہیں کر پاتے اور الیکشن کمیشن کی طرف سے جھوٹا قرار پانے پر کوئی بڑی عدالت سے رجوع کرتا ہے تو نااہلی کا سامنا کرنا یقینی ہے ایسا ہونے سے ایک تو اُن کی ایمانداری اور دیانتداری کا تاثر ختم ہو گا دوسرا ملک کی دیگر سیاسی قیادت کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ عمران خان جو کہتے ہیں اُس پر خود عمل بھی نہیں کرتے قول و فعل کا یہ تضاد واضح ہونا انھیں چاہنے والوں کی نظروں سے گرانے کا باعث بن سکتا ہے۔
پی ٹی آئی پہلے ہی چیف الیکشن کمیشنرپر عدمِ اعتماد کرتے اُن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکی ہے عمران خان و دیگر زعما کہتے ہیں کہ وہ اُن سے بھی دیگر جماعتوں کی قیادت کی طرح سلوک کریں وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن سب سے مساوی سلوک کی بجائے اُن کو خاص طور پر ٹارگٹ کررہا ہے اُ ن کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ پی پی ،ن لیگ ، جمعیت علمائے پاکستان اورایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ملنے والے عطیات کا بیک وقت جائزہ لیکرایسا غیرجانبدارانہ فیصلہ کیا جائے جسے سب تسلیم کریں پی ٹی آئی کے یہ مطالبات جائز اور مناسب ہیں ایسا کرنے میں کوئی خاص قباحت نہیں کیونکہ اِس حوالے سے الیکشن کمیشن میں مختلف درخواستوں کی سماعت جاری ہے مگر بتانے والی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف ممنوعہ عطیات بارے فیصلہ اُس کی کسی حریف جماعت کی ایما پر نہیں ہوابلکہ اِس کے مدعی اکبر ایس بابر ہیں جن کاشمار پی ٹی آئی کے بانی اراکین میں ہوتا ہے اِس لیے یہ کہنا کہ شوکاز دلانے میں کسی حریف جماعت کی سازش یا دبائو کا عمل دخل ہے مناسب نہیں بلکہ یہ لنکا گھر کے بھیدی نے ڈھائی ہے پی ٹی آئی کو حالات کا دھارا انتہائی نازک موڑاور بھنور میں لے آیا ہے جس سے بچنا اسی صور ت میں ممکن ہے کہ قیادت محض بیان بازی پر زوردیکر خودکو سچا ثابت کرنے کی بجائے قانونی ماہرین کے ذریعے حالات کا سامنا کرے اور قانونی دلائل سے خود کو راست گو ثابت کرے وگرنہ عطیات سے محرومی کے ساتھ پارٹی چیئرمین کی نااہلی کا خطرہ زیادہ دور نہیں رہا ۔
ممنوعہ عطیات کیس میں پی ٹی آئی کو جو سب سے بڑاریلیف ملا ہے وہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے کم از کم یہ تسلیم کر لیا ہے کہ رقوم کو بیرونی عطیات کہنا مناسب نہیں البتہ یہ ایسے ممنوعہ عطیات ہیں جن کی عطیہ کرد ہ رقوم پر کئی قسم کے سوالات ہیں جن کے مناسب جواب نہ دے کر پارٹی نے ایک جرم کرنے کے بعد دوسرا جرم کیا ہے ممکن ہے اِس کی وجہ جماعت کی فلاحی سرگرمیاں ہوں جن کے لیے لوگ بڑی تعداد میں عطیات جمع کراتے ہیں پھر بھی رقوم چھپانے کے لیے عمران خان کے جھوٹے بیانِ حلفی کا سہارہ لینے کی منطق زہن تسلیم نہیں کرتااگر کیس کے آغاز پر ہی جماعت اور فلاحی اِداروں کی تفصیلات الگ الگ پیش کی جاتیں تو ممکن ہے ایسا فیصلہ سامنے نہ آتا مگر لاپرواہی اور غیر سنجیدگی کی بنا پر دوقسم کے نقصانات کا سامنا ہے اول عطیات کی ضبطگی یقینی ہے دوم عمران خان کسی بھی وقت کسی عدالت سے نااہلی کی زد میں آسکتے ہیں پی ٹی آئی کے اکابرین کا موقف ہے کہ اِس فیصلے کے پسِ پردہ حکمران اتحاد ہے اور حکومتی دبائو پر ہی الیکشن کمیشن نے دیگر جماعتوں سے پہلے پی ٹی آئی کے بارے میں یہ فیصلہ سنایا ہے اسی بنا پر چیف الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے پربھی کام جاری ہے مگر سنجیدہ حلقے اِس رویے کو مسائل کی گرداب میں مزید دھنسنا قرار دیتے ہیں چیف الیکشن کمیشن اور پی ڈی ایم قیادت پر الزام عائد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ سترہ جولائی کا ضمنی انتخاب ہارنے کے بعدحکومتی اتحاد نے الیکشن کمیشن سے جلد فیصلہ سنانے کا مطالبہ کیا پھربھی حکومت کو زمہ دارٹھہرانے میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ یہ کیس مسلسل آٹھ برس تک زیرِ سماعت رہا اور عطیات کی بابت لگائے جانے والے الزامات کاجائزہ لینے کے لیے ایک سیکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے بڑی عرق ریزی سے ایسے واضح شواہد پیش کیے جس سے پی ٹی آئی کا موقف غلط ثابت ہوا اورنتیجے پر پہنچ کر الیکشن کمیشن نے اکیس جون کو فیصلہ محفوظ کر لیا جو گزشتہ روز سنا دیا گیا ۔
چودہ نومبر2014میں بانی رکن اکبر ایس بابر نے جب اپنی جماعت سے ناراض ہو کر الیکشن کمیشن کے روبرو کیس دائر کیا تو ابتدامیں قیادت نے سرسری سا لیا جب مسلسل سماعت جاری رہی اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سوالات پوچھنے کا سلسلہ دراز ہونے لگا تب بھی سنجیدگی سے مقدمے کا سامنا کرتے ہوئے ختم کرانے کی بجائے جان بوجھ کرطوالت دینے کی کوشش کی گئی ممنوعہ عطیات کے کیس میں تیس مرتبہ التوا مانگا گیاچھ دفعہ کیس ناقابلِ سماعت ہونے کی درخواستیں دائر کیں جب اِس طرح بات نہ بنی تو باربار وکلا کو بدلنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا 9 دفعہ وکیل بدلنے کے باوجود بھی آخر کار جماعت کو کیس کا سامنا کرنے کی طرف آناہی پڑا حالانکہ ابتدا میں ہی اگر سنجیدگی کا مظاہر ہ کرلیا جاتا تو یقینی طورپر صورتحال مختلف ہوتی اور عطیات ضبط ہونے کے خدشات سمیت جماعت کے چیئرمین کی نااہلی کے موجودہ حالات ہر گز نہ بنتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر