وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا درست ہے اور کیا غلط

منگل 26 جولائی 2022 کیا درست ہے اور کیا غلط

پیارے نبیؑ نے مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا ہے اِس فرمان کی باربار تصدیق ہو رہی ہے اولاد کی پرورش کے لیے والدین زندگی بھر جائز و ناجائز زرائع اختیار کرتے ہیں وہی اولاد بڑھاپے میں سہارہ بنے گی یا خدمت کرے گی؟ یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر اسی اولاد کوفائدہ پہنچانے کے لیے والدین اپنی دوستیاں اور تعلق تک ختم کر لیتے ہیں رشتے تک توڑ دیتے ہیں بھائی بھائیوں اور بیٹے باپ کے خلاف ہو جاتے ہیں جائیداد و مال سے بہنوں و بیٹیوں کو حصے سے محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اتنا کچھ کرنے کے باوجود رشتہ اور خاندان جُڑا رہے گا کوئی بھی وثوق سے ہاں میں جواب نہیں دے سکتا مال اور اولاد ایسا فتنہ ہے جو نہ صرف رشتوں کا احترام بُھلا دیتا ہے بلکہ رشتوں کی شناخت بھی ختم ہوجاتی ہے پنجاب کیا پاکستان میں چوہدری ظہورالٰہی شہید خاندان اپنی مہمان نوازی ،وضح دار ی اور شرافت میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے سیاسی ،انتظامی،سیاسی ،مزہبی اور کاروباری لوگ اِس خاندان کااحترام کرتے ہیں اب یہ خاندان ایسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جو جگ ہنسائی کا باعث ہے اِس ٹوٹ پھوٹ میں اولاد ،مال کے فتنہ ہونے یا اقتدار حاصل کرنے کے اشتیاق کا کتنا حصہ ہے؟اِس کا تو مستقبل میں پتہ چلے گا لیکن اپنے گھر کے فرد کو اقتدار میں آنے سے روک دیا گیا ہے حالانکہ کزن کو اقتدار سے روک کر خودحکومت میں آنے کا امکان بھی نہیں پھر کیوں انتہا تک چلے گئے سچ یہ ہے کہ کزن کے خلاف خط لکھنے سے عزت میں اضافہ نہیں کمی ہوئی ہے ۔
اقتدار اور مال و دولت کے لیے یہاں کیا کچھ نہیں ہوتا غرناطہ کے حکمران ابوالحسن جب اپنے بھائی محمد بن سعد کے ساتھ فرڈینڈ اور ملکہ ازابیلا کی مشترکہ فوجوں سے جنگ میں مصروف تھے تو اِن نازک لمحات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ولی عہد ابو عبداللہ نے باپ کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے تخت نشین ہونے کا اعلان کر دیا مال و دولت اور اقتدار کی ہوس نے اسلامی فوج کو کمزور بنایا چاہے جو بھی ہو والدین اپنی اولاد کی ہر خامی بُھلا کر گلے لگا لیتے ہیں اسی لیے فتنے کو پنپنے کے مواقع ملتے ہیں پیارے نبیؑ نے اسی لیے فتنہ کہا ہے یورپ کی اِس اسلامی سلطنت کو ڈبونے میں اولاد جیسے فتنے کا کلیدی کردار ہے جب دیگر سے انصاف کے مطابق فیصلے کیے جاتے اور تعلق بنائے جاتے ہیں اگر اولا د جیسے فتنے سے بھی انصاف کے مطابق برتائو کیا جائے تو کئی خرابیاں دور ہو سکتی ہیں لیکن ایسا کبھی ہوتا نہیں۔
شہنشاہ اورنگزیب کونمازی ،پرہیزگاراور دیانتد ار سمجھا جاتا ہے وہ ٹوپیاں سی کر گزر بسر کرتے تھے مگر شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنے خوبصورت اور تابعداربیٹے دارالشکوہ کو جانشین بنانے کے لیے بقیہ تین صاحبزادوںاورنگزیب کو حیدرآباد دکن،مراد کو گجرات اور چوتھے بیٹے کو بنگال کی سربراہی سونپی تو پڑھے لکھے اورنگزیب نے فیصلے کو حق تلفی محسوس کرتے ہوئے بُرا منایا اور کچھ ہی عرصے بعد اپنے بھائی مراد سے مل کر چوتھے بھائی پر حملہ کیا اور دوبدو لڑائی میں موت کے گھاٹ اُتار دیا فتح کے جشن میں مراد جب نشے میں دُھت خوشی منارہا تھا تو اورنگزیب نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُسے بھی قتل کر دیا یہ فتنہ یہاں تک ہی محدود نہ رہا کچھ ہی عرصے بعد اور نگزیب نے دہلی پر چڑھائی کر دی اور دارالشکوہ کو شکست دی اور بھائی کو جان سے مار کرنہ صرف دہلی کا تخت سنبھال لیا بلکہ باپ شاہ جہان کونظربند کردیا باپ نے ایک باربیٹے سے التجا کی کہ قید میں میرا وقت بہت مشکل میں گزرتاہے یہ بوریت دورکرنے کے لیے بچے پڑھانے کی اجازت دی جائے تو بیٹے نے تکبر سے یہ کہہ کر درخواست رَد کردی کہ ابھی تک دماغ میں بادشاہت کا خمار موجود ہے اسی لیے بچوں پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگا ہے اولاد اور مال و دولت جیسے فتنے کی بنا پرخاندان ٹوٹنے کی تاریخ بہت پُرانی ہے پھربھی ایک مہمان نواز ،وضح دار اور شرافت کی مثال ایسے خاندان جس خاندان کا پورے ملک میں ایک احترام ہے کے ٹوٹنے پر ہر مکتبہ فکر رنجیدہ ہے پی ٹی آئی اور ق لیگ کے کارکن تو غم و غصے کا شکار ہیں مگر پیارے نبیؑ نے مال اور اولاد کو فتنہ قرار دیا ہے پیارے نبیؑ کافرمان غلط ہوہی نہیں سکتا کیونکہ زبان نبی کی ہوتی ہے مگر اللہ کی اجازت کے بغیر نبی کے منہ سے کچھ ادا ہی نہیں ہوتا۔
پی ٹی آئی کے کارکن ہوں یا ق لیگ کے، نہ صرف غم کی کیفیت میں ہیں بلکہ طیش میں ہیں وہ جہاں ایک طرف ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کی جانبدارانہ رولنگ کے خلاف مظاہروں میں مصروف ہیں تو چوہدری برادران کے لاہور سے لیکر گجرات تک گھروں کے باہربھی احتجاج ہو رہا ہے وفاقی وزیر چوہدری سالک حسین کے خلاف نعرے تو لگتے رہتے ہیں لیکن پہلی بار چوہدری شجاعت حسین کے خلاف نعرے سنائی دیے ہیں لوگوں نے لوٹے اُٹھا کر مظاہرے کیے ایک نیک نام اور ایسے رہنما جنھیںہر مکتبہ فکر نے اگر عزت و احترام دیا تو گھر میں اُنھیں پیروں جیسا رُتبہ حاصل تھا مگر ایک خط لکھ کر عزت کا سودا کر لیا اس خط کے یگر اثرات کو ایک طرف رکھ کر اگر ایک بڑے سچ کو پیشِ نظر رکھیں تو وہ یہ ہے کہ چوہدری خاندان کا اتحادختم ہو گیا ہے پُشت پر وار کرنے سے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی سیاسی راہیں جدا ہو نے کے قریب ہیں خط ایسا کاری وار ہے جس نے گھر میں آئی وزارتِ اعلٰی کو دور کر دیا ہے ق لیگ نے ہی ق لیگ کو شکست دے دی ہے حریف شریف ،بھٹو اور زرداری خاندان اِس ٹوٹ پھوٹ پربہت خوش ہیں ق لیگ کے احتجاجی کارکن آصف زرداری سے بھی سخت نا خوش ہیں لیکن اُنھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ و محبت میں سب جائز ہوتا ہے آصف زرداری کو عمران خان سے نفرت ہے اسی لیے کوئی چارہ نہ دیکھ کر انھوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو اُن کے گھر سے جواب دیکر اپنی نفرت پوشیدہ نہیں رکھی انھوں نے برسرِ عام زاتی لڑائی کہہ کر اپنی نفرت کا اظہار بھی کردیا ہے خیر جتنی بھی باتیں کی جائیں بات وہی ہے کہ چوہدری خاندان کے سربراہوں کی علیحدگی کی یہ خبر ہر سنجیدہ اور محب الوطن طبقے کو چونکانے کے ساتھ تڑپانے کا باعث ہے اِس کی کسک پورے ملک نے محسوس کی ہے۔
جہاں تک خط سے وزارتِ اعلٰی پر مرتب اثرات کی بات ہے تو بہت زیادہ امکان ہے کہ عدالتِ عظمٰی سے چوہدری پرویز الٰہی کو ریلیف مل جائے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت ووٹ دینے کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہوتا ہے ایک غیر منتخب اور صاحبِ فراش شخص نہیں کر سکتا علاوہ ازیں ق لیگ کے ممبرانِ اسمبلی نے کسی دوسری جماعت کے اُمیدوار کو نہیں بلکہ متفقہ طور پر اپنی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا ہے جس کی پی تی آئی نے بھی حمایت کی ہے اسی بناپر قانونی ماہرین ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری کے فیصلے کوماورا آئین اور اختیارات سے تجاوز قر اردیتے ہوئے یہ توقع کررکھتے ہیں کہ جلد ہی چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلٰی پنجاب بن جائیں گے کیونکہ انھوں نے 186ووٹ لیے ہیں جبکہ حمزہ شہبازمحض179ووٹ حاصل کر سکے ہیں اور ایسے پارٹی سربراہ جو غیر منتخب اور شدید بیمار ہیں اُن کا خفیہ خط ڈپٹی اسپیکر نے اُس وقت ظاہر کیا جب ووٹ کا سٹ ہو چکے ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل یا اِس عمل کے دوران خط کی کسی کوہوا بھی نہ لگنے دی گئی اِس لیے جماعت کے امیدوار کوووٹ دینے کے پارلیمانی پارٹی کے متفقہ فیصلے کوجماعت سے انحراف نہیں کہہ سکتے نیزخفیہ خط کی بنیاد پر پوری جماعت کے دس ووٹ مسترد کرنا خلاف آئین اور قانون ہے مگر کیا ٹوٹنے والے خاندانی رشتے دوبارہ جُڑپائیں گے؟ اِ س سوال کا جواب مستقبل میں ہی مل سکتاہے فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر