وجود

... loading ...

وجود
وجود

لنگڑے اور اندھے کی حکومت

پیر 23 مئی 2022 لنگڑے اور اندھے کی حکومت

عمران خان کے حق میں خلقت امڈ کیوں آئی ہے، ایک سوال ہے جس نے طاقت کے ستونوں سے اقتدار کے ایوانوں تک سب کو پریشان کررکھا ہے!
تاریخ عالم کا عظیم جنگجو امیر تیمور یاد آتا ہے، جسے بعض مورخین حقارت سے تمر لین( تیمور لنگ) پکارتے ہیں۔دنیا کے تین بڑے سپہ سالاروں میں سے وہ ایک تھا، سکندر اعظم اور چنگیز خان کے بعد جسے فاتحین کی فہرست میں شمار کیا گیا۔ بیالیس ملکوں کو فتح کرنے والے تیمور لنگ کے پاؤں میں لنگراہٹ تھی، مگر چنگیز خان کے برعکس وہ اپنی تمام جنگوں میں خود شریک رہا، فتوحات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ اُسی نے عثمانیہ سلطنت کے چوتھے فرمانروا کو شکست دی ۔ مراد اول کے بیٹے بایزید کی داستان بھی ہکا بکا کردینے والی ہے۔ یلدرم سے ملقب تھے، جسے ترکی میں بجلی کہتے ہیں۔امیر تیمور کا وہ عظیم معرکہ 20 جولائی 1402ء میں بایزید یلدرم کے ساتھ ہی برپا ہوا، جسے جنگ انقرہ سے تاریخ میں محفوظ رکھا گیا۔ تیمور نے تیموری سلطنت کی بنیاد رکھی ، مگر بایزید عظیم عثمانیہ سلطنت کے چوتھے سلطان تھے۔ عثمانی ترکوں کی وہ عظیم او ر بہادر فوج ”ینگ چری”جسے تاریخ میں ہمیشہ ایک لہکتے استعارے کے طور پر یاد رکھا جانا تھا، ایک پہاڑی پر پھنس گئی، جن کے ساتھ سلطان بایزید خود بھی تیمور لنگ کی فوج کے ساتھ معرکہ آرا تھے۔ سلطان کے دلاور شام تک لڑتے مرتے رہے، مگر نہ تلوار چھوڑی اور نہ جگہ۔سلطان بایزید شام کے وقت اُس معرکے سے دامن بچاتے ہوئے نکل رہے تھے، جہاں سلطان کے دلاوروں نے آخری دم تک مزاحمت جاری رکھی، دشمن کی فوج نے اُنہیں پیچھا کرتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ سلطان کی مشکیں کسیں اور تیمور کے خیمے میں لے گئے۔ جہاں تیمور لنگ شطرنج کھیل رہا تھا۔ ابھی وہ جشن فتح برپا ہونا تھا، جو سلطان بایزید کی شکست کی خوشی میں منایا جانا تھا۔ جہاں سلطان کی یکتائے وقت کنیزوں کو تِھرکنا تھا، جس میں یورپ کی عورتیں یورپ کی شرابوں کے ساتھ انڈیلیں جانی تھیں۔ تیمور لنگ اُس جشنِ فتح میں شکست خوردہ سلطان بایزید کو لباسِ قیصری میں ہی اپنے پہلو میں بٹھانے والے تھے۔ مہوشان ارمن کی سیاہ زلفیں اور حسینانِ چرکس کے بالِ زر تارکے گچھے رقص کی حرکت میں کھلنے تھے۔ یونان کی آہو چشم پریاں بھی وہیں تھیں۔ جنہیں سلطان کے حرم سے باہر کبھی نہ دیکھا گیا تھا۔ مگر یہ اس جشنِ فتح سے ذرا پہلے کا واقعہ ہے۔ تیمور لنگ ، سلطان بایزید کے سامنے کھڑا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کا چوتھا فرمانروا، جس کی ایک آنکھ سے بینائی جاتی رہی تھی۔ تیمور لنگ بے ساختہ ہنس رہا تھا۔ شکست خوردہ سلطان بایزید کے چہرے سے ابھی تمکنت رخصت نہ ہوئی تھی، چلا اُٹھا: خدا کے مارے ہوئے پر ہنسنا اچھا نہیں”۔ تب ، تب ہی تیمور لنگ کی زبان سے وہ فقرہ ادا ہوا، جسے حکمرانوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے:میں اس پر ہنس رہا تھاکہ اُس کارساز ِ بے ہمتا کی کارسازی دیکھو، جس نے اس دنیا کی حکومت کس کو دی؟ایک مجھ جیسے لنگڑے کو اور دوسرے تم جیسے اندھے کو”۔ عمران خان کے حق میں خلقت کیوں اُمڈ آئی، یہ سوال سب کو پریشان کیے رکھتا ہے۔ مگر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ اُس کارسازِ بے ہمتا کی کارسازی ہی کچھ اسی نوع کی ہے۔
عمران خان ردِ عمل کی نفسیات سے اُبھرا ہے۔ طاقت کے مراکز جسے نظرانداز کرتے ہیں۔ کہنہ سیاست کے گھناؤنے پن میں جس پہلو کو کبھی قابلِ غور ہی نہیں سمجھا گیا۔ عوام اُوبھ چکے۔ محلاتی سازشوں کی ایک تاریخ ہے، جس نے عوامی نفسیات کے اندر ایک بھونچال پیدا کیے رکھا ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ عمران خان اُسی کے شکار ہوئے۔ طاقت کے مراکز ابھی تک خبر دار نہیں ہوئے کہ امریکا کے خلاف عوام میں جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے۔ طاقت کے یہ مراکز جن کے اصل حلیف ہیں۔ حلیف بھی کہاں؟ نوکر! امریکا سے سامنے آنے والی دستاویزات میں سابق صدرجنرل ایوب خان کے وہ الفاظ ملتے ہیں، جس میں وہ خطے میں کرائے کا ایک دائمی کردار ادا کرنے کی ہامی بھرتے ہیں۔ امریکا کے مطالبات پاکستان میں عوامی جذبات کی مخالف لہر پر پورے کیے جاتے رہے۔ لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر جنرل ضیاء کے طیارہ حادثے تک بہت سے سربستہ راز امریکا کے خلاف عوامی حقارت پیدا کرتے ہیں۔ یہ حقارت کبھی موضوع نہیں بنائی گئی۔ بدعنوان اشرافیہ ، امریکا سے نفرت اور محلاتی سازشوں کی مثلث عوامی نفسیات میں ایک نقطۂ ارتکاز پیدا کرچکی ہے، جس پر آج تک کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ افسوس استعمار دشمنی میں زندگیاں کھپانے والے دانشور” مراسلے” پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ مگر نظرانداز کرتے ہیں کہ امریکا کی مداخلت اور سازشوں کی کہانی اتنی عریاں ہے کہ عوامی نفسیات میں ایسے کسی دعوے کے لیے ثبوت کی بھی ضرورت نہیں۔ عوامی نفسیات کی اس تہہ داری میں جھانکنے کی ضرورت ہے جو طاقت کے مراکز کو محلاتی سازشوں کا ذمہ دار ،سیاست دانوں کو اس کھیل کا آلۂ کار اور بدعنوانی کو اس کا ہتھیار سمجھتے ہیں۔ اس مثلث سے پیدا ہونے والی نفسیات کو عمران خان نے ایک بیانیہ دیا ہے جو اُن کی جذباتی ، نفسیاتی اور سیاسی تسکین کرتا ہے۔ کوئی اندازا ہی نہیں لگا رہا کہ یہ نفسیات اتنی راسخ ہو چکی ہے کہ اس کی تسلی کے لیے گالیاں بھی کفایت نہیں کررہیں۔ ایسا سیاست دان جو اس نفسیات کی مخالف سمت میں کھڑا ہے ، وہ عوامی سطح پر گالیوں کے طوفان میں رہتا ہے۔ ابھی عمران خان کی زبان کو ایک طرف رکھیں۔ عمران خان اُنہیں عوامی سطح پر یہ باور کرارہے ہیں کہ وہ کوئی غلام نہیں۔ یہ بیانیہ قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نفسیاتی سطح پر اس غلامی کی ذلت کو مسلسل محسوس کررہے ہیں او راس ذلت کے باعث طاقت کے مراکز اور روایتی سیاست دان ہیں۔ یہ دونوں قوتیں ہی غور کرنے کو تیار نہیں کہ عمران خان کے حق میں خلقت امڈ کیوں آئی ہیں؟
طاقت کے مراکز نے تیرہ جماعتی اتحاد کو حکومتی ایوانوں میں پہنچا کر نفسیاتی سطح پر عوام کی یہ تسلی کرائی کہ یہ سب ایک ہیں۔ دوسری طرف اکیلا عمران خان کھڑا نظر آیا۔ جسے اب تک تیرہ جماعتی اتحاد ”سلیکٹڈ” کا طعنہ دیتا آیا تھا۔ اب سلیکٹرز ، اُن کے لیے نیوٹرلز ہوگئے، جس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ وہ عمران خان کے مخالف اور اُن کے حامی ہیں۔عوامی نفسیات میں حالیہ کاریگری کی یہی تشریح ہے۔ اب اس پر جوابی وضاحتیں کوئی اثر نہیں دکھا رہیں۔ اس کا واحد مطلب یہ ہے کہ عوام محلاتی سازشوں کے لیے ان سیاسی قوتوں کو طاقت کے مراکز کے فطری حلیف کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس نفسیاتی اُتھل پتھل میں یہ زرداری کی ہی ”ذہانت” ہے کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن کو عوامی سطح پر اپنا دوست قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف طاقت کے مراکز ان قوتوں کے ساتھ منسلک بھی دکھائی دیتے ہیں۔ طاقت کے مراکز، بدعنوان اشرافیہ اور محلاتی سازشوں کے خوگر اس کھیل میں ایک صفحے پر جلوہ افروز ہو گئے ۔ چنانچہ یہ کھیل عوامی نفسیات میں عمران خان کے بیانئے کی بالواسطہ تصدیق بنتا جارہا ہے۔ جو بدترین ردِ عمل کی ایک ایسی تحریک پیدا کرسکتا ہے جس کے نتائج نہایت خطرناک ہو سکتے ہیں۔ تیمور کوئی مختلف نہیں تھا، بایزید بھی نہیں۔ ایک لنگڑا تھا، اور دوسرا ایک آنکھ سے اندھا۔ عمران خان کا نقص اُن کی زبان میں ہے، جس سے مریم نواز کے لیے وہ الفاظ نکلے ، کہ اگر ان الفاظ کو میٹھے سمندر میں تھوک دیا جاتا تو وہ بھی زہریلا ہو جاتا۔ مگر حادثاتی طور پر یہ زبان ایک ایسے موقع پر دراز ہے جہاں عوامی نفسیات میں ”مخالفین” کے خلاف تسکین اسی سے ہو رہی ہے۔ امیر تیمور کا جملہ تاریخ میں جگمگاتا رہے گا: اُس کارساز ِ بے ہمتا کی کارسازی دیکھو، جس نے اس دنیا کی حکومت کس کو دی؟ایک مجھ جیسے لنگڑے کو اور دوسرے تم جیسے اندھے کو ”۔ عمران خان کا نقص اُن کی زبان میں ہے، مگر پھر بھی اُس کارسازِ بے ہمتا کی کارسازی دیکھو، اُس کے حق میں ایک خلقت اُمڈ آئی ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر