وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت میں پاکستانی ہندوبرادی کی حالتِ زار؟

پیر 16 مئی 2022 بھارت میں پاکستانی ہندوبرادی کی حالتِ زار؟

 

سندھ میں بسنے والی اقلیتی ہندو آبادی کو صوبہ بھرکی اکثریتی مسلمان آباد ی کی جانب سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک وقتاً فوقتاً بہت سے انتظامی مسائل ، سیاسی تنازعات اور معاشرتی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے ۔ یقینا اِن میں سے بے شمار مسائل تو واقعی حقیقی اور ایسے سنگین نوعیت کے تھے جو سندھ حکومت کی فوری توجہ اور حل کے متقاضی تھے لیکن سندھ میں بننے والی کسی بھی جمہوری یا غیر جمہوری حکومت نے اُنہیں حل کرنے کی کبھی کوئی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔ مگر دوسری جانب اقلیتی ہندو براداری کے بعض حلقوں کی جانب سے اکثریتی مسلمان آبادی پر عائد کیے جانے بہت سے الزامات بالکل لغو اور افسانہ تراشی کے ذیل میں بھی آتے تھے ۔ مثال کے طور پر چند برس قبل پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ پروپیگنڈا مہم چلائی گئی تھی کہ چونکہ صوبہ سندھ میں اقلیتی ہندو آباد ی کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے ، اس لیے ہندو برادری کواپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے تحفظ کے لیے بھارت چلے جانا چاہیے۔بدقسمتی سے بعض حلقوں کی جانب سے یہ زہریلا پروپیگنڈا مہم اس قدر منظم اور بھرپور انداز میں چلائی گئی تھی کہ کئی ہندو خاندان اِس مہم سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور وہ واقعی اپنے گھروالوں کے ہمراہ سنہرے مستقبل کی تلاش میں سندھ سے، بھارت ہجرت کرگئے۔ کیا پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندو گھرانوں کے دیرینہ مسائل حل ہوگئے اوراُنہوں نے بھارت میں اپنے تمام خوابوں کی من چاہی تعبیر حاصل کرلی تھی ؟۔اس طرح کے بے شمار سوالات ایسے تھے جن کے تسلی بخش جوابات، ایک مدت سے پاکستانیوں کودرکار تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں ہفتے معروف بھارتی انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان سے بھارت کی شہریت حاصل کرنے کے مقصد سے ریاست راجستھان میں آباد ہونے والے تقریباً 800 سے زائدپاکستانی ہندو 2021 میں واپس پاکستان چلے گئے ہیں اور مزید ایسے ہزاروں پاکستانی ہندو خاندان، بھی چور راستوں کی تلاش میں ہیں ،جنہیں وہ اختیار کرکے چھپ چھپا کر واپس پاکستان پہنچ سکیں۔واضح رہے کہ بھارت میں پاکستانی ہندو تارکینِ وطن کے لیے کام کرنے والی تنظیم فرنٹیئر لوک سنگٹھن (ایس ایل ایس) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اپنی مرضی سے پاکستانی شہریت ترک کرنے والے افرادنے اپنی بھارتی شہریت کی درخواست کے عمل میں کوئی پیش رفت نہ ہونے کے بعد ان میں سے بہت سے مہاجر ہندو پاکستان واپس چلے گئے۔ جبکہ راجستھان کے محکمہ داخلہ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق راجستھان میں پاکستان سے ہجرت کر کے آنے والوں کی تعداد 22146 ہے۔ صرف ایک جودھپور شہر میں پاکستان سے آئے ہوئے 8043 ہندو افراد بھارت کی شہریت کی درخواست کے اہل ہیں لیکن اُنہیں بھارتی شہریت نہیں فراہم کی جارہی ہے ۔
یاد رہے کہ 2015 میں بھارت کے وزارت داخلہ نے شہریت کے قوانین میں تبدیلیاں کیں اور دسمبر 2014 یا اس سے پہلے مبینہ مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے بھارت آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے امیگریشن کو قانونی شکل دے دی تھی اور ایسے تمام لوگوں کو جو بھارت کے پڑوسی ممالک کی شہریت ترک کر کے بھارت کی شہریت اختیار کرنا چاہتے ہوں کو پاسپورٹ ایکٹ اور فارنرز ایکٹ کی دفعات سے استثنیٰ دیا گیا تھا۔نیز2011 میں کانگریس کی قیادت میں اُتر پردیش کی حکومت نے پاکستان میں مبینہ مذہبی امتیازی رویے کی وجہ سے بھارت آنے والے سینکڑوں ہندوؤں اور سکھوں کو لانگ ٹرم ویزہ یا ایل ٹی وی دینے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔ اسی قانونی سہولت کا فائدہ اُٹھا کر پاکستان سے تیرتھ یاترا کے ویزے پر جانے والے بہت سے ہندو خاندانوں نے اپنے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھارت میں مقیم ہوگئے تھے کہ اُنہیں بھارت کی شہریت مل جائے گی۔بھارتی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2011 سے 2014 کے درمیان 14,726 پاکستانی ہندوؤں کو لانگ ٹرم ویزہ دیا گیاتھا۔واضح رہے کہ بھارت میں پناہ کے متلاشی افراد کو یا تو لانگ ٹرم ویزہ یا ٹریولر ویزہ جاری کیے جاتے ہیں ۔لانگ ٹرم ویزہ پانچ سال کے لیے دیئے جاتے ہیں اور یہ شہریت حاصل کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتاہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستانی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا سیاسی لالچ اور قانونی ترغیب دینے کے بعد بھی اُنہیں بھارتی شہریت مہیا کرنے میں انتظامی لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے اور بھارت بھر میں پاکستانی شہریت ترک کرکے جانے والے افراد کو ابھی تک ’’پاکستانی ‘‘ کہہ کر ہی پکارا جاتاہے۔ دراصل پاکستان کی اقلیتی آباد ی کو بھارتی سرکار کی جانب سے اِس لیے پاکستانی شہریت ترک کرنے کی ترغیب دی گئی تھی کہ مودی سرکار دنیا بھر میں پاکستان کو اقلیتوں کے لیے ایک خطرناک ملک ثابت کرناچاہتی تھی اور جب مودی سرکار کا مقصد پورا ہوگیا تو انہوں نے صوبہ سندھ سے ہجرت کرکے بھارت جانے والے ہندوؤں کو بھارتی شہریت دینے سے انکار کردیا۔ یعنی بھارت کا مقصد سندھ میں ہزار سال سے بسنے والے ہندو خاندانوں کوبھارتی شہریت دینا کاکبھی بھی نہیں تھابلکہ مودی سرکار تو انہیں پاکستان کی ریاست کے خلاف منفی پروپیگنڈا کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتی تھی۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی تارکین وطن گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے دھکے کھارہے ہیں اور کیمپوں میں اذیت ناک زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔
بدقسمی کی بات تو یہ ہے کہ اَب تو انتہاپسند مودی سرکار نے پاکستان سے نقل مکانی کرکے بھارت جانے والوں افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر 9 اگست 2020 کو بھارت کی ریاست راجستھان کے ضلع جودھ پور میں 11 پاکستانی ہندو پراسرار طور پر ہلاک ہو گئے تھے۔ جن کے ہلاکت کا تاحال سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے۔یہ متاثرہ ہندو خاندان پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے شہداد پور کا رہنے والاتھا۔ اس خاندان نے 2015 میں بھارت کی جانب ہجرت کی تھی۔خیال رہے کہ بھارت کی پولیس نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ یہ واقعہ اجتماعی خودکشی کا ہو سکتا ہے۔ تاہم سندھ میں بسنے والی اقلیتی ہندو برادری نے الزام لگایا تھا کہ بھارت میں ہلاک ہونے والے گیارہ افراد کو بھارتی خفیہ اداروں نے زہر دے کر قتل کیا ہے جبکہ ہلاک ہونے والے افراد میں شامل ایک شخص کی بیٹی شری متی مکھی نے بھی الزام لگایا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ نے ان کے خاندان کو پاکستان مخالف ایجنٹ بننے کا کہا تھا لیکن انکار پر انہیں قتل کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر