وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھروسے میں کمی

بدھ 23 مارچ 2022 بھروسے میں کمی

روس کا یوکرین پرحملہ فوجی طاقت کا مظاہرہ ہے جنگ کہیں بھی ہو اچھی نہیں ہوتی کیونکہ یہ انسانی ،معاشی اور تجارتی نقصان کا باعث بنتی ہے یوکرین جو رقبے کے لحاظ سے یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے کو جنگ میںشکست فاش کا سامنا ہے حیران کُن بات یہ ہے کہ یوکرین جس نے امریکا اور مغربی ممالک کے فوجی اتحاد نیٹو کی شہ پر روس کو آنکھیں دکھائیں مگر حملے کے دوران کسی نے اُس کی مدد نہیں کی ترکی اور چین کی طرف سے بھی جنگ بندی کے صرف مطالبات سامنے آئے ہیںخطے کے حالات پر نظر رکھنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اہم مسائل پر روس اور یوکرین معاہدے کے قریب آچکے ہیں کچھ مزید پیش رفت کی صورت میں جنگ بندی کا امکان ہے لیکن مکمل امن کے لیے وثوق سے کوئی بھی کچھ کہہ نہیں سکتا اگر نیٹو رُکنیت کے متعلق روس کو یوکرین یقین دہانی نہیں کراتا توبدترین شکست یقینی ہے اچھی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں مزاکرات جاری ہیں بات چیت سے تصفیہ طلب مسائل حل ہو سکتے ہیں سلامتی کو درپیش چیلنج کے دوران مدد نہ کرنے پر امریکا پر بھروسہ کرنے والوں میں مزید کمی آسکتی ہے کیونکہ طاقت کے مظاہرے اور شکست کی رسوائی کے اثرات خطے تک محدود نہیں اور ایسا تصور کرنا حقائق سے چشم پوشی کے مترداف ہے بھلے جنگ یوکرین میں ہورہی ہے لیکن اِس کے اثرات ساری دنیا پر مرتب ہونے سے کمزور ہوتی امریکی گرفت کا پردہ چاک ہواہے اب تک دنیا بھر میں امریکا نے فوجی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا کئی ملک تاراج کیے لیکن تین دہائیوں تک دنیا کی واحد عالمی طاقت کا اعزاز رکھنے والے کی اب قوت کم ہورہی اور چین و روس کی صورت میں نئے چیلنج درپیش ہیں نیز کئی ایک غلط فیصلوں سے قریبی دوست ممالک فاصلہ رکھنے لگے ہیں مشرقِ وسطٰی اور جنوبی ایشیا میں خاص طور پرامریکا کو درپیش ناگوار صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں رہی۔
چین نے روس اور یوکرین جنگ کی اگر حمایت نہیں کی توواضح مخالفت سے بھی گریز کیا ہے اُس کی پالیسی خاصی محتاط ہے وجہ امریکا سے مخاصمت ہے وہ روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی مخالفت کر تے ہوئے کہتا ہے کہ پابندیاں مسائل کا حل نہیں بلکہ اشتعال انگیزی کا باعث بن رہی ہیں چین کے علاوہ بھی کئی ممالک ایسے ہی موقف کا ظہار کرتے ہیں جنوبی ایشیا میں چین سے مقابلے کا دعویدار بھارت بھی کم و بیش ایسا ہی موقف رکھتا ہے امریکا سے کواڈ جیسے معاہدوں کی صورت میں اتحادی ہونے کے باوجودعالمی پابندیوں کوبالائے طاق رکھتے ہوئے روس سے کم نرخوں پر تیل کی خریداری میں عارتصورنہیں کرتاآج بھی اُسے روسی اسلحے کے سب سے بڑے خریدار ہونے کا اعزاز حاصل ہے نئے قریبی اتحادی امریکا کے سخت اعتراض اور ناپسندیدگی کے باوجود روس سے جدید ترین میزائل سسٹم خرید چکاہے یہ امریکا پر بھروسے کی کمی کی نشانی ہے اب زہنوں میں یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ دنیا کی واحد عالمی طاقت ہونے کا عرصہ ختم ہو چکا اور ترقی پذیر ممالک کا امریکا کی بجائے دیگر ممالک پر بھروسہ بڑھنے لگا ہے۔
رواں برس ماہ فروری میں جب عمران خان کے روسی دورے کو حتمی شکل دی جارہی تھی تو امریکا نے سفارتی ذرائع سے باز رہنے کا پیغام دیا دہشت گردی کی جنگ کے دوران کیونکہ پاکستان فرنٹ لائن اتحادی رہاہے اسی بنا پر کچھ حلقوں کا خیال تھا کہ شاید پاکستان ایسا دبائو برداشت نہ کر سکے اور وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کی طرح موجودہ وزیرِ اعظم بھی دورے سے معذرت کرلیں معاشی ابتری اور فوجی سازوسامان کی ضرورت اِس خیال کی اہم وجہ تھی مگر حیرت کا جھٹکا لگاتے ہوئے عمران خان ایسے حالات میں بھی ماسکو پہنچ گئے جب روس یوکرین جنگ کے بادل گہرے ہورہے تھے امریکی پالیسی سازوں کو سوچنا چاہیے کہ انھوں نے کہا ں کیا غلطیاں کیں کہ نہ صرف دنیا کی اُبھرتی معاشی و دفاعی طاقت چین نہ صرف روس کے ساتھ ہے بلکہ جنوبی ایشیا کے دونوں متحارب ملک پاکستان اور بھارت کا جھکائو بھی روس کی جانب ہے جنوبی ایشیا میں ایسے حالات کیوں بنے جس سے ناپسندیدہ صورتحال بنی سوچنا امریکا کو جائزہ لینا چاہیے ماضی میںاگر بھارت روس کا اتحادی رہا تو پاکستان نے امریکا کا ساتھی بننے میں عافیت جانی لیکن اب جنوبی ایشیا کے دونوںحریف ممالک تاریخ میں پہلی بارنہ صرف روس سے اشتراک جاری رکھنے پر متفق ہیں اِس سے بلکہ سابقہ اور موجودہ اتحادی کا امریکا پر بھروسہ متزلزل ہے۔
مشرقِ وسطٰی میں امریکی رسوخ کو زوال ہے ترکی میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی سفارتخانے میں ہلاکت کو ایشو بنا کر جو بائیڈن انتظامیہ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان کو دبائو میں لانے کی کوشش کی تاکہ دنیا کو پیغام ملے کہ نئی امریکی انتظامیہ انسانی حقوق پر سودے بازی کرنے کی بجائے یقینی بنانے میں یکسو ہے لیکن ناقص حکمتِ عملی کی وجہ سے مشرقِ وسطٰی کااہم اتحادی سعودی عرب نہ صرف امریکا سے دور اور چین کے قریب ہونے لگا ہے بلکہ محمد بن سلیمان کی طرف سے ٹیلی فون کال نہ سُننے کی وجہ سے دیگر کئی ملکوں کی امریکا پر انحصار کم یا ختم کرنے کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے مشرقِ وسطٰی میں رسوخ کا خاتمہ امریکا کے لیے ایسا دھچکا ہے جس کے معاشی ودفاعی اثرات امریکی معیشت کی حالت مزید پتلی کر سکتے ہیں کیونکہ پہلی بار سعودی عرب کی چین کوتیل کی ترسیل کے لیے چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی کے ایک معاہدے کے قریب ہیں حالانکہ 1974 سے سعودیہ ڈالر میں تیل کی تجارت کے عہد پر کاربند ہے اسی عہدکے عوض امریکا نے سعودیہ کو دفاع کی ضمانت دے رکھی تھی مگر پانچ دہائیوں کے لگ بھگ اپنے عہد پر قائم اب سعودیہ اپنے عہد سے منحرف ہورہاہے اور ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تیل کی ترسیل پر آمادہ ہے بلکہ امریکا پر بھروسہ نہ ہونے کی بناپر دفاعی انحصار ختم کرتے ہوئے چین وروس کے قریب آنے لگا ہے۔
دس سالہ خانہ جنگی کے بعد شامی صدر بشار الاسد کا متحدہ عرب امارت کے دورے پرآنے سے امریکی انتظامیہ خفا ہے مگرلگتا ہے یو اے ای کو خفگی کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ اُسے نے جان بوجھ کرایسا کیاہے بشار الاسد نے دبئی کے حکمران محمد بن راشد المکتوم اورولی عہد ابوظہبی محمد بن زائد النہیان سمیت کئی اعلٰی حکام سے ملاقاتوں کے دوران دوطرفہ تعلقات بہتر بنانے کے امکانات کا جائزہ لیا ہے جس پر امریکی وزراتِ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی طرف سے ملاقات کوصدر اسد کی دوبارہ قانونی حیثیت بحال کرنے کی کوشش کہہ کر حمایت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ تعلقات معمول پر لانے کی ایسی کوششیں پسند نہیں حالانکہ اسرائیلی عہدیداروں کی آمد ورفت کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی گئی اسی وجہ سے عرب ممالک نے دیرینہ دشمن اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی ہے سعودیہ نے بھی اسرائیل کے لیے فضائی سہولتیں بحال کر دی ہیں ایف 35کے حصول میں رکاوٹوں سے یو اے ای اور حوثیوں کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے پر سعودیہ ناخوش ہیں حالانکہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی شہری آبادیوں، آئل فیلڈز ، ہوائی اڈوں،پاور پلانٹس اور،گیس اسٹیشنوں کو حوثیوں کی طرف سے ڈرون اور میزائلوں حملوںسے نشانہ بنایا جارہا ہے جن کے دوران انسانی جانوں ،ہوائی جہازوں ،گاڑیوںاور مکانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے مگر امریکا مداخلت سے گریز کررہا ہے اسی پالیسی نے سعودیہ کو امریکا سے دور کیا ہے نیٹو کا رُکن ترکی بھی روس کی طرف مائل جبکہ ایران تو کھلم کھلا روس کا پشتبان ہے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطٰی کے اہم ممالک کی طرف سے دفاعی تعاون کی راہیں جداکرنے اور چین و روس کے ساتھ کاروباری معاملات کو حتمی شکل دینا ثابت کرتا ہے کہ دنیا کی واحد عالمی طاقت کا عالمی کردار اب زوال ہے اور اُن کا امریکا پر بھروسہ کم ہوتے ہوتے اب ختم ہونے کے قریب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر