وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’ال۔ایکشن‘‘

بدھ 16 مارچ 2022 ’’ال۔ایکشن‘‘

دوستو،برقی اور ورقی یعنی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ان دنوں صرف اور صرف تحریک عدم اعتماد کا چرچا ہے۔۔ ملک دو حصوں میں بٹا ہوا لگ رہا ہے، ایک حصہ سمجھتا ہے کہ ملک میں کپتان کی تبدیلی ناگزیر ہوچکی ہے، دوسرا حصہ کہتا ہے، سارے کرپٹ ایک ایماندار لیڈر کو ہٹانے کے لیے اکٹھے ہوگئے ہیں۔۔ باباجی الگ ہی کہانی سناتے ہیں۔۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۔۔ اپوزیشن کی بھاگ دوڑ کا ’’ککھ‘‘ کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا، کپتان سے کچھ باتیں منوانی ہیں ، کپتان اگر مان جاتا ہے تو پیالی میں اٹھنے والا طوفان ازخود بیٹھ جائے گا۔۔ کپتان اگر نہ مانا تو پھر بھی شرائط کچھ نرم کرکے کپتان کو منانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔۔ باباجی نے اپنی اس تھیوری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے یہ موقف بھی اختیارکیا کہ۔۔ مان لیتے ہیں اپوزیشن ٹھیک کہتی ہے کہ کپتان نے ساڑھے تین سال میں نااہلی کا مظاہرہ کیا، کچھ بھی پرفارمنس نہیں دکھائی، عوام کو ڈلیور نہ کرسکا، لیکن اب جب کہ اس کا یہ آخری سال ہے، اگر کپتان کو حکومت سے نکال باہر کیا جاتا ہے تو وہ سیاسی شہید بن جائے گا، اگلے الیکشن میں وہ مزید طاقت کے ساتھ واپس آجائے گا۔۔اس لیے اپوزیشن کے لیے مفت مشورہ ہے کہ جس طرح وہ دوہزار اٹھارہ سے اب تک کپتان کو برداشت کرتے چلے آئے ہیں ایک سال اور کرلیں، کپتان کی پچھلی پرفارمنس سے لگتا ہے کہ وہ رواں سال بھی کچھ نہیں کرسکے گا، اس لیے اگلے الیکشن میں اس کا کوئی چانس نہیں بن سکے گا۔۔
ہمارے ملک کا بھی عجیب ہی حال ہے۔۔ سردیاں ہوں تو گیس کی قلت ہوجاتی ہے۔۔ابھی کراچی میں گرمیوں کا آغاز بھی ٹھیک سے نہیں ہوا، بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔۔اس بار تو سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ دیکھنے میں آئی، جب پوچھا کہ ایساکیوں ہے؟ تو جواب ملا۔۔دھند کے باعث بجلی کو صارفین تک پہنچنے کا راستہ نہیں مل رہا جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔۔لوڈشیڈنگ کے ستائے ہمارے ایک دوست نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت لوڈشیڈنگ ختم نہیں کرسکتی تو کم سے کم ڈبل روٹی کا پہلا پیس ہی ختم کرادے عوام کو اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ویسے یہ بھی اپنی جگہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس ملک میں کرنسی نوٹ کی اصلیت جانچنے کے لیے اسے تھوک لگا کر انگلیوں سے مسلا جاتا ہو ، وہاں اچھا رشتہ ڈھونڈنا کسی عذاب سے کم نہیں۔ایک شخص نے کسی بزرگ سے پوچھا،حضرت جی! کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ اپنی ہر خامی کے بارے میں جان سکوں تاکہ اس کی اصلاح ہوسکے۔ بزرگ بولے ایسا کرو کہ اپنی بیوی کے پاس جاؤ اس کی ایک خامی بتاؤ، وہ تمہاری ساری خامیاں بمع تمہارے خاندان کے بتادے گی۔۔سیاست میں صرف ہمارا ہی بیڑا غرق نہیں۔۔ پڑوسی ملک بھارت کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے، جہاں واش روم کلچر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی آدھی سے زیادہ آبادی ہر صبح سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے لیے کھیتوں کا رخ کرتی ہے۔۔دوست ملک سعودی عرب کی بات کریں تو سعودیہ نے پہلے تیل دیکھا تھا،اب تیل کی دھار دیکھ رہے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست اپنی تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔۔ معلوم ہوتا ہے کہ سعودی شاہی خاندان میں اب صرف سلیم شاہی اور بالوشاہی ہی بچیں گے۔۔
کہتے ہیں کہ ۔۔مداری کے پاس کئی بندر ہوتے ہیں لیکن اس کا فیوریٹ وہی بندر ہوتا ہے جو ڈگڈگی پر اچھا ناچے، (یہ قطعی غیرسیاسی جملہ ہے اسے حالات حاضرہ سے قطعی نہ جوڑا جائے)۔۔خاوند جب بیرون ملک سے لوٹا توبیگم سے کہا، تمہارے لیے افریقہ سے بندرلایا تھا مگر وہ راستے میں ہی چھوٹ کر بھاگ گیا، بیوی نے بڑی معصومیت سے کہا، کوئی بات نہیں سرتاج، وہ نہ سہی آپ تو آگئے ناں۔۔کسی زمانے میں ایک بار جنگل میں الیکشن ہوئے،بندروں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے بندر بادشاہ بن گیا۔۔ شیر کو اپنی ہار پر بہت افسوس ہوا، ایک دن اس نے راہ چلتے ہرنی کا بچہ پکڑ لیا، ہرنی دوڑی دوڑی بادشاہ (بندر) کے دربار میں پہنچی اور فریاد کی کہ شیر نے میرا بچہ پکڑ لیا ہے، بادشاہ سلامت انصاف کیجئے اور اسے چھڑائیے۔ بندر نے کہا ،تم فکر ہی نہ کرو ابھی چھڑا دیتا ہوں، یوں بندر نے اپنی دوڑیں لگا دیں، شیر کے پاس جانے یا کوئی مناسب حکم نامہ جاری کرنے کی بجائے، بڑی تیزی سے ایک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے ہوئے پورے جنگل کا چکر لگایا پھر تھک ہار کر ہرنی کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، دیکھو میں نے تو بہت بھاگ دوڑ کی،اب بھی اگر شیر تمہارا بچہ نہ چھوڑے تو بھلا میں کیا کر سکتا ہوں، شیر یقیناً دہشت گرد ہے۔ پھر بادشاہ بندر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام دہشت گرد شیر کا کیا دھرا ہے، جو میری حکومت گرانا چاہتا ہے۔ میں نے بہت دوڑ لگائی جو آپ کے سامنے ہے۔ اب ہم نے بندروں کی کمیٹی بنا دی ہے اور مجرموں کو جلد ہی کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔۔۔ اسی کہانی کو حالات حاضرہ پر فٹ کریں تو ہمارا حال بھی بندروں سے کم نہیں، جس سمت میں دوڑ لگانی چاہئے اس طرف ذرہ برابر بھی نہیں جاتے بلکہ بندر کی طرح فضول دوڑ لگاتے ہوئے ڈبل سواری پر پابندی اور انٹرنیٹ، موبائل نیٹ ورک بند کر دیتے ہیں۔۔ایک بار سیاستدانوں کی بھری بس کہیںجا رہی تھی۔ حادثہ ہوا اور بس الٹ گئی۔ ایک کسان پاس ہی تھا۔ وہ فوراً ٹریکٹر لے آیا اور گڑھا کھود کر سارے بندے بمع بس کے دفن کر دیئے۔۔اگلے دن پولیس تحقیقات کرتی آئی تو کسان نے انہیں ساری تفصیل بتائی۔ پولیس نے پوچھا کہ کیا تم نے جائزہ لیا تھا کہ وہ سارے مر چکے تھے یا ان میں سے کوئی زندہ بھی تھا۔۔کسان بولا کہ آدھی سے زیادہ بس والے کہہ رہے تھے کہ وہ زندہ ہیں۔ پر سر آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سیاست دان کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔۔؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جدید دور کے لوگ اپنے موبائل فون میں قید ہیں۔۔جب ہی تو وہ اسے ’’سیل فون‘‘ کہتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ وجود جمعرات 09 مئی 2024
بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر