وجود

... loading ...

وجود
وجود

اقتدار سے نکلنے پر خطرناک ہونے کا دعویٰ

بدھ 26 جنوری 2022 اقتدار سے نکلنے پر خطرناک ہونے کا دعویٰ

اتوار کو آپ کا وزیرِ اعظم آپ کے ساتھ میں عوام کے سوالوں کا براہ راست جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کئی ایسی باتیں کی ہیں جن سے ایسی افواہوں کو تقویت ملی ہے کہ اپوزیشن کی بے دلی سے چلائی جانے والی تبدیلی کی تحریک اور عدمِ اعتماد جیسی آئینی راہ پر نہ چلنے کے باوجود کہیں تبدیلی کے نُکتے پر کام ہو رہا ہے اسی لیے وزیرِ اعظم کو کہنا پڑا ہے کہ اقتدار سے نکلا تو ذیادہ خطرناک ہوں گاحالانکہ اپوزیشن کی طرف سے کسی بڑی تحریک کی تیاری پر کام نہیں ہو رہا نہ ہی اِن ہائوس تبدیلی میں سنجیدہ ہے پھربھی وزیرِ اعظم کن اندیشوں و خدشات سے پریشان ہیں کہ اُنھیں اقتدار سے نکالنے پر خطرناک ہونے کی دھمکی دینے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے ظاہر ہے اُن کے پاس ایسی کچھ اطلاعات ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے اقتدار کو خطرہ محسوس کر رہے ہیں وگرنہ ایسا دھمکی آمیز لہجہ کیوں اختیار کرتے؟البتہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ اقتدار سے نکالنے کا طریقہ کار کیا ہوگا اِس کی کسی کوسمجھ نہیں آرہی کیونکہ اپوزیشن تمام ترکوشش کے باوجود حکومت تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اب بھی زوردار تحریک کی بجائے محض وقت گزاررہی ہے اور عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بھی دور دور تک آثار نہیں آجا کر ایک ہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے کہ عمران خان خود اسمبلیاں توڑنے کا انتہائی فیصلہ کرگزریں بظاہر تبدیلی کاکوئی راستہ سمجھ میں نہیں آتا۔
الیکشن کمیشن میں بیرونی عطیات کے حوالے سے جاری کیس جوں جوں انجام کی طرف بڑھ رہا ہے قانونی موشگافیوں سے آشنا ماہرین کہتے ہیں کہ دانستہ طور پر معلومات چھپانے اور غیر قانونی زرائع سے عطیات لینے کی بنا پر عمران خان کی نااہلی سمیت پوری تحریکِ انصاف کے کالعدم ہونے کا خطرہ ہے حالانکہ حکمران جماعت نے انکوائری کمیٹی کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کے کچھ نکات الیکشن کمیشن سے صیغہ راز میں رکھنے کی التجا کی تھی جسے الیکشن کمیشن کی طرف سے مسترد کر دیا گیا اسی لیے حکومتی حلقوں کو خدشہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی دلیری کے پسِ پردہ کچھ ہو سکتا ہے کیونکہ انصاف ہونے کی صورت میںالیکشن کمیشن کا ایک فیصلہ ہی نہ صرف پوری حکومت کو رخصت کر نے کے ساتھ حکمران جماعت کا نام بھی سیاسی افق سے مٹ سکتا ہے مگر اقتدار سے نکلنے پر خطرناک ہونے کی دھمکی الیکشن کمیشن کے حوالے سے دیکھنا قطعی غلط ہے ایسا لگتا ہے عمران خان کو دیگر اطراف سے بھی خطرات محسوس ہورہے ہیں اسی لیے وہ خطرناک ہونے کا انتباہ دینے کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیںمگر انھیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے دھمکانے یا الزام تراشی کرنے سے کسی کو اچھا پیغام نہیں ملتا بلکہ لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملتا ہے،
عمران خان کو الیکشن کمیشن کے علاوہ جو خطرہ ہے وہ نواز شریف کی ملک میںآمد اور متوقع تحریک ہے اسی لیے پیش بندی کے طور پر کبھی میڈیکل رپورٹس چیک کرانے کی باتیں کی جاتی ہیں اور کبھی شہباز شریف کو دھمکایا جاتا ہے تاکہ وہ خاموش ر ہیں حالانکہ فوری طور پر نواز شریف کی آمد کا مکان کم ہے البتہ برطانیا مزید رہنے کی اجازت نہیں دیتا اور پاسپورٹ کی تجدید بھی نہیں ہوتی تو برطانیا سے نکلنے کے سوا چارہ نہیں اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تواُن کی پاکستان واپس آنے کے سوا کہیں جانے کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں ایسا ہونے کی صورت میں عوام کے نکلنے کا امکان موجود ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتی سطح پر خوف محسوس کیا جارہا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ایک تو نواز شریف وطن نہ آئیں دوم شہباز شریف کسی قسم کی تحریک چلانے سے باز رہیں لیکن ایسا کہنے کی بجائے بلیک میلنگ کے حالات بناکر کام نکالنے کی کوشش ہے مگر مشیرِ احتساب شہزاد اکبر کے مستعفی ہونے سے اب بلیک میلنگ کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے اسی لے اقتدار سے نکلنے پر خطرناک ہونے کا دعویٰ کرنے کی نوبت آئی ہے جو حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فضول مشق لگتی ہے۔
خطرناک ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسلام آباد کے دھرنے کے آخری ایام میں جب طاہر القادری الگ ہوئے تو لوگوں کی حاضری نہ ہونے کے برابررہ گئی تھی اور دھرناصرف شام کو چند لوگوں کی طرف سے عمران خان کی تقریر سُننے تک محدود رہ گیاتھا شام کی تقریر سُننے بھی اِ س لیے لوگ آجاتے تھے کیونکہ ناچ گانے جیسے تفریح کے مواقع ملتے تھے پھر اے پی ایس کا واقعہ ہونے سے عمران خان کو باعزت نکلنے کی سہولت ملی اب جب اقتدار سے نکل کر خطرناک ہونے کی دھمکی دی جاتی ہے تو اِس دھمکی پر کوئی بھی فہمیدہ شخص یقین کرنے کو اِس لیے تیار نہیں کہ اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے جو کوئی تیر نہیں چلا سکے اقتدار میں ہوکر وعدے پورے نہیں کر سکے اب اقتدار سے نکل کر کونسا معرکہ سر کرسکتے ہیں لیکن دھمکیاں دینے سے ایک بات بحرحل طے ہو گئی ہے کہ حکومت شدید دبائو میں ہے اسی لیے بوکھلاہٹ میں اُلٹے سیدھے بیان دیے جا رہے ہیں لیکن بڑھکیں لگاتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جنھیں پیغام دیا جارہا ہے اُنھیں ایسا نہ بھی پیغام دیا جائے تو وہ نجی محفلوں میں ہونے والی باتوں سے بھی بہت کچھ سمجھ جاتے ہیں ۔
بات یہ ہے کہ حکمران اپنے دعوئوں کو پورا کرنے میں ہنوز ناکام ہیں احتساب کا عمل مخالف سیاستدانوں کو لگام دینے تک محدود ہو چکا ہے حالانکہ اگر مقدمات بنانے سے قبل تحقیقات میں پر دھیان دیا جاتا اور گرفتاری سے قبل شواہد اکٹھے کر لیے جاتے تو احتساب کا عمل یوں بے توقیر نہ ہوتا اور نہ ہی اپوزیشن رہنمائوں کو نیب پر تنقید کے نشتر چلانے کے مواقع ملتے اب عمران خان چاہے اقتدار سے نکل کر خطرناک ہونے کے لاکھ دعوے کریں مگر جب ایوان میں بولنے کا موقع نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہیں تو لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ حکمران ناکام ہو چکے ہیں زرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں جو حکومت میں ہوتے ہوئے تمام تر اختیارات کے باوجود ناکام رہیں وہ اقتدار سے نکل کر کیاکسی قسم کی خطرناکی دکھا سکتے ہیں؟ بظاہر یہ کوئی اچھی مثال نہیں مگراِس سے حالات کی بہترین تصویر کشی ہو سکتی ہے ایک سانپ میں اگر زہر نہ رہے تو محض کیچوا رہ جاتا ہے زہر سے محرومی کے بعد وہ کسی کو نقصان پہنچانے کے قابل نہیں رہتا آپ کیا فرماتے ہیں بیچ اِس مسئلہ کے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر