وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان میں نئی سیاسی بساط

جمعه 21 جنوری 2022 بلوچستان میں نئی سیاسی بساط

بلوچستان کی سیاست میں نئی بساط کے خدو خال ظاہر ہونا شروع ہوگئے ۔ جمعیت علماء اسلام میں چند سابق و موجودہ پارلیمنٹرین داخل ہوں گے۔ چند پیپلز پارٹی کے ساتھ مراسم قائم کرنے کے مراحل میں ہیں۔ ازیں پیش سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور سابق وفاقی وزیر و سابق گورنر جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ ،سابق صوبائی وزراء نواب محمد خان شاہوانی ، آغا عرفان کریم پیپلز پارٹی سے نبھا کرچکے ہیں۔ نواب زہری 2018ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ جنرل عبدالقادر قومی اسمبلی کی نشست پر جیتے تھے ۔ نواب زہری بعدازاں عبدالقادر پارٹی کے صوبائی صدر بنے۔ جنرل عبدالقادر کے پاس وفاقی وزارت تھی۔ نواب زہری اس وابستگی کی طفیل صوبے کے وزیراعلیٰ بنے۔ نواب محمد خان شاہوانی2013ء کے عام انتخابات میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔اس اسمبلی میں وزیر تھے۔ آغا عرفان کریم2008ء کے عام انتخابات میں آزاد حیثیت سے جیت کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے۔آغا عرفان کریم نواب اسلم رئیسانی کی کابینہ میں شامل تھے ۔ امروز صوبے میں بلوچستان عوامی پارٹی( باپ ) مخلوط حکومت بنا بیٹھی ہے۔ اس جماعت کے مستقبل کی بقاء البتہ سوالیہ نشان ہے۔ ملک میں رائج اس جمہوری نظام کے ماحول میں اصول و اخلاقیات، وفاداریاں ناپید ہیں۔سارا کھیل شخصی گروہی و جماعتی برتری و مفادات کے گرد ہے۔اسی کے تحت سیاسی ترجیحات طے کی جاتی ہیں۔ 12اکتوبر1999کو اقتدار پر قبضہ کے بعد احتساب اور شفافیت اور پائیدار جمہوری نظام کا نعرہ لگایا۔ جنرل پرویز مشرف سیاہ و سفید کے مالک بنے ۔ ملک کے صدر اور افواج پاکستان کے سربراہ کے بیک وقت عہدے رکھیں۔ جس کے لیے قانون بھی پاس کیا گیا۔ اقتدار کو دوام اور آئینی تحفظ کی خاطر مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے جماعت قائم کرلی۔ وہیں لوگ وابستہ ہوئے جو کل تک مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کے اندر جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا دم بھرتے تھے۔ بلوچستان کے اندر اس سوچ و ترجیحات کے لوگ لپک لپک کر آمریت کی چھتری کے نیچے جمع ہوتے گئے۔
30اپریل2002ء کو رچائے جانے والے ریفرنڈم کے ڈھونگ کے ذریعے پرویز مشرف پانچ سال کے لیے باوردی صدر بنے ، پشت پر یہی لوگ تھے ۔پیپلز پارٹی شیرپائو ،تحریک انصاف وغیرہ نے بھی ساتھ دیا ۔اکتوبر2002ء کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ قائداعظم کو برتری حاصل ہوئی ۔ چناں چہ جمعیت علماء اسلام کی شمولیت سے مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ پارٹی کے صوبائی صدر جام محمد یوسف وزیراعلیٰ بن گئے۔ سندھ اور پنجاب بھی آمر کی جماعت کے قلمرو میں تھا۔ یہ مضبوط سہارا تھا ،جس کے دم خم سے پرویز مشرف سرو انچا کرکے حکومت کرتے رہیں۔ ان قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے ان پر اعتماد کا اظہار ہوا۔ پرویز مشرف نے صدراور آرمی چیف کا عہدہ رکھنے کو ملک کا مفاد بتایا ۔رفتہ رفتہ اقتدار کی باگیں ڈھیلی ہوتی گئیں۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی افواج پاکستان کے سربراہ بنے۔ ہوا یوں کہ پنجاب اسمبلی نے جنرل پرویز مشرف کو دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کی قرارداد پاس کرائی۔ حالات نے رخ موڑ لیا۔ پنجاب اسمبلی کے 369ارکان میں سے321نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیے۔ اس اسمبلی میں پھر خیبر پشتونخوا اور سندھ اسمبلی سے بھاری اکثریت بلکہ بغیر کسی مخالفت کے مواخذہ کی قرارداد یں منظور ہوگئیں۔ لمبا عرصہ ساتھ دینے والوں نے منہ موڑ لیا۔ اس طرح پرویز مشرف راندہ درگاہ ہوئے۔ صدارتی انتخاب میں آصف علی زرداری کے مقابلے میں مسلم لیگ ق کے صدارتی امیدوار مشاہد حسین سید کو محض 44ووٹ ملے۔ یعنی انہیں ق لیگ کے ارکان نے بھی ووٹ نہ دیا۔ آصف زرداری بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ اس مائنڈ سیٹ کے سیاستدانوں نے اب کسی اور جانب دیکھنا شروع کردیا۔چناں چہ ق لیگ کا بلوچستان کے اندر بھی شیرازہ بکھر گیا البتہ یہاں عام انتخابات2008ء کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی میں ق لیگ اور اس کے ہم خیال ارکان کی تعداد اُنیس تھی ۔جس میں ہر ایک مرضی کا مالک تھا ۔مگر2008ء کے عام انتخابات میں صوبے کے اندر پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔ چناں چہ ق لیگ والے نواب اسلم رئیسانی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوگئے تھے۔ آزاد حیثیت سے منتخب ہونے والے کئی اراکین اسمبلی حلقہ بگوش پیپلز پارٹی ہوگئے۔ اس اسمبلی نے وقتاً فوقتاً آصف علی زرداری کی حمایت میں قراردادیں پاس کرائی گئی اور وقت آخر دور ہٹتے گئے۔ حتیٰ کہ گورنر راج کے نفاذ اور اس کے اختتام کے بعد کوئی منظر عام پر نہ تھا۔
نواب اسلم رئیسانی کی راہیں بھی عملاً پیپلز پارٹی سے جدا ہوگئی تھیں۔ ان کے بھائی لشکری رئیسانی پہلے ہی پارٹی اور سینیٹ کی ممبر شپ چھوڑ چکے تھے۔2013ء کے عام انتخابات کے بعد منظر نامہ یکسر تبدیل ہوا۔ نیشنل پارٹی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ، مسلم لیگ نواز کی مخلوط حکومت بنی۔ آزاد کامیاب ہونے والے ارکان یعنی مخصوص مائنڈ سیٹ یا طرز سوچ و مزاج کے لوگ ن لیگ کا حصہ بنیں۔ یہ اشتراک وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے لئے مسائل بناتا ۔ اسمبلی اجلاسوں کا مقاطعہ کرتا ، احتجاجاً وزیراعلیٰ ہاوس نہ جانے کا اعلان کرتے۔ بالآخر اس مائنڈ سیٹ نے گرگٹ کی مانند رنگ بدلا اور میاں نواز شریف پر وار کرنے والوں کے معاون بن گئے۔ قومی اسمبلی میں ظفر اللہ جمالی مرحوم ، جام کمال ، خالد مگسی اور دوستین ڈومکی وغیرہ نے وفاداری تبدیل کردی ۔ اور صوبے کے اندر مسلم لیگ نواز سے وابستہ اراکین اسمبلی اور ق لیگ کے نام سے موجودہ اراکان نے بھی میاں نواز شریف کی پیٹ میں چھرا گھو نپا ،نواب زہری کی حکومت چلتا کردی گئی۔ اور پھر سیاہ پردوں کے پیچھے بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ’’کنگ‘‘ جماعت کی تشکیل ہوگئی۔سب باغی اس میں جمع کردیے گئے اور بلوچستان میں حکومت دلادی۔ دیکھتے ہیں کہ آئندہ کونسا رنگ جمے گا۔ یاد رہے کہ سردار عبدالرحمان کھیتران2013ء کے عام انتخابات جمعیت علماء اسلام کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے ۔ شاید انہیں وزیراعلیٰ بننے کی خواہش دامن گیر ہوئی تھی۔سو نواب اسلم رئیسانی ، میر ظفر اللہ زہری جو سردار اسرار زہری کے چھوٹے بھائی اور نواب ثناء اللہ زہری کا سوتیلا بھائی بھی ہے جے یو آئی میں جارہے ہیں۔ امان اللہ نوتیزئی جو پچھلی حکوت میں ق لیگ سے کامیاب ہوئے تھے اور وزارت رکھتے تھے۔ اور نوشکی سے غلام دستگیر بھی شامل ہوں گے۔ غلام دستگیر کی وابستگی مسلم لیگ ن کے ساتھ تھی گویا جمعیت علماء اسلام اپنے طور پر صوبے میں اپنا وزیراعلیٰ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ مذکورہ اجمالی تجزیہ سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ تعلق محض اقتدار کی غلام گردوشوں سے جڑا ہوگا جس کا مقصد پورا نہ ہو تو راہیں جدا ہوں گے۔ تاہم جے یو ائی کو ق لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی کی راہ پر چلنے کا طعنہ سہنا پڑے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر