وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا طالبان اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں؟

بدھ 19 جنوری 2022 کیا طالبان اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں؟

مہمان کا لم

14 جنوری کو دوپہر میں حقانی نیٹ ورک کے خودکش بمباروں پر مشتمل بدری فورسز نے صوبہ فاریاب کے علاقے میمنہ میں طالبان کے سینیئر کمانڈر مخدوم عالم ربانی کو گرفتار کر لیا۔مخدوم عالم نے گذشتہ 20 سال سے فریاب میں سابق افغان حکومت اور غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور سابق افغان حکومت کے خاتمے کے بعد وہ سرپل کے نائب گورنر بن گئے۔وہ کئی سالوں تک فاریاب میں طالبان کمانڈر ان چیف رہے اور گروپ کی شمالی شہروں خصوصاً فاریاب، جوزجان اور سر پل تک پیش قدمی میں اہم کردار ادا کیا۔فریاب میں باخبر ذرائع نے بتایا کہ مخدوم عالم کو پشتون طالبان کمانڈروں کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔ انہیں تقریباً ایک ماہ قبل صوبہ سرپل کے ڈپٹی گورنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اس دوران وہ میمنہ میں مقیم تھے۔ذرائع کے مطابق، مخدوم عالم ربانی کی گرفتاری کے بعد، متعدد ازبک اور تاجک طالبان کمانڈر میمنہ شہر کے مرکز سے فرار ہوگئے اور ان کے زیر کمان جنگجوؤں کے ساتھ دیہات میں پناہ لی۔سابق افغان حکومت میں فریاب کے گورنر نقیب اللہ فائق کے مطابق: ’طالبان کے درمیان نسلی کشیدگی کی وجہ سے، گروپ کی قیادت ازبک کمانڈروں کی اپنی صفوں کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘
فریاب کے سابق گورنر کے مطابق مخدوم عالم ربانی کو طالبان کے نائب وزیر دفاع ملا فضل کے حکم پر گرفتار کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر فائق نے مزید کہا کہ طالبان حکام نے مولوی صلاح الدین سمیت کئی دیگر غیر پشتون کمانڈروں کی گرفتاری کا حکم بھی دیا تھا۔گذشتہ ایک ہفتے کے دوران، افغانستان کے مختلف شہروں میں کئی بم دھماکوں، اغوا اور قتل کے علاوہ، فاریاب، بامیان، بدخشاں، بلخ اور پنجشیر صوبوں میں چار گروپوں میں آپس میں جھڑپوں کی اطلاع ملی ہے، جو طالبان کے بڑھتے ہوئے اندرونی تناؤ کی نشاندہی کرتی ہے۔اتوار 10 جنوری کو دو طالبان کمانڈروں، قاری انس اور مولوی بلال کے درمیان شمالی افغان صوبے فاریاب کے شہر بلچراغ میں جھڑپ ہوئی۔ جھڑپ کی وجہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکی تاہم مقامی ذرائع نے بتایا کہ جھڑپ کے نتیجے میں قاری انس اور چار طالبان جنگجو مارے گئے اور عام شہریوں سمیت 10 افراد زخمی ہوئے۔جمعرات سات جنوری کو دو سینیئر طالبان کمانڈروں، صفا الدین اور صلاح الدین کے درمیان بدخشاں کے شہر میمی میں جھڑپ ہوئی، جس میں تین افراد ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔ یہ جھڑپ اس وقت ہوئی جب طالبان کو ختم کرنے والے کمیشن نے صفا الدین کو گروپ چھوڑنے کا حکم دیا۔منگل 12 جنوری کو صوبہ بلخ کے ضلع شولگرہ میں طالبان کے پولیس سربراہ ملا فتح اور کئی دیگر مقامی کمانڈروں کے درمیان جھڑپ میں دو افراد ہلاک اور تقریباً 10 دیگر زخمی ہوئے۔ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب پشتون تبار کمانڈر ملا فتح نے ازبک علاقے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور ازبک طالبان کمانڈروں نے اس کے خلاف ازبکوں کا دفاع کیا۔
13 جنوری بروز بدھ صوبہ بامیان کے قصبے سیغان سے اطلاع ملی کہ پولیس چیف مولوی اختر منصور اور ان کے نائب مولوی منصوری کی طالبان انٹیلی جنس فورسز کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔مقامی افغان میڈیا کے مطابق جھڑپ میں مولوی منصوری مارا گیا اور مولوی اختر منصور کو گرفتار کر لیا گیا۔ جھڑپ کی وجہ ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن مقامی رہائشیوں کے مطابق، مولوی اختر منصور اور مولوی منصوری پر ’زنا‘ کا الزام تھا۔ وہ ایک میٹنگ کے لیے پیدل جا رہے تھے کہ طالبان فورسز نے گھات لگا کر حملہ کیا۔طالبان نے بم دھماکوں، دہشت گردانہ حملوں، اغوا یا خاص طور پر شورش کے بارے میں کوئی تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔ان جھڑپوں کے شروع ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ طالبان کی اندرونی کشیدگی اور خاص طور پر اس گروپ کے کمانڈروں کے درمیان نسلی کشیدگی کسی بھی دوسرے چیلنج سے زیادہ نمایاں ہے۔ تنازعہ کے فریقین عام طور پر دو مختلف نسلی گروہوں سے ہوتے ہیں، یا تو وہ محلوں میں اقتدار کی تقسیم پر لڑتے ہیں یا پھر افغان حکومت کے سابق اہلکاروں سے بچ جانے والی زمین اور رقم کی تقسیم جیسے معاملات پر۔
طالبان کے خلاف کمیشن کی ترجیح، جسے گروپ کا ایک پشتون رکن چلاتا ہے، بظاہر اس گروپ کو غیر پشتون عناصر، خاص طور پر ازبک کمانڈروں سے نجات دلانا ہے، جو شورش اور نافرمانی کے بارے میں فکر مند ہیں۔طالبان کے خلاف امریکی اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے علاوہ، پچھلے پانچ مہینوں کے دوران گروپ کی کارروائیوں سے وسیع پیمانے پر عوامی بے چینی اور دوسرے ممالک کی جانب سے گروپ کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا، گروپوں کے درمیان تناؤ طالبان کی حکومت کے جلد خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔اب جبکہ کچھ طالبان رہنما علامتی حکومتی ڈھانچے میں ازبکوں کی موجودگی کو اپنی حکومت میں نسلی تنوع کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، ازبک طالبان حکومت میں نظر انداز کیے جانے سے مطمئن نہیں ہیں اور طالبان کے تحت گذشتہ 20 سالوں میں دی گئی قربانیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
طالبان ایک بااثر ازبک کمانڈر قاری صلاح الدین ایوبی کو گرفتار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جنہوں نے ابھی تک کوئی عہدہ نہیں رکھا۔قاری صلاح الدین بھی مطلوب ہے۔ وہ ان کمانڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے 15 اگست کو صدارتی محل پر قبضہ کیا اور افغانستان کے مفرور صدر کا تخت سنبھالا۔طالبان کے یہ اقدامات افغانستان میں نسلی جنگ کی گرمی کو ہوا دے رہے ہیں اور اگلے موسم بہار تک افغانستان میں ایک اور تباہ کن جنگ کے امکانات کو بڑھا رہے ہیں، جو طالبان کی حکومت کے اندرونی خاتمے کا باعث بن سکتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر