وجود

... loading ...

وجود
وجود

شدت پسندوں سے مذاکرات اور اہمیت

جمعرات 30 دسمبر 2021 شدت پسندوں سے مذاکرات اور اہمیت

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے جولائی2021ء میں بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور بعد ازاں تربت میں منعقدہ تقریب میں بلوچ شدت پسند رہنمائوں سے بات چیت کا عزم ظاہر کیا۔ وزیراعظم کے ارادے کا خیر مقدم ہوا۔ امید چلی کہ شاید اب مختصر وقت میں مذاکرات کی تیاریاں ہوں گی، روابط کے لیے با اثر و معتبر افراد پر مبنی جرگہ یا کمیٹی بنے گی اور بات چیت کا آغاز عملاً کردیا جائے گا۔ مگر اب تک کی خاموشی و سر د مہری ظاہر کرتی ہے کہ حکومت کی مزید اس اہم مسئلہ بارے دلچسپی نہیں رہی۔ بعض اہم افراد کا مسئلے پر گفتگو سے گریز سے بھی اندازا ہوا ہے کہ ریاست بلوچ افراد کو قومی دھارے میں لانے کی چنداں خواہاں نہیں۔ چناں چہ انہی ایام میں خیبر پشتونخوا کے قبائلی اضلاع سابقہ فاٹا کے مسلح گروہوں کے ساتھ مذاکرات کی بازگشت ہوئی۔ اس موضوع کے کئی پہلوئوں اور جزیات پر مختلف مکاتب فکر نے گفتگو کی۔ اخبارات میں بہت کچھ لکھا گیا ، ٹی وی چینلز پر تبصرے و تجزے ہو ئے۔ ٹی ٹی پی کے ساتھ روابط مصدقہ ہیں۔ اس ضمن میں نومبر میں ایک ما ہ کی فائر بندی ہوئی۔ مگر دسمبر میں فائربندی کی مدت ختم ہونے کے بعد ٹی ٹی پی نے دوبارہ حملے شروع کرد یے۔یعنی فائر بندی میںمزید توسیع نہ کی۔اس تناظر میں نئی افغان حکومت کا کردارثالث کا ہے۔ موجودہ افغان حکومت ٹی ٹی پی سے پاکستان کے اندر دہشتگردی کی کارروائی نہ کرنے کی اپیل بھی کرچکی ہے۔ انہیں مذاکرات کی نصیحت و ترغیب دے چکی ہے۔لہٰذا ہونا یہ چاہیے کہ اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ پیش رفت ہو اور منطقی نتیجہ پر پہنچا جائے۔
افغانستان کے اندر سیاسی تبدیلی سے پاکستان کے لیے سنہرا موقع پیدا ہوا ہے۔سی آئی اے اور بھارتی ’’را ‘‘کی رخصتی کے بعد افغانستان میں موجود پاکستان مخالف شدت پسندوں سے بات چیت سہل ہوگئی ہے۔بلاشبہ نئی افغان حکومت ہر طرح کی معاونت پر قادر ہے۔نیز اگر دنیا اس حکومت کو تسلیم اور اس کی مدد کرتی ہے تو نہ صرف ٹی ٹی پی راہ راست پر آئے گی، بلکہ قلیل مدت میں اپنی سرزمین سے داعش خراسان کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوگی۔ہاں یہ بھی مدنظر رہے کہ افغان حدود میں کسی بھی قسم کی فوجی کاروائی کابل اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد کی فضاء متاثر کر ے ۔اگرچہ ریاست اس ذیل میں کئی اہداف پاچکی ہے ،مگر یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ یہ گروہ ہنوز وجود رکھتے ہیں۔ بلوچ شدت پسندی بیس سال سے زائد پر محیط ہے۔ ان کی تعداد ٹی ٹی پی کے نسبت بہت قلیل ہے۔ پھر بھی ریاست ان سے بر سر پیکار ہے۔ گویا بات چیت بہر حال واحد حل ہے۔ دہشتگردی سے ملک کی بنیادیں ہل چکی ہے۔ کوئی گوشہ ا و رمکتبہ فکر و طبقہ ان کے حملوں سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ یقینایہ پرویز مشرف دور کے تحفے ہیں ،جنہیں پیپلز پار ٹی اور مسلم لیگ نوازکی حکومتوں میں ڈھیل ملتی رہی۔ آغاز فسادہی سے چند دور اندیش اور ہوش مند سیاسی بڑے بات چیت کی طرف حکومتوں کو توجہ دلاتے رہیں۔اس کے برعکس چند جماعتیں، علی الخصوص پشتون سیاسی حلقے فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتے ،جبکہ بلوچستان میں مذاکرات کا کہتے۔ اس پر مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ فاٹا میں گولی اور بلوچستان میں بولی کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔
قاضی حسین احمد مرحوم اور سید منور حسن مرحوم مذاکرات کے بڑے مبلغ تھے۔ حال ہی میں محمود خان اچکزئی کی ٹی ٹی پی بارے نقطہ نظر برعکس سامنے آیا ہے۔ اپنے والد خان عبدالصمد خان اچکزئی کی48 ویں برسی پر 2دسمبر2021ء کو کوئٹہ کے ہاکی گرائونڈ میں جلسہ عام سے خطاب میں محمود خان اچکزئی قرار دے چکے ہیں کہ ’’ پنجاب اپنے سخت گیر لوگوں سے بات چیت کرچکی ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے ٹی ٹی پی سے بات چیت کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا کہ اپنے خیبر پشتونخوا اور فاٹا کے سیاسی ساتھیوں سے کہتا ہوں ٹی ٹی پی کے ساتھ بگاڑ پیدا نہ کرے، وہ وطن کے لوگ ہیں اور وطن ہی میں لڑے ہیں۔ ان کے ساتھ رویہ ایسا ہو کہ وہ اور ہم اپنی قوم کے مستقبل کے لیے مل کر کام کریں۔ محمود خان اچکزئی کا یہ بیانیہ بہت اہم اور غور و فکر کا حامل ہے۔ جس میں ماضی کی سوچ اور پالیسیوں کا تضاد نمودار ہوا ہے۔ ٹی ٹی پی کی چھتری تلے مسلح گروہوں نے انسانیت کشی میں کوئی کسر چھوڑ نہیں رکھی ہے ، ۔ معلوم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس مسلح گروہ اور اس سے جڑے داعش خراسان کی پوری کمک سابق افغان حکومت کی جاسوسی کا ادارہ ’’ این ڈی ایس‘‘ اور بھارت کے جاسوسی اداروں اور افغانستان میں قائم سفارخا نہ اور قونصل خانوں سے ہوتی۔ پشاور کے آرمی پبلک اسکول کا دلخراش سانحہ،8اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں وکلاء پر خودکش حملہ اس مسلح گروہ کی سیاہ و سفاک واردات تھی۔ گویاان کے جرائم ،جنایات اور تباہ کاریوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ محمود خان اچکزئی نے بات مختصر کی ہے۔ جس کی تفصیل و تفہیم ضروری ہے۔ تاکہ مدعا کھل کر سامنے آئے۔ یقینا تخریب و دہشت گردی سے ملک ا و رعوام کو مزید بچانے کی خاطر بات چیت اور نتیجہ خیز مذاکرات از حد ضروری ہے۔
دریں اثناء محمود خان اچکزئی نے اس جلسہ عام میں کارکنوں کو اپنی جماعت کے سوا دوسرے جھنڈے لہرانے سے بھی منع کیا ہے۔اور فقط اسٹیج سے بلند کئے جانے والے نعرے پارٹی پالیسی قرار دیا ہے۔ کہ جلسہ گاہ کے اندر سے بلند کیے جانے والے نعروں کا جواب کارکن نہ دیں۔دراصل محمود خان اچکزئی نے کارکنوں کو پشتون تحفظ موومنٹ،افرسیاب خٹک ا و رمحسن داوڑ کی رہنمائی میں تشکیل دی جانے والی نئی سیاسی جماعت سیدور رہنے کی تلقین و نصیحت کرچکے ہے۔واضح رہے کہ پشتونخوا میپ کے جلسوں مظاہروں میں افغانستان اور پی ٹی ایم کے جھنڈوں کا لہرایا جانا شروع ہوا تھا۔اجنبی سیاسی نعرے بلند ہوتے۔علاوہ ازیں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں پشتونخوامیپ کے چند منحرف وابستگان شامل بھی ہوئے ہیں ،بلکہ اس جماعت نے محمود اچکزئی کی جاعت سے رہنما اور کارکن توڑنے پر توجہ بھی مرکوز رکھی۔ سچ یہ بھی ہے کہ پی ٹی ایم کے سیاسی اجتماعات و تقریبات پشتونخوا میپ کی مر ہون منت تھے۔اٹھائیس نومبر 2021ء کو کو ئٹہ میں پی ٹی ایم کے ہونے والے جلسہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما شریک ہوئے تھے ،اچکزئی کی جماعت سے محض عثمان کاکڑ مرحوم کا بیٹا خوشحال خان کاکڑ شریک ہوئے تھے۔ چناں چہ ظاہر ہو تا ہے کہ محمود خان اچکزئی نے جماعت کے اندر تطہیر کا آغاز کرتے ہوئے پارٹی کو انتشار اور بد نظمی سے نکالنے پر توجہ مرکوز کر لی ہے۔
مثلا25جولائی 2019ء کو کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسہ عام میں جس سے مریم نواز شریف نے بھی خطاب کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین نے بھی تقریر کی۔سو محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران جلسہ گاہ سے مسلسل نعرے بلند ہو تے رہے ۔ سیٹیاں بجائی جارہی تھیں۔محمود خان اچکزئی کے بار بار منع کرنے اور تقریر سننے کی ہدایت کے باوجود شور مسلسل بلند رہا۔محمود خان اچکزئی کی تقریر کے دوران خلل و بدنظمی کا یہ منظرپہلی مرتبہ دیکھا گیا۔ یہ سب کچھ پی ٹی ایم کے ان سیاسی کارکنوں کی جانب سے ہوا جو نظریاتی رغبت دوسری پشتون قوم پرست جماعت کی طرف رکھتے تھے۔ الغرض سابقہ فاٹا کے شدت پسندوں سے مذاکرات اور امن کی سبیل کی یقینی توقع کی جارہی ہے۔ البتہ اس ضمن میں بلوچستان کے سخت گیر رہنمائوں سے بات چیت کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ روش شبہات کو جنم دیتی ہے۔صوبے کی حکومت تو پہلے ہی گئے گزروں کے حوالے کی جاچکی ہے۔عالم یہ کہ پچیس دسمبر کو بانی پاکستان محمد علی جناح کی یوم پیدائش کی مناسبت سے زیارت کی قائد اعظم ریزیڈنسی میں منعقدہ واحد تقریب میں وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے شرکت نہیں کی۔منتظمین مہمان خصوصی کی راہ تکتے رہے۔صوبے پر حاکم ٹھہرائے عبدالقدوس بزنجو نے چار سینئروزیر مقرر کرکے صوبے کی پارلیمانی تایخ میں ایک اور انوکھی مثال کے تقرر کی قائم کرلی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر