وجود

... loading ...

وجود
وجود

طالبان حکومت کو عالمی حمایت کب حاصل ہوگی؟

پیر 15 نومبر 2021 طالبان حکومت کو عالمی حمایت کب حاصل ہوگی؟

افغانستان میں امریکی افواج کے انخلاء اور طالبان کے زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد اَمن و اَمان کی صورت حال میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے ۔گو کہ ابھی بھی داعش کی جانب سے امارات ِ اسلامی افغانستان یعنی طالبان کی حکومت کے خلاف خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے واقعات وقفے وقفے سے ہوتے رہتے ہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اِن پرتشدد،واقعات کی تعداد ماضی کے مقابلے میں خاصی کم ہوچکی ہے۔جبکہ طالبان نے ملک بھر میں حکومتی نظم و نسق بھی اشرف غنی کی حکومت کے مقابلے میں کافی بہتر انداز میں قائم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ مگر ایک شئے جس کی ابھی تک طالبان حکومت کو افغانستان میں شدت کے ساتھ تلاش ہے ۔وہ دیرپا معاشی استحکام کا حصول ہے۔ جی ہاں! جہاں امارات اسلامی افغانستان بہت سے اہداف کے حصول کی جانب اپنے قدم تیزی سے بڑھا چکی ہے ،وہیں معیشت کے میدان میں طالبان حکومت کو اپنے قدم جمانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ طالبان افغانستان میں معاشی استحکام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے لیکن ایک بات طے ہے افغان معیشت کو بہتر بنانے کے لیئے طالبان کوہر ایک قدم پر عالمی برادری کا بھرپور تعاون بہر صورت درکار ہوگا۔یعنی افغانستان سے معاشی عدم استحکام کا خاتمہ کرنا تنہا طالبان حکومت کے بس کا کام دکھائی نہیں دیتا۔
یقینا طالبان کی مرکزی قیادت کو بھی اِس نازک مسئلہ کا پوری طرح سے ادراک ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ اُن کی جانب سے بار بار عالمی برادری کی جانب سے دست تعاون دراز کرنے کا مطالبہ کیا جارہاہے لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر مغربی ممالک طالبان کی طرف دستِ تعاون بڑھانے سے پہلے اُن سے اپنے من پسند مطالبات منوانا چاہتے ہیں ۔ جن میں سرفہرست افغانستان میں انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کی بحالی ہے۔ بظاہر طالبان کو افغانستان میں انسانی حقوق کی بحالی پر کوئی خاص اعتراض نہیں ہے ،سوائے اس کے کہ انسانی حقوق اور حقوق ِ نسواں کی آڑ میں خلاف ِ شریعت ’’مادر پدر آزادی ‘‘ کا مطالبہ اُن سے نہ کیا جائے ۔ مثال کے طور پر طالبان حکومت کی جانب سے افغانستان کے صوبے ہرات میں 7 سے 12 ویں جماعت تک کی طالبات کے لیئے اسکول دوبارہ سے کھول دیئے گئے ہیں۔ اس بارے میں ہرات ٹیچرز کونسل کا کہنا ہے کہ 7ویں سے 12ویں جماعت کی طالبات کے اسکول کھولنے کا فیصلہ محکمہ تعلیم کیساتھ مل کرکیا گیا ہے۔یاد رہے کہ طالبان کے اِس اقدام کے بعد صوبہ ہرات میںتقریباً 3 لاکھ سے زائد طالبات اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی۔
دوسری جانب طالبان حکومت نے اپنی وزارت صحت کے ماتحت افغانستان میں 4 روزہ ملک گیر انسداد پولیو مہم کے آغاز کا اعلان بھی کردیا ہے، جس کے دوران 5 سال تک کی عمر کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔واضح رہے کہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل تین برسوں سے طالبان نے اپنے زیر اثر علاقوں میں اقوامِ متحدہ کی ویکسی نیشن ٹیموں کو گھر، گھر جاکر پولیو کے قطرے پلانے سے منع کیا ہوا تھا۔ کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پولیو ٹیموں کے اراکین اشرف غنی کی حکومت یا مغرب کے لیے اُن کی جاسوسی کر سکتے ہیں۔یوں پابندی اور جاری لڑائی کے سبب گزشہ 3 برسوں میں 33 لاکھ سے زائد بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہے تھے ۔ماضی میں پولیو مہم کے متعلق اختیار کیئے گئے طالبان کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ ایک بہت مثبت قدم ہے جو طالبان نے عالمی برادری کے ایما پر اُٹھایا ہے۔
چونکہ افغانستان اور پاکستان دنیا کے وہ دو ممالک ہیں جہاں پولیو اب بھی موجود ہے ۔اس لیے ماہرین کے نزدیک افغانستان میں پولیو مہم کی کامیابی کے لیے ضروری تھا کہ افغانستان اور پاکستان قومی اور علاقائی سطح پر پولیو وائرس کے کامیابی کے ساتھ خاتمے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے تعاون کو بڑھائیں اور حفاظتی ٹیکوں کی مہم کے نظام الاوقات کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرلیں۔اس معاملہ پر سب سے بڑی پیش روفت یہ ہوئی ہے کہ دونوں ممالک کے حکام کا ماہرین کی تجویز سے کامل اتفاق کرتے ہوئے پولیو وائرس کی منتقلی سے مؤثر طریقے سے نپٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی بنانے کا منصوبہ مکمل جزیات کے ساتھ طے پاگیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان کی تخمینہ شدہ ہدف آبادی 5 سال سے کم عمر کے ایک کروڑ بچوں پر مشتمل ہے جن میں 33 لاکھ سے زیادہ وہ بچے بھی شامل ہیں جن تک 2018 کے بعد سے رسائی نہیں ہوسکی تھی۔لیکن اس بار انہیں بھی پولیو ویکسین کے قطرے پلائے جاسکیں گے۔
مگر مقام افسوس یہ ہے کہ طالبان تو اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں لیکن عالمی برداری اُ ن کی جانب دستِ تعاون دراز کرنے میں کوئی خاص لچک کا مظاہر ہ نہیں کررہی ۔کتنی بدقسمتی کی با ت ہے کہ ہرات میں بچیوں کے اسکول کھولنے اورملک گیر پولیو مہم کا آغاز کرنے کے بعد بھی رواں ہفتے سربراہ عالمی بینک نے افغانستان کی روکی گئی امداد بحال کرنے کا امکان رد کردیا ہے۔ورلڈ بینک چیف ڈیوڈ مالپاس کا کہنا تھا کہ ’’افغانستان کی تباہ حال معیشت میں وہ کام کرنے کا تصور نہیں کر سکتے ،اس لیئے ہماری جانب سے طالبان کو افغانستان کے9 ارب ڈالر کے ذخائر کی رسائی بھی روک دی گئی ہے‘‘ ۔ واضح رہے کہ امریکی افواج کے انخلا کے قریب آتے ہی افغانستان کے اثاثے منجمد کردیے گئے تھے ،جس کی وجہ سے افغان معیشت میں مسلسل واضح ابتری آنا شروع ہوگئی تھی ہے۔ صرف رواں برس مارچ کے مہینے میں افغانستان میں افراط زر، یا قیمتوں میں اضافے کی شرح 4.4 فیصد تھی جو اپریل 2021ء میں اچانک بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔نیز پاکستان کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک کی طرف سے ہونے والی سرحدوں کی بندش سے ملک بھر میں اشیا ضروریہ کی قلت کے ساتھ ساتھ مہنگائی میں اضافہ کا بڑھتا رجحان بھی خطرنا ک حد تک بڑھا ہے۔ذہن نشین رہے کہ افغانستان میں بنیادی ضرویات کی اشیا زیادہ تر درآمد کی جاتی ہیں اس وجہ سے رواں سہ ماہی افغانستان کے مالیاتی کھاتوں میں خسارہ جی ڈی پی کا 24.3 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور برآمدات 2 فیصد اور درآمدات 5 فیصد تک کم ہوگئی ہیں۔
دراصل 3 کروڑ 90 لاکھ کی آبادی کے ملک افغانستان کی نصف آبادی 15 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جبکہ ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ وہ لوگ جو خطِ غربت سے اوپر کی زندگی گزار رہے ہیں انہیں بھی بنیادی شہری سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ 2050ء تک ملک کی آبادی دگنی ہوجائے گی۔اس لیے عالمی برادری کو افغانستان کی معیشت اس قدر ضرور بہتر بنانا ہوگی تاکہ یہ ملک بھی دنیا کو اپنی خدمات اور مصنوعات برآمد کرسکے نہ کہ دہشت گردی، منشیات اور غیر قانونی اشیا فروخت کرنے والا ملک ہی بنا رہے۔ یاد رہے کہ افغان سرزمین قیمتی معدنیات سے بھرا پڑا ہے۔ قدرتی وسائل جنوبی ایشائی بیلٹ اور وسطی ایشیائی ملکوں اور افغانستان میں موجود ہیں۔ وہاں سے امیر ملکوں کو ایندھن کی فراہمی کی پائپ لائن تو بن جاتی ہے مگر غریب ملکوں کو وسائل فراہم کرنے کے منصوبے جیسا کہ کاسا 1000 اور ٹاپی گیس پائپ لائن سالوں سے تعطل کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ امیر ملکوں کی مداخلت کے علاوہ بھارت کی رخنہ اندازی بھی شامل ہے۔
عالمی برادری کی اسی بے ا عتناعی پر افغانستان کے نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللّٰہ مجاہد نے دنیا کو خبردار کرے ہوئے کہا ہے کہ’’ افغانستان سے لاحق خطرات سے بچنے کے لیے عالمی برادری کو طالبان کو جلد ازجلد تسلیم کرنا ہو گا۔وگرنہ ہم امریکا سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کی خطرے سے بچاؤکی ذمے داری نہیں لے سکیں گے، ہم نے امریکا سے جنگ کی کیونکہ انہوں نے ہمیں تسلیم نہیں کیا تھا۔اگر اَب ہماری حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا جاتا تو افغانستان، خطے اور دنیا کے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھیں گے، طالبان کو تسلیم کرنا دو طرفہ ضرورت کے زمرے میں آتا ہے۔یاد رہے کہ ہم بحسن و خوبی طالبان حکومت تسلیم کرنے کے عوض عالمی برادری کی تمام شرائط پوری کر چکے ہیں،اب تمام ممالک افغانستان میں اپنے سفارتی مشن کو فعال کریں‘‘۔ اس جارحانہ بیان کے سیاق سباق سے لگتا یہ ہے کہ مغربی و یورپی ممالک کے رویے سے طالبان قیادت بُری طرح سے تنگ آچکی ہے اور اَب چاہتی ہے کہ اُسے صاف صاف بتا دیا جائے کہ عالمی برادری اُن کی حکومت کو تسلیم کر کے اُن کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں ۔
غالب گمان یہ ہے کہ افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی وفد کے ہمراہ ہونے والا دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی تھا اور قائم مقام افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی دورۂ پاکستان کے دوران معاشی صورتِ حال، ٹرانزٹ اور پڑوسی ممالک سے نقل و حمل میں آسانی پر تفصیلی گفت و شنید کرنے ہی آئے تھے۔واضح رہے کہ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی پاکستان کی خصوصی دعوت پر آئے تھے۔پاکستان نے افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کو اسلام آباد میں شیڈول ٹرائیکا پلس اجلاس میں شرکت کی خصوصی دعوت دے تھی۔ اجلاس 11نومبر کو ہوا۔جس میں پاکستان، روس، چین اور امریکا سے افغانستان کے خصوصی نمائندگان شریک ہوئے۔
افغانستان کے معاملے پر ہونے والے دی ٹرائیکا پلس اجلاس میں طالبان حکومت کی جانب سے اختیار کیے گئے اعتدال پسندانہ رویے اور مبنی بر انصاف دانش مندار پالیسیوں کے نفاظ کی خوب ستائش کی گئی اور تمام فریقین نے طالبان حکومت کو استحکام فراہم کرنے کے لیے مل جل کر عملی اقدامات پر کرنے پر کامل اتفاق کا بھی اظہار کیا گیا۔ نیز اجلاس میں طالبان وفد سے افغانستان میں انسانی حقو ق کے معاملے پر مزید آگے کی جانب پیش قدمی کرنے کا کہا گیا۔ ٹرائیکا پلس اجلاس کا جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ سے یہ اُمید لگائی جاسکتی ہے کہ بہت جلد خطے کے بڑے ممالک افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا باضابطہ سرکاری اعلان فرمادیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر