وجود

... loading ...

وجود
وجود

امریکا کی آخری جنگ کی خواہش

منگل 12 اکتوبر 2021 امریکا کی آخری جنگ کی خواہش

 

افغانستان میںامریکی افواج کے انخلاکی خبر سُن کر ایک پاکستانی نے اپنے امریکی دوست سے دریافت سے کیا کہ ’’یار! کیا امریکا دنیا بھر میںمختلف جنگی محاذوں پر پے درپے شکست کھا کر تنگ نہیں آتا؟‘‘۔ امریکی شہری نے جواب دیا ’’بالکل تنگ بھی آتا ہے اور شرمساربھی ہوتا ہے ۔جب ہی تو فوراً ہی اپنی ہار کی خفت مٹانے کے لیے ایک نئی جنگ میں کود پڑتا ہے ۔اس اُمید پر کہ شاید اس بار جنگ میں فتح امریکا کو حاصل ہوجائے ‘‘۔لگتا ہے کہ کاتب ِ تقدیر نے امریکا کی دریافت کے ساتھ ہی اس ملک کے نصیب میں لکھ دیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن امریکی عوام اپنے حریفوں اور حلیفوں کے خلاف جنگ کیے بغیر کبھی زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ اگرفی الفرض محال امریکی عوام امن و آشتی سے رہنا بھی چاہیں تو امریکا میں قائم بڑی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مالکان اپنی مالی منفعت کی خاطر امریکی قیادت کو یہ فیصلہ ہرگز لینے نہیں دیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا نے اَب تک جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں ، حسن ِ اتفاق سے اُسے سب میں شکستِ فاش ہوئی ہے ۔نیز ہر شکست کے بعد امریکا میں ہمیشہ یہ بحث بھی پورے شد و مد کے چھیڑی گئی ہے کہ کیا اُسے آئندہ کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ شروع کرنی چاہیے یا نہیں ؟۔ویت نام کی جنگ ہویا عراق و شام کی جنگ کا عبرت ناک انجام ہو، بہرحال ملک گیر بحث و مباحثہ میں تو یہ ہی طے کیا جاتاہے کہ آئندہ امریکا جنگ کرنے غلطی نہیں کرے گا۔ مگر شاید امریکا میں جنگ کرنے یا نہ کرنے کا اصل اختیار عام امریکی عوام کے بجائے ، اسلحہ ساز فیکٹریوں کے اُن طاقت ور سربراہوں کے پاس ہے ۔ جن کے کاروباری نفع کا تمام تر دارمدار دنیا بھر میں مسلسل جنگ جاری رہنے میں ہی ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ امریکی قیادت ،افغانستان میں عسکری تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا مزہ چکھنے کے بعدبھی چین کے خلاف ایک اور جنگ کا آغاز کرنے کا حتمی فیصلہ کرچکی ہے۔
واضح رہے کہ امریکا چین کے خلاف جس نئی جنگ کا آغاز کرنے جارہا ہے ،وہ ماضی کی تمام جنگوں کے مقابلے کہیں زیادہ طویل ،پیچیدہ ،سخت اور صبر آزما ہوگی اور اس متوقع جنگ کے نتائج صرف امریکا کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے بھی بہت ہول ناک نکل سکتے ہیں ۔ یہ رائے ہماری نہیں بلکہ دنیا بھر کے عسکری ماہرین کی متفقہ تجزیہ ہے ۔جبکہ امریکا کے مشہور و معروف تھنک ٹینکس کا بھی یہ ہی ماننا ہے کہ چین اور امریکا کے درمیان شروع ہونے والی کسی بھی نوعیت کی جنگ کا اختتام کسی ایک فریق ،یا دونوں فریق حتی کہ ساری دنیا کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے بھی کافی ثابت ہوسکتاہے۔ مگر یہاں مصیبت یہ ہے کہ امریکا میں قائم بڑی اسلحہ ساز کمپنیاں ،جن میں سے زیادہ تر کا کلی انتظام و انصرام پینٹاگون اور سی آئی اے سے منسلک افراد کے پاس ہی ہے ۔انہیں جنگ کی ہولناکیوں سے زیادہ فکر ،دورانِ جنگ بکنے والے اسلحہ سے حاصل ہونے والے خطیر منافع کی ہے۔سادہ الفاظ میں آپ یوںسمجھ لیں کہ آج کل امریکی قیاد ت کی جانب سے امریکی عوام کو یہ نقطہ ذہن نشین کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغانستان میں 20 برس تک امریکی کا جنگ کرنا ایک بہت بڑی عسکری غلطی تھی اور اَب اس غلطی کو سدھارنے کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے کہ چین کے خلاف امریکی افواج کو جلد ازجلد میدان جنگ میں اُتار دیا جائے۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ امریکی عوام بھی بہت جلد اس گھسی پٹی دلیل کے آگے اپنے سرتسلیم خم کرتے ہوئے افغانستان میں اپنی افواج کی عبرت ناک شکست کو فراموش کرکے چین کے خلاف جنگ میں امریکی قیادت کی ہم نوا نظر آئے گی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صرف امریکی قیادت ہی نہیں بلکہ امریکا میں رہنے والا ہر فرد ،بُری طرح سے خبط عظمت میں مبتلا ہے ۔ امریکا عظیم ہے اور امریکی عظیم تر ہیں ۔لہٰذا ،ویت نام ،عراق اور افغانستان میں حاصل ہونے والی عسکری شکستوں سے اُن کے بڑھتے ہوئے قدم روکے نہیں جاسکتے ۔ یہ خیال ہی امریکیوںکے لیے اتنا دلآویز اور مسحور کن ہے کہ انہیں اپنی ہر شکست پر بھی فتح کا ہی گمان ہوتاہے۔ امریکی صدر جو زف بائیڈن نے بھی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کیے گئے امریکی قوم سے اپنے خطاب میں یہ ہی تو کہنے کی کوشش کی ہے کہ ’’افغانستان میں جنگ امریکا نے اس لیے ادھوری چھوڑی ہے کہ اَب ہم چین سے نبرد آزما ہونا چاہتے ہیں ‘‘۔بظاہر افغانستا ن میں امریکا کو شکست ضرور ہوئی لیکن یہ شکست امریکیوں کے نزدیک اتنی معمولی سی ہے کہ اُنہیں اس کا بھرپور مزہ ہی نہیں آیا اور اَب وہ اگلی عسکری شکست کا مزہ چکھنے کے لیے نیا میدان جنگ سجانے کا پختہ ارادہ کرچکے ہیں ۔ اُصولی طور پر امریکیوں کی یہ بات اس لحاظ سے کچھ درست بھی لگتی ہے کہ اگر بے کراں سمندر سے چند چھوٹی بڑی نہریں کسی نے نکال ہی لی ہیں تو بھلا اس سے سمندر کی وسعت پر کیا فرق پڑنے والاہے۔ بالکل اسی مثال کے مصداق امریکا کو بھی کم ازکم ایک ایسی شکست کی ضرورت ہے ،جو اُس کے معیار ،مقام اور حیثیت کے مطابق ہو اور جس جنگ کی تپش ،تلخی اور تکلیف کابل اور بغداد کے بجائے واشنگٹن کی گلیوں میں چلتی پھرتی امریکی عوام کو بھی براہ راست محسوس ہو۔
امریکی قیادت کو ایک جنگ ختم کرنے کے بعد دوسری جنگ کرنے کا کتنا اشتیاق ہے ،اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگالیں کہ ابھی کابل سے انخلاء کرنے والی امریکی سپاہیوں کی تھکن بھی ٹھیک طرح سے نہیں اُتری ہوگی کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ایشیا انڈو پیسیفک میں، جسے جنوب مشرقی ایشیا بھی کہا جاتا ہے، امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک نیا سیکوریٹی معاہدہ طے پانے کا باضابطہ اعلان فرمادیا ہے۔واضح رہے کہ اس سیکورٹی معاہدہ کو عالمی ذرائع میں ’’آکوس معاہدہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور جو آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکا کے ناموں کے حروف تہجّی، اے، یو کے، یو ایس پر مشتمل ہے۔ اِس معاہدے کے تحت امریکا اور برطانیہ، آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے لیس کم از کم 12 جدید دیوہیکل آب دوزیں بنانے اور اُنہیں سمندر میں تعیّنات کرنے کی صلاحیت کی ٹیکنالوجی فراہم کریں گے۔
’’آکوس معاہدہ‘‘ کی سب سے اہم بات ایٹمی آب دوزیں ہیں، جو آسٹریلیا کے شہر ایڈیلیڈ میں تیار کی جائیں گی، جب کہ تربیت، معلومات اور ٹیکنالوجی امریکا اور برطانیہ فراہم کریں گے کہ اُن دونوں کے پاس ایٹمی فیول سے چلنے والی اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس آب دوزیں موجود ہیں۔ معاہدے میں کروز میزائل کی فراہمی بھی شامل ہے۔نیز ان ممالک کے درمیان کوانٹم ٹیکنالوجی، انٹیلی جینس اور دیگر شعبوں میں معلومات کا بھی تبادلہ ہوگا۔ماہرین کے مطابق ایٹمی آب دوز، کسی عام آب دوز کے مقابلے میں سمندری دفاع کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہیں۔اِس وقت دنیا کے صرف چھے ممالک کے پاس ایٹمی آب دوزیں ہیں، گو کہ اُن میں ایٹمی ہتھیار نصب نہیں، مگر اس کے باوجود ان آب دوزوں نے اُنھیں غیر معمولی بحری قوّت دی ہے۔اگر روایتی اور ایٹمی آب دوزوں کی صلاحیت کا موازنہ کیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ایٹمی آب دوز بہت زیادہ فوجی طاقت اور صلاحیت کی حامل ہوتی ہے، اس کی کھوج لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، یہ آسانی سے حرکت کرسکتی ہے اور خاموشی سے اپنے اہداف پورے کر لیتی ہے۔ یہ عام آب دوز کی نسبت زیادہ عرصے تک سمندر میں رہ سکتی ہے، اِس لیے اس سے زیادہ مؤثر طور پر میزائل داغے جا سکتے ہیں۔
چونکہ’’آکوس معاہدہ ‘‘کو مستقبل میں تائیوان کی پہلی دفاعی لکیر بھی قرار دیا جارہا ہے ۔اس لیے چین نے اس معاہدہ پر سخت ردعمل دیتے ہوئے تائیوان کا فوجی گھیراؤ کرنا شروع کردیا ہے اور رواں ہفتہ 38 چینی فوجی طیاروں نے تائیوان کے دفاعی زون میں کئی گھنٹوں تک پروازیں بھی کی ہیں۔جسے تائیوان نے بیجنگ کی طرف سے اپنے اُوپر ہونے والا اب تک کا ’’سب سے بڑا حملہ‘‘ قرار دیا جارہاہے۔تائیوان کی وزارت دفاع کے مطابق چینی فضائیہ کے طیارے، جن میں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے مہلک بمبار طیارے بھی شامل تھے، دو مرحلوں میں تائیوان کی فضائی دفاعی شناختی زون (ADIZ) میں داخل ہوئے۔واضح رہے کہ چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جبکہ تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست قرار دیتا ہے۔نیز چینی شی زی پنگ کئی بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ ’’چونکہ تائیوان چین کا اٹوٹ انگ ہے ،اس لیے وہ کسی بھی تائیوان کو مکمل طور پر اپنے زیر انتظام لے سکتے ہیں ‘‘۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ ’’آکوس معاہدہ ‘‘ کے بعد بیجنگ کے لیے ضرور ی ہوگیا ہے کہ وہ جلد ازجلد تائیوان پر لشکرکشی کر کے اُس پر قابض ہوجائے ۔ کیونکہ اگر ’’آکوس معاہدہ ‘‘ کی بدولت امریکا ایشیا انڈو پیسیفک میں چین کا گھیراؤ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو پھر بیجنگ کا تائیوان پر حکومت کرنے کا خواب چکنا چور ہوکر رہ جائے گا۔
دوسری جانب ساؤتھ چائنا سی میں غیر محسوس انداز میں امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کے بحری بیٹرے پہنچنے کی خبریں عالمی ذرائع ابلاغ میں نمایاں ہونے کے بعد چین نے بھی امریکا کے خلاف دفاعی پالیسی کو ترک کرکے جارحانہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے ۔امریکا کے ایک بڑے اتحادی بھارت کی سرحد پر بڑی تیزی کے ساتھ پیش قدمی شروع کردی ہے۔شاید اسی لیے عسکری ماہرین کو خدشہ حالیہ موسم خزاں کا آغاز ہوتے ہی چین، بھارت یا تائیوان میں سے کسی ایک ملک کے خلاف بھرپور عسکری کارروائی ضرور کرے گا۔ کیونکہ چینی قیادت سمجھتی ہے کہ اُن کے صبر ،برداشت ،رواداری اور تنازعات میں نہ اُلجھنے کی دفاعی پالیسی کو امریکا اور اس کی اتحادی دنیا بھر میں ’’کمزور چین ‘‘ کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ اَب چین کمزور یا طاقت ور اسے دنیا پر ثابت کرنے کا سرِ دست سب سے سہل طریقہ یہ ہی ہے کہ یا تو تائیوان کو بذور طاقت چین میں شامل ہونے پر مجبور کردیا جائے یا پھر بھارتی قیادت کے پاؤں تلے سے تبت کی سرزمین کھینچ لی جائے گا۔ دوسری چین کی متوقع اتحادی بھی اَب چین کی عسکری طاقت کا کوئی عملی مظاہر ہ ضرور دیکھنا چاہیں گے۔ تاکہ انہیں اندازہ ہو سکے کہ وہ امریکا کے خلاف جنگ میں جس چین کا ساتھ دینا چاہتے ہیں ۔ اُس کا ’’عسکری اسٹیمنا ‘‘کتنا ہے؟۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر